ڈاکٹر روشن کے علاج سے پہلے امی جی نے مجھے سول ہسپتال میں دکھایا….
ڈاکٹر نے فورا ہسپتال میں داخل کرلیا شائید میں سیریس تھی امی نے ساتھ آئے چھوٹے بھائیوں کو دوڑایا کہ گھر جاکر باجی کو بتاؤ کہ عذرا ہسپتال میں داخل ہوگئی ہے کھانا اور دوسری اشیاء وغیرہ وغیرہ لے کر آجاؤ بڑے ماموں کو بھی بتا دو کہ ابوجی ان دنوں سعودیہ میں تھے…. گھر پہ خبر پہنچتے ہی وہ اسلم اکرم ہر ملنے والے کو بھی بتانا اپنا فرض عین سمجھتے رہے پورے محلے میں منادی ہوگئی کہ عذرا ہسپتال میں داخل ہے…. باجی نے رونا پیٹنا شروع کردیا اور ساتھ کھانا بنانا اور باسکٹ تیار کرنا…. ادھر ہاسپٹل کا حال سنیں مریض کے بستر کی چادریں ہی درست ہورہی تھیں کہ جوق در جوق شٹل کاک آنٹیاں مزاج پرسی کو پہنچ گئیں….. امی سے چپکے سے اجازت لی
” میں باہر دیکھ آؤں تھوڑا سا ” رقت اور بےچارگی سے امی جی نے ہاں میں سر ہلا دیا…. پھر مارکو پولو کی روح کو چین کہاں پورا سول ہسپتال گھومنے کا تہیہ کرلیا…. میں کونسا خدانخواستہ ایسی بیمار تھی ہنستی کھیلتی اچھلتی کودتی بچی کو ڈاکٹر نے داخل کرلیا ہسپتال کے آخری سنسان کونے میں پہنچ کر خوف سا محسوس ہوا صرف اس وجہ سے کہ واپسی کا راستہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اچانک پیچھے سے کسی نے مجھے گلے لگا لیا
“میری بہن…. میری بہن… ” باجی کی آنکھوں میں مجھے ٹھیک ٹھاک پاکر خوشی کے آنسو جھلک رہے تھے
ہم وارڈ میں واپس آگئے ابھی تک ہم پورے وارڈ کے بال شرکت غیرے مالک تھے
بڑے ماموں( اللہ بخشے) بھی آگئے امی کو ہلکی پھلکی سرزنش کی ڈاکٹر کو دو تین سنائیں کہ ہنستی کھیلتی بچی کو خوامخواہ ہسپتال داخل کرلیا چلو ڈاکٹر روشن کو دکھاتے ہیں ڈاکٹر روشن ان دنوں ہائیلی کوالیفائیڈ فارن ریٹرن ڈگریوں کی ایک لمبی لائین لئے لاڑکانہ کا قابل ترین ڈاکٹر مانا جا رہا تھاجس کے دوست اور فیملی ڈاکٹر ہونے کا شرف ذوالفقار علی بھٹو کو بھی حاصل تھا خیر پھر ڈاکٹر روشن نے بھی وہی ڈائیگونوس کیا جو سول ہسپتال کے ڈاکٹر نے کیا تھا اور ٹی بی کا علاج شروع کردیا….. ان دنوں میں اتنی لاڈلی بنی ہوئی تھی کہ روزانہ میرے لئے بکرے کا گوشت بھونا جاتا… گیارہ بجے کچی پکی کلیجی کا رس ٹماٹر اور اٹرم پٹرم ڈال کے ناک بند کرکے باجی زہر مار کرواتی ترلے منتیں کرکے….. انڈے پھل دودھ اور دوسری اٹرم پٹرم سارا دن کھلا کھلا کے دوسرے بچوں کو ترسایا جاتا…. کہ ابوجی نےعلاج معالجے اور پہلوانی خوراک کے لئے الگ سے پیسے بھجوانا شروع کر دئیے تھے…. ڈاکٹر روشن کے کلینک سے واپسی پر میری ضد ہوتی کہ ٹانگے پر گھر چلیں امی یہاں آکر نہ جانے کیوں بچت پہ تل جاتیں کبھی کبھار کے علاوہ ہمیشہ ہی مجھے گود میں اٹھا کر گھر تک لاتیں
ڈاکٹر روشن سے ٹی بی کا علاج چل رہا تھا روز ہی کمپاؤنڈر رزاق سرنج بھر کر میرے پیچھے بھاگتا دوڑتا….. میں کلینک سے بھاگ کر ادھر ادھر چھپ جاتی وہ بھی مجھے کونے کھدروں سے ڈھونڈ نکالتا…. میں امی کی گود میں دبک جاتی امی اور وہ دونوں پچکار کر بہلا پھسلا کر نہ جانے کس طرح انجکشن جڑ ہی دیتے آخر میں بازو اتنے پکے ہوگئے تھے کہ درد ہی نہ ہوتا….. کبھی کبھی رزاق چھٹی پر ہوتا کسی دوسرے کمپاؤنڈر کے ہاتھ میں انجکشن اور اپنا نام سنتے ہی میں کھڑاک ڈال دیتی
“رزاق کو بلاؤ…. رزاق کو بلاؤ… میں کسی سے نہیں لگواؤں گی “
کرسیوں کے نیچے چھپنا بھاگنا دوڑنا اضافی ہوتا….. میں پورے کلینک کے اسٹاف کا لاڈلا بچہ بن چکی تھی چھ آٹھ ماہ کے علاچ میں….. آخر علاج کارگر ہوا صحت بحال ہوگئی دوائیں اور خوراک گوشت اور خون میں وافر اضافہ لے آیا
ڈاکٹر روشن نے میرا نام ‘چوہے کھانی’ رکھ دیا
“چوہے کھاتی ہو کیا دن بدن موٹی ہوتی جارہی ہو”
ڈاکٹر نے مجھے دیکھتے ہی پیار سے جملہ چھوڑنا
تیسری یا چوتھی کلاس میں تھی آٹھ نو سال کی اس وقت….. کمپاؤنڈرز کا ورکنگ ایریا بھی میرے لئے ممنوع نہ تھا میں وہاں گھس کر انہیں ٹیبلٹس کھرل کرتے مکسچر بناتے، سرنج بوائل کرتے اور انجکشن بناتے دیکھا کرتی اور مختلف سوال جواب کرتی….. مجھے یقین تھا مجھے آدھی ڈاکٹری آ گئی ہے سٹرلائیزنگ محلول سے تھرما میٹر نکال کر بخار چیک کرنا، زبان پہ اسپیچولا رکھ کر گلا چیک کرنا، نس میں انجکشن لگانا سب میرے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا اگر موقع ملتا تو….
میں رزاق کو اسسٹ کر سکتی تھی
ایک بار عالم نوجوانی میں انتہائی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ
” رانگ نمبر”
کھیل کے دیکھا جائے کہ آخر لوگ کیا لطف اٹھاتے ہیں
فی البدیہہ ایک نمبر ڈائل کردیا آواز مردانہ تھی اپنے سوچتے ہوئے گم سم انداز سے فورا پہچانی گئی کہ یہ تو میرے بچپن کا ڈاکٹر انکل ہے جس نے پورے چھ ماہ ٹی بی کا علاج کرتے ہوئے اپنے کمپاؤنڈروں سے میرے ننھے ننھے بازو چھلنی کروائے تھے….. نمبر ملا کر تراہ نکل گیا مگر کچھ کہنا ضروری تھا
” ثمینہ ہے؟ ” واضح رہے کہ رانگ نمبر پہ ثمینہ کا پوچھنا میری ایجاد ہے کہ میری ایک عزیز دوست کا نام ثمینہ تھا…. گم سم ڈاکٹر روشن صاحب ( مرحوم) اللہ انکی مغفرت فرمائے آمین ، باقاعدہ سوچتے ہوئے نظر آئے فون پر…. میرا خوف دلچسپی میں بدل گیا جب انہوں نے مجھے ایک نمبر نوٹ کروادیا… اس نمبر پر رانگ کال کی ایک چھوٹے بچے نے اٹھایا
“ثمینہ ہے؟ “
“ثمینہ باجی….. ثمینہ باجی…. جلدی آؤ تمہارا فون ہے”
بچے نے چیخ پکار کا وخت ڈال دیا اور ثمینہ باجی کے آنے سے پہلے میں نے فون بند کردیا
واہ بھئی نہلے پہ دہلا…. یہ پرانا ڈاکٹر تو بڑا استاد ہے رانگ نمبرز کا،
تو یہ تھا پہلا اور آخری رانگ نمبر
جس کے بعد دوبارہ ٹرائی کی جرآت نہ کی
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے