ب عوام ایک دوسرے کو تحائف دیتی ہے اور اپنی مرضی سے استعمال کرتی ہے اور پسند نہ آنے کی صورت میں آگے ٹرانسفر بھی کر سکتی ہے تو ہم پر ہی قانون کیوں لاگو ہوتا ہے کہ ہم خود کو ہی ملے ہوئے قیمتی تحائف خریدیں ( چاہے اونے پونے ہی سہی) پھر استعمال کرسکیں مزید جب خرید ہی لیا تو اس کی تجارت کرنا کیوں منع ہے … یہ تو کھلا تضاد ہے اور بہت بڑی زیادتی ہے
شکر ہے ہمارے سارے تحائف توشہ خانے میں جمع کروانے کا حکم نہیں ہے
میری تو دوستوں کے دئیے ہوئے سارے سوٹ میرے گلے پڑجانے تھے… ہاہاہا توشہ خانے سے تحائف لے جانے پر پابندی لگنی چاہئے کجا کہ تحائف چرانے اور اونے پونے خریدنے ہوں
اوپن آکشن ہو پبلک میں سے جو بھی بڑی بولی لگائے وہ خرید لے اور پیسے قومی خزانے میں جمع ہوں
میرا خیال ہے صدر وزیر اعظم فرسٹ لیڈی وزرائے اعلی اور دیگر افراد کو ملنے والے بہت سے قیمتی تحائف صاحب ذوق سرمایہ داران خصوصی طور پر چین سعودیہ قطر دبئی امریکہ کے سرکاری تحائف منہ مانگی قیمت پر حاصل کرنا چاہیں گے
ہر سال جو بھی تحائف ملیں 23 مارچ کو اوپن آکشن کریں ملک بھر کے اخبارات میں برائے فروخت ان اشیاء /تحائف کی تصاویر اور کس کی جانب سے کب کس کو کس موقع پر ملا ، اصل مالیت اور سرکاری سرٹیفیکٹ کے ساتھ
جہاں تک اونچی جائے بولی لے جائیں جس کی قسمت اور دلچسپی ہوگی قیمت ادا کرکے لے جائے گا چاہے وہ تحفہ پانے والا ہو یا کوئی اور سرمایہ دار پارٹی ۔۔۔ مناسب قیمت نہ لگ سکے تو چالبازی سے اونے پونے کرنے کی بجائے کسی میوزیم میں رکھوادیں ایک توشہ خانہ کارنر بنوالیں ہر ایک میوزیم میں ۔۔۔عام لوگ دیکھیں گے ان ملکوں کی جانب سے اپنے تحائف پہ خوش ہوں گے اور محفوظ بھی رہیں گے دوست ملکوں کی یادگار کے ساتھ
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے