موہنجو دڑو کے پہلو میں بسا لاڑکانہ صرف بیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے یہ اس لئے بھی شہروں میں ممتاز ہے کہ اس کے امرود طوطوں کو بھی بہت مرغوب ہیں بہت میٹھے خوشبو دار اور ذائقہ دار ۔۔۔۔ آس پاس بہت سے تالاب ہیں جہاں ستمبراکتوبر نومبر کنول کے پھول کھلنے کاموسم ہوتا ہے چاروں طرف سفید گلابی اور کاسنی مائل گلابی کنول کے پھولوں کی بہار ہوتی ہے اور یہ صرف لاڑکانہ نہیں سکھر سے دادو تک
جابجا آپ کو چھوٹے چھوٹے تالاب اور کنول کے پھولوں کا نظارہ ملے گا ڈوڈی بیھ کنبھ لوڑھ بھی انہی تالابوں کی پیداوار ہے اور ان سب کا ذائقہ بھی ایسا ہے جو ایک بار کھالے اس کے منہ سے اترتا نہیں زندگی بھر ۔۔۔اس سارے ہی حصے میں چاول کے آٹے کی روٹی مچھی پلی ساگ بیھ بہت اہتمام سے پکایااور شوق سے کھایا جاتا ہے سگداسی چاول اگرچہ باسمتی سے سائز میں چھوٹا مگر ذائقے میں بہت میٹھا اور خوشبودار بھی یہیں پیدا ہوتا ہے اگرچہ اس کی پیداوار اب بہت کم ہوگئی ہے
میں بھی اس شہر میں پیدا ہوئی اور اسی کی گلیوں میں کھیلتے کودتے ابتدائی تعلیم بلکہ گریجویشن تک یہیں سے تعلیم حاصل کی زندگی کے پچیس سال یہیں گزرے۔۔۔۔
یہی میری جنم بھومی ہے اور میرے پچھلے جنم کے خوابوں کا شہر اس کے رستے مجھے ازبر ہیں ۔۔۔ میں پاکستان کے کسی بھی دوسرے شہر کے رستوں سے اتنی واقف نہیں جتنا لاڑکانہ کے رستے جانتی ہوں۔۔۔۔ اور میرا خیال ہے وہی شہر آپ کا اپنا ہوتا ہے جس کے رستے آپ سب سے زیادہ جانتے ہوں مجھے لاڑکانہ سے الگ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ میری گھٹی میں پڑا ہوا ہے اور میری آنول نال یہیں کہیں دبی ہوئی ہے۔۔۔۔ اگرچہ اب میں مستقل لاہور کی ہوگئی ہوں مگر میرا ناسٹیلجیا میرا بچپن ابھی بھی لاڑکانہ کی گلیوں میں کھیلتا کودتا ہے اور میرے خوابوں کی اک بساط بچھی رہتی ہے جس کے مہرے آج بھی لاڑکانہ ریلوے اسٹیشن اور دڑی محلے کے بیچوں بیچ گھومتے پھرتے پائے جاتے ہیں جن میں سے بہت سے پرانے بوڑھے بوڑھیاں تو کب کے گزر بھی گئے
لاڑکانہ علمی ادبی ثقافتی اور سیاسی لحاظ سے بھی ایک منفرد اور فعال شہر رہا ہے ہمیشہ سے کہ دو پاکستانی وزراء اعظم بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو اور اب بلاول بھٹو سب اسی شہر کے نمائندہ سیاستدان ہیں پاکستان کی سیاست میں لاڑکانہ اور لاہور دونوں منفرد مقام رکھتے ہیں میرا تعلق ان دونوں شہروں سے ہے اس کے باوجود مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں مگر ہو سکتا ہے میں آگے چل کر سینیٹ کی ممبر بن جاوں ہاہاہا ۔۔۔۔کہ اس کے لئے عام الیکشن نہیں ہوتا !!
بات موہنجو دڑو سے شروع ہوئی تھی تو چلیں پھر ڈوکری چلتے ہیں اور باڈہ میں میری ایک دوست کے گھر مچھی مانی کھاکر دودھ پتی چائے پی کر موہنجو دڑو میوزیم اور کھنڈرات کی سیر کرتے ہوئے اپنی پانچ ہزار سال پرانی بودوباش اور طرز زندگی دریافت کرتے ہیں کہ یہ ہم سب دھرتی باسیوں کا سانجھا ورثہ ہے جو میرے شہر لاڑکانہ کے پہلو سے ملتا ہے
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے