اکتوبر نومبر میں سکھر سے لاڑکانہ ہوتے ہوئے دادو تک
سفر کریں تو جگہ جگہ چھوٹے بڑے تالاب آبی پودوں سے بھرے ہوئے نظر آتے ہیں سکھر سے لاڑکانہ تک مختلف قسم کے چھوٹے بڑے پتے والوں آبی پودوں سے لدے ہوئے جن کی جڑوں میں لوڑھ اور پتوں کے درمیان کنبھ تیر رہے ہوتے ہیں اور انہی پتوں کے درمیان ڈوبی ہوئی ایک دو بھینسیں بھی منہ باہر نکالے کھڑی ہوتی ہیں جو تالاب باتھ انجوائے کرتے ہوئےاور کنبھ ، پتے یا کچھ اور کھا بھی رہی ہوتی ہیں
ہر پانچ دس منٹ کے بعد ایک چھوٹا سا تالاب آجاتا ہے کنول کے پھولوں سے بھرا ہوا اس سے کچھ دن پہلےجہاں ایک طرف چاول کی پنیری کاشت ہوئی تھی اسے نکال کر گھٹنوں گھٹنوں تک پانی میں کھڑے لوگ چاول کی کاشت کرتے نظر آتے ہیں
چاول کی فصل اترنے کے ساتھ ہی کنول کے تالاب بھی مرجھائے پھولوں کنول ڈوڈیوں یا پبن ٹکیوں سے بھر جاتے ہیں نومبر کے آغاز سے ہی یہی تالاب سائیبیریا سے گرم پانی کی تلاش میں سفر کرتے آبی پرندوں سے آباد ہونے لگتے ہیں ان سے یہ منظر خالی ہوتے ہوتے کناروں کے آس پاس دور تک خودرو جھاڑیاں اور سرکنڈے ابھرنے لگتے ہیں
اور کچھ ہی دنوں میں ان کے سروں پر ایک ڈیڑھ فٹ کی عمودی سفید نقرئی سٹوں کی جھاڑ لہرانے لگتی ہے سورج کی روشنی اور ہوا میں ایک ساتھ لہراتے یہ نقرئی جھاڑ نما سرکنڈے بہت خوبصورت اور دلکش سا منظر بن جاتے ہیں
اس روڈ پہ سفر کرنا یا بائی ٹرین سفر کرنا بچپن سے ہی مجھے بے حد پسند رہا ہے اور پھر کنول ڈوڈی تو یوں بھی میں بہت شوق سے کھاتی ہوں
آبی پرندے بھی سردیوں میں وہاں خوب شکار کئے جاتے ہیں پکھی پلاو یا پکھی بوڑ ( مرغابی یا پکھی کا سالن) بھی بیھ (کنول تنا ) کاٹ کر، ڈال کر بے حد لذیذ سالن بنتا ہے بیھ جو آلو کی طرح ہر کمبینیشن میں کھایا جاتا ہے پکوڑے گوشت مچھلی پکھی ہر سبزی بیھ کے ساتھ ملا کر پکائی جاتی ہے آلو اور بیھ کامن سبزی ہے اندرون سندھ کے کھانوں میں ، بیھ کشمیر میں بھی بہت کھائے جاتے ہیں کہ کنول جھیلوں کی وجہ سے بیھ وہاں بھی وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے
بلکہ انڈیا کے اکثر علاقوں میں کنول پایا جاتا ہے
سردی کی سوغات مچھلی تو آتی ہی ہے مگر کچھ دن سمندری مچھلی کی ایک قسم پلا بھی سمندر سے مخالف لہروں کی طرف سفر کرتی دریا میں جامشورو سے نیچے تک اتر آتی ہے ، سرمئ سلور رنگ کا کچھ کچھ پیٹ کی پھیلا چپٹا چھوٹے چھوٹے
کانٹوں سے بھرا ‘ پلا ‘
جو پانی کی مخالف سفر ،اور چھوٹے چھوٹے پیوست کانٹوں کی وجھ سے گوشت کے بہت چھوٹے چھوٹے بے حد لذیذ ریشہ ریشہ ٹکڑوں سے بھری ، کھانے میں ذرا مشکل اور ذائقے میں بے مثال ہوتی ہے
بلکہ میرا تو ماننا ہے مجھے دوسری کوئی مچھلی پوری بھی ملے تو میں پلا کے گوشت کا ایک ریشہ اس پہ ترجیح دوں گی
مخصوص سی مہک جسے پلا کی خوشبو کہا جاتا ہے اس میں موجود ہوتی ہے جیسےمٹن کی اپنی مہک ہوتی ہے جسے عام لوگ شائید ناپسند کریں مگر پلا میں وہ مہک قائم رکھنے کے لئے اس میں لہسن نہیں ڈالا جاتا
، پلا کی آنی یا انڈے اپنا ذائقہ رکھتے ہیں جو مچھلی تلتے ہوئے ہی ایک طرف تل لئے جاتے ہیں الٹ پلٹ کر ، سب شوقینوں کی پلیٹ میں چھوٹی چھوٹی ٹکڑی وہ بھی ڈال دی جاتی ہے
اس طرح پکھی کی بکیاں جو شائید پوٹے ہوتے ہیں وہ پکھی کے گوشت سے بھی لذیذ لگتے ہیں تو یہ تھا اندرون سندھ کے کچھ مناظر اور پسندیدہ کھانوں کا کچھ احوال ہاں ددڑی پھولوں کا تو ذکر رہ ہی گیا ددڑی مٹری کی پھلیاں ہوتی ہیں جنہیں ابال کر اور نمک مرچ دھوڑ کر چھلکے سمیت دانتوں میں دبا کر چوستے ہوئے دانے نکال کر کھایا جاتا ہے ابلے ہوئے نرم چھلکے کی اوپری ملائم منہ میں گھلتی ہوئی پرت اور نرم دانے دونوں ہی ذائقہ دار ہوتے ہیں پھر پھوٹے تو سب کو پتہ ہے چھلکوں سمیت ابالے آگ یاکوئلوں میں بھونے چنے مجھے ہولڑاں یا آگ میں بھنے زیادہ مزیدار لگتے ہیں سبزیوں میں گوار تو ہر صورت مجھے پسند ہے مگر کچے کی ہو نرم اور مٹھاس ہو تو ساری سبزیاں پرے کردو میرے ذاتی خیال میں ۔۔۔ واہ میرے سندھ کے ذائقے یعنی میرے بچپن کے ذائقے جو بھلائے نہیں بھولت
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے