مجھے واقعی غصہ آتا ہے کہ غریب اور بے ڈھنگی ماں کسمپرسی کا اشتہار بننے کے لئے بچوں کا منہ نہیں دھلا سکتی پھٹا کپڑا نہیں سی سکتی یا بال کنگھی نہیں کرسکتی اور پھر جو ان کی تصویریں کھینچ کر غربت کی اشتہار بازی کرتے ہیں بھائی یہ غربت نہیں پھوہڑ ترین مائیں ہیں جنہیں سارا دن غربت کا رونا رونے اور گھروں میں دلدر پھیلائے رکھنے اور فضول سسرالی نند میکے کی نکتہ چینیوں اور گھریلو ڈراموں کے علاوہ کوئی ڈھنگ کا کام نہیں سوجھتا ۔۔۔ بچے بھی پیدا کرکے لور لور پل جاتے ہیں انکی غربت اور کسمپرسی کا ڈرامہ بھی زور شور سے چلتا رہتا ہے
مجھے یاد ہے وہ دور بھی ہمارے بچپن میں تھا کہ انتہائی غربت کے باوجود بھی عزت نفس
جائز اظہار ضرورت میں بھی مانع رہتی تھی لوگ ہاتھ پھیلانے سے ایک وقت کا فاقہ کرلینا یا روکھی سوکھی کھالینا باعث فخر سمجھتے تھے
ایک طرف تقریبا 70 % غر بت کی لکیر پر لوٹنیاں لگا رہے ہیں تو دوسری طرف پورے ملک میں اسقدر خیرات بٹ رہی ہے کہ وہ مفت خور لوٹنیاں لگاتے اب محنت سے جی چرا رہے ہیں
کاہل سست بھکاری اکثریت کا یہ کیسا چہرہ ہےجو ہم مل جل کے بنارہے ہیں
اور کچھ نہیں تو چھوٹی چھوٹی چالیس پچاس گھومتی پھرتی کیبن شاپس بناکر کر ۔۔۔ہر چھوٹے بڑے شہر میں کچھ علاقے مختص کر کے ہر شاپ میں الگ الگ مختلف نوعیت کا سامان ڈال کر بغیر سود قرضے کی ساتھ
‘سرکار مارکیٹ ‘
کے نام سے بنا دیں اور بے روزگار لور لور پھرتے کم پڑھے لکھے بے ہنر نوجوانوں کو کسی روزگار سے لگادیں خیراتی پروگرام میں آٹا کھاکر ایک مہینہ پیٹ بھرنے سے بہتر ہے ان کا ہمیشہ کے لئے چھوٹے موٹے روزگار کا کوئی وسیلہ بن جائے
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے