گم شدہ باغ
ہاں مرے پس منظر میں
موجود ہے اب بھی
مرا گمشدہ باغ
جس کی سیر ہے مرا روز کا معمول ۔۔۔
جس میں خواب بوئے ہیں میں نے
اور آنسووں کی فصل اس احترام میں نہیں کاٹی کہ۔۔۔
تجھ پہ الزام نہ آجائے
پھول چنتی ہوں
کانٹوں سے صرف نظر کرکے
شہد چکھتی ہوں ۔۔۔۔
ہاں وہ کڑواہٹ بھی یاد ہے مجھ کو۔۔۔
جو خواب ٹوٹنے سے مری رگ رگ میں گھلی تھی
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گ