ہمارے ہاں بھی اگر انڈیا چائنا بنگلہ دیش و دیگر ممالک کی طرح خواتین کو چھوٹے موٹے کاروبار شروع کروادئیے جائیں تو وہ زیادہ محنت اور دلجمعی اور سچائی سے کام کریں گی کہ خواتین اگر کام کریں تو تھک کر بھی کاہلی نہیں دکھاتیں
بس ٹیبوز توڑ کر ابتدا کی دیر ہے جوق در جوق خواتین کام کرنا چاہیں گی
گھر کے کاموں کی مثال ہی لے لیں یہ جو گھر گھر کام کرتی ہیں انہی کی اکثریت سے ابتدا کرکے انہیں احترام کے ساتھ سبزی آٹے دال کریانے کی کیبن نما شاپس کھول دیں ۔۔۔ سلسلہ چل نکلا تو میں خود ایک ریسٹورنٹ کھولنا چاہوں گی انہی خواتین کے بیچ دال روٹی کی دکان اور چائے کا انتظام کر لوں گی کمائیں گی تو کچھ کھائیں گی بھی نا ۔۔۔ بس ایک گپ شپ کارنر بھی رکھنا ہوگا ۔۔۔ اور ٹیبوز کو توڑ کر سب کو تھوڑی سی ابتدائی مدد کرکے سستی اور کاہلی کو خیر آباد کہہ کے کام سے لگانا ہوگا ۔۔۔۔
ماسی منظوراں ( اللہ بخشے) جب بوڑھی اور بیمار رہنے لگی تو اسے کئی بار میں نے مشورہ دیا ماسی اب گھر گھر کام چھوڑدو تم سے نہیں ہوتا ۔۔۔ اپنے گھر کے سامنے ہی تھوڑی سی سبزی لگا کر بیچ لیا کرو دکان شروع میں کروادیتی ہوں آگے روزی کمانا تمہارا ذمہ ۔۔۔
مگر وہ اس طرح کام کرنے سے حجاب محسوس کر رہی تھی کہ میرے بیٹے نہیں مانیں گے کہ میں سبزی کی دکان لگاؤں۔۔۔۔ گھر گھر کام کرنے بڑھاپے میں ہڈیاں توڑنے کی اجازت ہے مگر ۔۔۔۔
ان ٹیبوز سے بھی ہمارے معاشرے اور خواتین کو جان چھڑانی ہوگی خاص طور ابتدا میں پکی عمر کی یا غریب بھیک مانگتی بوڑھی خواتین آرام سے یہ روزگار کر سکتی ہیں
پچاس سال پیچھے چلے جائیں تو ہمارے معاشرے میں ٹیچنگ اور ڈاکٹرز کے علاوہ خواتین کے لئے کچھ بھی بہتر نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ اس سے پیچھے تو خواتین کی صوم و صلوات کی تعلیم کے علاوہ اسکولی تعلیم ہی عموماغیر ضروری سمجھی جاتی تھی ۔۔۔ پھر معاشرے نے کچھ رخ بدلا تو شکر الحمد خواتین اب تعلیم کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے روز گار کے ہر شعبے میں اپنا آپ منوارہی ہیں نچلے اور متوسط طبقے کی خواتین میں بھی اگر چھوٹے موٹے کاروباری سلسلے یا ہلکی پھلکی تجارت اور دکانداری کو انکریج کیا جائے تو یقینا اچھے گھریلو معاشی نتائج نکلیں گے ۔۔۔۔ دوسرے جب عورت باہر نکلتی ہے کچھ کرتی ہے تو ہر قسم کے ماحول اور تھریٹ کو منہ دینا بھی سیکھ جاتی ہے ایسے گھروں کے عام طور پر نکھٹو اور خاص طور پر غیرتی مرد بے فکر رہیں عورت اپنی عزت اور کردار کی خود محافظ ہے سارے بھائیوں باپوں بیٹوں اور دیگر مردو ں کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے ورنہ بصورت دیگر نہ ہو تو گھر بیٹھے بھی جو ہونا ہو ہوسکتا ہے
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں