نمودار ہوگئیں وقت کی لکیریں
لب و رخسار پر
جھیل سی آنکھیں
دھنس گئیں ہائے
حلقے ہیں سیاہ چاروں طرف
نا ک کی ستواں دمک کہاں ہے اب
گال جیسے دب گئے
چاند شرماتا تھا جس پیشانی کو دیکھ کر
وہ پیشانی بجھ گئی
ٹھوڑی پہ چمکتے تارے کی جگہ بے چارگی سی رہ گئی
کلیاں یوں مرجھاگئیں
ہونٹ یوں سمٹے ہوئے
جیسے مسکراتے نہ ہوں
صراحی دار گردن کا تناؤ بھی
یوں سکڑ سمٹ گیا
دو کاندھوں کے درمیاں سارا جثہ دھنس گیا
پھر آگے تو بے ترتیبی کا کچھ ایسا سلسلہ چل گیا
بے بضاعتی بے تناسبی بے نسبتی
کہیں کسی ہڈی کا جوڑ سوجا ہوا
کہیں کسی پٹھے کانقص دکھتا ہوا
کمر جو ڈھونڈنے سے ملتی نہ تھی
چالیس فٹ کا کمرہ بن گئی
چلنا پھرنا بھی اک کار محال
کھڑے ہونا بھی جان ناتواں پہ بار
کھانا پینا بھی بس پیٹ بھر
دلچسپیاں کوئی نہیں
بیماریاں نت نئی
ہمت ہے ٹوٹی ہوئی
حوصلہ ہے اک مذاق
زندگی ہے اک کار دشوار
دل جو پہلے بھی کبھی بہلا نہ تھا
ہر شے سے اکھڑا اکھڑا سا رہنے لگا
اک مرحلہ ہے پیش نظر
اک سوچ ہے شام و سحر
اک سورج ہے جو ڈھلتا نہیں
ڈھل جائے تو پھر
رات بھر , کروٹیں جتنا بھی تھکیں
ذرا پہلے نکلتا نہیں
سوچ سوچ کر بھی کہاں تک سوچئیے
جاگ جاگ کر بھی کہاں تک جاگئیے
ہائے ہم پرانے ہوگئے
ہائے رے جوانی ڈھل گئی
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں