نیا کیسے لکھوں جب مری داستاں پرانی ہے
نیا کیسے لکھوں جب مری داستاں پرانی ہے
شعور میں کچھ بھول بھول کے آتا ہے
اور پھر بھول بھول جاتا ہے
جب میں آسمان کی سیڑھیاں اتر رہی تھی
ستاروں کو اچھالتی
چاند کو زمیں کے مکھڑے پہ ٹانکتی
میرا پیرہن بن کے مجھ سے لپٹتی جارہی تھی چاندنی
سورج مرے پیچھے کھڑا مسکرا رہا تھا
مغرب مشرق شمال جنوب کو انکی سمت پہ ٹھہرا کے
میں سمندر پہ چلنے لگی تھی لہر لہر……
پھر ایک لہر میرے ہاتھ میں کچھ تھما گئ تھی
آج میں پہچانتی ہوں
وہ ہاتھ جو مرے اپنے ہاتھ کے عکس کا
آئینہ بن کے مرے ہاتھ میں آگیا تھا
زندگی ! ہم نے اک دوسرے کو اک ساتھ ہی کہا تھا
بے چہرہ بے جسم وجود انگڑائی لے کر
نت نئے روپ میں ڈھل رہے تھے
نیلگوں سمندر سے نکل کر
زمیں کے سبز فرش پہ بچھ گئے تھے چہرے
تو نے گل کہا تھا….
میں پھول بن گئ تھی
ترے شانے بھی پروں سے سج گئے تھے
اور ہم آدم کے کان میں پھونکااذن بن کے
سیارہء زمیں کے ہو گئے تھے
یہی ہے یا کچھ اور بھی تھا
جو میں بھولتی ہوں
میرے ڈی این اے پہ نشاں ہیں
میری یادداشتوں کے
ذرا دیکھ کر بتاؤ
میں کہاں کا جوہر
کس مٹی میں گندھی ہوئی ہوں
اس روشنی کا کھوج تو نکالو
جو مرے اندر سے نور ایسا پھوٹتی ہے
پتہ کرو کہ
یہ الاؤ جو تیرے اندر بھی
آگ ایسا دہک رہا ہے
یہ کن ستاروں کی روحوں کی بازگشت ہے
! جو اس سیارے پہ گونجتی ہے
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں