کالج ٹائیم

College Girl in uniform

FSc.
میں داخلہ لیا تو وومین گارڈ کی ٹریننگ مینڈیٹری تھی وائیٹ یونیفارم کی بجائے خاکی وردیاں پہن کر کالج جانا شروع ہوا کالج ٹائیم نو بجے تھا پورے آٹھ بجے پہنچ کر تمام لڑکیاں تین تین کی رو میں دستے بناکر کھڑی ہوجاتیں ہر دستے کے آگے ایک کمانڈر لڑکی جسکی پریڈ ذرا بہتر اور آواز اونچی ہوتی منتخب ہوچکی تھیں میری نہ پریڈ اچھی تھی نہ آواز اونچی اپنے دستے کی درمیانی لائین کے درمیان میں نیم چھپی کھڑی ہوجاتی کہ بھول چوک ہو جائے تو انسٹرکٹر لال بادشاہ کی نظر میں نہ آئے سر لال بادشاہ سرخ و سفید پٹھان پٹھانکی طبیعت کا ہی سچا اور مخلص انسٹرکٹر نہ جانے کیسے دو ہفتوں میں ہی زیادہ تر لڑکیوں کے نام پکار کر غلطی کی نشاندہی کرنے میں طاق ہوچکا تھا
“عذرا… ہوشیار باش “
بالکل بیچ میں چھپی چھپائی ہر “آسان باش ” لڑکی فورا سر کی نظر میں آجاتی اور پھیلے ہوئے پاؤں اور پیچھے باندھے ہاتھ ، باری باری دونوں پاؤں پٹخا کر ہوشیار باش ہو جاتی
پیچھے مڑ
دائیں مڑ
بائیں مڑ
پریڈ!….. ہوشیار باش
پریڈ!…. آسان باش
پریڈ!….. جلدی چل
پریڈ! …… رک
مارچ پاسٹ شروع ہوجاتا
دو سال تک روزانہ ایک گھنٹے کا مارچ پاسٹ معمول تھا
گھنٹی کی ٹن ٹن….. کے ساتھ جان چھوٹتی اور پہلا پیریڈ شروع ہوجاتا
سر لال بادشاہ واقعی بہت اچھا انسٹرکٹر تھی کسی کو چوں چاں کی مجال نہ ہوتی تھی
آٹھ بجے پریڈ گراؤنڈ میں سب لازمی، لال بادشاہ سب سے پہلے گراؤنڈ کے بیچ پائے جاتے…. میں ہمیشہ حسب عادت صفوں کی درستگی کے درمیان میں پہنچتی نہ جلدی جانے کا شوق تھا نہ دیر سے ڈانٹ کھانے کا شوق تھا
سال میں دو دو مرتبہ یونیفارم ملے جس میں بیجز، کیپ، خاکی شلوار قمیض، دوپٹے کی پٹی، گہرا کاہی سویٹر، شوز جرابیں، ایک چمڑے کا بیگ لازمی ہوتا، اسکے علاوہ بیس روپیا ماہانہ پگھار جو ہر چھ ماہ بعد اکٹھی ملتی، لڑکیاں پکی فوجی بنتی جارہی تھیں پریڈ میں قدم اور ردھم بھی ایک ہوتا جارہا تھا ہاتھ بھی کم و بیش اکا دکا کو چھوڑ کر ایک ساتھ آگے جانے اور پیچھے آنے لگے سر لال بادشاہ کی مارچ پاسٹ میں دستوں کے ساتھ گراؤنڈ میں ادھر سے ادھر پھرتیلی دوڑیں بھی کچھ سستیلی ہو گئی تھی ہمیں بھی لگنے لگا تھا ہم مستقبل کے فوجی دستے تیار ہوگئے ہیں جنہیں کبھی بھی جنگ کے دوران سرحدوں پہ بلا لیا جائے گا
(مارچ پاسٹ کے لئے) اب فائرنگ رائفلیں اور مشین گنیں رہ گئی تھیں چلانے والی…. چاند ماری کے لئے شہر سے باہر ایک پکنک نما ایونٹ ترتیب پاچکا تھا سامنے پہاڑی پر فائرنگ کے ٹارگٹ لگ چکے تھے آس پاس گاؤں میں ایک شام پہلے اعلان ہوچکا تھا کل اس پہاڑ کے آگے پیچھے آس پاس سے کوئی نہ گزرے مناسب رکاوٹوں سے پہاڑی سیل ہی تھی…. ہم نئے فوجی چمکدار آنکھوں سے ٹارگٹس پہ نظریں جمائے آتے جاتے جوشیلی چہل قدمی انجوائے کر رہے تھے….. کہ فائیرنگ کے لئے لائینیں بنوالی گئیں رائفل کھولنے بند کرنے چارج کرنے کندھوں پہ ہنسلی کی ہڈی کے ساتھ رکھنے ٹریگر پر انگلی رکھنے سب کی ٹریننگ کالج گراؤنڈ میں ہوچکی تھی اب صرف ٹریگر دبانا تھا اور وہ جھٹکا سہنا تھا جو ٹریگر دباتے ہی کندھے کو پیچھے کی طرف لگتا ہے
جو بھی لڑکی رائفل سے فائیر کرکے پلٹی آنکھ میں آنسو لئے پلٹی کہ کسی کے کندھے میں بل پڑ گیا کوئی کندھا چھل گیا کوئی سوج گیا سب کا جوش رفع دفع ہوچکا تھا سوائے چند ایک کے جو واقعی دل سے فوجی تھیں
پھر مشین گن، اف کارتوسوں کی پوری چین ایک ٹریگر دباتے ہی دھڑ دھڑ دھڑ چلنا شروع ہوگئ ٹارگٹ آگے ہے نشانچی کا گھبرایا ہوا منہ پیچھے ، منہ کی غلط پوزیشن کی وجہ سے اک دکا گرم کارتوسی خول بھی آکے منہ پر لگے ہیں جس سے ڈر اور بڑھ گیا ہدف کا کسے ہوش ہے خود نیم بے ہوش ہونے کو تیار ہے……. اس طرح یہ چاند ماری جسکا نام چاند چاند کے ساتھ لف شدہ کل سے سن کر جھوم رہے تھے صرف اور صرف ایک خواری بن گئ….. دو بار یہ یہ چاند ماری کی اذیت سے گزرنا پڑا شوق سے مشیں گنوں کے ساتھ اوندھے لیٹ لیٹ کر ایک آنکھ بند شست لگاتے ہوئے تصویریں سب فوجی نوجوانیوں نے بنوائیں ثبوت کے طور پر اور بہادری سے گھر والوں اور وہاں پر نا موجود ہر شخصیت کو فخریہ دکھائیں اور داد سمیٹی، میری بھی ایک مشین گنی تصویر اکثر پرانے البمز دیکھتے ہوئے ادھر ادھر ہاتھ میں آجاتی تھی، فخریہ احساس سے اسے دیکھ کر سنبھال دیتی تھی اب بڑا عرصہ ہوا جانے کہاں گئ ورنہ ثبوت ضرور پیش کرتی کہ مجھے مشین گن چلانی آتی ہے….. ہاہاہا

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
A man walking on sea
Read More

گپ شپ

عذرا مغل ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں…
Read More