کم نظر احتیاج نظارہ جو کچھ بھی ہے موقوف
اس پر تیری بینائی کو مجال حصار کہاں
کہ ایک عالم ذرات سے ہے بیشتر دنیاوں کو ثبات
ہر ایک بات کے معنی الگ ہے الگ اپنی زباں
ہوا ہے کون بسر ہیئت اوصاف بنا
وہ جہاں کچھ بھی نہیں نظر آتی ہے فنا
کہ ہر ایک ممکن ہے محاصل سر امکاں
جس بساط میں اتری ہے دنیائے جہاں
وہ بھید جو الہام صورت کھل رہے تجھ پر
شائید اپنی پہچان ڈھونڈ رہے ہیں تجھ میں
کسی مستقبل فردا پہ صور سحر دم آخر
زماں گردش سے خالی مکاں ڈھونڈ رہے تجھ میں
کل تک دشوار تھا عالم آج خود ہے تو
ایک شعور جو رکھے ہے ازل سے ہی نمو
کم عقلی میں طفل نے سہا صدمہ ء گناہ
اور آج رسیدہ ہے ترا شعبہ ء ملال و زبوں
اسلم مراد