وابستگانِ زیست چاہنے سے سب نہیں ملتا
کہ دستورِ حالات کی قفس ہیں ہم ۔
یہاں کے چلن بھی اپنے، طور بھی اپنے ۔
یہاں شبِ وصال کو، ہجر بھی کہنا پڑے کبھی۔
تو مانند خزاں، بہار بھی لگے کبھی۔
اور تو کہ منسلک خرابِ ماضی سے
طلوعِ حال پہ رنجیدہ۔ حیران اور پریشان کیوں؟
تو کہ امین ہے اپنی مقدس سوچوں کا۔
تو کہ پابستہ زنجیرِ عہدِ وفا۔
تو کہ پیوستہ دردمنداں
تو کہ سیاہ بختوں کے لیے مشعلِ راہ۔
لیکن تیری اِس برسوں کی ریاضت کو
ایک اور عمر درکار ہے۔
کہ جب وقت درد کا درمان بن کر
ہر زخم کا مرہم ہو جائے گا۔
بس شمعِ درد کی لو بڑھائے رکھ۔
ہار بیٹھا تو سب کچھ کھو جائے گا۔
اسلم مراد
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی