تو نے اے میرےخدا
یہ جو الفاظ کی قبا اوڑھی ہے
میرے مضمون جاں کا
خلاصہ تو نہیں ہرگز
تو کہ ایک حد تجاوز پذیر
اپنی صفات کے بحر میں
بے کنارگئ عالم ۔۔۔ بے کنارگئ عالم
اور میرا حصار زیست اتنا
کہ زندگی چھو کے بس گزری ہے
ایک لہر سطح آب
ایک لمس موج ہوا
اس پلک جھپکنے کی مہلت میں
شناسائی بھلا کیسے ممکن ہو
کہ در اسرار کی ہر مختصر ساعت
اذن ادراک کی حرف خوری پر
مدعو رکھتی ہے کئی دنیائیں نئی
تیرے حرف بیاں کے اگلے پڑاو
ہزار منزلیں تہہ در تہہ رکھتے ہیں
جبکہ میرا اندیشہ ء نظر
دور تو کیا بہت قریب کے بھی
حقائق میں ترکیب کر نہیں پاتا
اسلم مراد
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی