انسان ایک آفاقی دکھ میں مبتلا ہے
شائید یہ کشٹ اس کے خوں میں لکھا ہے
زہر بن کے جو نسوں میں پلتا ہے
ہاں کہیں شہد سے بھی میٹھا ہے
کہیں سرخ ہوکے بھی سپید سا ہے
کہیں سرخ اپنا
دوسرے کا جامنی سمجھا ہے
ظلم کرنے والا بھی ناخوش تھا
ظلم سہنے والا بھی ناخوش ہے
توجیہات تاویلات سب کی اپنی ہیں
دکھ سب کے اپنے ہیں
سہنے کو ایک دنیا ہے
بھگتنے کو چند چہرے ہیں
کرنے کو ایک خلقت ہے
مسیحائی بھی
جراحت بھی
جگ ہنسائی بھی
تعزیت بھی محبت بھی نفرت بھی
کتنے کردار ہیں
کتنی صد چہرہ یہ دنیا ہے
میں تو حیراں ہوں
اس سے اچھا تو جانور کا چہرہ ہے
کہ سب کا ایک سا تو دکھتا ہے
یہ انساں تو بڑا بہروپیا ہے
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی