محبت کی نظم ختم ہوتی نہیں
ترے دائمی حسن کی مانند
اپنا آپ دہرائے چلی جاتی ہے
آب شیریں کا پیالہ اگر ہاتھ میں ہے
اک لمحہ کو نہیں ہوتا ایسا
کہ گھونٹ بھر کے اسے بھی چکھ کر دیکھے
تشنگی بھی، ہونٹوں سے چپکی
خاموشی کو چپ ہونے نہیں دیتی
کہے جاتی ہے
بے خودی کا اک افسانہ
اک راز دروں بہ چشم وا
کوئی سنے یا نہ سنے
اسے تو بس اظہار سے مطلب ہے
کہ محبت سدا سے پاگلوں کا نغمہ ہے
خود کو گائے ہی چلی جاتی ہے
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی