ترا نام ہی لیں کچھ تو کہیں
کب تلک خاموش بیٹھ رہیں
کچھ کہنے کا من ہے
اور یہ خالی پن ہے
ذات کو چاہنے والے بہت دیکھے
تم بھی انہی میں سے ایک نکلے
تیرے سوا نئیں سر دی بیلیا
ٹکٹ کٹا، شامی گھر واپس آ
ادھوری خواهشوں نے مجھ پر اتنا اثر تو ڈالا هے
که ان کے بغیر خوش اور هر حال میں خوش هوں
آج خواهشوں په بات هوئی تو
جانے کیا کیا ادھوری یاد آئیں
وقت وقت کی بات هے خواهش جو بھی هو
جیسے اس وقت اک ٹھنڈے پانی کو هی لو
میں نے سوچا خواهشیں مر گئی هونگیں
دل نے کها ، نهیں ! زندگی ابھی باقی هے
خواهشیں هیں کم بخت که مرتی نهیں
ایک سلاؤ دو اور جاگ اٹھتی هیں
خواهشات کا اک لامتناهی سمندر ٹھاٹھیں مار رها تھا
اک خواب کو سوچا اک دیکھا اک پایا که پھر آنکھ کھل گئی
اس کی نظر کرم میں ہوں سدا سکھی دم میں ہوں
اس سے بڑھ کر اور مجھے کیا چاہئے اس دنیا میں
زمیں بناکے وہ یقیناخوش بہت ہی ہوا ہوگا
اور مجھے دیکھ کر تو خوشی سے جھوم اٹھا ہوگا
تنهائی پسند تو دل ازل سے تھا اب کچھ اور
اختیاری کچھ اور هے لیکن مجبوری کچھ اور
آج کل تو ذرا سی اک مصروفیت اک مشغله هے دن رات
اس سے بھی جی بھر گیا تو کیسے کٹیں گے دن رات
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی