وہ بے نیاز ہے
اس کے لئے بے معنی ہے سب
ہاں اگر کچھ معنی رکھتا ہے تو
یہ کہ کون اسے کتنا چاہتا ہے !؟
کہ اس سوال کا جواب دینا
اس نے خود پہ فرض کر رکھا ہے
کہ وہ رحمان الرحیم ہے
اور فضل کے خزانے بانٹتا ہے
جو بھی ہاتھ پھیلا کے آئے
اس کی سمت آئے ۔۔۔۔
وہ جھولیوں میں بے حساب
گل رحمت ، اچھالتا ہے
اتنا بڑا جہاں بناتے اسے سات دن لگے
سات ادوار میں اگر سچ کہوں تو
ایک پورا دور تو
میرا ایوولیوشن کا ہی تھا
وہ کن کہتا رہا
میں بنتی گئی ۔۔۔۔
کیا سے کیا ہوگئی ؟
آخری کن ابھی ہوا کہ نہیں
مگر وہ میری
تصویر کی محبوبیت پہ فدا ہے
اور آگے یہی سوچتا ہے
کہ بس بہت ہوا اب
حسن کا پھیلاو ۔۔۔۔
زمیں پہ ۔۔۔۔
سمیٹنا ہے مجھے یہ سارا مشغلہ سمیٹنا ہے مجھے
کبھی کہیں سے زمیں کو لپیٹتا ہے
کبھی کہیں سے جھاڑتا ہے
کبھی کہیں سے ادھیڑتا ہے
جنگ اس کی بھی منشا و رضا ہے (شائید)
اور پھر مجھے دیکھتا ہے
اور میرے’ نہیں ابھی نہیں ‘ اشارے کو بھی
پھر سوچتا ہے
پھرسوچتا ہے ۔۔۔۔
اور مہلت کچھ بڑھا دیتا ہے
مسکرا کے مجھ کو
اک دلبری کا پھول بخش دیتا ہے
میں مسکرا کے دلکشی کا خراج دیتی ہوں
زمیں کو ۔۔۔اس کو
اور اس کے نظام پیچیدہ دلکش و دلبریں کو
یہی چل رہا ہے صدیوں سے
اور آج بھی یہی مشغلہ ہے
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی