کبھی آئینے میں رکھ کر، خود سے سوال کر
کہ تُو زندانِ بدن میں مقید ہے
یہ خدوخال، حسن و پیکر و جمال تیرا
تُو نہیں ہے، تیرا فریبِ دید ہے
اس قیدِ بدن سے پہلے بھی
کہیں تیرا وجود تھا
کسی خواب میں، کسی خیال میں
کسی امید میں، کسی آس میں
کہیں نمو گلِ چمن میں
کہیں نسیمِ بہار کی باس میں
تھا زمان و مکان بھی بے خبر
مگر عرصہءِ دراز سے، تیرا منتظر
یہ خاموشیاں خلاوں کی
یہ مضطرب فضائیں بھی
سب تیرے لئے بے چین تھیں
بس حصارِ بدن کو توڑ کر
تُو خود کو انہیں سونپ دے
! پھر اپنے رنگوں کا شمار کر
اسلم مراد
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی