حیران رہتی ہوں نفرت والوں پہ
و ہ کیوں پریشان سے رہتے ہیں
تم نے دیکھی نہیں وہ ذلت جو نفرت کو جنم دیتی ہے
ہاں محبت کی اگر بات ہو کس دل کا یہ ارمان نہیں
ہم محبت سے پکارتے ہیں دشمن کو
جان لینی ہے لے لو مگر نفرت نہ کرو
خدا نے وسعت سے میرے دل کو بھر دیا ہے
نفرت کو اچھال دیا پیار سے چھاج بھرلیا ہے
یہی بات ہے اچھی اور یہی بات بری ہے
نرمی ہے دل کی ، مگر یہ کیا رونے کی پڑی ہے
میرے پہلو سے لپٹے ہیں صدیوں سے درد کے آسیب
پیوستہ میری کھال میں چسپاں میری رگ رگ میں
ابھی تو حاضریاں دے رہے ہیں در در کی
نیازمندوں کی نظریں لگی ہیں سخیوں پر
فقیرا در در کھڑا کاسہ کھڑکائے
کسی در سے کوئی خیر نہ آئے
صد ناز اس شہر بے مثال کا ہم بھی ایک حصہ ہوئے
الف لیلوی کہانیوں کے کرداروں کے ہم پلہ ہوئ
هائے رے بچپن لڑکپن جوانی اف توبه
اور اب یه جھٹپٹے کی شام بس توبه
عشق کے بادباں لهرا دئیے هم نے
عقل کی کشتی اب ڈوبے یا پار لگے
عقل کے اندھے لوگ هیں هم
تم جھوٹ کهو سچ مانیں گے
اک بات تو هے تمهارے بات کرنے میں
کتنا بھی جھوٹ بولو دل مانتا نهیں
خدا نے وسعت سے میرے دل کو بھر دیا ہے
نفرت کو اچھال دیا پیار سے چھاج بھرلیا ہے
یہی بات ہے اچھی اور یہی بات بری ہے
نرمی ہے دل کی ، مگر یہ کیا رونے کی پڑی ہے
میرے پہلو سے لپٹے ہیں صدیوں سے درد کے آسیب
پیوستہ میری کھال میں چسپاں میری رگ رگ میں
کچھ حسیں چہرے جو ترے حلقہ ء احباب میں ہیں
یہ بتا ! کیا وہ بھی تری چاہ ترے خواب میں ہیں
خواب میں دونوں ہی خفا خفا سے رہتے ہیں
بات کو جی چاہتا ہے مگر بات کو ترستے ہیں
سات ارب انسان عام سے ہیں
اک چہرہ ہے کچھ خاص بہت
بال بال بچی بانوری
سامنے سجا سانورا سامری
بال بال بچی بانوری
کھیل کھیلے کھاتری
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی