وجہ ملال کوئی نہیں مرے دوست تم یقیں مانو
مری ازلی اداسی ہے جو غم میں ڈوبی رہتی ہے
وجہ ملال کوئی نہیں مرے دوست تم یقیں مانو
مری ازلی اداسی ہے جو غم میں ڈوبی رہتی ہے
تیری ترنگ تیز تر ، ترا را، تیرا ترنم تو تیرا
خاک خاموش خراب خستہ خوب ، خوار خجل
نرگسیت کی مار ہیں
ہم سے جو دوچار ہیں
یاد کی گیلری میں ٹنگی ہیں تصویریں کئی
مٹے رنگوں بجھی آنکھوں سے تکتی ہوئی
کچھ عزیز چہروں سے دائمی محرومی
ایسی ہے کہ خدا نہ دے دشمن کو بھی
محبت اک کار زیاں ہے جتنا الجھو گے پچھتاو گے
کنارے سے لوٹنا آسان ہے ڈوبنے سے بچ جاو گ
آساں ہے مگر اتنا بھی نہیں جتنا سمجھے ہو
دور وہ رستہ جاتا یے پاوں اٹھے تو چل دینا
پاوں اٹھتے نہیں بیماروں کے
مہجوروں کے دکھ کے ماروں کے
شام رات میں ڈھلنے سے پیشتر
ایسا ہو کبھی کبھار نہ آیا کرے
روز ایک سے دن ایک سی شامیں
کسی خوش فہم رات کو تکتی ہوئی
نیند کا احسان ہے رات گزر ہی جاتی ہے
تاروں کی اس حشر ساماں بے چینی میں
رات اپنے تکئے میں خواب بھر کے سوئی تھی
صبح جاگی تو آنسووں سے بھیگا ملا
خواب بھولنے لگے پتہ میری نیندوں کا
یہ کس اندھیرے دن کا پیش خیمہ ہے
شام کی چادر اتنی گہری بے رنگ سی
اوڑھ کے کوئی سوجائے تو خواب کہاں
شامیں اکثر اداس ہوتی ہیں
میں کیا سارے رنجور کہتے ہیں
رنجور ہوں کیوں مجھے کچھ خبر نہیں
شام کی سرگوشی سنی نہیں کہ پتہ چلے
شام شام شام ہوگیا شام سانوریا !
کہاں چھپے کیسے ہو ہم بن چھلیا ؟
ہجر کا زہر ہے رگ رگ میں گھلا ہوا
ملنے کا امکان صبح ہوا نہ شام ہوا
چلو بھئی اب شام سے ذرا ہشیاری سے نپٹیں
چائے پئیں فون کریں یا باہر کو چل دیں
شام کا حسن دیکھنا ہےتو میرے ساتھ
نہر کنارے جگمگاتی روشنی میں چلو
شام سے بات کی خوامخواہ اسے رلایا بہت
شام نے پھر رقص بے ردھم کیا ہنسایا بہت
خود سے ملنے کو بھی دن لگتا ہے
صبح کہیں شام کہیں ہوتی ہے
دماغ کہاں تھا بات کرنے کا
خامشی ہتھوڑے نہ برساتی اگر
کوئی کسی خیال میں ہے کوئی کسی خواب میں ہے
ہم ہیں کہ شائید بے خیالی کے عذاب میں ہیں
خود کو تسلی دیتے ہیں آپ ہی بہلے رہتے ہیں
اتنا ہی احسان بڑا ہے ہر حال راضی رہتے ہیں
شکر کی بات ہے کہ تشنہ شب ملال نہیں
صبح جمال بھی آتی ہے اطمیناں لے ک
دعوت شام تھی درد کی پذیرائی کو
وقت نے ڈھلتے ڈھلتے شب غم سے جا ملایا
وہ بھی آگئے جن کے آنے کی توقع نہ تھی
ہم نے تو دعوت شام دی تھی اک سرسری سی
دنیا جہاں کا سکھ ہے
مگر جان کہ سکھی نہیں ہے
کیا سوچیں گے کیا سمجھیں گےاپنا آپ بھی
ہم سے تو نہیں بنتا سیدھے سادے سوالوں کا جواب بھی
سارے ہی جاگ رہے ہیں فرصتوں کے مارے لوگ
ایک ہم ہی نہیں فرقتوں کے مارے لوگ
ہجوم سے نکل کے دیکھنا کوئی اپنا بھی مل جائے گا
میلہ ہے خوشیوں کا کوئی تنہا بھی مل جائے گا
یہ شہر محبت ہے یہاں رہنے کے آداب ہوا کرتے ہیں
مرتے ہوئے بھی جینے کے یہاں اسباب ہوا کرتے ہیں
کھل جا سم سم کھل جا سم سم
قسمت کو بار بار کهنا پڑا مجھے
اس سے بڑھ کر کون کرے گا پامال
نفرت سے لیا جائے محبت کا اب نام
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی