جس کی محبت میں مبتلا ہوں
ساری محبتوں سے عظیم تر ہے
جس کے مقام محمود کا شیدائی
یہ ذرہ ذرہ ، نفس نفس ہے
خیال خام ہے یہ محض حقیقت نہیں
ترا نام لینا اور خود کو صدائیں دینا
آئینہ بھی ہے روٹھا ہوا
خوامخواہ ہی منہ بسورے ہوئے
کوئی بات بھی ہے بھلا
دل اداس ہے تو تجھ کو کیا؟
جس کی محبت میں مبتلا ہوں
ساری محبتوں سے عظیم تر ہے
جس کے مقام محمود کا شیدائی
یہ ذرہ ذرہ ، نفس نفس ہے !
کچھ اور ہےموسم کا مزاج
ابر باراں کو تحسین وخراج
جم کے برسی ہے شب بھر
آنکھ کے ساتھ برسات بھی آج
دکھ سارے ہی طویل تھے اپنی اثر انگیزی میں
لمحوں کے فیصلے مری صدیوں کو نگل گئے
عذرتم ہنس لو ہمارے اشکوں پہ ہم یہ بھی سہہ لیں گے
کہ یہ سب انداز دلربائی ہیں تمہاری شوخ اداوں کے !
چپ چاپ رہو کچھ نہ کہو یا ادھر کی کرو ادھر کی کرو
کسی بات میں اشارہ گماں شکوہ دیکھو بھولے سے بھی اس طرف نہ ہو
جب وحشت خیال عروج پر ہو کسی پناہ میں چلی جاتی ہوں
کبھی مرا ہوا کوئی یاد آتا ہے کبھی خدا کے گلے لگ جاتی ہو
هر ایک بات په سوچا هزار بار
کهنا تھا کچھ ،کها گیا کچھ اور
عمر گزری تھی جس زندان بے بسی میں
انسیت کے وهاں کچھ عجیب سلسلے تھے
عذر کس میں دم هے که بات کرے
هاں وه هی جو کرامات کرے
خالی خط هی بھیجا جائے
اس سے یوں روٹھا جائے
یه لمحهء موجود جو دھوپ میں هے
کسی سایهء ابر کی دعا کو ترس گیا
کتنے ٹوٹے ہوۓ خوابوں کا پتہ دیتی ہوئی
شب پھر آ گئی تجھ کو صدا دیتی ہوئی
سنو تم جو بھی هو
جیو اور جینے دو
کل زندگی کا مقصد تھا فقط اک آرزو
اب زندگی کا مطلب هے ختم شد آرزو
اپنوں کے رحم وکرم په تھے منتظر
غیروں کا دست کرم تھا که کام آگیا
تم کهاں سے آگئے میرے اپنے
بے کسی نے تم کو کب پکارا ؟
عید تازہ بھی ہوگئی باسی اب تو
ہم ترو تازہ نہ کل تھے نہ آج ہوئے
ودھیا تے وگڑیا دماغ اے میرا
آڈا لانا ای تے ، گل بات بند !
ہم نے بہر صورت آنسووں سے نمٹا ہے
تم سے مل کے نمٹیں یا بچھڑ کے نمٹیں
نہ جانے دکھ کا آخری امکان کیوں بچ رہتا ہے
دل پتھر ہوتے ہوتے بھی آنسووں سے کیوں بھرجاتا ہے
یاد آوری ہے پھر مختصر سی اک خوشی کی
خوشی تھی یا سوگواری کا پیش خیمہ تھی
غم کی طوالت ہے کہ کھنچتپی ہی چلی جاتی ہے
خوشی کی نوعیت ہے کہ خواب سا دیکھا کوئی
اس بے بسی کے جہان میں
دل بے وجہہ اک ارمان میں
دل بہلا ہی تھا کہ اچانک
یوں بہل جانے پہ ہنسی آئی
آنسووں سے بھرا ہے دل جیسے رگ رگ میں
لہو کی بجائے اب یہ اشک رواں کرتا ہے
وہ خوابوں کے دن تھے
جو سرابوں میں بیت گئے
تم نے خوابوں کو بنا تعبیر ہی چھوڑ دیا
اچھے دکھتے تھے مگر یہ اچھا نہ کیا
خوابوں سے محرومی کے روز افزوں حزن میں ہوں
مت پوچھ کیسے بے بخت رات و دن میں ہوں
تم نے جگا دئیے وہ سب دکھ جن کو بڑی مشکل سے سلایا تھا
تم آ جا تے چلے جاتے دل سے کیا چھیڑ چھاڑ ضروری تھی ؟
دکھ سارے ہی طویل تھے اپنی اثر انگیزی میں
لمحوں کے فیصلے مری صدیوں کو نگل گئے
تم ہنس لو ہمارے اشکوں پہ ہم یہ بھی سہہ لیں گے
کہ یہ سب انداز دلربائی ہیں تمہاری شوخ اداوں کے !
خیال خام ہے یہ محض حقیقت نہیں
ترا نام لینا اور خود کو صدائیں دینا
تجھے ڈھونڈنے میں ایسے بے خبر ہوئے
سراغ ہستی میں کو بہ کو دربدر ہوئے
کچھ تو سچائی ہوگی ان جھوٹی خبروں میں
تجھ سے منسوب کرکے جو روز اڑائی جاتی ہیں
سچ تو یہ ہے کہ خموشی ہی بول سکتی ہے
یا جھوٹ پہ جھوٹ بولا جاتا ہے
لمیاں کہانیاں اسی نیئوں پانیاں
جنی کو ھئی کرنیاں تے مکانیاں
کچھ تو دل بہل ہی جائے شائید
آئینے سے بات کرکے دیکھیں اب
: دل بجھ گیا جاں گرانی سے
کردار بیزار ہوئے کہانی سے
آئینہ بھی ہے روٹھا ہوا
خوامخواہ ہی منہ بسورے ہوئے
کوئی بات بھی ہے بھلا
دل اداس ہے تو تجھ کو کیا؟
کچھ انسیت سی ہے ترے نام کے حرفوں سے
اکثر اپنے نام کے ساتھ ترتیب دیتے رہتے ہیں
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی