دائم رہے آباد، ہم آشفتہ سروں سے مقتل
کب کوئی تم سے عمرِ خضر مانگ رہا ہے
آ کہ کبھی کر یہ تماشا بھی اے دل
احساس کی دنیا میں کیا درد گھلا رکھا ہے
اک دید کے ہیں محتاج، پھر ہوں نہ ہوں ہم
یہ آج بھی ماضی ہے، یہ پل رفتہ ہے
رہائی دے مولا اس غم سے اب مجھ کو
درپیش ازل سے یہ کیا معاملہ ہے
ازل ہے نہ آخر ہے، سب طلسم میرا ہے
تُو آج بھی صبحِ ازل میں کھڑا ہے
اسلم مراد
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی