ابھی آنکھوں سے نوعمری جھانکتی تھی
ابھی آگے کی اک لمبی آرزو تھی
ابھی آئینہ بھی کمال حسن سے چور رہتا تھا
ابھی رخساروں کو جھونکا صبا کا
چھو کے
بہت مخمور رہتا تھا
خوشیاں سب ترو تازہ رہتی تھیں
غم دل سے کوسوں دور رہتا تھا
زندگی نے نئی نئی آنکھ کھولی تھی سرشاری کی دنیا میں
اور خوشی سر پہ افلاک تک سایہ فگن تھی
دھرتی خوامخواہ ہی پیروں تلے ناچتی تھی
بچپن کی ہنسی جوانی کے میٹھے سروں میں ڈھل رہی تھی
ابھی اس سے ملنے میں کچھ دیر باقی تھی
جب خواب رتجگے منانے لگے تھے
موسم کسی کے آنے کی نوید سنانے لگے تھے
سندرتا کا سمندر آنکھوں میں لہرانے لگا تھا
کوملتا کا جادو
مکھ کو دمکانے لگا تھا
خمار ٹوٹ کے انگ انگ سے بندھ جانے لگا تھا
اور وہ عام سی لڑکی
اچانک سندر سی ہوگئی تھی
اور پھر جیسے سب کو
خبر سی ہوگئی تھی
سب نے اسے اتنا دیکھا
اتنا دیکھا کہ بس۔۔۔۔۔
بادل بھی جھک کے جھانکتے تھے
رات بھی رک کے دیکھتی تھی
دن بھی دم بخود تھے
فطرت اس کے سامنے بوکھلا گئی تھی
وہ نظرا گئی تھی
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ۔۔۔۔
وہ موم کی گڑیا پتھرا گئی تھی
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی