ہوا کے زور پر بھڑکتے شعلے
ہماری سوختہ زباں کی بات سمجھ
کہ بجائے کسی سمت کا تعین کرلیں
باد مخالف پہ بھی ذرا دھیان رکھ
یہ ہمیشہ شاخیں بھی نہیں توڑا کرتیں
کبھی یہ سمیت جڑ ہی اشجار اکھاڑ دیتی ہیں
لپیٹ لیں گر سمندر کو ہاتھوں میں
ساحلوں کے نقشے بھی بگاڑ دیتیں ہیں
مت اپنی آنچ پہ آج اس قدر نازاں ہو
کل اپنے سنگ کہیں یہ گھٹائیں نہ لے آئیں
وہ جو پوشیدہ ہیں فضاؤں میں اب تک
وہ اندھیری آفتیں اور بلائیں نہ لے آئیں
کہ ہماری طرح تو بھی کبھی رحم کو ترسے
چار جانب سے کہیں ایسی آگ نہ آ برسے
فطین اذہان ہر سادہ دل کو فتنہ کردیں
اور آدمی گھر سے نہ نکلیں آدمی کے ڈر سے
اسلم مراد
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی