یادش بخیر 5

Front view of a smiling woman

کبھی کبھار ہلکی پھلکی ایکسر سائیز کرتی
جونہی امی جی مجھے ہاتھ پیر ہلاتے دیکھتیں
بیڈ پر لیٹے لیٹے اپنے دائین پرانے مجروح بازو کی مڑی ہڈی ہونے کے باعث مشکل سے اسے اپنے بائیں فالج زدہ بازو کی طرف لے آتیں اور قمیص کے بازو کا کونا پکڑ کر
بالآ خر سیدھے ہاتھ سے الٹا ہاتھ پکڑنے میں کامیاب ہوجاتیں اور میں صدقے جاؤں میرے ساتھ اپنے بازو کی ایکسر سائیز شروع کر دیتیں
ان کی عادت تھی بچوں کی ہر ایکٹیوٹی میں شامل ہوجاتیں چاہے فلم دیکھ رہے ہوں ٹی وی دیکھ رہے
فالج کے باوجود ایک دن پوتے پوتیوں کے ساتھ لوڈو کھیل رہی تھیں چھکا اچھال دیتیں اور بچوں کو اشارے سے بتا تیں گوٹی چلانے گا…..
کھانے پینے میں بچوں کی طرح تنگ کرنے لگی تھیں جس کا حل بھابی نے یہ نکالا کہ ٹی وی پر بچوں اور انکا پسندیدہ BTS کورین سنگر بوائز کا سانگ لگا دو چپ چاپ وہ دیکھنے میں محو رہتیں اور انشور پی لیتیں…. خوراک تو صرف ان کی انشور ہی تھا ڈھائی تین سالوں تک…. اس کے علاوہ کچھ نہیں کھا پاتی تھیں
لوڈو وہ شروع ہی سے بہت شوق سے کھیلتی تھیں اور بچوں سے بھی گوٹ پر تیز بھی ہوجاتی تھین ایک بار میں ان کے مقابلے مین کسی بچے کا ساتھ دینے لگی شرارتا وہ ہاریں یا جیتیں مجھے یاد نہیں مگر گیم کے بعد انہوں نے مجھے خاطر خواہ سنجیدہ طنز و مزاح سے نوازا
اللہ امی جی کی اور ہمارے سارے پیاروں کی جو اس دنیا سے پردہ فرماگئے ہیں مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس کے اعلی درجات سے نوازے آمین ثم آمین


معذرت کے ساتھ
بچپن میں امی جی سے گالیاں کھائی ہیں
بی بی سے سنی ہیں
جوں جوں عمر بڑھ رہی ہے
دماغ چٹخ رہا ہے
لاشعور میں دبے خزانے کا کوئی نہ کوئی ماسٹر پیس نوک زبان پر آتے آتے رک جاتا ہے
آج ‘ نونچی’ یاد آئی
جو امی جی بہت چھوٹی بچی کو بڑی شرارت پرفارم کرنے پر گالی دیتی تھیں
نونچی مطلب (نو انچی مگر پٹاخہ)
یا پھر باجی کا پیار سے اکثر کہنا ‘دادی پخمہ’
ہمارا فرض ہے ہم بچوں کی موجودگی میں کبھی کبھار گالی وغیرہ دیا کریں بچے زبان کے اس چٹخارے یا لغت سے نابلد نہ رہ جائیں
ہمیں اپنے بچوں کو گالیاں بھی سکھانی ہیں کہ یہ کسی بھی زبان کا کھٹا میٹھا چٹخارہ ہے

میرے خدا رات کچھ اسی قسم کا خواب دیکھا تھا ۔۔۔پھر وہی دہراو سال بھر کے موسموں کی طرح ۔۔۔خواب میں لاڑکانہ گھر پہنچنے کی جلدی ہے میھڑ باڈہ یا بیچ کے کسی شہر میں کہیں سے آکر کھڑی ہوں ساتھ رابعہ ہے جو اکثر جامشورو دادو سفر میں ہم سفر ہوتی تھی گاوں کے کسی لوگوں کا گھر ہے ڈھلتی شام گھر پہنچنے کی جلدی سواری کی وین کا انتظار ۔۔۔ اس گھر کا بوڑھا بابا شخص ہمیں جلدی جلدی ایک گاڑی میں بٹھا دیتا ہے اپنی بوڑھی بیوی اور پوتی کے ساتھ ازراہ مھربانی وہ کہیں جارہے ہیں اپنے رشتہ داروں کی طرف ۔۔۔ساتھ ہمیں بھی بٹھا لیا ہے کہ چڑھ جاو گاڑی میں شام رات میں ڈھلنے والی ہے
“ارے یہ تو بیل گاڑی ہے ہم کب لاڑکانہ پنہچیں گے ہمیں وین میں بٹھائیں جو فراٹے بھرتے لاڑکانہ لے جائے “
“یہی ہے بیٹھ جاو “
بیل گاڑی بیل گاڑی کی طرح چل رہی ہے بلکہ چلانے والا کچھ زیادہ ہی ڈھیلا ہے ۔۔۔ بیچ میں باڈہ شہر کا بازار آتا ہے خوبصورت روڈ نما گلی سا رات کے وقت روشن اور اور دونوں اطراف دکانوں پہ ست رنگ سبزیوں اور ست رنگے پھلوں سے دو رویہ قطاروں میں بھرا ہوا بیل گاڑی وہی ٹھمک ٹھمک ۔۔۔ رات ہوگئی ہے مجھے لاڑکانہ کی جلدی سوچتی ہوں سامنے روڈ سے وین مل جائے گی یا نہیں ۔ ۔۔جہاں یہ بیل گاڑی ہمیں اتارے گی ۔۔۔ آخری وین نکل نہ گئی ہو پھر کیا کریں گے کیا بوڑھی کے رشتے داروں میں ہی رات گزارلیں یا آگے جائیں اور وین کا انتظار کریں نہ آئی تو روڈ پر اندھیرے میں رات کیسے گزاریں گے اور بوڑھی کے رشتے داروں کے گھر ٹھہریں تو ان کے مرد بری نیت کے نہ ہوں۔۔۔ عجیب گو مگو سا خواب تھا بہرحال ست رنگ سبزیوں اور پھلوں کی دکانوں کے درمیان بیل گاڑی پر بیٹھے ایک روشن بازار کے بیچ آنکھ کھل گئی ۔۔۔ ہاہاہا یہ منظر ویسے بڑا خوبصورت تھا مگر مجھے بس لاڑکانہ گھر پہنچنے کی دھن اور جلدی ہے


550 دیاں آن لائن سوئیاں چبھون لئی نئیں ۔۔۔ کشیدہ کاری کرن لئی اصل قیمت 270 اوپرلے ڈلیوری چارجز
گھر چ جدوں پچھو سوئی نئیں لبھدی ۔۔۔ھن ایہہ بارہ عدد نکیاں وڈیاں نکے نکے کم آن گئیاں ۔۔۔ کم ازکم ٹٹے بٹن تے لگ ای جان گے تے ادھڑے شدھڑے تروپے وی سپ جان گے ۔۔۔ مینوں سوئی دھاگے نال کم کردیاں نکے ہوندیاں توں سواد آندا اے ، گڈیاں پٹولے سین وانگ ۔۔۔ پنجیہھ سال پرانا کٹ ورک دا سیٹ سرہانے کشن کڈ کے ای مکمل کر لیواں تے بڑی گل اے ۔۔ ۔ جیدی بیڈ شیٹ میں دو دناں چ بنالئی سی باقی رھندا رہ ای گیا خورے کتھے پیا ہونا ملے گا تے تصویر شیئر کراں گی ۔۔۔ مسئلہ پتہ کی اے ھن کڈھائیاں کٹ ورک بیڈ شیٹس رلیاں مینوں چبھدیاں نے سمپل کاٹن از دا بیسٹ آپشن فار می جیویں جیولری چبھدی اے امی جی نے کہہ کہہ کے کن نک تے ہتھ بوچے نہ رکھیا کر ۔۔۔ زبردستی عادت پوائی ھن انہاں دی یاد چ کوشش کرنی آں عمل کراں کہ کم ازکم اک ہتھ چ کجھ پائی رکھاں تے نک کن وی نہ پایا کجھ تے بند ہوجانے گا ۔۔۔ نکے ہندیاں کنے دکھ نال ونہوائے سی۔۔
میں کناں دی سٹوری تے لخی سی ۔۔۔نک دی وی گھٹ نئیں اردو چ لخنی آں
نجمہ وی پڑھے گی۔۔۔ ہاں تو نجمہ بوا سودن نے ہم دونوں کے کان تو کوکو کی اماں سے بندھوا/ چھدوا دیئے تھے ناک رہتی تھی
حسن آرا اور بھابی کی بہنیں بھتیجیاں مہمان آئی ہوئی تھیں بھتیجی ( کیا نام تھا اسکا تم بتانا ) دونوں کھیلتے کھیلتے میرے پیچھے پڑگئیں کہ ہمارے کان بھی بندھوا دو جہاں سے بوا نے تمہارے بندھوائے تھے۔۔۔ ہم کوکو کی اماں کے گھر گئیں وہ کراچی تھیں ۔۔۔ تمہیں یاد ہے خالہ باتی کی پچھلی گلی میں (نام مجھے یاد نہیں آرہا عباس تھا بھائی کانام کیا تھا ایک بہن اس کی کان بیندھتی تھی) میں ان کو وہاں لے گئی وہ مجھے دیکھ کر کمرے سے صحن میں آگئیں تمیز سے سلام کیا آنے کا مدعا بیان کیا کہ یہ اماں مینا کی مہمان ہیں کراچی سے آئی ہیں کان بندھوانا چاہتی ہیں
“اچھا ۔۔اچھا میں ابھی لائی”
وہ کچھ دیر میں سوئی میں دھاگہ ڈال کر لے آئیں ۔۔۔ سوئی دھاگہ دیکھ کر حسن آرا اور اس کی بھتیجی دونوں بھاگ گئیں ۔۔۔ سوئی دھاگے والی حیران میں شرمندہ اور پریشان
“اے ۔۔لو یہ تو بھاگ گئیں میں یوں ای اتی مشکل سے سوئی دھاگہ ڈھونڈ کے لائی”
میرے ‘اخلاق کی انتہا ‘ نوٹ کرو
میں نے خوامخواہ بے وجہہ بلا ارادہ شرمندگی سے بچنے کے لئے اپنی ناک پیش کر دی بچپن سے آج تک اس اخلاقی مظا ہرے پر میں فخر محسوس کرتی ہوں کہ انتہا تھی مجھ میں اخلاق کی اتنی کم عمری میں ۔۔۔
کہاں تو کان بندھوانے پر ناگن ڈانس کیا تھا کہاں اخلاق کی ماری بے چاری نے ناک خود پیش کردی ۔۔۔ دل چاہ رہا تھا ناگن ڈانس کروں مگر بھرپور اخلاق کا مظاہرہ کیا
اور بھگوڑیوں کو کیا کہوں کہ بس ڈر گئیں
“میری ناک بیندھ دیں “
نہ ماں کی ناک بندھی ہوئی نہ بڑی بہن کی ۔۔۔
وہ خوش ہوگئیں اور میری پیاری ننھی سی ناک بندھ گئی ۔۔۔ روئی نہیں جیسے کان بندھوانے میں دھماچوکڑی مچا کے روئی تھی اور بوا کی ڈانٹ بھی کھائی تھی ۔۔۔ جس سائیڈ سے ناک بندھی الٹی سائیڈ ، الٹی آنکھ سے ایک موٹا سا آنسو ٹپکا درد کی شدت سے ۔۔۔ پھر ناک میں دھاگہ ڈل گیا ۔۔۔ گھر آئی امی باجی بہت حیران ہوئیں اور کچھ کچھ خوش بھی ۔۔۔ کہ دونوں کی بندھی بندھائی ناکیں بند ہوگئی تھیں۔۔۔ ابو جی بحرین سے آئے تو تجھے پتہ ہے میں لاڈلی تو تھی ہی ۔۔ امی باجی نے مجھے پڑھا رکھا تھا ابو آئیں گے تو سونے کا کوکا لے کر دیں گے (خوش ہوکر ہاہاہا ) ابو جی آئے تو میں نے کہا مجھے کوکا لے کے دیں وہ کچھ گولڈ سنارے کو دے آئے ایک انگوٹھی ایک کوکا اور باجی کی بڑی اور میری چھوٹی بالیوں کا ۔۔۔
بن کے آیا تو کوکا میں نے مٹکا لیا امی باجی حسرت سے دیکھتی رہ گئیں امی جی کی تو ساری زندگی بے بندھی ناک رہی ۔۔ باجی کی شادی سے پندرہ دن پہلے بندھوائی تھی شائید ۔۔۔ انگوٹھی چھوٹی بن گیئ نہ باجی کو آئی نہ امی کو ، مجھے گولڈ کی انگو ٹھی بھی مل گئی ۔۔۔ اور چھوٹی بالیاں بھی جن کی ایک بالی میں نے کچھ بڑی ہوکر نہاتے سمے پانی میں بہادی تھی ۔۔۔ کان سے اتر کر پانی میں گرگئی میں بہتے پانی میں اس وقت تک اس کا لہراتا ڈانس دیکھتی رہی جب تک وہ باتھ روم سے نکل کر آنکھوں سے اوجھل نہ ہوگئ ۔۔۔۔ بالی گئی سو گئی مگر یقین مانو وہ بہت خوبصورت منظر تھا کہ ایک بالی پانی مین کتھاکلی کرتی بہے جارہی ہے ۔۔۔ اچھا ہوا میں نے وہ منظر دیکھا آج بھی میرے خوبصورت مناظر کی فہرست میں شامل ہے دو ٹکے کی بالی ہمیشہ کے لئے ایک خوبصورت منظر تشکیل دے گئی ۔۔۔ واٹ اے بلیسڈ سین واز دیٹ ٹو واچ دا ڈانسنگ گولڈ ان واٹر ۔۔۔ ہاہاہا
اب دوسری بڑی بالی کا سن لو باجی کی شادی میں جھمکے بندے پہناتے سمے امی نے مجھے بلایا اور باجی کے کان سے اتری بڑی بالیاں مجھے پہنائیں خوشی ہوئی باجی کو چھاج بھر کے سونا ملا ہے تو مجھے بھی بڑی بالیاں مل گئیں ۔۔۔ شادی بارات کا گھر ، میں رات کو برابر والے کرائے داروں کے گھر سوئی جہاں بہت سے ہمارے مہمانوں کے بستر لگے ہوئے تھے میں صبح اٹھی۔۔۔ پتہ چل گیا ایک کان میں بالا نہیں ہے اتنی زحمت نہ کی آٹھویں کلاس میں تھی کہ بستر چیک کرلوں۔۔۔ سوچا امی بستر اٹھانے آئیں گی تو خود ہی انہیں مل جائے گی میں کیوں زحمت کروں۔۔۔ مہمانوں کا گھر نہ جانے کس نے اٹھائے کس نے جھاڑے ایک دن میں ہی کان کا بالا گما لیا
اور پھر کانوں سے بسی ہوکے بیٹھ گئی
امی باجی نے خود اپنے وقتوں میں گمائی ہوئی تھیں بالیاں کانٹے تو میرا بالی گم کرنا دونوں بار آرڈنری گیم آف دا بالی سمجھا گیا ۔۔۔ہاہاہا
اس وقت سونا سستا بھی تھا
یاد ہوگا کہ نہیں میں کبھی کبھار عید پر پہنا کرتی تھی سونے کی انگوٹھی جب سب ہی آرٹیفیشل جیولر ی پہن کے اتراتی تھیں میں سونے کی انگوٹھی پہ شو مارتی تھی ۔۔۔۔ ہاہاہا
دوسرے دن پھر وہ دونوں کرا چئیٹ مجھے دیکھ کر پچھتا رہی تھیں فرمائشیں کر رہی تھیں
“آج ہمیں لے چلو ۔۔۔ اب ہم نہیں بھاگیں گے”
نہیں بہن ۔۔اب میں نہیں جاوں گی میرے دونوں کان بھی بندھے ہوئے ہیں اور ناک بھی بندھ گئی ۔۔۔ اب میرے پاس کچھ نہیں جو میں اخلاقا سوئی دھاگے کے آگے پیش کردوں گی ۔۔۔ ہاہاہا
حسن آرا ملے تو میرا سلام کہنا

کزن بےبی کا نام جب پہلی بار
میرے ابو جی نے اسے دیکھا کہا
“اوئے اے تے چڑیا ہے”
اس کو آج تک چڑیا اور بے بی دو ناموں سے ہی پکارا جاتا ہے شوہر نے شروع مین باعزت طریقے سے رخسانہ کہہ کر پکارنا چاہا مگر چڑیا چڑیا کی گردان سن کر…. وہ بھی چڑیا چڑیا کرنے لگے
باقی رہیں میری امی جی یعنی اس کی پھپھو اور رضاعی امی کہ میرے دھوکے میں وہ یہ سعادت حاصل کرچکی ہے کہ اس سے دو ڈھائی ماہ بڑی ، میں اسکی باجی ہوں جو اس نے آج تک نہیں کہا…. ایک اندھیری شام یا آتی رات جب امی جی زور و شور سے گپ شپ میں لگی ہوئی تھیں مجھے باجی کو پکڑا دیا تھا کہ اس سے کھیلو کوئی ایک روتا ہوا بچہ امی کی گود میں ڈال گیا…. اندھیرے اور گپ شپ میں بچے نے وخت ڈالا ہوا تھا ظاہر ہے ماں کے پاس بچہ بہلانے کا ایک بہت ہی زود اثر طریقہ ہوتا ہے
انہوں نے دودھ پلا کے اس بچے کو سکون سے گود میں سلائے رکھا…. اچانک باجی نمودار ہوتی ہیں مجھے گود میں لیے….
“امی پکڑیں عذرا کو….. روئے جارہی ہے”
ہیں…. عذرا یہ ہے تو یہ کون ہے جسے میں نے گود میں کھلا پلا کے سلا رکھا ہے
وہ چالاک چڑیا تھی
اللہ اسے سلامت رکھے…. اپنے ماں باپ کی وہ اکلوتی اولاد ہے مگر ہم ماشا اللہ چھ بہن بھائی اس کے دودھ شریک بہن بھائی بن گئے
ہاں تو بچپن میں یہ: چڑیا ‘ نام اور چڑیا بذ ات خود اتنی پاپولر بچہ تھی کہ لاڑکانہ شہر میں ہم جہاں سے بھی گزرتیں کوئی نہ کوئی بچہ چڑیا چڑیا، کہہ کر چڑانے کی کوشش کرتا بچوں سے بچوں میں یہ چڑانے کی وبا آسانی سے پھیل جاتی ہے
ہم اسکول آتے جاتے روز ہی، بد لحاظ بچوں کی طرف سے چڑائی جاتیں بچوں کو چڑائے جانے سے کوئی چوٹ تو نہیں لگتی مگر وہ روہانسے ضرور ہوجاتے ہیں
ایک دن بی بی (اللہ بخشے) ساتھ تھیں پیچھے سے بچوں کا ایک ٹولہ چڑیا چڑیا کرنے لگا ہماری طرح بی بی کا بھی دل چاہا کہ پتھر مار کے ان کا سر پھوڑدیں…. مگر وہ خاصے محفوظ فاصلے سے چڑا رہے تھے
بی بی نے دوتین خرافات ان کی ماؤں کی شان میں ادا کیں اور
‘ تسی الاں ‘ کا کلاسک ٹائیٹل دیا انہیں
پھر تو جب بھی ‘چڑیا٠٠٠ چڑیا ‘ کہا گیا
ہم نے کہا ‘ توں ال ‘ جسکا مطلب فریق مخالف اردو میڈیم ہونے کی وجہ سے کبھی نہ سمجھ پایا ہوگا
مگر ہماری تسلی ہوجاتی تھی اور چڑانے والے بچوں کی تشفی…..
بے بی کو آج تک میری امی سمیت پرانے سب لوگ چڑیا ہی کہتے ہیں مگر وہ چڑتی نہیں کیونکہ وہ اسکا نام لے رہے ہوتے ہیں چڑا نہیں رہے ہوتے…
اچھا اب امی جی نے چند سالوں سے اسکا ایک اور بھی نام رکھا ہوا ہے
‘رپورٹر ‘
کیونکہ وہ سارے رشتے داروں کی خبریں خیر خیریت ایک دوسرے تک پنہچانے کا احسن کام انجام دیتی ہے اللہ اسے سلامت رکھے خوش رکھے شاد و آباد رکھے آمین
میری سوا دو مہینے چھوٹی بہن ہے
اب اسکی چڑ ‘ رپورٹر ‘ ہے سارے بچوں کو بتادو لوگو


آج برسات ہے تو پٹودی والوں کے گلگلے یاد آگئے جو ہر شادی بیاہ کی مایوں کا لازمی حصہ تھے مہینہ دو مہینہ پہلے تاریخ طے ہوتے ہی ہر دوسرے تیسرے دن ‘گیتوں ‘کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا اہل خانہ کے علاوہ یہ
‘گیت ‘ کا اہتمام قریبی رشتے داروں خالہ مامی چچی پھوپھی دادی نانی بہنوں بھابیوں کی طرف سے بھی کیا جاتا جس کے لئے پورے دڑی محلے کی پٹودی آبادی جو دو ڈھائی سو گھر تھے ان میں سر شام مرمرے کی ایک یا کہیں کہیں دو یا تین پیالی حسب تعلقات تقسیم کرکے گیتوں کا بلاوا دے جاتیں خاندان کی دو چار لڑکیاں اور خواتین مرمروں کا بڑا سا چھابہ ایک نے اٹھایا ہوا دوسری اس میں سے ایک پیالی بھر کے ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کے پلیٹ یا دوپٹے کے پلو میں جو بھی صاحبہ ء خانہ کی طرف سے آگے بڑھایا جاتا اس میں ڈال جاتی
‘رات کو گیتوں میں آنا’ اس دعوت کے ساتھ۔۔ کسی گھر کا بلاوا ہے یہ عورتوں کی شکل اور کس گھر میں بیاہ رچا ہے سب کو ہی پتہ ہوتا کنفیوژن اس وقت ہوتا جب دوتین بیاہ اکٹھے آجاتے پھر بتایا جاتا فلاں کے گھر گیتوں میں آنا ۔۔۔ جو بھی گیت کروا رہی ہوتیں ان کی طرف سے اس دن مرمرے بانٹنے کے ساتھ ساتھ ڈھول اور گھنگرو کا کرایہ بھی دیا جاتا اور ساتھ گیتوں کی محفل میں سب کو دو تین بار پان کھلانے کا اہتمام بھی کیا جاتا امی جی نے بھی چند ایک قریبی شادیوں میں گیت کرائے گئے اور ہماری باجی اور اکرم کی شادیاں جو لاڑکانہ میں ہوئیں ان میں امی جی کی سہیلیوں کی طرف سے چند راتیں گیتوں کا اہتمام کیا گیا بلکہ اکرم کی شادی میں تو دو ڈھولکیاں رکھی گئیں جن کا تنازعہ مجھے سنبھالنا پڑا کہ ایک پٹودی پارٹی تھی اور ایک پنجابی ٹپے پارٹی دونوں اپنے اپنے گیت گا گاکر محفل مچانے کے موڈ میں تھیں جن کو باری باری پہ راضی کیا گیا اور جب خواتین بارہ ایک بجے جاتیں تو پڑوس کے گھر سے منتظر مرد اور لڑکے بالے ٹپ آتے جو (خفیہ) میراثی تھے بہرحال اکرم کی شادی میں انہوں نے اور ان کی عورتوں نے دس بارہ دن کھل کر گانا بجانا کیا اور جتنی رونق وہ لگا سکتے تھے فجر کی اذانوں تک لگائی شوقین پٹودی کی خواتین بھی رات بھر ان کا گانا بجانا انجوائے کرنے کے لئے بیٹھ رہتیں ابو جی علی الصبح چائے یا میٹھی ٹکیاں یا پکوڑے تل کر لے آتے یا کوئی فروٹ کاٹ لاتے تواضع کے لئے اور پھر سب نیند کے خمار کے ساتھ اٹھ کر چل دیتے نمازی نماز پڑھتے بے نمازی دن چڑھے تک سوتے تقریبا وہ پورا ہی مہینہ بہت ہلے گلے میں گزرا
ہاں تو پانچ پانچ گلگلے یا کبھی کبھار سات گلگلے گھر گھر بانٹ کر مایوں کا بلاوا آتا میٹھے گلگلے شادی والے گھر ساری رات تلے جاتے ۔۔۔۔ ہم نے اکرم کی شادی میں گلگلوں کی جگہ پر گلاب جامن کھلائے امی کو کہاں سے ایک من آٹے کے گلگلے بنانے آتے۔۔۔۔ پٹودی کے لوگ غربت کے باوجود تہوار شادی بیاہ شاہانہ انداز سے ہی مناتے گھر کی مرمت سفیدی سجاوٹ رنگ برنگی جھنڈیوں سے گھر گلی کی آرائش کیلے کے سبز پتوں سے گلی سے بارات کی گزرگاہ کا گیٹ بنانے کے ساتھ ساتھ روزانہ گیتوں مایوں منڈھے بھات، برات ، بری جہیز ولیمے چوتھی کا خصوصی اہتمام کیا جاتا بلکہ اکثر شادی بیاہ کے اہتمام میں لڑکیوں بالیوں کو بلا کر چاول چنوائی صفائی کے لئے بھی بورے کھول دئے جاتے جہاں چار عورتیں لڑکیاں جمع ہوتیں بنے بنی کی مناسب سے گیت لازمی گائے جاتے گویا کناری لگاتے سمے بھی گیت لازمی ۔۔۔ مطلب پٹودی گیتوں کا محلہ تھا ہمارا گھر بھی گرداسپوری سے زبان تبدیل کرکے پٹودی والا ہوچکا تھا اگرچہ گھر میں پنجابی ہی بولی جاتی مگر امی ان کی بہن بیٹی اور وہ ہمارے نانکے بن چکے تھے اور زبان تو پنجابی کے ساتھ با محاورہ اردو بھی گھٹی میں ہی پڑگئی تھی کہ ہماری دائیاں امی کی ہمسائیاں کھیل کھلائیاں امی کی بڑی بوڑھی سمجھائیاں سب پٹودی کی تھیں ۔۔۔ جو بزرگوں اور پٹودی کی دانش سے کوٹ کوٹ کر بھری ہوئیں تھیں
خاص طور پر اماں مینا (اللہ بخشے) جن کی امی سگی بیٹی کی طرح تھیں ایک متانت بھری دانشمند متحمل خاتون کی سلجھی اور ٹھنڈی طبیعت کے حساب سے آج تک مجھے یاد ہیں
اور امی جی تو آخر تک ان کا ذکر اسی طرح کرتی تھیں جیسے ایک بیٹی ماں کا کرتی ہے
‘آپا مینا’ کا نام لیتے ہی ان کے لہجے اور انداز سے پیار اور احترام جھلکنے لگتا اور یہی حال اماں کا اور انکے سب بچوں کا بھی آج تک ہے کہ آپا رضیہ جیسے ان کی سگی بڑی بہن ہی تھیں کراچی میں ہیں اب سب لوگ اچھے لوگ تھے سب جہاں ہوں سلامت رہیں آمین ثم آمین
جاتے جاتے چند گیت

*اللہ میاں تیری درگاہ میں ہم نے ڈالا رومال
اوروں نے بویا اللہ بیلا چمیلی
اللہ میاں تیری درگاہ میں ہم نے بویا گلاب

بنا ہاں ہاں کرتا ڈولے میری لاڈو نہ بولے

*اری اے بنو میں آوں گا
تیرے دادا کے بنگلے اتروں گا
میرے دادا کے بنگلے جگہو نہیں
دادی پیاری کا پہرہ جاگے گا
میری رن جھن پائل باجے گی

کیس کھولے کھڑی لاڈو
اباجی میری مت کرو شادی
عمر بارہ برس کی ہے

*میرے راجہ جی لہنگا سلادو کالی بیل کا

*آ اترے آاترے
باغوں میں سپیرے آاترے
لے جاوں گا لے جاوں گا
گوری بین بجا کے لے جاوں گا
نہیں جاوں گی نہیں جاوں
تیری جات سپیرے نہیں جاوں گی
دیکھیں کیا کیا یاد آتا چلا جارہا ہے بچپن کے وہ گیت جو ڈھول پہ گلا پھاڑ پھاڑ کے بچیاں بوڑھیاں عورتیں لڑکیاں سب گاتی تھیں ۔۔۔ اور ہمارا تو گڑیا کی شادی کے فنکشن میں بھی پرات بجاکے روزانہ یہ سارےگیت گانا اور پاوں میں ایک دو دستیاب گھنگرو باندھ کر ٹھمکے لگانا بھی لازمی تھا
سندھی میں شادی بیاہ کے گیتوں کو ‘سہرا ‘کہا جاتا ہے اور ناچنے کو ‘جھمر’


تاریخ شادی مقرر ہوتے ہی دلہن کے لئے دولہا والوں کی طرف سے
‘ ونواہ ‘ کی رسم ادا کی جاتی ہے اس رسم کے لئے بھی عزیزوں رشتے داروں کی خواتین لڑکیوں کی ایک چھوٹی سی بارات ہی بن جاتی ہے منگنی کی رسم بھی اس کے ساتھ ہی ادا کی جاتی دلہن کے لئے چار پانچ جوڑے سینڈلز میک اپ پرسز سونے کی جیولری کا ایک سیٹ یا کم ازکم ایک انگوٹھی، مٹھائی ڈرائی فروٹ سب ناچتی گاتی جھمر ڈالتی دولہا کی بہنیں بھابیاں کزنز دولہن کے گھر لے کر جاتی ہیں دلہن کو تیار کر کے مٹھائی کھانا کھلانا اور گانا بجانا کیا جاتا ہے ‘ونواہ’ سے شادی کی رسومات کا آغاز ہوجاتا ہے ونواہ کے ساتھ ہی دلہن مایوں کی طرح پردے میں بیٹھ جاتی ہے بلکہ سسرالیوں کی طرف سے ونواہ کے سامان کے ساتھ اس کے لئے گوٹے کناری موتیوں ستاروں اور خوبصورت کڑھائی والا ایک لمبا نقاب بھی لایا جاتا ہے جس میں صرف آنکھوں کے دو سوراخ ہوتے ہیں کنوار شادی تک سب سے پردہ کر کے ایک الگ کونے یا کمرے میں نقاب پہنا کر بٹھا دی جاتی ہے سوائے ایک آدھ سہیلی یا گھر کی کسی خاص خاتون یا ابٹن منہدی والی کے علاوہ کوئی اس کی شکل نہیں دیکھ پاتا کہ چہرے کا نور سلامت رہے اور شادی کے دن بھی تمام صورتیں وغیرہ پڑھ پڑھا کے چہرے پہ دم کر دیا جاتا ہے پہلی بار رونمائی دولہا کے ہاتھوں ہی ہوتی پھر کوئی اور دیکھے تو دیکھے
روز ‘سہروں’ کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے میں پرانے دور کا لکھوں گی کہ وقت کے ساتھ بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے پٹودی والوں میں جہاں پان کھلائے جاتے تھے محلے میں سندھی فیملیز کی شادیوں میں سہرن میں ‘بیڑی ‘سرو کی جاتی سب خواتین وقفے وقفے سے ماچس سے بیڑیاں سلگا کر دھواں دھار ماحول بنائے چارپائیوں پہ بیٹھی ہوتیں ناچ گانے کے لئے چار پانچ میراثنوں یا گائینیوں کا ٹولہ ہوتا جو اکثر سانولی رنگت بھاری بھرکم وجود پہ چمکیلے کپڑے پہنے تیز میک اپ تھوپےہاتھ لہرا لہرا کر گانوں کی باری لگا رہی ہوتیں ایک ذرا قبول صورت اور نوجوان گائینی پوری محفل میں سہرے کے بولوں پر ہاتھ مٹکاتی لہراتی اور ناچتی پھر رہی ہوتی جو پوری محفل سے وار پھیر کے پیسے اکٹھے کرتی وار پھیر کے لئے سنجیدہ خواتین وار کر پیسے پکڑاتین کچھ زیادہ حجایتی محبتی اور قریبی رشتہ دارنیاں ایک دوسری کے گالوں پہ نوٹ رکھتیں جہاں سے وہ ناچتی گائینی آکر ہلکی سی چٹکی دبا کر لے لیتی ۔۔۔ محفل میں رنگ لگا رہتا ہر شادی میں کم ازکم آٹھ دس دن پہلے دولہا کے گھر کے باہر شہنائی والوں کا ڈیرہ لگ جاتا وہ رلیوں والی چارپائیوں اور کڑھائی والے تکیوں کے درمیان بیٹھے دن رات وقفے وقفے سے مخصوص دھنوں میں شہنائیاں بجاتے رہتے وقت پہ انہیں کھانا وغیرہ کھلادیا جاتا شادی کا سارے محلے کو پتہ جل جاتا دور کہیں بجتی شہنائیوں کی آواز سے ۔۔۔ شادی سے ایک دن پہلے ‘بکی’ کا buki کا فنکشن ہوتا جس میں پورا راج محلہ برداری عزیز رشتے دار انوائیٹڈ ہوتے بکی ایک محفل شادی ہوتی ۔۔۔ وہی ناچ گانا ، گائینیوں عورتیں پوری تیاری اور زیورات پہنے ۔۔۔ عموما بوڑھی عورتیں تک نتھ ٹیکہ سمیت اور پنج ست لڑی دہریاں جھمکے پہن کر تیار ہوتیں جس کے پاس جتنا زیور ہوتا عمر کا فرق رکھے بغیر سب نے دل کھول کر پہنا ہوتا ۔۔۔۔ بیڑیوں کا دھواں بھی ناچ رہا ہوتا گائینیاں بھی گلے پھاڑ پھاڑ کر سہرے گا رہی ہوتی اور ایک یا دو گائینیاں جھمر ڈال ڈال کے وار پھیر کے پیسے اکٹھے کر رہی ہوتیں ۔۔۔ پھر دولہا یا دلہن جس کا گھر ہے وہاں ‘ ڈاجو’ دکھانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا کوئی قریبی عزیزہ چارپائی یا کرسی پر کھڑی ہوجاتی ایک کپڑے پکڑائی جاتی وہ لہرا لہرا کر دکھائی جاتی
ھی کنوار جو ونواہ جو وگو ۔۔۔ ھی ویھان جو
ھی لانہون جو
ھی ستواڑے جو
اس کے علاوہ بھی کتنے ہی جوڑے جوتیاں پرسز اور میک اپ کا سامان
ہی کنوار جی اماں جو وگو
بھین جو
بھا جو
پی ء جو وگو
پنجابی اور اردو اسپیکنگز کے برعکس دولہا والوں کی طرف سے دلہن کے رشتے داروں کو بھی کپڑے دئیے جاتے بلکہ گاوں میں ابھی تک رواج ہے کہ لڑکی والوں کو سنگ (رشتے ) کے پیسے دئیے جاتے ہیں یا بدلے کا رشتہ ورنہ کوئی قدر نہیں ۔۔۔ دلہن اگر خوبصورت ہے تو پانچ چھ لاکھ بھی والدین لے لیتے ہیں پہلے دلہن کے بھائی کے لئے ان پیسوں سے شادی کا رشتہ لیا جاتا تھا اب اگر ادلہ بدلہ نہ بھی ہو تو تبدیلی یہ آئی ہے کہ ان پیسوں سے کچھ دلہن کو ہی جہیز دے دیا جاتا ہے کچھ بھائی کی شادی کا خرچ یا والدین کے کام آجاتا ہے
بہرحال شہروں میں اب مخلوط رسم ورواج تشکیل پا گئے ہیں جن میں والدین بھرپور جہیز کے ساتھ ساتھ سسرالیوں کی ساری خاطر مدارات اور شادی کی ضیافت کا بوجھ بھی اٹھانے لگے ہیں شہروں اور پڑھے لکھے طبقے میں پیسوں پہ سنگ لینا دینا اور ادلہ بدلہ بھی متروک ہوچکا ہے لڑکی کو بھر پور جہیز بھی دیا جانے لگا ہے اور لڑکی والوں کی طرف سےکھانا بھی بارات کو کھلایا جاتا ہے مگر اب بھی کوئی ایسا نہ کرے یا کمی بیشی ہو جائے تو نو پرابلم ۔۔۔ لڑکی والوں پر کوئی بوجھ نہیں شادی کا سارا خرچہ لڑکے والوں کے ذمہ ہوتا ہے جس میں لڑکی کا بیڈروم سیٹ کرنے سے لے کر دلہن والوں کے کپڑوں سے لے کر شادی کا کھانا کھلانا سب شامل ہے
ھی ‘کنوار جی دہری’ دلہن کا ست لڑا یا پنج لڑی ہار
کنوار جا جھمک
کنوار جو ٹکو
ہی کنوار جی نتھ
ھی کنوار جا کنگن
منڈریوں
کنوار (دلہن )گھوٹ (دولہا)
وغیرہ وغیرہ سونا سستا تھا تو پندرہ بیس تولے ہر ایک بنا لیتا تھا سب سے وزنی زیور گلے کا ہار ی پنج ست لڑی دہری ہوتی یہ نولکھا ہار کی طرح ہی ہوتی مگر لمبی لٹکی ہونے کی بجائے پانچ ساتھ سونے کے موتیوں کی لڑیاں وقفے وقفے سے خوبصورت تعویزوں کے ساتھ گلے کے ساتھ ساتھ چپک کر سینے کے اوپری حصے تک پھیلا ہوا خوش نما ہار ہوتا ہے گلوبند یا نو لکھے ہار کی جگہ سندھی فیملیز میں دہری دینے کا رواج تھا ساتھ جھمکے ٹیکہ، بھرواں نتھ ، وغیرہ وغیرہ
بکی کے آخر میں سب واپس گھر جاتی خواتین کو مٹھائی شکر وغیرہ دی جاتی
دوسرے دن منہدی بارات دولہا منہدی میں دونوں کے ہاتھوں پر آگے پیچھے تھوپ کر منہدی لگائی جاتی گیٹ گائے جاتے مٹکے کے ٹھنڈا پانی بھر بھر کر نہلایا دھلایا تیار کرایا جاتا دولہا سفید لباس یا بوسکی قمیض سفید شلوار اجرک سندھی ٹوپی پہن کر تیار ہوتا منہدی والے ہاتھوں میں گانا بھی باندھا جاتا سونے کی منڈیاں نئی گھڑی بھی ہوتی نئے بوٹ سہرا چھوٹا سا انکھوں ناک سے ذرا نیچے یا صرف چہرے کو کور کرتا ہوتا موتیوں کی لڑیوں والا ہوتا دولہا تیار ہوگیا سارے راج برادری عزیز و اقربا کی طرف سے نوٹوں کے ہار پہنائے جاتے جنج شہنائیاں دھل بجاتی ناچتی گاتی خواتین اور منہدی کے ساتھ بس وین یا ٹرالی پہ سوار ہوجاتی سارا راستہ ڈھول پر گانے گاتے بجاتے ، دلہن کے گھر اینٹری ہوجاتی کھانے کا انتظام دولہا والوں کی طرف سے ہوتا سب کے لئے دیگیں یا گھر سے پکا کے لے جاتے یا وہاں پکوائی جاتیں عموما گائے کے گوشت میں بھت ( پلاو ) پکوایا جاتا کبھی ساتھ گوشت کا سالن اور زردہ بھی ۔۔۔نکاح گانے بجانے کے بعد سب سے اہم فنکشن لائوں lahoun کا ہوتا ہے جو رات دو ڈھائی بجے ہی دونوں خاندان اور قریبی عزیز رشتے دار کرتے ہیں سہاگ رات عموما میکے میں ہوتی سیج پر لائوں کا خصوصی فنکشن ہوتا دولہا کی بہنیں اور دلہن کی بھی کوئی عزیز رشتے دار ان کے ساتھ بیٹھیں اور سب لوگ باری باری جوڑیوں کی صورت میں یا اکیلے آکر لائوں ڈیارتے ، آرسی مصحف کے علاوہ دولہا دلہن کا چاول چینی ایک دوسرے کے ہاتھوں میں بھرنا گرانا مٹھی کھول کر انگوٹھی نکالنا یا دولہن کے ماتھے پر روئی رکھ کر دولہا کا پھولوں کی طرح توڑنا ۔۔۔پھر لاہئوں کے دوران سب کا باری باری آکر ان دونوں کے ماتھوں کا آپس میں دو تین ٹکریں لگوانا ۔۔۔یا دوسری صورت میں ماتھے سے ماتھا ملانا اس رسم کے ختم ہوتے ہی حجلہء عروسی خالی کردیا جاتا ہے اور ان ساری رسموں میں اجنبی سے اجنبی دولہا دلہن بھی ہنسی مذاق اور کھیل کھیل میں شب عروسی کے لئے ذہنی طور پر بے حد قریب آجاتے ہیں ہاہاہا ۔۔۔۔

بڑی بھابی جو عمر میں سب سے چھوٹی ہے جب پہلا بچہ اللہ رکھے خیر سے عبدالرحمان پیدا ہوا تو ماشا اللہ خود کا ڈیل ڈول بھی اچھا تھا اسے وکھی پہ رکھ کے تری پھرتی
اور جب کسی دروازے سے گزرتی اپنا گزرنے کا حساب رکھ کے بچے کو بھول جاتی اور اکثر ٹھاہ بچے کا سر چوگاٹھ میں وجتا ۔۔۔ بچہ روتا امی کو اور مجھے ہنسی آجاتی اور وہ سٹپٹا جاتی کہ بچے کو کیا ہوا ؟
اکثر اس سے پہلے بچے پر یہ حرکت سرزد ہوئی بالآخر پھر دروازے پہ ایک لمحہ رک کے اپنا اور بچے کے سائیز کا موازنہ کرکے گزرتی چوگاٹھ سے بچ کے ۔۔۔ آج وہی میرے ساتھ ہوا کل سے ناک ناک کر رہی تھی ۔۔۔ وضو کر کے جونہی باتھ روم سے نکلی آنکھیں پانی سے جھلملائی ہوئی ہلکا سا لڑکھڑاکے ٹھاہ چوگاٹھ پہ وجی ڈائریکٹ میری ناک ۔۔۔ بس بیچ میں سے ہڈی ٹوٹنے سے بچ گئی ۔۔۔
سر تک درد کی لہر محسوس ہو رہی ہے
میری توبہ پتہ ہے کوئی انسان کا
اللہ سب کو خیر سے رکھے اور اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین ۔۔۔ ایک دفعہ تیز رفتارچلتی ٹرین میں ایک چھوٹا سا پتھر باہر سے اڑ کر آکر میری ناک پہ لگا تھا خوامخواہ ہی ۔۔۔
ناک سے خون بہہ نکلا امی جی ساتھ تھیں فورا دوڑ کے صاف کیا آنکھوں میں نمی الگ تھی تکلیف سے
مگر اس وقت ناک کے بیچ جو چوکھٹ لگی ہے نا ۔۔۔ بھیجا بھی محسوس کر رہا ہے اس جھٹکے کو
اللہ معاف کرے
خود ہی خود کو نظر لگالیتی ہوں بغیر آئینہ دیکھے ۔۔۔ جو پچھلے مہینوں یا کہہ دوں سالوں سے شائید ہی ڈھنگ سے کھڑے ہوکر دیکھا ہو ۔۔ آئینہ مجھے متاثر نہیں کرتا اب ۔۔۔ ہاہاہا
گردش ماہ و سال میں رہا کیا ہے مجھ میں
بس اک پرانا دل ہے جو تجھے بھائے گا
‘خیال خام ‘ سے ایک پرانا شعر یاد آگیا

کل بالکل تازہ چپیڑ امی سے کھائی وہ بار بار اٹھانا بٹھانا کھلانا پلانا پسند نہیں کرتیں جو بھی ایسی کوشش کرے وہ ڈانٹنا ڈپٹنا شروع کر دیتی ہیں اور اگر قابل دسترس ہو تو ایک دو جڑ بھی دیتی ہیں…. اتفاقا کل میرا منہ انکی چپیڑ کی رینج میں تھا ایک بازو تو انکا پیرالائزڈ ہی ہے دوسرا آج سے پندرہ سال پہلے فریکچر کے باعث ابھی تک محدود حرکات و سکنات ہی کر سکتا ہے….
میری شامت میں نے انہیں اٹھادیا میرا گال سیدھا انکی رینج میں تھا مگر انکی چپیڑ بہت نرم ہوگئی ہے اب…. گال پر تو خیر کبھی نہیں کھائی تھی مگر یہ چپیڑ واقعی بڑی ہلکی پھلکی تھی اور پیاری بھی اور وہاں موجود بچوں کے لئے حیرت ناک اور خوشگوار بھی….. کہ بے ساختہ ان کی فواروں جیسی ہنسی چھوٹ گئی

ریڈیو کے بارے میں میرا تصوراتی یقین تھا کہ اس میں سے جو بھی آوازیں آرہی ہیں سارے لوگ اس کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں دو گلیوں
سائیڈوں پر آمنے سامنے…. کونوں پر طبلہ ڈھولک بانسری اور میوزک والے جو اناؤسمنٹ کے بعد گانا بجانا شروع کر دیتے ہیں…. اور یہ تصور اتنا پختہ تھا کہ ریڈیو سنتے ہوئے میں ان سب کو باقاعدہ تصور میں اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے ایک چھوٹے سے ڈبہ نما ریڈیو میں دیکھ رہی ہوتی تھی… ملکہء ترنم نورجہاں کے گانے پر ملکہء ترنم نورجہاں بنفس نفیس ریڈیو کے ڈبے میں موجود گا رہی ہوتی تھیں پھر کسی کمرشل والے ڈبے میں بول پڑتے تھے تجسس یہ ہوتا تھا کہ یہ اندر گھسے کس وقت اور کیسے؟ اب نکلیں گے گانے کے بعد تو بہ نفس نفیس دیکھنے کا شوق پورا کروں گی….. کتنا معصوم بچپن تھا نا

جس بھی بچے کا شناختی کارڈ بن گیا ہے اس پہ ٹیکس ریٹرنز بھرنا لازمی کردیں اسی طرح پوری قوم ٹیکس نیٹ ورک میں آجائے گی
روز سو روپیہ خرچی کی انکم ہوئی
مہینے کے تین ہزار + بارہ مہینے 3600
دونوں عید ین پر ملے دوہزار
مہمان پکڑا گئے پانچ سو
ٹوٹل انکم 38500
ایکسپینڈیچر ۔40000
پندرہ سو بہن بھائیوں سے ادھار پکڑا
منافع 1500 –
اب بھر دیں ریٹرنز
یہی سارا کچھ مختلف خانوں میں لکھ کر
ٹیکس پے ایبل = 0
ریٹرنز فائل ہوگئے
بچہ بچہ فائلر بن کے اپنی زندگی کی رعایتیں انجوائے کرے
پوری قوم ٹیکس نیٹ ورک میں آگئی ۔۔۔ آئی کہ نہیں ؟
یارو ۔۔۔ مجھے وزیر خزانہ بنادو
ہاہاہا ۔۔۔۔
آئی ایم فرسٹ کلاس ٹو ڈیل ود آئی ایم ایف ٹو۔۔۔ کہ ھن تے سارا پاکستان بچہ بچہ ٹیکس دے رئیا اے فیر وی ساڈا خزانہ کھالی اے تے بھر ھن انہوں ماسی ۔۔۔!

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Mother Language title
Read More

ماں بولی

!پنجابیو پنجابی بولوپنجابی لکھوپنجابی پڑھوایویں تے نئیں میں سکھ لئی سی یار پنجابیماں بولی سی جمدیاں میرے نال…
Read More