یادش بخیر 6

Front view of a smiling woman

تین بج کر اٹھارہ منٹ اذان فجر ان مائی ایریا ایٹ لاہور

آج نیند بہت ڈسٹرب رہی پہلے ٹائیم سو گئی بارہ بجے سے اب تک سو جاگ ۔۔سو جاگ رہی ہوں ۔۔ پینا ڈول کھائی ہے  اب ہلکا سا ٹمپریچر کل سے ہی لگ رہا تھا

اب کیا سونا۔۔۔ نماز تلاوت اذکار ٹائیم شروع ہو رہا ہے روز کا ایک سیپارہ پڑھتی ہوں کچھ مختصر دعائیں اذکار موبائل میں سیو ہیں چند ایک تسبیحات ۔۔۔ خضوع و خشوع جب حاصل ہو تو لطف آتا ہے ورنہ وہی رٹی رٹائی عبادت  کی کوشش ۔۔۔ بس اللہ جو بھی کمی بیشی کوتاہی ہے سب درگزر کرکے اپنی رحمت اور شفقت کی نظر رکھے آمین اور اپنے حبیب صلی اللہ وسلم کی شفاعت اور اپنے کرم سے نوازے آمین ۔۔۔دنیا و آخرت میں ہم سب سے بھلائی کا معاملہ کرے  آمین

ہم عاجز گنہگار اس کے کرم کے طالب ہیں

مناجات دل سن لے کہ

دل رقت زدہ ہے

 ہاتھ بندھے ہوئے فرقت سے

 پژ مردہ و آزردہ ۔۔۔

 کہاں ہے کہاں ہے

 کہ سات آسماں کو تیری جستجو ہے

میری رگ گلو بھی سست ہوچلی یے

مری نظر تجھے ڈھونڈتی ہے

کہاں ہے ۔۔۔۔

دیکھتی ہوں یہں ہے

مگر قریں نہیں ہے

کیوں ؟

کیوں ۔۔۔۔

نظر ملا نا

مجھے ہنسا نا

مجھ پہ مسکرا نا

اے ستر ماوں کی محبت والے

اے ستر ماوں کی شفقت والے

مناجات دل سن لے

مجھ سے آگاہ

میری کمتری کے رازداں

ہاتھ بندھے ہیں

کہنیوں تک بندھے ہیں

دعا کو کھولوں تو

بے شمار ہے کرم کا معاملہ

کمی رہی کیا ؟

کبھی رہی نا

کبھی رہی نا

کبھی رہی نا

۔۔۔۔۔

شکر کا سودا سما رہا ہے

پھر دل تجھ سے محبت پہ اترا رہا ہے

اتراتا رہا ہے

مسکرا رہا ہے

مرے ہاتھ میں ترا ہاتھ ہے

دل گنگنا رہا ہے

سبحان اللہ

الحمد للہ

اللہ اکبر

میرے پیارے رب

پیار کرنے والے

بے شمار بے شمار بےشمار ستاروں کے خالق

مرا نصیب بھی جگمگا رہا ہے

شکر الحمد للہ

دوزانو ہوں

سجدہ ابھی کچھ دور ہے

مگر دل ابھی سے مسحور ہے

سبحان اللہ

سبحان اللہ

شکر الحمد للہ

 اللہ اللہ کرتے ہیں

اللہ ہی کا دم بھرتے ہیں صبح وشام

ہمیں کسی سے کیا کام اور کلام

یرحمک اللہ

 بارک اللہ

۔۔۔۔ سارا دن ہیریاں پھیریاں ہوجائیں تو اے بزرگ و برتر دانا و و مدبر  ، بے نیاز نہ ہوا کر ۔۔۔ محبت کی نظر رکھا کر

اپنی بھیڑ کو اپنی طرف ہانک لیا کر

مجھے اپنے کھونٹے سے باندھ رکھ

کہ میرا کوئی اور ٹھکانا نہیں

قسم سے میرا تیرے سوا کوئی ٹھکانہ نہیں

مجھے اپنی اتنی بڑی کائنات میں دربدر نہ کرنا

اپنے ہی کھونٹے سے باندھ رکھنا

کہ میں تیری محبت کی اسیر ہوں کب سے

مجھے اس محبت کا صلہ چاہئے

تیری نظر کرم

تیرا حوصلہ چاہئے

اس عالم  بیگانہ میں تو ہی میرا ہے

مجھے یہ یقیں یہ جزا چاہئے

اور اگر تیری رحمت اور شفقت کی نظر بھی ہمہ وقت گر مجھ پہ ہو تو

سب مل گیا اور کیا چاہئے

سبحان اللہ سبحان اللہ شکر الحمد للہ

یہ کائنات تری تسبیح ہے

اور یہ زمیں سجدہ گاہ ہے

اور اس سے بڑھ کر اسے کیا مرتبہ چاہئے

خدا چاہئے بس خدا چاہئے

خدا چاہئے بس خدا چاہئے

خداوندا سبحان اللہ

تری حمد کا حوصلہ چاہئے

مری روح کا بیاں چاہئے

خدا چاہئے خدا چاہئے

سبحان اللہ سبحان اللہ

تیرے حضور تری بارگاہ میں

مری حاضری قبول ہو

نظر کرم کا آسرا چاہئے

صلہ چاہئے صلہ چائے

محبت کا صلہ چاہئے

مسکرادے کہ

اس کے سوا اور کیا چاہئے

سبحان اللہ سبحان اللہ

شکر الحمد للہ ۔۔۔

جزا چاہئے جزا چاہئے

مجھ کو ترا آسرا چاہئے

اور سدا چاہئے سدا چاہئے

I think I m a real comedian by heart ❤️ 💙 💜

برجستہ جملوں کی کامیڈی تو ٹین ایج سے سرزد ہوجاتی تھی ۔۔۔ مگر اب جب بڑھاپا ذرا ذرا منچلا اور حوصلہ مند ہونے لگا ہے حرکات کی کامیڈی بھی کر لیتی ہوں ۔۔۔ منور ظریف اور رنگیلے کی طرح ۔۔۔۔ہاہاہا

“میرے ہاتھوں میں نو نو چوڑیاں ہیں”

کل سے شبانہ کہہ رہی تھی چاندنی فلم دکھاو یا گانے ۔۔۔جب بھی آئی میں نے اولڈ بلیک اینڈ وائیٹ پاکستانی دھندلا پرنٹ لگا کر بھول گئ کہ اسے کیا پسند ہے

وہ چڑ کر واپس چلی گئی اس کے ٹی وی کا ریموٹ بگڑا ہوا ہے

چاندنی کا گانا لگایا ساتھ اپنی اسسٹنٹ ازکی کو بلایا اور اس پر ڈانسنگ ایکسرسائز پرفارم کردی بیٹھے بیٹھے ہی  اچھل کود کر ۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ اور اسے وڈیو کلپ واٹس اپ کردیا

دل تو بچہ ہے نا !

ابھی اس کا جواب نہیں آیا

جو رچھنی ان ایکشن بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔ ہاہاہا ۔۔۔ہاہاہا

اسی سال کی ہوجاوں پھر یہاں بھی ایسے کامیڈی کلپ ڈال دوں گی

ابھی ذرا کم عمر ہوں نا ۔۔۔ اتنی واضح حماقت کا حوصلہ نہیں پڑ رہا ۔۔۔ہاہاہا

 ویسے اتنا شکر ہے پاکستانی ایک بہت زندہ دل اور پر مزاح قوم ہے جن ٹیکسوں پہ احتجاج بنتا ہے چیخیں بنتیں ہیں ہم فائلر نان فائلر کے لطیفے چھوڑ چھوڑ کر ہنس ہنسا رہے ہیں اور اپنی بے بسی کو لطیفوں میں اڑا رہے ہیں ۔۔۔

 پاکستانی زندہ باد

پاکستانی ایک ہنستی ہنساتی زندہ دل  قوم آف دا ورلڈ

خوش رہو

مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں

Stay blessed we all !

 بچپن میں ایک کہانی سنی تھی ابوجی سے، کہ جادوئی سفید گھوڑا بہادر شہزادے کو آخر میں چند بال دیتا ہے کہ جب بھی ان کو دھوپ دکھاؤ گے میں اڑتا ہوا حاضر ہو جاؤں گا اور تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا.

ازکی نے سر سے ایک بال توڑ لیا ہیئر اسٹائلنگ کا شوق پورا کرتے ہوئے…

“پھپھو یہ کیسا بال ہے؟ آدھا کالا سفید اور اورنج…. “

“اف.. یہ کیا تم نے ڈھونڈ لیا یہ تو” وش ہیئر” ہے جسے مل جائے اسکی ایک وش ضرور پوری ہوتی ہے…. وش بتاؤ ” من کچھ سخاوت پہ مائل تھا

“ہنڈرڈ روپیز “

اسے دے دئیے وہ پبلسٹی مشن پہ لگ گئی

کچھ دیر بعد چار بچے اکٹھے میرے سر سے لگے ‘وش ہئیر’ ڈھونڈ رہے تھے اور میں ننھے ننھے ہاتھوں سے سر سہلانے کا آنند لے رہی تھی

چند ایک اور تلاش کئے انہوں نے مگر وہ وش ہئیر کی تعریف پر پورے نہ اترے کہ

وش ہیئر، روٹ سے کالا بیچ سے اورنج اور ٹپ سے سفید…. ڈیفائن کیا تھا میں نے بہ…

جب بھی ناشتہ کرتی ہوں بلی سامنے آکر بیٹھ جاتی ہے اور سوالیہ نظروں سے دیکھنا شروع کردیتی ہے تین بچوں کی ماں ہے بھوک تو لگتی ہوگی مگر کچھ عادتوں کی اچھی ہے میاؤں میاؤں کرکے شور  نہیں مچاتی…. میں اسے آملیٹ ہی ڈال دیتی ہوں تھوڑا تھوڑا کرکے…. آج ایک بلونگڑا بھی آگیا آملیٹ سونگھا چکھا پھر کھانے لگا…. ماں چپ چاپ ایک طرف ہوگئی میں دونوں کو الگ الگ بائیٹس دینے لگی ماں خوابیدہ ہی پڑی رہی بلونگڑا اس کے آگے سے بھی کھاتا رہا پیٹ بھرتے ہی بلونگڑا جونہی بھاگ کر پرے ہوا…. بلی چھلانگ مارکر ایکٹو ہوگئی اور بچا ہوا آخری ٹکڑا رغبت سے کھانے لگی….. میرے خدا یہ ماؤں کو کون مامتا سکھا جاتا ہے !؟

جب سے بلونگڑے پیدا ہوئے ہیں بلی مامتا کی عظمت اور متانت کی تصویر بنی دھیمی چال چلتی رہتی ہے اور بچے اس کے آگے پیچھے چھلانگیں لگاتے رہتے ہیں وہ پرسکون بیٹھی انہیں کھیلتے دیکھتی رہتی ہے کبھی کبھار لیٹی ہوئی دم ہلاتی رہتی ہے اور وہ اچھل اچھل کر دم چھلے بنے کھیلتے رہتے ہیں….. چومنا، کھیلنا، پیار کرنا، گلے لگانا ، ایک ماں کے سارے ہی ہنر اسے آتے ہیں پیرنٹل کئیر ایک جبلی رویہ ہے سائنس مین یہ باقاعدہ ایک مضمون کا حصہ ہے شہد کی مکھی چیونٹیوں سے لے کر پرندوں، ممالیہ جانوروں، بندروں، انسانوں سب ماؤں اور بعض جگہ میل پیرنٹس بھی اس جذبے سے سرشار ہوتے ہیں

اللہ کی قدرت ہے

اس نے ستر ماؤں کی محبت جگہ جگہ بانٹ رکھی ہے

اور مجھے تو جیسے سارے جہان کی اماں بنادیا ہے…. ہاہاہا

اب سو گئی تو نمازن کو

جا گنے میں مشکل ہوگی ۔۔۔۔

پھر عید ہے  تو دنیا بھر کو عید مبارک عیدمبارک بھی کرنا ہے

یہ شعر نہیں کیفیت ہے

منہدی نئیں لائی اج اجا نے ۔۔۔

سوچ لیا تھا اس بار نہیں لگاوں گی

کیونکہ عجیب عجیب کونز آگئی ہیں وقتی طور پر بہت اچھی لگتی ہے  مگر منہدی اترتے اترتے مہینہ لگ جاتا ہے اور  بڑی بدصورتی سے اترتی ہے

ہاں میری مانو بلی آگئی کون لے کر تو لگا کر ہی جائے گی

میں اکثر عید پر منہدی لگانا پسند کرتی ہوں کہ بچپن میں اک بار رہ گئی تھی منہدی تو سفید ہاتھوں سے سویاں کھاتے مجھے رونا آرہا تھا ۔۔۔ہاہاہا

جاب کے دوران بڑا عرصہ نہیں بھی لگاتی تھی

کہ اسٹوڈنٹس کے سامنے تختہ ء سیاہ پر منہدی لگا کر چوڑیاں چھنکاتی لیکچر دیتی خاصا ان سوبر امپریشن ڈ لے گا ۔۔۔۔  کسی زمانے میں تو لیکچر گاون پہننا بھی لازم تھا پھر رعایت ہوگئی نت نئے ڈریسز کی نمائش کی  مگر ایک سوبر امپریشن لازمی تھا اسٹوڈنٹس چھوٹی بچیوں کی طرح کی طرح اوٹ پٹانگ ڈریسز ۔۔۔ نو نیور اسپیشلی آ پروفیسر شی آر ہی شوڈ فالو آ ڈیسنٹ یٹ ان ڈیفائنڈ ڈریس کوڈ آلویز اف ناٹ وئیر نگ گاون

اینڈ دیٹ کوڈ بھی لیٹسٹ ڈیزائنر ڈریس بٹ اسٹچڈ ویری ڈیسنٹلی  ۔۔۔۔ گلبرگ کالج کی حد تک تو میں نے خود ایک سینیئر پرنسپل کو ہلکی پھلکی سرزنش کرتے سنا تھا جب ایک الٹرا موڈ ٹائیپ اسکن  کلر کا سکن ٹائیٹ ٹراوزر۔۔ جامہ زیب کر آئی تھیں اور انہوں نے بھی اعتراض کو معقول سمجھتے ہوئے آئندہ کئیر فل رہنے کا ارادہ  ظاہر کیا ۔۔۔ ساڑھی ہمارے دور سے پہلے ٹیچرز کا پسندیدہ پہناوا تھی مگر میرے دور میں متروک ہوچکی تھی اس لئے میں آج تک معقول ڈریسنگ ہی کرتی ہوں  ایک دور میں پاجامہ ٹائیپ چیزیں بھی سینئرز نے اوائڈ کیں ۔۔۔ میں نے بھی کبھی

 پا جامہ یا ٹراوزر بحیثیت پروفیسر پسند نہیں کیا ۔۔ مناسب سائیز کا شلوار قمیض ود دوپٹہ خالص پاکستانی لباس ۔۔۔ جیسا مریم نواز اور دیگر ورکنگ وومین پہنتی ہیں دیٹ واز دا ڈریس کوڈ اف ناٹ وئیرنگ گاون ۔۔۔ باقی کرنے والیاں اب بڑی بڑی اپنی مرضیاں کر جاتی ہیں ۔۔۔ مگر سب کے باوجود پروفیسرانہ ڈیسنسی کو ضرور ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے

ہاں تو عید پر بھی چوڑیاں منہدی چھوڑ دی تھی کہ  لڑکیوں کی توجہ لیکچر سے زیادہ چھنچھناہٹ اور منہدی پر مبذول رہے گی ۔۔۔ خوبصورت جیولری بٹ ناٹ ویری ہیوی واز ایکسپٹ ایبل آئی تھنک سونے کی چوڑیوں کی حد تک برداشت کر لیا گیا  (کانچ کی نہیں  ) اکثر نت نئے ڈریسز اور مناسب حد تک  ہلکی پھلکی تیاری ہلکی پھلکی گولڈ (ڈائمنڈ)  ہی ٹھیک مانی جاتی ہے ۔۔۔ فنکشنز کی بات الگ ہے آ بٹ موڈ اینڈ فری اسٹائل بٹ یٹ موڈریٹ ۔۔۔

میری بہت ساری پاری پاری اسٹوڈنٹس بچیاں مجھے یاد آگئیں ۔۔۔ کتنے پیار کرنے والے متاثر چہرے نظر میں آگئے اللہ سب کو سلامت رکھے کامیاب اور خوشحال زندگیاں نصیب کرے سب کو دلی عید مبارک ۔۔۔

ویسے دادو میں تو میری ساری ہی اسٹوڈنٹس ماشاءاللہ  ماشاءاللہ  خوشحال ( ہاوس وائف ہیں) یا اگر  کالج اسکولز کی بات کی جائے تو ساری ٹیچرز میری اسٹوڈنٹس ہیں اور میرے اپنے کالج کا آدھا سٹاف میری سٹوڈنٹس ہیں جو خود خیر سے اب اٹھارویں انیسویں گریڈ میں ہیں  بے شمار ڈاکٹرز غرضیکہ ہر فیلڈ میں روحانی اولاد اپنا آپ منوارہی ہے سندھ کی حد تک بھی اور لاہور میں بھی شکر الحمد للہ بلیسڈ بلیسڈ ۔۔۔

 مگر اب وہ  پرانی اسٹوڈنٹس خاص طور پر دادو میں ماشاءاللہ  خود بھی ٹین ایج سے اتنی تبدیل ہو چکی ہیں کہ اگر مل جائیں تو پہچان نہیں پاتی  جب تک وہ تعارف نہ کروائیں وہ مجھے ہر حال میں پہچانتی ہیں یہی تو خوش بختی ہوتی ہے ایک استاد کی کہ بوڑھا ہوکر بھی  ایک آئیڈیل سی شخصیت بنارہتا ہے جس نے کچے ذہنوں میں اس قدر گھر کر لیا ہوتا ہے کہ وہ جب بھی دوچار دوست اکٹھے ہوں اور ماضی کو یاد کریں اپنے اچھے استادوں کے بارے میں بھی ناسٹلجک ہوجاتے ہیں

جیسے مجھے پرائمری کی کنیز باجی بشرا باجی سے لے کر قائد اعظم یونیورسٹی کے سر شامی اور میڈم ثمینہ جلالی تک سب یاد ہیں ۔۔۔ سارے استادوں سارے شاگردوں گھروالوں دوستوں عزیزو اقربا مہربان ہستیوں کو دل سے پیار اور عید مبارک سلامت رہیں سب آمین ثم آمین

 بوڑھی باگڑی عورت بچے کا ہاتھ تھامے

گھاگرا چولی کالے عنابی رنگوں کا

مضبوط ڈیل ڈول

مہمان بنی وارد ہوتی ہے

شام کے اندھیرے میں

میرا گھر اگرچہ خوب روشن ہے

میں خربوزے کی

پھانکیں کاٹ رہی ہوں

آج دوپہر بہت سے خربوزے

ایک ایک پھانک چکھے ہیں

میٹھا خربوزہ تلاش کرتے ہوۓ

سب کی اک اک پھانک کٹی ہوئ ہے

قریب آنے پر وہ اک چوڑی چکلی

 الہڑ سی نوجوان لڑکی  ہے

میں میزبانی کا

اخلاقی تقاضہ نبھاتے ہوئے

چارپائی پہ اسے لے کر بیٹھی ہوں

اگرچہ یقیں ہے پکا یہ رستہ بھولی ہے

مہمان کسی اور گھر کی ہے

کہاں آئ ہو….کچھ جانتی ہو مجھ کو؟

وہ مجھ سے ملنے کی

 بے ساختہ خوشی میں

بے ہنگم بولے جا رہی ہے

 الہڑ پن سے

عجیب سے لہجے میں

جو اچھا بھی لگتا ہے….

مجھے پہچانتی ہو تم؟

(جو ایسے اپنا بن بیٹھی ہو)

ہاں….آپا کی بیٹی عزرا

وہ امی کا نام بھی لیتی ہے

(واقعی یہ تو ہمارے ہی گھر آئی ہے)

میرا نام گیتا ہے

وہ بتلاتی ہے

میں نے کبھی نہیں دیکھا پہلے!؟

جب تم اسلام آباد تھیں

میں روز آیا کرتی تھی

وہ بہت بڑبولی ہے

سانس لیے بغیر عجیب سے لہجہ

میں بولتی جارہی ہے

وہ ایک جملہ ادھورا چھوڑ کے

دوسرا بولنے لگ جاتی ہے

اس خوف سے کہ وقفے میں

میں اسکی بات نہ سننا چاہوں….تو!؟

کچھ اور یاد کرتے ہوئے

جلدی میں کچھ غلط بیانی ہونے والی ہے

کہ وہ میرے لبوں پر

ہلکی سی چپت لگاتی ہے

چپ…چپ…

ارے بول تو تم رہی ہو

اپنے ہونٹوں کو چپت لگاؤ

مجھے وہ الہڑ دوشیزہ

 اچھی بھی لگتی ہے

اپنے لہجے معصومیت میری چاہت

اور باتونی عادت کے باعث

میں اٹھنا چاہتی ہوں

وہ پھر مجھے پکڑ کے بٹھا لیتی ہے

امی آجاتی ہیں

امی یہ  مہمان ہےآپکی!

اٹھ جاتی ہوں جگہ دے کر

اسکی اک چپت ہنس کر دہراتے ہوۓ

پھر کچھ دور سے اسکو دیکھا ہے

گیتا گاؤں کی گنوار

 ہانکے  جاتی ہے ایسے کہ

اسکے منہ میں دانتوں پہ

تھوک بھرا  ہے جلدبازی کے باعث

اور وہ بولے جاتی ہے

مجھے کراہت آتی ہے اور

میں جان بھی گئی ہوں

اسکا مقصد

گیتا مجھ سے

 زکوات لینا چاہتی ہے

 (یہ تھا رات کا سپنا عزیزو

جسکی تعبیر یہ ہوئی کہ صبح کام والی پرانی ماسی کی امی سے باتیں کرتی آواز سے آنکھ کھلی جو جانگلی لہجے میں پنجابی بولتی ہے اور کافی عرصے کے بعد آئ تھی جسکا نام گیتا نہیں جسے میں شرارت سے ماسی مصیبتے کہتی ہوں اور وہ بڑا انجواۓ کرتی ہے)

 )

تین بج کر اٹھارہ منٹ اذان فجر ان مائی ایریا ایٹ لاہور

آج نیند بہت ڈسٹرب رہی پہلے ٹائیم سو گئی بارہ بجے سے اب تک سو جاگ ۔۔سو جاگ رہی ہوں ۔۔ پینا ڈول کھائی ہے  اب ہلکا سا ٹمپریچر کل سے ہی لگ رہا تھا

اب کیا سونا۔۔۔ نماز تلاوت اذکار ٹائیم شروع ہو رہا ہے روز کا ایک سیپارہ پڑھتی ہوں کچھ مختصر دعائیں اذکار موبائل میں سیو ہیں چند ایک تسبیحات ۔۔۔ خضوع و خشوع جب حاصل ہو تو لطف آتا ہے ورنہ وہی رٹی رٹائی عبادت  کی کوشش ۔۔۔ بس اللہ جو بھی کمی بیشی کوتاہی ہے سب درگزر کرکے اپنی رحمت اور شفقت کی نظر رکھے آمین اور اپنے حبیب صلی اللہ وسلم کی شفاعت اور اپنے کرم سے نوازے آمین ۔۔۔دنیا و آخرت میں ہم سب سے بھلائی کا معاملہ کرے  آمین

ہم عاجز گنہگار اس کے کرم کے طالب ہیں

مناجات دل سن لے کہ

دل رقت زدہ ہے

 ہاتھ بندھے ہوئے فرقت سے

 پژ مردہ و آزردہ ۔۔۔

 کہاں ہے کہاں ہے

 کہ سات آسماں کو تیری جستجو ہے

میری رگ گلو بھی سست ہوچلی یے

مری نظر تجھے ڈھونڈتی ہے

کہاں ہے ۔۔۔۔

دیکھتی ہوں یہں ہے

مگر قریں نہیں ہے

کیوں ؟

کیوں ۔۔۔۔

نظر ملا نا

مجھے ہنسا نا

مجھ پہ مسکرا نا

اے ستر ماوں کی محبت والے

اے ستر ماوں کی شفقت والے

مناجات دل سن لے

مجھ سے آگاہ

میری کمتری کے رازداں

ہاتھ بندھے ہیں

کہنیوں تک بندھے ہیں

دعا کو کھولوں تو

بے شمار ہے کرم کا معاملہ

کمی رہی کیا ؟

کبھی رہی نا

کبھی رہی نا

کبھی رہی نا

۔۔۔۔۔

شکر کا سودا سما رہا ہے

پھر دل تجھ سے محبت پہ اترا رہا ہے

اتراتا رہا ہے

مسکرا رہا ہے

مرے ہاتھ میں ترا ہاتھ ہے

دل گنگنا رہا ہے

سبحان اللہ

الحمد للہ

اللہ اکبر

میرے پیارے رب

پیار کرنے والے

بے شمار بے شمار بےشمار ستاروں کے خالق

مرا نصیب بھی جگمگا رہا ہے

شکر الحمد للہ

دوزانو ہوں

سجدہ ابھی کچھ دور ہے

مگر دل ابھی سے مسحور ہے

سبحان اللہ

سبحان اللہ

شکر الحمد للہ

 اللہ اللہ کرتے ہیں

اللہ ہی کا دم بھرتے ہیں صبح وشام

ہمیں کسی سے کیا کام اور کلام

یرحمک اللہ

 بارک اللہ

۔۔۔۔ سارا دن ہیریاں پھیریاں ہوجائیں تو اے بزرگ و برتر دانا و و مدبر  ، بے نیاز نہ ہوا کر ۔۔۔ محبت کی نظر رکھا کر

اپنی بھیڑ کو اپنی طرف ہانک لیا کر

مجھے اپنے کھونٹے سے باندھ رکھ

کہ میرا کوئی اور ٹھکانا نہیں

قسم سے میرا تیرے سوا کوئی ٹھکانہ نہیں

مجھے اپنی اتنی بڑی کائنات میں دربدر نہ کرنا

اپنے ہی کھونٹے سے باندھ رکھنا

کہ میں تیری محبت کی اسیر ہوں کب سے

مجھے اس محبت کا صلہ چاہئے

تیری نظر کرم

تیرا حوصلہ چاہئے

اس عالم  بیگانہ میں تو ہی میرا ہے

مجھے یہ یقیں یہ جزا چاہئے

اور اگر تیری رحمت اور شفقت کی نظر بھی ہمہ وقت گر مجھ پہ ہو تو

سب مل گیا اور کیا چاہئے

سبحان اللہ سبحان اللہ شکر الحمد للہ

یہ کائنات تری تسبیح ہے

اور یہ زمیں سجدہ گاہ ہے

اور اس سے بڑھ کر اسے کیا مرتبہ چاہئے

خدا چاہئے بس خدا چاہئے

خدا چاہئے بس خدا چاہئے

خداوندا سبحان اللہ

تری حمد کا حوصلہ چاہئے

مری روح کا بیاں چاہئے

خدا چاہئے خدا چاہئے

سبحان اللہ سبحان اللہ

تیرے حضور تری بارگاہ میں

مری حاضری قبول ہو

نظر کرم کا آسرا چاہئے

صلہ چاہئے صلہ چائے

محبت کا صلہ چاہئے

مسکرادے کہ

اس کے سوا اور کیا چاہئے

سبحان اللہ سبحان اللہ

شکر الحمد للہ ۔۔۔

جزا چاہئے جزا چاہئے

مجھ کو ترا آسرا چاہئے

اور سدا چاہئے سدا چاہئے

 میرے خدا رات کچھ اسی قسم کا خواب دیکھا تھا ۔۔۔پھر وہی دہراو سال بھر کے موسموں کی طرح ۔۔۔خواب میں لاڑکانہ گھر پہنچنے کی جلدی ہے میھڑ باڈہ یا بیچ کے کسی شہر میں کہیں سے آکر کھڑی ہوں ساتھ رابعہ ہے جو اکثر جامشورو دادو سفر میں ہم سفر ہوتی تھی گاوں کے کسی لوگوں کا گھر ہے ڈھلتی شام گھر پہنچنے کی جلدی سواری کی وین کا انتظار ۔۔۔ اس گھر کا بوڑھا بابا شخص ہمیں جلدی جلدی ایک گاڑی میں بٹھا دیتا ہے اپنی بوڑھی بیوی اور پوتی کے ساتھ ازراہ مھربانی وہ کہیں جارہے ہیں اپنے رشتہ داروں  کی طرف ۔۔۔ساتھ ہمیں بھی بٹھا لیا ہے کہ چڑھ جاو گاڑی میں شام رات میں ڈھلنے والی ہے

“ارے یہ تو بیل گاڑی ہے ہم کب لاڑکانہ پنہچیں گے ہمیں وین میں بٹھائیں جو فراٹے بھرتے لاڑکانہ لے جائے “

“یہی ہے بیٹھ جاو “

بیل گاڑی بیل گاڑی کی طرح چل رہی ہے بلکہ چلانے والا کچھ زیادہ ہی  ڈھیلا ہے ۔۔۔ بیچ میں باڈہ شہر کا بازار آتا ہے خوبصورت روڈ نما گلی سا رات کے وقت روشن اور اور دونوں اطراف دکانوں پہ ست رنگ سبزیوں اور ست رنگے پھلوں سے  دو رویہ قطاروں میں بھرا ہوا بیل گاڑی وہی ٹھمک ٹھمک  ۔۔۔ رات ہوگئی ہے مجھے لاڑکانہ کی جلدی سوچتی ہوں سامنے روڈ سے وین مل جائے گی یا نہیں ۔  ۔۔جہاں یہ بیل گاڑی ہمیں اتارے گی ۔۔۔ آخری وین نکل نہ گئی ہو پھر کیا  کریں گے کیا بوڑھی کے رشتے داروں میں ہی رات گزارلیں یا آگے جائیں اور وین کا انتظار کریں نہ آئی تو روڈ پر اندھیرے میں رات کیسے گزاریں گے اور بوڑھی کے رشتے داروں کے گھر ٹھہریں تو ان کے مرد بری نیت کے نہ ہوں۔۔۔ عجیب گو مگو سا خواب تھا بہرحال ست رنگ سبزیوں اور پھلوں کی دکانوں کے درمیان بیل گاڑی پر بیٹھے ایک روشن بازار کے بیچ آنکھ کھل گئی ۔۔۔ ہاہاہا یہ منظر ویسے بڑا خوبصورت تھا مگر مجھے بس لاڑکانہ  گھر پہنچنے کی دھن اور جلدی ہے

 550 دیاں آن لائن سوئیاں چبھون لئی نئیں ۔۔۔ کشیدہ کاری کرن لئی اصل قیمت 270 اوپرلے ڈلیوری چارجز

گھر چ جدوں پچھو سوئی نئیں لبھدی ۔۔۔ھن ایہہ بارہ عدد نکیاں وڈیاں  نکے نکے کم آن گئیاں ۔۔۔ کم ازکم ٹٹے بٹن تے لگ ای جان گے تے ادھڑے شدھڑے تروپے وی سپ جان گے ۔۔۔ مینوں سوئی دھاگے نال کم کردیاں نکے ہوندیاں توں سواد آندا اے ،   گڈیاں پٹولے سین وانگ ۔۔۔ پنجیہھ سال پرانا کٹ ورک دا سیٹ سرہانے کشن کڈ کے ای مکمل کر لیواں تے بڑی گل اے ۔۔ ۔ جیدی بیڈ شیٹ میں دو دناں چ بنالئی سی باقی رھندا رہ ای گیا خورے کتھے پیا ہونا  ملے گا تے تصویر شیئر کراں گی ۔۔۔ مسئلہ پتہ کی اے ھن کڈھائیاں کٹ ورک  بیڈ شیٹس رلیاں مینوں چبھدیاں نے سمپل کاٹن از دا بیسٹ آپشن فار می جیویں جیولری چبھدی اے امی جی نے کہہ کہہ کے کن نک تے ہتھ بوچے نہ رکھیا کر ۔۔۔ زبردستی عادت پوائی ھن انہاں دی یاد چ کوشش کرنی آں عمل کراں کہ کم ازکم  اک ہتھ چ کجھ پائی رکھاں تے نک کن وی نہ پایا کجھ تے بند ہوجانے گا ۔۔۔ نکے ہندیاں کنے دکھ نال ونہوائے سی۔۔

میں کناں دی سٹوری تے لخی سی ۔۔۔نک دی وی گھٹ نئیں اردو چ لخنی آں

نجمہ وی پڑھے گی۔۔۔ ہاں تو نجمہ   بوا سودن نے ہم دونوں کے کان تو کوکو کی اماں سے بندھوا/ چھدوا دیئے تھے ناک رہتی تھی

 حسن آرا اور بھابی کی بہنیں بھتیجیاں مہمان آئی ہوئی تھیں بھتیجی ( کیا نام تھا اسکا تم بتانا  ) دونوں کھیلتے کھیلتے میرے پیچھے پڑگئیں کہ ہمارے کان بھی بندھوا دو جہاں سے بوا نے تمہارے بندھوائے تھے۔۔۔ ہم کوکو کی اماں کے گھر گئیں وہ کراچی تھیں ۔۔۔ تمہیں یاد ہے خالہ باتی کی پچھلی گلی میں  (نام مجھے یاد نہیں آرہا  عباس تھا بھائی کانام کیا تھا ایک بہن اس کی کان بیندھتی تھی) میں ان کو وہاں لے گئی وہ مجھے دیکھ کر کمرے سے صحن میں آگئیں تمیز سے سلام کیا آنے کا مدعا بیان کیا کہ یہ اماں مینا کی مہمان ہیں کراچی سے آئی ہیں کان بندھوانا چاہتی ہیں

“اچھا ۔۔اچھا میں ابھی لائی”

وہ  کچھ دیر میں سوئی میں دھاگہ ڈال کر لے آئیں ۔۔۔ سوئی دھاگہ دیکھ کر حسن آرا اور اس کی بھتیجی دونوں بھاگ گئیں ۔۔۔ سوئی دھاگے والی حیران میں شرمندہ اور پریشان

“اے ۔۔لو یہ تو بھاگ گئیں میں یوں ای اتی مشکل سے سوئی دھاگہ ڈھونڈ کے لائی”

میرے  ‘اخلاق کی انتہا ‘ نوٹ کرو

میں نے خوامخواہ بے وجہہ بلا ارادہ شرمندگی سے بچنے کے لئے اپنی ناک پیش کر دی بچپن سے  آج تک اس اخلاقی مظا ہرے پر میں فخر محسوس کرتی ہوں کہ انتہا تھی مجھ میں اخلاق کی اتنی کم عمری میں ۔۔۔

کہاں تو کان بندھوانے پر ناگن ڈانس کیا تھا کہاں اخلاق کی ماری بے چاری نے ناک خود پیش کردی ۔۔۔ دل چاہ رہا تھا ناگن ڈانس کروں مگر بھرپور اخلاق کا مظاہرہ کیا

اور بھگوڑیوں کو کیا کہوں کہ بس ڈر گئیں

“میری ناک بیندھ دیں “

نہ ماں کی ناک بندھی ہوئی نہ بڑی بہن کی  ۔۔۔

وہ خوش ہوگئیں اور میری پیاری ننھی سی ناک بندھ گئی ۔۔۔ روئی نہیں جیسے کان بندھوانے میں دھماچوکڑی مچا کے روئی تھی اور بوا کی ڈانٹ بھی کھائی تھی ۔۔۔ جس سائیڈ سے ناک بندھی الٹی سائیڈ ،  الٹی آنکھ سے ایک موٹا سا آنسو ٹپکا درد کی شدت سے ۔۔۔ پھر ناک میں دھاگہ ڈل گیا ۔۔۔ گھر آئی امی باجی بہت حیران ہوئیں اور کچھ کچھ خوش بھی  ۔۔۔ کہ دونوں کی بندھی بندھائی  ناکیں بند ہوگئی تھیں۔۔۔  ابو جی بحرین سے آئے تو تجھے پتہ ہے میں لاڈلی تو تھی ہی ۔۔ امی باجی نے مجھے پڑھا رکھا تھا ابو آئیں گے تو سونے کا کوکا لے کر دیں گے  (خوش ہوکر ہاہاہا  ) ابو جی آئے تو میں نے کہا مجھے کوکا لے کے دیں  وہ کچھ گولڈ سنارے کو دے آئے ایک انگوٹھی ایک کوکا اور باجی کی بڑی اور میری چھوٹی بالیوں کا ۔۔۔

بن کے آیا تو کوکا میں نے مٹکا لیا امی باجی حسرت سے دیکھتی رہ گئیں امی جی کی تو ساری زندگی بے بندھی ناک رہی ۔۔ باجی کی شادی سے پندرہ دن پہلے بندھوائی تھی شائید ۔۔۔ انگوٹھی چھوٹی بن گیئ نہ باجی کو آئی نہ امی کو ،  مجھے گولڈ کی انگو ٹھی بھی مل گئی ۔۔۔ اور چھوٹی بالیاں بھی جن کی ایک بالی میں نے کچھ بڑی ہوکر نہاتے سمے پانی میں بہادی تھی ۔۔۔ کان سے اتر کر پانی میں گرگئی میں بہتے پانی میں اس وقت تک اس کا لہراتا ڈانس دیکھتی رہی جب تک وہ باتھ روم سے نکل کر آنکھوں سے اوجھل نہ ہوگئ ۔۔۔۔ بالی گئی سو گئی مگر یقین مانو وہ بہت خوبصورت منظر تھا کہ ایک بالی پانی مین کتھاکلی کرتی بہے جارہی ہے ۔۔۔ اچھا ہوا میں نے وہ منظر دیکھا آج بھی میرے خوبصورت مناظر کی فہرست میں شامل ہے دو ٹکے کی بالی ہمیشہ کے لئے ایک خوبصورت منظر تشکیل دے گئی ۔۔۔ واٹ اے بلیسڈ سین واز دیٹ ٹو واچ دا ڈانسنگ گولڈ ان واٹر ۔۔۔ ہاہاہا

اب دوسری بڑی بالی کا سن لو باجی کی شادی میں جھمکے بندے پہناتے سمے امی نے مجھے بلایا اور باجی کے کان سے اتری بڑی بالیاں مجھے پہنائیں   خوشی ہوئی باجی کو چھاج بھر کے سونا ملا ہے تو مجھے بھی بڑی بالیاں مل گئیں ۔۔۔ شادی بارات کا گھر ، میں رات کو برابر والے کرائے داروں کے گھر سوئی جہاں بہت سے ہمارے مہمانوں کے بستر لگے ہوئے تھے میں صبح اٹھی۔۔۔ پتہ چل گیا ایک کان میں بالا نہیں ہے اتنی زحمت نہ کی آٹھویں کلاس میں تھی کہ بستر چیک کرلوں۔۔۔ سوچا امی بستر اٹھانے آئیں گی تو خود ہی انہیں مل جائے گی میں کیوں زحمت کروں۔۔۔ مہمانوں کا گھر نہ جانے کس نے اٹھائے کس نے جھاڑے ایک دن میں ہی کان کا بالا گما لیا

اور پھر کانوں سے بسی ہوکے بیٹھ گئی

امی باجی نے خود اپنے وقتوں میں گمائی ہوئی تھیں  بالیاں کانٹے تو میرا بالی گم کرنا دونوں بار آرڈنری گیم آف دا بالی سمجھا گیا ۔۔۔ہاہاہا

اس وقت سونا سستا بھی تھا

  یاد ہوگا کہ نہیں میں کبھی کبھار عید پر پہنا کرتی تھی سونے کی انگوٹھی جب سب ہی آرٹیفیشل جیولر ی پہن کے اتراتی تھیں  میں سونے کی انگوٹھی پہ شو مارتی تھی ۔۔۔۔ ہاہاہا

 دوسرے دن پھر وہ دونوں کرا چئیٹ  مجھے دیکھ کر پچھتا رہی تھیں فرمائشیں کر رہی تھیں

“آج ہمیں لے چلو ۔۔۔ اب ہم نہیں بھاگیں گے”

نہیں بہن ۔۔اب میں نہیں جاوں گی میرے دونوں کان بھی بندھے ہوئے ہیں اور ناک بھی بندھ گئی ۔۔۔ اب میرے پاس کچھ نہیں جو میں اخلاقا سوئی دھاگے کے آگے پیش کردوں گی ۔۔۔ ہاہاہا

حسن آرا ملے تو میرا سلام کہنا

 کزن بےبی کا نام جب پہلی بار

 میرے ابو جی نے اسے دیکھا کہا

“اوئے اے تے چڑیا ہے”

اس کو آج تک چڑیا اور بے بی دو ناموں سے ہی پکارا جاتا ہے شوہر نے شروع مین باعزت طریقے سے رخسانہ کہہ کر پکارنا چاہا مگر چڑیا چڑیا کی گردان سن کر…. وہ بھی چڑیا چڑیا کرنے لگے

باقی رہیں میری امی جی یعنی اس کی پھپھو اور رضاعی امی کہ میرے دھوکے میں وہ یہ سعادت حاصل کرچکی ہے کہ اس سے دو ڈھائی ماہ بڑی ، میں اسکی باجی ہوں جو اس نے آج تک نہیں کہا…. ایک اندھیری شام یا آتی رات جب امی جی زور و شور سے گپ شپ میں لگی ہوئی تھیں مجھے باجی کو پکڑا دیا تھا کہ اس سے کھیلو کوئی ایک روتا ہوا بچہ امی کی گود میں ڈال گیا…. اندھیرے اور گپ شپ میں بچے نے وخت ڈالا ہوا تھا ظاہر ہے ماں کے پاس بچہ بہلانے کا ایک بہت ہی زود اثر طریقہ ہوتا ہے

انہوں نے دودھ پلا کے اس بچے کو سکون سے گود میں سلائے رکھا…. اچانک باجی نمودار ہوتی ہیں مجھے گود میں لیے….

 “امی پکڑیں عذرا کو….. روئے جارہی ہے”

ہیں…. عذرا یہ ہے تو یہ کون ہے جسے میں نے گود میں کھلا پلا کے سلا رکھا ہے

وہ چالاک چڑیا تھی

اللہ اسے سلامت رکھے…. اپنے ماں باپ کی وہ اکلوتی اولاد ہے مگر ہم ماشا اللہ چھ بہن بھائی اس کے دودھ شریک بہن بھائی بن گئے

ہاں تو بچپن میں یہ: چڑیا ‘ نام اور چڑیا بذ ات خود اتنی پاپولر بچہ تھی کہ لاڑکانہ شہر میں ہم جہاں سے بھی گزرتیں کوئی نہ کوئی بچہ چڑیا چڑیا، کہہ کر چڑانے کی کوشش کرتا بچوں سے بچوں میں یہ چڑانے کی وبا آسانی سے پھیل جاتی ہے

ہم اسکول آتے جاتے روز ہی، بد لحاظ بچوں کی طرف سے چڑائی جاتیں بچوں کو چڑائے جانے سے کوئی چوٹ تو نہیں لگتی مگر وہ روہانسے ضرور ہوجاتے ہیں

ایک دن بی بی (اللہ بخشے) ساتھ تھیں پیچھے سے بچوں کا ایک ٹولہ چڑیا چڑیا کرنے لگا ہماری طرح بی بی کا بھی دل چاہا کہ پتھر مار کے ان کا سر پھوڑدیں…. مگر وہ خاصے محفوظ فاصلے سے چڑا رہے تھے

بی بی نے دوتین خرافات ان کی ماؤں کی شان میں ادا کیں اور 

‘ تسی الاں ‘  کا کلاسک ٹائیٹل دیا انہیں

پھر تو جب بھی ‘چڑیا٠٠٠ چڑیا ‘ کہا گیا

ہم نے کہا ‘ توں ال ‘ جسکا مطلب فریق مخالف اردو میڈیم ہونے کی وجہ سے کبھی نہ سمجھ پایا ہوگا

مگر ہماری تسلی ہوجاتی تھی اور چڑانے والے بچوں کی تشفی…..

بے بی کو آج تک میری امی سمیت پرانے سب لوگ چڑیا ہی کہتے ہیں مگر وہ چڑتی نہیں کیونکہ وہ اسکا نام لے رہے ہوتے ہیں چڑا نہیں رہے ہوتے…

اچھا اب امی جی نے چند سالوں سے اسکا ایک اور بھی نام رکھا ہوا ہے

‘رپورٹر ‘

کیونکہ وہ سارے رشتے داروں کی خبریں خیر خیریت ایک دوسرے تک پنہچانے کا احسن کام انجام دیتی ہے اللہ اسے سلامت رکھے خوش رکھے شاد و آباد رکھے آمین

 میری سوا دو مہینے چھوٹی بہن ہے

اب اسکی چڑ  ‘ رپورٹر ‘ ہے سارے بچوں کو بتادو لوگو…….

آج برسات ہے تو پٹودی والوں کے گلگلے یاد آگئے جو ہر شادی بیاہ کی مایوں کا لازمی حصہ تھے مہینہ دو مہینہ پہلے تاریخ طے ہوتے ہی  ہر دوسرے تیسرے دن ‘گیتوں ‘کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا اہل خانہ کے علاوہ یہ

 ‘گیت ‘ کا اہتمام قریبی رشتے داروں خالہ مامی چچی پھوپھی دادی نانی بہنوں بھابیوں کی طرف سے بھی کیا جاتا جس کے لئے پورے دڑی محلے کی پٹودی آبادی جو دو ڈھائی سو گھر تھے ان میں سر شام مرمرے کی ایک یا کہیں کہیں دو یا تین پیالی حسب تعلقات تقسیم کرکے گیتوں کا بلاوا دے جاتیں خاندان کی دو چار لڑکیاں اور خواتین مرمروں کا بڑا سا چھابہ ایک نے اٹھایا ہوا دوسری اس میں سے ایک پیالی بھر کے ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹا کے پلیٹ یا دوپٹے کے پلو میں جو بھی صاحبہ ء خانہ کی طرف سے آگے بڑھایا جاتا اس میں ڈال جاتی

 ‘رات کو گیتوں میں آنا’ اس دعوت کے ساتھ۔۔ کسی گھر کا بلاوا ہے یہ عورتوں کی شکل اور کس گھر میں بیاہ رچا ہے سب کو ہی پتہ ہوتا کنفیوژن اس وقت ہوتا جب دوتین بیاہ اکٹھے آجاتے پھر بتایا جاتا فلاں کے گھر گیتوں میں آنا ۔۔۔ جو بھی گیت کروا رہی ہوتیں ان کی طرف سے اس دن مرمرے بانٹنے کے ساتھ ساتھ ڈھول اور گھنگرو کا کرایہ بھی دیا جاتا اور ساتھ گیتوں کی محفل  میں سب کو دو تین بار پان کھلانے کا اہتمام بھی کیا جاتا امی جی نے بھی چند ایک قریبی شادیوں میں گیت کرائے گئے اور ہماری باجی اور اکرم کی شادیاں جو لاڑکانہ میں ہوئیں ان میں امی جی کی سہیلیوں کی طرف سے چند راتیں گیتوں کا اہتمام کیا گیا بلکہ اکرم کی شادی میں تو دو ڈھولکیاں رکھی گئیں جن کا تنازعہ مجھے سنبھالنا پڑا کہ ایک پٹودی پارٹی تھی اور ایک پنجابی ٹپے پارٹی دونوں اپنے اپنے گیت گا گاکر محفل مچانے کے موڈ میں تھیں جن کو باری باری پہ راضی کیا گیا اور جب خواتین بارہ ایک بجے جاتیں تو پڑوس کے گھر سے منتظر مرد اور لڑکے بالے ٹپ آتے جو (خفیہ) میراثی تھے بہرحال اکرم کی شادی میں انہوں نے اور ان کی عورتوں نے دس بارہ دن کھل کر گانا بجانا کیا اور جتنی رونق وہ لگا سکتے تھے فجر کی اذانوں تک لگائی شوقین پٹودی کی خواتین بھی رات بھر ان کا گانا بجانا انجوائے کرنے کے لئے بیٹھ رہتیں ابو جی علی الصبح چائے یا میٹھی ٹکیاں یا پکوڑے تل کر لے آتے یا کوئی فروٹ کاٹ لاتے تواضع کے لئے اور پھر سب نیند کے خمار کے ساتھ اٹھ کر چل دیتے نمازی نماز پڑھتے بے نمازی دن چڑھے تک سوتے تقریبا وہ پورا ہی مہینہ بہت ہلے گلے میں گزرا

 ہاں تو پانچ پانچ گلگلے یا کبھی کبھار سات گلگلے  گھر گھر بانٹ کر مایوں کا بلاوا آتا میٹھے گلگلے شادی والے گھر ساری رات تلے جاتے ۔۔۔۔ ہم نے اکرم کی شادی میں گلگلوں کی جگہ پر گلاب جامن کھلائے امی کو کہاں سے ایک من آٹے کے گلگلے بنانے آتے۔۔۔۔ پٹودی کے لوگ غربت کے باوجود تہوار شادی بیاہ شاہانہ انداز سے ہی مناتے گھر کی مرمت سفیدی سجاوٹ رنگ برنگی جھنڈیوں سے گھر گلی کی آرائش کیلے کے سبز پتوں سے گلی سے بارات کی گزرگاہ کا گیٹ بنانے کے ساتھ ساتھ روزانہ گیتوں مایوں منڈھے بھات، برات ، بری جہیز ولیمے چوتھی کا خصوصی اہتمام کیا جاتا بلکہ اکثر شادی بیاہ کے اہتمام میں لڑکیوں بالیوں کو بلا کر چاول چنوائی صفائی کے لئے بھی بورے کھول دئے جاتے جہاں چار عورتیں لڑکیاں جمع ہوتیں بنے بنی کی مناسب سے گیت لازمی گائے جاتے گویا کناری لگاتے سمے بھی گیت لازمی ۔۔۔ مطلب پٹودی گیتوں کا محلہ تھا ہمارا گھر  بھی گرداسپوری سے زبان  تبدیل کرکے پٹودی والا ہوچکا تھا اگرچہ گھر میں پنجابی ہی بولی جاتی مگر امی ان کی بہن بیٹی اور وہ ہمارے نانکے بن چکے تھے اور زبان تو پنجابی کے ساتھ  با محاورہ اردو بھی گھٹی میں ہی پڑگئی تھی کہ ہماری دائیاں امی کی ہمسائیاں کھیل کھلائیاں امی کی بڑی بوڑھی سمجھائیاں سب پٹودی کی تھیں  ۔۔۔ جو بزرگوں اور پٹودی کی دانش سے کوٹ کوٹ کر بھری ہوئیں تھیں

خاص طور پر اماں مینا (اللہ بخشے) جن کی امی سگی بیٹی کی طرح تھیں ایک متانت بھری دانشمند متحمل خاتون کی سلجھی اور ٹھنڈی طبیعت کے حساب سے آج تک مجھے یاد ہیں

اور امی جی تو آخر تک ان کا ذکر اسی طرح کرتی تھیں جیسے ایک بیٹی ماں کا کرتی ہے

 ‘آپا مینا’ کا نام لیتے ہی ان کے لہجے اور انداز سے پیار اور احترام جھلکنے لگتا اور یہی حال اماں کا اور انکے سب بچوں کا بھی آج تک ہے کہ آپا رضیہ جیسے ان کی سگی بڑی بہن ہی تھیں کراچی میں ہیں اب سب لوگ اچھے لوگ تھے سب جہاں ہوں سلامت رہیں  آمین ثم آمین

جاتے جاتے چند گیت

*اللہ میاں تیری درگاہ میں ہم نے ڈالا رومال

اوروں نے بویا اللہ بیلا چمیلی

اللہ میاں تیری درگاہ میں ہم نے بویا گلاب

* بنا ہاں ہاں کرتا ڈولے میری لاڈو نہ بولے

*اری اے بنو میں آوں گا

تیرے دادا کے بنگلے اتروں گا

میرے دادا کے بنگلے جگہو نہیں

دادی پیاری کا پہرہ جاگے گا

میری رن جھن پائل باجے گی

* کیس کھولے کھڑی لاڈو

اباجی میری مت کرو شادی

عمر بارہ برس کی ہے

*میرے راجہ جی لہنگا سلادو کالی بیل کا

*آ اترے آاترے

باغوں میں سپیرے آاترے

لے جاوں گا لے جاوں گا

گوری بین بجا کے لے جاوں گا

نہیں جاوں گی نہیں جاوں

تیری جات سپیرے نہیں جاوں گی

دیکھیں کیا کیا یاد آتا چلا جارہا ہے بچپن کے وہ گیت جو ڈھول پہ گلا پھاڑ پھاڑ کے بچیاں بوڑھیاں عورتیں لڑکیاں سب گاتی تھیں ۔۔۔ اور ہمارا تو گڑیا کی شادی کے فنکشن میں بھی پرات بجاکے روزانہ یہ سارےگیت گانا اور پاوں میں ایک دو دستیاب گھنگرو باندھ کر ٹھمکے لگانا بھی لازمی تھا

سندھی میں شادی بیاہ کے گیتوں کو  ‘سہرا ‘کہا جاتا ہے اور ناچنے کو ‘جھمر’

تاریخ شادی مقرر ہوتے ہی دلہن کے لئے دولہا والوں کی طرف سے

‘ ونواہ ‘ کی رسم ادا کی جاتی ہے اس رسم کے لئے بھی عزیزوں رشتے داروں کی خواتین لڑکیوں کی ایک چھوٹی سی بارات ہی بن جاتی ہے منگنی کی رسم بھی اس کے ساتھ ہی ادا کی جاتی دلہن کے لئے چار پانچ جوڑے  سینڈلز میک اپ پرسز  سونے کی جیولری کا ایک سیٹ یا کم ازکم ایک انگوٹھی، مٹھائی ڈرائی فروٹ سب ناچتی گاتی جھمر ڈالتی  دولہا کی بہنیں بھابیاں کزنز دولہن کے گھر لے کر جاتی ہیں دلہن کو تیار کر کے مٹھائی کھانا کھلانا اور گانا بجانا کیا جاتا ہے ‘ونواہ’ سے شادی کی رسومات کا آغاز ہوجاتا ہے ونواہ کے ساتھ ہی دلہن مایوں کی طرح پردے میں بیٹھ جاتی ہے بلکہ سسرالیوں کی طرف سے ونواہ کے سامان کے ساتھ اس کے لئے گوٹے کناری موتیوں ستاروں اور خوبصورت کڑھائی والا ایک لمبا نقاب بھی لایا جاتا ہے جس میں صرف آنکھوں کے دو سوراخ ہوتے ہیں کنوار شادی تک سب سے پردہ کر کے ایک الگ کونے یا کمرے میں نقاب پہنا کر بٹھا دی جاتی ہے سوائے ایک آدھ سہیلی یا گھر کی کسی خاص خاتون یا ابٹن منہدی والی کے علاوہ کوئی اس کی شکل نہیں دیکھ پاتا کہ چہرے کا نور سلامت رہے اور شادی کے دن بھی تمام صورتیں وغیرہ پڑھ پڑھا کے چہرے پہ دم کر دیا جاتا ہے پہلی بار رونمائی دولہا کے ہاتھوں ہی ہوتی پھر کوئی اور دیکھے تو دیکھے 

روز ‘سہروں’ کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے میں پرانے دور کا لکھوں گی کہ وقت کے ساتھ بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے پٹودی والوں میں جہاں پان کھلائے جاتے تھے محلے میں سندھی فیملیز کی شادیوں میں سہرن میں ‘بیڑی ‘سرو کی جاتی سب خواتین وقفے وقفے سے ماچس سے بیڑیاں سلگا کر دھواں دھار ماحول بنائے چارپائیوں پہ بیٹھی ہوتیں ناچ گانے کے لئے چار پانچ میراثنوں یا گائینیوں کا ٹولہ ہوتا جو اکثر سانولی رنگت بھاری بھرکم وجود  پہ چمکیلے کپڑے پہنے تیز میک اپ تھوپےہاتھ لہرا لہرا کر گانوں کی باری لگا رہی ہوتیں ایک ذرا قبول صورت اور نوجوان گائینی پوری محفل میں  سہرے کے بولوں پر ہاتھ مٹکاتی لہراتی اور ناچتی پھر رہی ہوتی جو پوری محفل سے وار پھیر کے پیسے اکٹھے کرتی وار پھیر کے لئے سنجیدہ خواتین وار کر پیسے پکڑاتین کچھ زیادہ حجایتی محبتی اور قریبی رشتہ دارنیاں ایک دوسری کے گالوں پہ نوٹ رکھتیں جہاں سے وہ ناچتی گائینی آکر ہلکی سی چٹکی دبا کر لے لیتی ۔۔۔ محفل میں رنگ لگا رہتا ہر شادی میں کم ازکم آٹھ دس دن پہلے دولہا کے گھر کے باہر شہنائی والوں کا ڈیرہ لگ جاتا وہ رلیوں والی  چارپائیوں اور کڑھائی والے تکیوں کے درمیان بیٹھے دن رات وقفے وقفے سے مخصوص دھنوں میں شہنائیاں بجاتے رہتے وقت پہ انہیں کھانا وغیرہ کھلادیا جاتا شادی کا سارے محلے کو پتہ جل جاتا دور کہیں بجتی شہنائیوں کی آواز سے ۔۔۔ شادی سے ایک دن پہلے  ‘بکی’ کا buki کا فنکشن ہوتا جس میں پورا راج محلہ برداری عزیز رشتے دار انوائیٹڈ ہوتے بکی ایک محفل شادی ہوتی   ۔۔۔  وہی ناچ گانا ، گائینیوں عورتیں پوری تیاری اور زیورات پہنے ۔۔۔ عموما بوڑھی عورتیں تک نتھ ٹیکہ سمیت اور پنج ست لڑی  دہریاں  جھمکے پہن کر تیار ہوتیں جس کے پاس جتنا زیور ہوتا عمر کا فرق رکھے بغیر سب نے دل کھول کر پہنا ہوتا ۔۔۔۔ بیڑیوں کا دھواں بھی ناچ رہا ہوتا گائینیاں بھی گلے پھاڑ پھاڑ کر سہرے گا رہی ہوتی اور ایک یا دو گائینیاں جھمر ڈال ڈال کے وار پھیر کے پیسے اکٹھے کر رہی ہوتیں  ۔۔۔ پھر دولہا یا دلہن  جس کا گھر ہے وہاں ‘ ڈاجو’ دکھانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا کوئی قریبی عزیزہ چارپائی یا کرسی پر کھڑی ہوجاتی ایک کپڑے پکڑائی جاتی وہ لہرا لہرا کر دکھائی جاتی

ھی کنوار جو ونواہ جو وگو ۔۔۔ ھی ویھان جو

ھی لانہون جو

ھی ستواڑے جو

اس کے علاوہ بھی کتنے ہی جوڑے جوتیاں پرسز اور میک اپ کا سامان

ہی کنوار جی اماں جو وگو

بھین جو

بھا جو

پی ء جو وگو

پنجابی اور اردو اسپیکنگز کے برعکس دولہا والوں کی طرف سے دلہن کے رشتے داروں کو بھی کپڑے دئیے جاتے بلکہ گاوں میں ابھی تک رواج ہے کہ لڑکی والوں کو سنگ (رشتے ) کے پیسے دئیے جاتے ہیں یا بدلے کا رشتہ ورنہ کوئی قدر نہیں ۔۔۔  دلہن اگر خوبصورت ہے تو پانچ چھ لاکھ بھی والدین لے لیتے ہیں پہلے دلہن کے بھائی کے لئے ان پیسوں سے شادی کا رشتہ لیا جاتا تھا اب اگر ادلہ بدلہ نہ بھی ہو تو تبدیلی یہ آئی ہے کہ ان پیسوں سے کچھ دلہن کو ہی جہیز دے دیا جاتا ہے کچھ بھائی کی شادی کا خرچ یا والدین کے کام آجاتا ہے

 بہرحال شہروں میں اب مخلوط رسم ورواج تشکیل پا گئے ہیں جن میں والدین بھرپور جہیز کے ساتھ ساتھ سسرالیوں کی ساری خاطر مدارات اور شادی کی ضیافت کا بوجھ بھی اٹھانے لگے ہیں شہروں اور پڑھے لکھے طبقے میں پیسوں پہ سنگ لینا دینا اور ادلہ بدلہ بھی متروک ہوچکا ہے   لڑکی کو بھر پور جہیز بھی دیا جانے لگا ہے اور لڑکی والوں کی طرف سےکھانا بھی بارات کو کھلایا جاتا ہے  مگر اب بھی کوئی ایسا نہ کرے یا کمی بیشی ہو جائے تو نو پرابلم ۔۔۔  لڑکی والوں پر کوئی بوجھ نہیں شادی کا سارا خرچہ لڑکے والوں کے ذمہ ہوتا ہے جس میں لڑکی کا بیڈروم سیٹ کرنے سے لے کر دلہن والوں کے کپڑوں سے لے کر  شادی کا کھانا کھلانا سب شامل ہے

ھی  ‘کنوار جی دہری’ دلہن کا ست لڑا یا پنج لڑی ہار

کنوار جا جھمک

کنوار جو ٹکو

ہی کنوار جی نتھ

ھی کنوار جا کنگن

منڈریوں

کنوار (دلہن )گھوٹ  (دولہا)

وغیرہ وغیرہ سونا سستا تھا تو پندرہ بیس تولے ہر ایک بنا لیتا تھا سب سے وزنی زیور گلے کا ہار ی  پنج ست لڑی دہری ہوتی یہ نولکھا ہار کی طرح ہی ہوتی مگر لمبی لٹکی ہونے کی بجائے پانچ ساتھ سونے کے موتیوں کی لڑیاں وقفے وقفے سے خوبصورت تعویزوں کے ساتھ   گلے کے ساتھ ساتھ چپک کر سینے کے اوپری حصے تک پھیلا ہوا خوش نما ہار ہوتا ہے  گلوبند یا نو لکھے ہار  کی جگہ سندھی فیملیز میں دہری دینے کا رواج تھا ساتھ جھمکے ٹیکہ،  بھرواں نتھ ، وغیرہ وغیرہ

بکی کے آخر میں سب واپس گھر جاتی خواتین کو مٹھائی شکر وغیرہ دی جاتی

دوسرے دن منہدی بارات دولہا منہدی میں دونوں کے ہاتھوں پر آگے پیچھے تھوپ  کر منہدی  لگائی جاتی گیٹ گائے جاتے مٹکے کے ٹھنڈا پانی بھر بھر کر نہلایا دھلایا تیار کرایا جاتا دولہا سفید لباس یا بوسکی قمیض سفید شلوار اجرک سندھی ٹوپی پہن کر تیار ہوتا منہدی والے ہاتھوں میں گانا بھی باندھا جاتا سونے کی منڈیاں نئی گھڑی بھی ہوتی نئے بوٹ سہرا چھوٹا سا انکھوں ناک سے ذرا نیچے یا صرف چہرے کو کور کرتا ہوتا موتیوں کی لڑیوں والا ہوتا دولہا تیار ہوگیا سارے راج برادری عزیز و اقربا کی طرف سے نوٹوں کے ہار پہنائے جاتے جنج شہنائیاں دھل بجاتی ناچتی گاتی خواتین اور منہدی کے ساتھ بس وین یا ٹرالی پہ  سوار ہوجاتی سارا راستہ ڈھول پر گانے گاتے بجاتے  ، دلہن کے گھر اینٹری ہوجاتی کھانے کا انتظام دولہا والوں کی طرف سے ہوتا سب کے لئے دیگیں یا گھر سے پکا کے لے جاتے یا وہاں پکوائی جاتیں عموما گائے کے گوشت میں بھت ( پلاو ) پکوایا جاتا کبھی ساتھ گوشت کا سالن اور زردہ بھی ۔۔۔نکاح گانے بجانے کے بعد سب سے اہم فنکشن لائوں lahoun کا ہوتا ہے جو رات دو ڈھائی بجے ہی دونوں خاندان اور قریبی عزیز رشتے دار کرتے ہیں سہاگ رات عموما میکے میں ہوتی سیج پر لائوں کا خصوصی فنکشن ہوتا دولہا کی بہنیں اور دلہن کی بھی کوئی عزیز رشتے دار  ان کے ساتھ بیٹھیں اور سب لوگ باری باری جوڑیوں کی صورت میں یا اکیلے آکر لائوں ڈیارتے  ، آرسی مصحف  کے علاوہ دولہا دلہن کا چاول چینی ایک دوسرے کے ہاتھوں میں بھرنا گرانا مٹھی کھول کر انگوٹھی نکالنا یا دولہن کے ماتھے پر روئی رکھ کر دولہا کا پھولوں کی طرح توڑنا ۔۔۔پھر لاہئوں کے دوران سب کا باری باری آکر ان دونوں کے ماتھوں کا آپس میں دو تین ٹکریں لگوانا ۔۔۔یا دوسری صورت میں ماتھے سے ماتھا ملانا اس رسم کے ختم ہوتے ہی حجلہء عروسی خالی کردیا جاتا ہے اور ان ساری  رسموں میں اجنبی سے اجنبی دولہا دلہن بھی ہنسی مذاق اور کھیل کھیل میں شب عروسی کے لئے ذہنی طور پر بے حد قریب آجاتے ہیں ہاہاہا ۔۔۔

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Mother Language title
Read More

ماں بولی

!پنجابیو پنجابی بولوپنجابی لکھوپنجابی پڑھوایویں تے نئیں میں سکھ لئی سی یار پنجابیماں بولی سی جمدیاں میرے نال…
Read More