خوابوں سے بندھی ہوں یوں کہ کھلتی ہی نہیں
کوئی دوسری کھڑکی کبھی کسی سمت کہیں
کہاں گئی ہے میری قوت ارادی آخر
میری پرواز کے پر ٹوٹے ہیں کہاں پر
اس نے مرے خوابوں کا یوں احترام کیا
جو کہا وہ دل سے مانتا ہی گیا
باتیں اتنی تھوڑی ہیں کرنے کے لئے
دن اتنا لمبا ہے گزر کر نہیں دیتا
کہاں گئی ہے میری قوت ارادی آخر
میری پرواز کے پر ٹوٹے ہیں کہاں پر
اندھیرا هوا تو جگنوؤں کے بھیس میں نکلیں گے
روشنی کا استعاره هیں روشنی سے نکلیں گے
دنیا سے مایوس نہیں پر امید رہتی ہوں
اس نے توقع سے بڑھ کر مجھے اپنایا ہے
اجالا هوا تو دلکشی سے نکلیں گے
اندھیرا هوا تو روشنی سے نکلیں گے
ٹوٹے هوئے بندھن بھی جڑ سکتے هیں
گر دونوں هاتھوں میں سرا باقی هو
هم جهاں بھی هوئے خودی کی قسم
خود میں پنهاں خود هی سے نکلیں گے
دیکھ کر تم کو یقیں نه آئے گا
ایسے قد سے زمیں سے نکلیں گے
دیکھ کر اور سنبھل کے چلنا پھر
کانٹے بھی یهیں قریں سے نکلیں گے
کھائی تھی جواں حوصلے کی قسم
پیری میں بھی اسی تمکیں سے نکلیں گے
هم نظر هوئے جو سجده ء اسرار سے
شوق کے سلسلے جبیں سے نکلیں گے
جس کو ڈھونڈتے هیں وهی ملتا نهیں
دوسرے لوگوں سے شهر بھرا هوا هے
درد کی رونمائی ہوا چاہتی ہے
وہی جگ ہنسائی ہوا چاہتی ہے
نظارہء شام ہے بڑا دلکش سا
اس پر یہ برستا ہوا موسم سا
لے جائے اڑا کر مجھے ٹھنڈی ہوا
دل پرندوں کے جیسا ہوا پاگل سا
فادرز ڈے منانے کو باپ کی اک سنت دہرائی ہے
دست شفقت کے ساتھ سب کو خرچی تھمائی ہے
نئی صبح کا آغاز ہے نئی ترنگ سے کرو
کھٹمٹھی زندگی بسر اپنے ڈھنگ سے کرو
وے بیبا گل سن لا میری کی لے جانا اگے
ایتھے وی رہ جانی ڈھیری
بات سے نئی بات نکال لیتے هیں
اس طرح مجھ کو ٹال دیتے هیں
: فلسفے کو دہرا رہے ہیں
زندگی کو گنگنا رہے ہیں
جگنو نہ ستارہ چاند نہ کوئی مشعل
اندھیرا ہے اور اک طوفان کا ساتھ مسلسل
دنیا سے مایوس نہیں پر امید رہتی ہوں
اس نے توقع سے بڑھ کر مجھے اپنایا ہے
اس نے مرے خوابوں کا یوں احترام کیا
جو کہا وہ دل سے مانتا ہی گیا`
شام رات میں ڈھلنے سے پیشتر
ایسا ہو کبھی کبھار نہ آیا کرے
شام کی چادر اتنی گہری بے رنگ سی
اوڑھ کے کوئی سوجائے تو خواب کہاں
رنجور ہوں کیوں مجھے کچھ خبر نہیں
شام کی سرگوشی سنی نہیں کہ پتہ چلے
چلو بھئی اب شام سے ذرا ہشیاری سے نپٹیں
چائے پئیں فون کریں یا باہر کو چل دیں
شام سے بات کی خوامخواہ اسے رلایا بہت
شام نے پھر رقص بے ردھم کیا ہنسایا بہت
خود کو تسلی دیتے ہیں آپ ہی بہلے رہتے ہیں
اتنا ہی احسان بڑا ہے ہر حال راضی رہتے ہیں
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی