پھر وہی صدیوں کی ہم سفری وقت کی قید سے آزاد
مالک میں تھک چکا ہوں ذرا آرام کر لیں
تیری جرآت قدرت تو پابند نہیں منزل کی
یہ مجبوری ہماری کبھی صبح کبھی شام کر لیں
اتنے بے بس نہ ہوتے تو پھر دیکھتا تو
کہ ہمارا انداز چلن محتاج مقام نہ ہوتا
جس قدر چاہتا تو تیرے ساتھ ساتھ چلتے
ہمارا ذکر تیرے قصوں میں یوں بدنام نہ ہوتا
توبھی فخر بھری آنکھ سے دیکھتا ہم کو
ہوتے ہم بھی نا واقف احساس ندامت
کہ نہ ہی اس کرے پہ ہم یوں پھینکے جاتے
نہ تیری رحمت پہ غالب آتی مجبوری ء قیامت
مالک تیری عدالت میں اس روز پوچھوں گا ضرور
تیری تخلیق حشر مجھ پر فساد کیوں ہے
کہ نقص مجھ میں تیرے ہی فیصلوں کا رہا ہے
تو پوچھتا مجھ سے کس بات کا سوال زبوں ہے
اسلم مراد
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی