چلنا ہے تو چل وہاں سے ابتدا کریں
جیسے ہم پہلی بار کبھی ملے تھے
تیری آنکھوں میں چمک تھی تاروں سی
میں بھی بے چین نظر آتا تھا تیرے لئے
توبھی آمادہ ء الفت ، میں بھی سرشار محبت
ہمدمی تھی کہ بس انتہائے عقیدت
یوں کہ ہر صبح میری ہر شام تیری
لطف اٹھاتیں تھیں ہم سے بارہائے قربت
جی میں آتا تھا کہ ہر قدم تجھ پر
خوشنما رنگ زیست کے نچھاور کردوں
تیری زلف کی گھنیری گھٹاوں کے مقابل
راحتیں زمانے کی یک طرف دھر دوں
جنوں تجھے بھی کچھ ایسا ہی تھا
میری آہٹ کو حاصل تھی توجہ تیری
ناشاد لب و رخسار و آنکھیں تیری
رعنا ہو جاتیں تھیں دیکھ کے صورت میری
اے میری معصوم مداح میری دمساز
آ کرنا ہے تو پھر کریں اسی طرح آغاز
اسلم مراد
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی