یادش بخیر 9

Front view of a smiling woman

یاد آیا اسٹیتھیسکوپ تھرمامیٹر
اسپیچولا مکسچر انجکشن
کہاں ہوتا ہے ہمارے بچپن کا پنڈت برہمن کوئیک ڈاکٹر ارجن
جو سب کو ایک ہی دوائی ایک ہی خوراک اور ایک ہی انجکشن دیتا تھا
اور بھگوان کی کرپا سے سب ٹھیک ہوجاتے تھے
وہ اعلی النسل برہمن پنڈت تھا سب ہندوؤں کی شادیوں میں پھیرے دلوانا اسی پہ ابھاری تھا مگر جب اپنے بچوں کی شادی بیاہ کی سمسیا جاگی تو شہر بھر میں کوئی اس کی جات برادری اور پائے کا باہمن نہ تھا اس نے کہا میں انڈیا جا رہا ہوں سب انڈیا سے مائیگریٹڈ پٹودین کو بہت دکھ ہوا
بھائی ارجن کیوں جار ہے ہو ؟
جب پہلے نہیں گئے تو
آپا ۔۔۔ اب بچوں کے شادی بیاہ کا مسئلہ ہے
ہندوؤں سے بھرا پڑا ہے محلہ ۔۔۔
نہیں آپا یہ میری جات برادری کے نہیں
میں برہمن پنڈت ہوں جو ان میں کوئی نہیں
چلا گیا ۔۔۔
سالوں بعد اس کا بیٹا نظر آیا گلی میں اپنے گھر کے سامنے ۔۔۔سب اس کے آلے دوالے ہوگئے
پتہ چلا کراچی میں رہتے ہیں وہاں اپنی ہم پلہ برہمن فیملیز مل گئی تھیں سو وہیں رشتے ناطے کر لئے ۔۔ ڈاکٹر ارجن بھی بوڑھے ضعیف ہوگئے اب تک تو سورگباشی بھی ہوچکے ہوں گے ۔۔۔ راکھ جانے سندھو میں بہائی کہ گنگا جل میں پھول کھلے
ڈاکٹر ارجن (صاحب) بہت اچھے ڈاکٹر تھے نزلے زکام بخار کھانسی سب کا ایک ہی علاج گلابی مکسچر کی تین نشان زدہ پٹی لگی خوراک اور تین ہی پاوڈر کی پڑیاں چائے کے ساتھ ۔۔۔ انجکشن صرف ان عورتوں کو لگتا تھا جو دائی سجیسٹ کرتی تھی کہ درد زہ بہت بڑھ گیا ہے ارجن کو بلا لاو سوئی لگا دے اور سوئی لگتے ہی درد زہ ۔۔۔ زچہ و بچہ میں تبدیل ہوجاتا تھا ۔۔ہاہاہا
بڑا قابل ڈاکٹر تھا ہمارے دڑی محلے کا اس میں کوئی شک نہیں ڈاکٹر ارجن ۔۔۔اپنے بھگوان کی امان میں ہو جہاں بھی ہو کہ نیک شخص نیک روح نیک دل ڈاکٹر تھا اوپر سے پنڈت برہمن بھی ۔۔۔ جونہی مریضوں سے فرصت ملتی اندر والے کمرے میں رنگین دیوی دیوتاؤں کی خوبصورت تصویروں کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجاتا ۔۔۔ کلینک ٹائیم سے پہلے اگر کوئی اتاولا مریض پہنچ جاتا تو اپنے دیدہ زیب تصویری مندر سے ہی بر آمد ہوتا ۔۔۔ بیوی بچے اوپری منزل پر رہتے اورجونہی کوئی بچہ سیڑھیوں پہ قدم رکھتا بیوی اوپر سے چیخ کر ڈپٹتی بچہ ڈر کے نیچے بھاگ آتا اب سمجھ آئی ہے (چھوت چھات کا مسئلہ ہوگا)
ایک دن میں مندر کے دروازے پہ جا کھڑی ہوئی امی مجھے بخار زدہ کو لے کر وقت سے کچھ پہلے پہنچ گئی تھیں ۔۔۔ میں مندر میں بلانے پہنچ گئی ڈاکٹر ارجن کو وہ باری باری سب تصویروں کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجاتا ۔۔۔کنول کے پھول آٹھ دس ہاتھ لہرا کر ڈانس کرتی تصویر مجھے بھی بہت اچھی لگ رہی تھی مین بھی محو تھی آرائش و زیبائش میں ۔۔۔ کہ اچانک ڈاکٹر ارجن کو مندر کی دہلیز پر میری موجودگی کا احساس ہوا ۔۔۔ اتنے اچھے با اخلاق ہمدرد ڈاکٹر ارجن نے مجھے ڈپٹ دیا
“بھاگو یہاں سے “
اچھا کالی ماتا کے سپوت،
بھاگ کر باہر آگئی ۔۔۔ہاہاہا
ہمارا دڑی محلہ بنیادی طور پر ہندوؤں کا محلہ تھا جس میں اب بھی ہماری پچھلی گلی میں سارے ہندوؤں کے ہی گھر تھے ہمارے اپنی میتلائی گلی میں دو ہندوؤں کے گھر بڑھ کر پہلے چار ہوئے اب تو سات آٹھ ہیں کہ اس گلی میں جو بھی گھر بکا ہندوؤں کی کوشش ہوتی وہ خرید لیں نجمہ( اماں مینا )کا گھر ، نسیم کا گھر ، پھر ڈاکٹر نندلال ، ماما گورمکھ اور آس پاس دوتین مزید نئی فیملیز آکے بس گئیں ہمارے ہی گھر کے۔۔۔ اب ہم تو اگئے وہاں سے جانے اب کون کس کا پڑوسی ہے ہم تو دو ہی گھروں کو جانتے ہیں وہاں ایک ادا دھنی اور ادا غنی کا دوسرا چچی کا ۔۔۔
اللہ اللہ خیر صلا
جب بھی لاڑکانہ گئے انہی کے مہمان بنیں گے
ڈاکٹر ارجن وہاں سے کوچ کرگئے تو ہجرت ہم نے بھی لاہور کی طرف کو کرلی ۔۔۔ ہجرت ویسے ہمیشہ ہجر ہی دے کر جاتی یے

“ساڈی نہر بڑی ٹھنڈی سی “
اس نہر کا ذکر اور وٹالے گرداسپور کے درمیان امی جی کے بچپن کا ذکر میں نے اتنی بار سنا ہے کہ اب امی کے گاؤں کا گھروں کا نہر کا ایک پکا نقشہ میرے ذہن میں بھی بنا ہوا ہے پنڈ انکا کانو واھن کے قریب ہی ‘حویلی ‘ نام کا تھا دو تین اور بھی نام اس گاؤں کے بتاتی ہیں جو اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہیں جاگیں گی تو پوچھ کر بتاؤں گی…..
“امی ساڈی لہور والی نہر توں وی سوہنی سی اوہ نہر….”
“ہاں…. ” کہنے میں ایک لمحہ نہیں سوچنا پڑتا انہیں
“نیلا کچ پانی…. ٹھنڈی، دندیاں وجدیاں سی چھال مار کے “
“میں بڑا تر دی سی”
“ہدوانے سٹ کے منڈیان نے تری جانا نال نال….. ٹھنڈا ہوجانا فیر بہہ کے کھانا”
“میں وی ہدوانے نال تری ہوئی آں”
امی کی آنکھوں میں بچپن تیرنے لگا
میں نہیں سمجھتی کہ ان کی زندگی کا کوئی ایسا دن ہوگا جب انہوں نے اپنے گاؤں اور بچپن کی باتیں نہ سنائی…
ساڈی نہر وی بڑی سوہنی سی…. مطلب رائیس کینال، پر او ذرا خونی مشہور سی کہ ہر سال اک دو تارو ڈب جاندے سن…..
ہور ساڈی ایس نہر دا تے جواب ای نئیں جھڑی لہور شھر دے وچوں وچ لنگدی اے ، ایہہ تے جیویں جنت دی مکھ وکھالی اے !
: ایک عزیز گاڑی کے لئے بینک سے قرضہ لینا چاہ رہے تھے کمرشل بینکوں اور اسلامک بینکوں دونوں کی سہولیات کا جائزہ لیا جا رہا تھا
کمرشل بینک (کچھ ) پرسینٹ سود پر قرضہ دیتے ہیں ترجیحا سود سے پاک اسلامی بینک کی طرف خیال گیا کہ چلو قرضہ لوٹایا جائے گا سود سے تو جان بچ جائے گی۔۔۔۔
گاڑی لینے کے لئے وہاں بھی اس قسم کا فارمولہ تھا گاڑی اس صورت میں بینک کی ملکیت پانچ دس سال کے لئے ایک معاہدے کے تحت پھر آٹو میٹک آپ ہوجائے گی اس دوران خریدار سود کی جگہ اتنے فیصد ہی اضافی رقم اصل کے علاوہ ادا کرے گا مگر اس کو سود کی بجائے گاڑی کا کرایہ مانا جائے گا اور خریدار کو گاڑی کا کرایہ دار
۔۔۔۔کان کو دوسری طرف سے گھما کے پکڑا ہوا تھا پیسوں کا لین دین وہی تھا کہ اتنے پرسنٹ اضافی ادا کرنے ہی کرنے ہیں ہاہاہا۔۔۔۔
میرا خیال ہے بینکنگ ایک کاروباری نظام ہے ہمیں اسے اسی نظر سے دیکھنا چاہئے

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Mother Language title
Read More

ماں بولی

!پنجابیو پنجابی بولوپنجابی لکھوپنجابی پڑھوایویں تے نئیں میں سکھ لئی سی یار پنجابیماں بولی سی جمدیاں میرے نال…
Read More