مائل بہ زوال ہوں بجھی شام کی طرح
سورج سا ڈھل رہا ہے میرے بدن میں آج
طبیعت بدمزہ سی ہے سارے عوارض اپنا اپنا زور لگا رہے ہیں کہ میں جیتا میں جیتا ۔۔۔ ہار ماننے کا من نہیں ۔۔۔ مگر جسم بے حد ٹوٹا پھوٹا سا محسوس ہورہا ہے ٹمپریچر بھی ہو شائید ۔۔
پاوں کی تکلیف سے لے کر کمر شولڈرز گردن سر معدہ جگر گردے ۔۔۔ ہر جگہ درد کی دھکدکھی سی ہے
طبیعت بے کیف بے مزہ بھاری اور بوجھل سی ہے نفسیاتی طور پر نہیں جسمانی طور ۔۔۔نفسیاتی لحاظ سے ٹھیک ہوں ۔۔ مگر جسم دغا بازی پہ مائل ہے
دعائے صحت کی درخواست ہے
جزاک اللہ خیر کثیرا
کوفت سے بھری بے مزہ سی ہوں اپنے مزاج میں
دیکھ تو کیا مسئلہ ہے اس دل خانہ خراب میں
شعر کہہ کر ہنسی آرہی ہے
کچھ زیادہ نہیں ہوگیا
نہیں ۔۔۔ طبیعت اس سے بھی بدتر اور مکدر ہے نیوزیا وومیٹنگ
کا احساس بھی ہے
باڈی سیل باغی سیل ہورہے ہیں۔۔۔ کمزور پڑ رہے ہیں سارے اعضا و حواس خمسہ
کمر درد کی وجہ سے چلنے میں بھی دشواری محسوس کر رہی ہوں پیر کی نیورو پیتھی اپنی جگہ کھل کھیل رہی ہے
اللہ رحم کرے دعاوں میں یاد جزاک اللہ خیر کثیرا
سنا ہے
جب بھی محبت آپ کے در پہ دستک دے
اسے ویلکم کرو ۔۔۔
مگر میرا خیال ہے
جب آپ بوڑھے ہوچکے ہوں جسمانی جوانی روحانی اور شعوری لاشعوری طور پر ۔۔۔
تو ایسی ارمانی دستکوں کو نظر انداز کر دیں
کہ اب آپ اس اعصابی و نفسیاتی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے جو اس قسم کی ایکٹیوٹی تقاضہ کرتی ہے
اور جسم تو اب ویسے ہی بھر بھری مٹی کا ہوچکا ہے
باقی شوق دا کوئی مل نہیں بقول غالب
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
اگر ۔۔۔۔
مگر ۔۔۔
چونکہ
چنانچہ
در فٹے منہ ہی بہتر ہے دوستو ۔۔۔
اپنی نیم بوڑھی بیویوں اور اپنی بیماریوں پہ توجہ دو کہ زندگی سہل ہوجائے دونوں جیون ساتھیوں کی ۔۔۔
بجائے اس کے کہ کسی نئی چاہت / ٹھرک کے پیچھے اپنا آپ خراب و خوار کرو ۔۔۔
اللہ تم سب کی خیر کرے اور عمریں دراز کرے صحت تندرستی عطا کرے اور نیک صالح اولاد کو خدمت کی توفیق عطا فرمائے آمین
یہ مخلصانہ مشورہ چالیس پینتالیس پچاس سے اوپر سارے نوجوانوں کے لئے ہے اور اس سے چھوٹوں کی اکثریت تو یوں بھی ابھی روزگار سیٹ کرنے میں مصروف ہے ۔۔۔ ہاتھ میں فراوانی آتے ہی انہیں بھی بیوی پرانی اور نئے ارمان کا سامنا ہو تو اسی مشورے کو ملحوظ خاطر رکھیں
کہ زندگی آسان ہو گھر والوں کی بھی اور متعلقہ سب لوگوں کی بھی ۔۔۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو
پاک فوج زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
شکر الحمد للہ
پاکستانی ایک بہت زندہ دل قوم ہے
چیکیں بھی مارتے ہیں تو پہلے کامیڈی کر کے ماحول پہ لطیفہ بناکے ہنس ہنسا کے پھر ایک تجاہل عارفانہ والی چیک مارتے ہیں ہنس ہنسا کے ۔۔۔ہاہاہا
ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں
(سوائے موت کے ہم کسی چیز پر دکھی نہیں ہوتے ۔۔۔)
اور اللہ ہم پہ مہربان ہی رہے کہ اکثر ہنستے ہنساتے ہی رہتے ہیں
کبھی خود پر کبھی دوستوں پر کبھی حالات پر ۔۔۔
اب فائلر کی خوشی اور نان فائلرز کے دکھ پر ہی دیکھ لو کتنا ہنسے ہنسائے ہیں کہ ہم
نے سارے خون نچوڑ ٹیکسوں کو ہی بھلا دیا کہ ہماری اکثریت تو یوں بھی نان فائلر ہی ہے باقی حکومت کا کام ہے وہ جہاں سے کھنچائی کرکے نکال لے ۔۔۔ ویسے بھی حکومت کا ذریعہ ء روزگار تو اب عوام ہی ہے جتنا مرضی نچوڑ لو۔۔۔
یہ جب تک دم میں دم ہنستی ہنساتی ہی رہے گی
کسی احتجاج پر بھی نکلے گی تو ایک دوسرے کو لطیفے سنا کر ہنساتے ملے گی احتجاج میں بھی دل پرچاو ڈانس کرتا لازمی کوئی نہ کوئی نظر آئے گا اور اگر سفید ریش بوڑھا ہوا تو پھر تو پرفارمنس اور تالیاں احتجاج وحتجاج کو ایک کامیڈی گیٹ ٹو گیدر بنادیں گے
ہمارا کوئی احتجاج بسے خاموش منہ ، بینرز اٹھائے چپ چاپ چلتے نہیں ہوتا
ہلا گلا شور شرابہ نعرے ناچ گانا اچھل کود سے لبریز ایک ورائٹی پروگرام ہوتا ہے
اور یہی ہماری سخت جانی اور زندہ دلی کی دلیل ہے حکومت بھی ہمارے احتجاج سے گھبرانے کی بجائے خاصا ہنستی اور انجوائے کرتی ہے ۔۔۔ وہ بھی تو ہمارے ہی بھائی بند ہیں کبھی وہ ہمیں ہنسا دیتے ہیں کبھی ہم انہیں ہنسا دیتے ہیں سارا رونا رلانا بھلا کے ۔۔۔ جب تک آئی ایم ایف آکے ہماری کندھ نہ ٹھپے اسے بھی ڈاڈھی پھپھی کہہ کے بھڑاس نکال لیتے ہیں دوچار پھپھیوں کے لطیفے ٹکا کے ۔۔۔۔ہاہاہا
ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا نہ سنوار سکتا ۔۔۔
ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں
ہم سب کا پاکستان پاکستان پاکستان
پاکستان زندہ باد
پاکستانی پائندہ باد
“ساڈی نہر بڑی ٹھنڈی سی “
اس نہر کا ذکر اور وٹالے گرداسپور کے درمیان امی جی کے بچپن کا ذکر میں نے اتنی بار سنا ہے کہ اب امی کے گاؤں کا گھروں کا نہر کا ایک پکا نقشہ میرے ذہن میں بھی بنا ہوا ہے پنڈ انکا کانو واھن کے قریب ہی ‘حویلی ‘ نام کا تھا دو تین اور بھی نام اس گاؤں کے بتاتی ہیں جو اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہیں جاگیں گی تو پوچھ کر بتاؤں گی…..
“امی ساڈی لہور والی نہر توں وی سوہنی سی اوہ نہر”
“ہاں…. ” کہنے میں ایک لمحہ نہیں سوچنا پڑتا انہیں
“نیلا کچ پانی…. ٹھنڈی، دندیاں وجدیاں سی چھال مار کے “
“میں بڑا تر دی سی”
“ہدوانے سٹ کے منڈیان نے تری جانا نال نال….. ٹھنڈا ہوجانا فیر بہہ کے کھانا”
“میں وی ہدوانے نال تری ہوئی آں”
امی کی آنکھوں میں بچپن تیرنے لگا
میں نہیں سمجھتی کہ ان کی زندگی کا کوئی ایسا دن ہوگا جب انہوں نے اپنے گاؤں اور بچپن کی باتیں نہ سنائی ہوں ہمیں…. اگرچہ دیکھا نہیں مگر انکا گاؤں اور بچپن مجھے بھی حفظ ہے ایک بار موبائل پہ گوگل میپ سرچ کرتے ہوئے میں انکے گاؤں لے گئی انہیں، یہ ریل کی پٹڑی یہ نہر ساری ڈائریکشنز وہ موبائل پہ سمجھانے لگیں….. ان کی خوشی دیدنی تھی جیسے سچ مچ اپنے گاؤں کی نہر اور گاؤں دیکھ کر آئی ہوں اللہ سلامت رکھے انہیں آمین ثم آمین
نجریا کی ماری مری موری گوئیاں ۔۔۔
پاکیزہ فلم میں سنا یہ مصرعہ اکثر میں دہراتی رہتی ہوں کس کا گایا ہوا ہے یقینا کوئی پرانا پلیٹ والا ریکارڈ ہی ہوگا
میری امی کا خیال تھا میرے بچپن میں مجھے بڑی جلدی نظر لگ جاتی ہے
اب میرا بھی یہی خیال ہے ۔۔۔ہاہاہا
خاص طور پر میرا چہرہ نظر بد کا شکار ہے
اور موٹاپا ۔۔۔
وہ میری اپنی ذاتی کاوش اور کھانے پینے اور سست پڑے رہنے کی عادات کا مرہون منت ہے
باقی نحوست ہے وہ کسی رنگ میں بھی جلوہ افروز ہو سکتی ہے
ناک پہ چشمہ رکھے رکھے ناک اور آنکھوں کے درمیان سیاہ حلقے اور چھاہیاں سی بن گئی ہے ۔۔۔ میری آنکھوں نوجوانی سے ہی ویسے حلقوں والی ہیں جیسے بہت پڑھتی پڑھاتی ہوں مگر یہ سوچ کے حلقے ہیں شائید۔۔۔
اور اس وقت مجھے بھی اچھے لگنے لگے تھے جب دوچار کم عمر لڑکیوں نے خواہش ظاہر کی کہ “کاش ان کی آنکھوں میں بھی ایسے حلقے پڑ جائیں بہت اٹریکٹو لگتے ہیں باجی آپ کی آنکھوں پر گہری سوئی سوئی ۔۔۔کھوئی کھوئی ۔۔۔ آنکھیں”
(ہنسی ۔۔۔ بہت زیادہ ہنسی )
“بیٹا زیادہ افسانوی نہ بنو ۔۔۔ (محبت کرلو ) یہ حلقے تو کیا۔۔ پورے کے پورے حلقہ بگوش ہوجا وگے ۔۔۔۔ہاہاہا “
جس رخ پہ گال رکھ کر سوتی ہوں وہ قدرتی اب سیاہی مائل ہوکر غازے کی کمی پوری کر دیتا ہے
باقی چہرہ بھی متفرق نشانات سے لبریز ہے ۔۔۔ بڑھتی عمر کا تقاضا ہے اندرونی خلفشار ہے بیرونی یلغار ہے مگر میرے چہرے کو چند پروفیشنل حاسد خواتین کی نظر لگی ہے جن میں ایک پرانا بیوٹی پارلر بھی سر فہرست ہے اس کی اپنی مالکن پہلی بار دیکھی تو بہت گوری چٹی اور خوبصورت تھی پھر جب بھی دیکھی پہلے سے مرجھائی ہوئی اور آخری بار جب سے توبہ کی اس سے ۔۔۔اس کا پورا چہرہ جیسے جھلسا ہوا تھا ایک دو اور قریبی کسٹمرز نے بتایا بلکہ لڑائی کر کے آئیں کہ ان کا چہرہ جھلسا دیا نہ جانے کو ن سی ایکسپائرڈ پروڈکٹس استعمال کرکے اور اورو سٹیم کر کے ۔۔۔مجھے ویسے دادو کے ایک بیوٹی پارلر سے بھی یہ شکایت ہوئی تھی بد بخت نے ایک تو زبردستی فیشیل کیا منتیں ترلوں سے ہاسٹل اکے لے گئی کہ میں نے نیا نیا کھولا ہے پلیز مجھ سے ایک دفعہ فیشیل ضرور کروائیں (تاکہ مین سب مین پبلسٹی کروں کہ اپ بھی میری کسٹمر ہین )پھر ایک (بھتیجی ) لڑکی کے حوالے کردیا گھر کے ایک کمرے میں سارا سیٹ اپ تھا دو کرسیوں والا صحن میں بھینسیں بھی بندھی نظر آئیں مگر آپا آپا۔۔۔۔کرکے ترلے منتیں کر کے لے گئی (فری میں نہیں ) جس لڑکی کے حوالے بار بار کیا مجھے اس کے ہاتھوں سے بو اور عجیب سی کھردراہٹ صاف محسوس ہورہی تھی مگر کچھ دیر نظر انداز کیا پھر کہا چھوڑ دو بھئی میرا چہرہ میرا دم گھٹ رہا ہے ایسے گرم بدبودار کھردرے ہاتھوں سے فیشیل کروانے میں تب سے سکن وہ نہ رہی جو کبھی تھی یا وہم ہے میرا ۔۔۔ دادو میں ہی ایک پارلر کا بہت اچھا ایکسپیرئنس رہا بلکہ دو کا ۔۔۔ایک تو میری اسٹوڈنٹس تھی اس نے بہت محبت احترام اور دل سے فیشیل کے ساتھ ساتھ مینی کیور پیڈی کیور کیا بلکہ پیڈی کیور کے بعد کہا کہ میں نے پہلی بار آپ کا پیڈی کیور کیا ہے کسی کا نہیں کرتی ۔۔۔ مگر آپ استاد ہیں تو دل کیا کہ آپ کا پیڈی کیور بھی کردوں ( میرے خدا جیتی رہو اللہ تمہیں بہت نوازے تم اس وجہ سے مینی کیور پیڈی کیور کے لئے بضد تھیں اگرچہ میرا بالکل بھی موڈ نہیں تھا میرے اللہ دل سے آج تک دعا نکلتی ہے اللہ اس سعادت مند بچی کے بہت اچھے نصیب کرے آمین اس کو پہلے تو میں ٹھیک سے پہچانی بھی نہیں تھی ) پھر دادو میں ہی ایک اور پارلر اس نے بھی بڑی جانفشانی نرم ہاتھوں اور اچھی پروڈکٹس کے ساتھ فیشیل کیا اس کی سب سے خاص بات یہ کہ جو کبھی کسی پارلر میں نہیں دیکھی ہر مساج کے بعد وہ چہرے کو پانی سے صاف کرنے کی بجائے عرق گلاب کا سپرے کرتی اور پھر چہرہ صاف کرتی بار بار چہرے پر عرق گلاب کی خوشبو اور ٹھنڈی پھوار واقعی بہت خوش کن تھی فیشیل کے بعد وہاں بھی پس منظر سے ایک اسٹوڈنٹ نکل آئی خیر ایسی جگہوں پر پےمنٹ بھی زبردستی ہی کرنا پڑتی ہے یہ دھمکی دے کر کہ دوبارہ نہیں آوں گی اگر پے منٹ نہ لی تو ۔۔۔ (اور دوبارہ کبھی جاتی بھی نہیں اخلاقا) وہ اس اسٹوڈنٹ کی بڑی بہن تھی اور یہ اسٹوڈنٹ کی خصوصی ہدایت پر بار بار عرق گلاب کی خوش کن پھوار ہو رہی تھی ۔۔۔۔ جیتی رہیں سب اللہ انہیں بہت خوش کامیاب و کامران رکھے آمین ثم آمین
لاہور میں دو بڑے پارلرز سستے پیکیج پر بھی بہت اچھا تجربہ رہا ۔۔۔ مگر ایک تو انہوں نے اپنی سلیو لیس لوز فیشیل پروٹوکول شرٹس پہنوائیں ٹوپیوں کے ساتھ
لٹا کے فیشیل کیا دو سرے عالم غنودگی میں جاتے جاتے مجھے محسوس ہوا ان کی دو تین غیر متعلقہ لڑکیاں موبائلز لئے گھوم رہی ہیں میں الرٹ ہوگئی کہ تصویر کشی نہ کررہی ہوں سلیو لیس کھلے گلے کی شرٹس میں ۔۔۔۔۔۔ بس شک سا ہوا وگرنہ ان کی سروس بہت اچھی تھی پھر اسی طرح ایک پیکیج والی کے بار بار میسیجز اور فون آتے رہے ہماری یہ ڈیل چل رہی ہے وہ ڈیل چل رہی ہے بلاں بلاں بلاں ۔۔۔ آپ آئیں ہماری ریگو لر کسٹمر بن جائیں ( میں نے سوچا کبھی نہیں ۔۔۔۔ ) تیری ساتھی بھی میرے آس پاس ہی موبائل پکڑے گھوم رہی تھی (واللہ اعلم ) بہرحال یہ دونوں پارلرز میں نے ریجیکٹ کر دیئے بہت اچھی سروس اور پیکیجز کے باوجود ۔۔۔۔ باقی غیب کا حال رب جانتا ہے ہوسکتا ہے میرا وہم ہو ۔۔۔ وہم ہی ہوگا یقینا مگر یہ پروفیشنلزم کے خلاف ہے کہ جہاں آپ کسٹمر کا فیشیل وغیرہ کر رہے ہوں وہاں موبائل لے کر خوامخواہ کوئی دوسری لڑکی گھومتی پھرتی نظر آئے جب آپ نے سلیولیس ڈیپ نیک چھوٹے چھوٹے پھولوں والی شرٹ بھی زیب تن کر رکھی ہو اور پوری ہیروئین بن کے آرام کرسی پہ نیم دراز آنکھیں موندے فیشیل کروارہی ہوں
لڑکیو ! ہوشیار باش (واللہ اعلم بالثواب)
دوسرے یہ چہرہ جھلسانے والی پارلر والی جو ہے یہ لاہور گھر کے بہت قریب تھی تو سوچا چلو عید برات کسی شادہ بیاہ پر اس سے استفادہ کیا جائے مگر اس کی ایکسپائرڈ کریمز اور جھلسی ہوئی اسکن دیکھ کر فیشیل سے دو تین سال سے توبہ کر چکی ہوں تو یہ تھیں وہ خواتین جو آپ کی اسکن کا کباڑہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں اگر آپ فیشیل کرنا ہی چاہتی ہیں تو اپنے گھر میں اپنے ہاتھوں سے کر لیں خود کو ان نیم حکیمنوں کے ہتھے نہ چڑھائیں ہاں اگر کہیں واقعی بہت پروفیشنل اور تربیت یافتہ اسٹاف ہے اور اچھا سیٹ اپ ہے تو ویل اینڈ گڈ۔۔۔ مگر میں کراچی تا لاہور سوائے چند ایک پارلرز کے کم ہی مطمئن ہو سکی ہوں۔۔۔ ایک نے تو حیدر آباد میں عید سے ایک دن پہلے بلاضرورت ہاٹ ویکسینگ کرکے میرا چہرہ ادھیڑ دیا تھا اور وہ شادی کے بعد پہلی عید تھی زبردستی ایک دوست نے ویکسنگ کروادی ۔۔۔ طارق کو بہت ترس آیا مجھ پر پارلر والی اور میری دوست پہ غصہ کہ یہ کیا کردیا ایک ہفتے دس دن بعد وہ نشان صحیح ہو پائے ۔۔۔ شکر ہے اس نے مجھے ایک بار بھی بد صورت نہیں کہا اور نہ محسوس ہونے دیا شاباش ہے رضیہ کو بھی اس نے بھی خوش ہونے کی بجائے ہمدردی کا اظہار کیا۔۔۔ ویسے طارق کی رضیہ بہت اچھی خاتون ہے اس میں کوئی شک نہیں
ون آف اے ویری رئیر وومن ٹائیپ ( لائک می)
نہیں مجھ سے بہت زیادہ اچھی ہے وہ اپنی عادات اخلاق معصومیت کم گوئی اور ہمدردانہ طبیعت میں ۔۔۔ اسے سوال جواب اور لڑنا جھگڑنا بالکل نہیں آتا ۔۔۔ مگر میچور سمجھدار اور دانشمند بہت زیادہ ہے اور سلیقہ مندی تو ختم ہے اس پہ ۔۔۔ مگر سبزی اور پھل کاٹنا یا چھری چلانا نہیں آتا ۔۔۔
رضیہ آجاو لاہور ملنے کو دل چاہ رہا ہے
( طارق کی باتیں کریں گے ۔۔۔)
باقی نجریا کی مار مردوں کی ماری نہیں مر سکتی چاہے فیس بک پر ہی کیوں نہ ہون کہ وہ خواتین کے چہرے کو حسد کی تیکھی نظر سے کبھی نہیں تکتے ( اگر موقع ملے تو گہری دلچسپی سے ہی تکتے ہیں ۔۔۔ہاہاہا )
اور سکن کی سینسٹوٹی کا تو اب یہ حال ہے کہ رات کو سوتے وقت اگر کنگن یا انگوٹھی نہ اتاروں تو کلائی پہ ریشز محسوس ہوتے ہیں کچھ عرصے سے تو کانوں کے ٹاپس بھی الرجک محسوس ہوتے ہیں
مامی کی تبت کریم ورکس۔۔۔ بےبی کے مشورے کے مطابق کہ یہ کریم ہر اسکن پرابلم دور کرنے کا زود اثر ٹوٹکہ ہے۔۔۔
مگر تبت کریم کی خوشبو میرے آس پاس سوتی مخلوق کو چھینکیں لگا دیتی ہے
جاوں تو جاوں کہاں ۔۔۔۔ ؟
مشورے تو بہت ملتے ہیں
مگر عمل تو میں نے کرنا ہے نا
نہیں کرتی ایز یوژئل ۔۔۔
پیر کی نیورو پیتھی کا علاج کرا رہی ہوں ۔۔نہیں نا
“منہ اپنا تو پیر کیا پرائے ہیں “
یہ میرا مشہور اور کلاسک ڈائیلاگ ہے جو اکثر دہراتی رہتی ہوں
دیوداس کے ایک ڈائیلاگ کی پیروڈی ہے۔۔۔ پارو منو دیدی سے کہتی ہے دیوداس سے لاج کے بارے میں
“تم اپنی ہو تو ۔۔ وہ کیا پرائے ہیں “
بے بی اور میں تو اکثر دیوداس کے ڈائیلاگز دہراتی رہتی تھیں کہ یہ واحد فلم ہے جو ہم نےببیس بار تو دیکھی ہی ہوگی جیسے وہ پریم پتر والا گانا ۔۔۔ سوبار دیکھا ہوگا
‘ دل دیا درد لیا ‘ کا دلیپ کمار کا ایک ہاتھ پہ ہاتھ مار کے افسوس سے ‘اوہ’ کہنے والا سین ۔۔۔
جو بار بار ریوائنڈ کرکے ہم نے اتنی بار دیکھا کہ آخر وہ سین ہی ہماری سی ڈی سے کٹ گیا ۔۔ ایک سیکنڈ کا سین ہے مگر کئی فلموں پہ بھاری پرفارمنس والا ۔۔اکثر اس فلم میں کٹا ہوا ہی ملتا ہے
ہیر رانجھا پاکستانی فلم کا ایک سین بھی میرا پسندیدہ ہے آخری سین جب ہیر کے جسم سے روح “رانجھنا” کہہ کے اڑ کے نکلتی ہے فردوس نے بہت اچھا پرفارم کیا ہے
اور بھی بہت سے ہیں یاد آئے تو بتاوں گی دوستو
ابھی میرا مسئلہ تبت کریم اور چہرےکی چھائیاں ہے
ہاں تو دیوداس کا پیروڈی ڈائیلاگ جو بھول گئی
ایک دوست نے امپورٹڈ لوشن گفٹ کیا بھائی کے بیرون ملک وزٹ کا تحفہ
میں نے اس کے سامنے ہی کھول کر منہ پہ مسلا پھر پیروں پہ مساج کیا ۔۔۔ دوست کو دکھ ہوا جو ہونا بھی چاہئے تھا اتنا مہنگا اور پیروں پہ بھی۔۔۔ جہاں لوکل پاکستانی پروڈکٹ سے بھی کام چلایا جا سکتا تھا
“ائی۔۔ پیروں پہ بھی یہی لگارہی ہو اتنا منہگا “
“منہ اپنا ہے تو پیر کیا پرائے ہیں “
پارو کے انداز میں جواب دیا
وہ ۔۔ ۔۔ہنسی اور دل سے ہنسی میں بھی ہنس دی کہ دوستوں کو ہنسانا تو مجھے اچھا لگتا ہی یے
یہ ڈائیلاگ اب تک وقتا فوقتا دہراتی ہوں
اب ذرا اور ردو بدل کر لیتی ہوں
“منہ پہ چھائیاں ہیں تو پیروں میں نیورو پیتھی نہیں ہے کیا ؟”
اس کھال کے اندر جانےکون کون سی عوارض پل رہے ہیں۔۔۔
پلنے دو ۔ ۔۔۔
جوج ماجوج بھی اللہ کی مخلوق ہے ہم پر ہی پلے گی
تبت کا ٹوٹکا ضرور آزماؤں گی بہرحال ۔۔۔ اگر آس پاس کے لوگوں نے خوشبو سے کمپرومائز کرلیا تو ۔۔۔
اب تو واقعی فیس پہ سینسیٹو سی جلن محسوس ہو رہی ہے کہاں ہے میری تبت کریم ۔۔۔ وہ اور جلن کرتی ہے مگر پھر ٹھنڈ پڑجاتی ہے اور خوشبو مجھے مسئلہ نہیں کرتی ۔۔۔ چھوٹی بہن تبت سے ‘ایٹیٹیوڈ ‘شو کرتی ہے
کہ یہ تو امیوں کے دور کی کریم ہے تھرڈ کلاس ۔۔۔ بیٹا اب میں بھی ‘امیوں ‘ کے ہی برابر ہوں ویسی ہی حرکات واجب ہیں مجھ پر ۔۔۔
ساری امیوں سے معذرت کے ساتھ شوخ و شرارتی ریلز تصویری ہیروئین پن شو کرتی ہیں۔۔۔ ہمارے دور کی ساری لڑکیاں آج کی امیاں پھپھیاں آنٹیاں۔۔۔ ابھی تک خود کو ہیروئین ہی سمجھتی ہیں
بہت سی تو موٹی موٹی ٹک ٹاکرز بھی ہیں۔۔۔۔ ہاہاہا
خوش رہو یارو ۔۔۔ جیو جیو خوش رہو
تم سب کے دکھ ۔۔۔۔ ہاہ کیا کہوں
بس رہنے دو دکھوں کی بات ۔۔۔
یہ مصنوعی غازے اور مصنوعی
معاملات۔۔۔
دکھ کے آگے کچھ نہیں ٹھہرتا ۔۔۔
دل کے آگے کچھ نہیں جمتا !
چاہے تبت کریم ہو یا امپورٹڈ لوشن ۔۔۔
شکل چڑیلاں تے دماغ پریاں۔۔۔ امی کا ڈائیلاگ ۔۔۔
( ظاہر ہے اپنی بیٹی کے بارے میں )
تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کیا کام
تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنے
ہو سکتا ہے شعر میں کچھ ہیر پھیر ہوگیا ہو مجھ سے لکھنے میں۔۔۔ مگر بارہ تیرہ سال کی عمر میں ماموں کی الماری سے نکال کر امی سے چوری چوری پڑھاپہلا ناول۔۔۔ وہ خاصا رومینٹک اور متاثر کن ناول تھا ” مالا” نجانے کس کا لکھا ہوا کیونکہ اس عمر میں رائٹر پہ توجہ دینا میرے لئے اتنا ہی غیر ضروری تھا جتنا آج کسی ناول کا مطالعہ کرنا
ریڈنگ اسپیڈ اچھی تھی ڈیڑھ نشست میں پڑھ کے واپس الماری میں رکھ دیا ۔۔۔ اسٹوری کچھ کلیریکل عام سے ہیرو کی تھی جسے عین اپنی شادی کے دن بیوی کی چھوٹی بہن سے عشق ہوجاتا ہے مطلب خوبصورت سالی اور عام سا بہنوئی ہیرو ہیروئین تھے ہیروئین بہت حسین اور عشق یکطرفہ تھا جو شائید آخر تک اظہار نہ ہوسکا
ایسے میں جب ہیروئین آخری سین کے لگ بھگ اپنا رشتہ طے ہوجانے کے بعد اپنی دراز ذلفیں سنوار رہی ہوتی ہے تو ہیرو خیال میں یہ شعر دہراتا ہے اس وقت تک وہ آتش عشق میں جل بھن کے سوختہ کباب کی اسٹیج پر ہوتا ہے کلائمکس کے آس پاس سین تھا شائید ۔۔۔ انجام پتہ نہیں کیا ہوا تھا ہیرو بچا کہ نہیں ہیروئین تو یوں بھی خوبصورت معصوم اور لاعلم تھی (غالبا )
اب زیادہ یاد نہیں بہرحال شعر تھا
تم کو میری آشفتہ نصیبی کی خبر سے کیا کام
تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنے
شعر اس عمر میں بہت بھلا معلوم ہوا کہ یاد ہوگیا
اکثر دہرایا کرتی سو آج تک یاد ہے اور سوچتی یہ مصنف کا ذاتی شعر بھی اگر تھا تو وہ کون ہے ؟
کبھی نام نہیں سنا
آج فیس بک کی ایک پوسٹ پہ کسی مہربان نے تھوڑے سے ردو بدل کے ساتھ شئیر کیا تو پتہ چلا یہ میرے بچپن کا پسندیدہ شعر ‘داغ دہلوی ‘ کا ہے جو کے مجھے اب بھی پسند ہے اور آج تک یاد ہے
آج پرانی ‘وارث شاہ ‘فلم دیکھی بلیک اینڈ وائیٹ گرچہ اب پرانی پنجابی فلموں کی وائس کوالٹی اور ٹھیٹھ پنجابی سمجھنے میں مجھے بھی دقت محسوس ہونے لگی ہے مگر عنایت حسین بھٹی وارث شاہ کے روپ میں جگہ جگہ ‘ہیر ‘ گاتے نظر آئے بڑا لطف آیا انڈیا نے بھی چندسال قبل ایک فلم بنائی تھی اسی طرح کی مگر یہ قریبا پچاس ساٹھ سال پرانی ہے اگرچہ فضول کامیڈی کے بھی ٹکڑے ہیں بیچ بیچ میں ۔۔۔ تنقیدی نقطہ نظر سے غالبا اس پاکستانی وارث شاہ میں اور انڈیا کی وارث شاہ میں وہی فرق ہے جو دلیپ کمار اور شاہ رخ خان کی دیوداس میں تھا یہ انڈین مووی سے خاصی بہتر اور حقیقی محسوس ہوئی پنجابی جاننے والے اور ‘ہیر ‘ سمجھنے والے ایک بار ضرور دیکھیں بہار اکمل اور میناشوری کے ساتھ عنایت حسین بھٹی ٹائیٹل رول میں ہیں ، فلم اچھی لگے گی
ایسے مناظر سندھ کے کنول بھرے تالابوں میں عام نظر آتے تھے
سندھ کے لاڑکانہ دادو سکھر کے آس پاس چھوٹے چھوٹے تالاب بہت خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں چاہے آپ بائی روڈ سفر کر رہے ہوں یا بائی ٹرین۔۔۔ ہر دو سو گز کے بعد ایک چھوٹا بڑا تالاب کنول پھولوں سے بھرا آپ کے سامنے ہوتا ہے اکتوبر نومبر کے مہینوں میں ۔۔۔ پھر یہ تالاب کمبھ لوڑھ ڈوڈی بیھ کی پیداوار کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں چھوٹی مچھلیاں بھی مل جاتی ہیں آبی پرندے مرغابیاں سفید بگلے اسی طرح ایک ٹانگ پر کھڑے سوچ میں گم آپ کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں لاڑکانہ شہر سے نکلتے ہی یہ مضافاتی منظر شروع ہوجاتے تھے پھر آگے چاول کی سبز فصل ۔۔۔ اور ان تالابوں کے کناروں پر جگہ جگہ سرکنڈوں کے سرمئی سفید پروں جیسے پھولوں سے بھرے جھنڈ جن پر دھوپ پڑے تو اتنے رنگ تخلیق ہوتے ہیں کہ آپ حیرانی سے دیکھتے رہ جاتے ہیں راستے یا پگڈنڈیوں پہ کیکر پیلے چھوٹے چھوٹے پھولوں کی بہار لئے یا کنیر کے پودے۔۔۔ اگرچہ گرمی بہت زیادہ ہوتی مگر اچھے موسم میں یہ مناظر بہت پرکیف لگتے ہیں کہیں کہیں کسی تالاب چھوٹی سی کشتی پہ سوار مچھی کا جال لہراتے مچھیرے ۔۔۔ کہیں کسی تالاب میں بڑے بڑے پتوں یا چھوٹے گنجان پتوں کی بیلوں سے ڈھکے تالاب کے نیچے گھسی نہاتی ہوئی پوری بھینس جس کا صرف منہ باہر ہوتا ہے جو تالاب کے پتے چر رہا ہوتا ہے ۔۔۔ سنا ہے ان تالابوں میں آبی سانپ بھی ہوتے ہیں جو عام طور پر زہریلے نہیں ہوتے تبھی تو لوگ لنگوٹ باندھے تالاب میں گھسے ہوتے ہیں کبھی کنول پھول توڑنے کے لئے جو بچوں کو ہار بناکر بھی بیچتے تھے یا آلو کی طرح ہی بہت زیادہ استعمال ہونے والی مشہور سبزی بیھ کنول کے (پودے کی جڑ) یا پھر کنول ڈوڈیاں نکالتے ہوتے ۔۔۔ بیھہ (سبزی ) ڈوڈیاں (چیجی) دونوں ہی میری پسندیدہ ترین چیزیں ہیں ۔۔۔ لاڑکانہ دادو میں روز کھاتی تھی ۔۔۔
لہور میں ملتی ہی نہیں ترس جاتی ہوں
بلکہ بیھہ کے لئے سارے گھر والے ترستے ہیں کہ کہیں سے مل جائے تو لا کے پکائیں
مچھلی گوشت میں بیھ بہت اچھا لگتا ہے بیھ پالک خالی بیھ کی سبزی بیھہ آلو ۔۔۔ یا لاڑکانہ کے دم پر بنے کھمبی بیھ جو مٹی کے کالے مٹکے میں اسٹیم پر رات بھر پکا کر صبح صبح ریڑھی والا مٹکے پہ ڈھکی سلور یا اسٹیل کی پلیٹ بجاکر اپنی آمد کا اعلان کرتا تھا اور ابو جی صبح صبح ہمیں الگ الگ اپنے اپنے اخباری ٹکڑوں پہ گھر کے کونے پہ کھڑے بیھہ والے سے لے کر دیتے تھے پسا دھنیا اور نمک مرچ ڈلے دم پر پکے بیھ جو ہم سب ناشتے میں پراٹھوں کے ساتھ کھاتے ادھر گرم گرم پراٹھے اتر رہے ہوتے ادھر بیھ والے کی پلیٹ کھڑکتی دوڑ کر باہر بھاگتے اور دم کے بھاپ دار بیھ لے کر دوڑ آتے پیچھے سے ابوجی چلے آتے پیسے دینے ۔۔۔لاڑکانہ کا ناشتہ بلکہ کھانا ہی بڑا جم دار ہوتا تھا ۔۔۔ ناشتے میں بیھ ۔، کبھی تلے آلو کبھی آملیٹ ہفتے میں ایک دو بار کلیجی اور پندرہویں دن بڑے پائے جو رات بھر ابوجی ہلکی آنچ پر پکاتے ۔۔۔ ساتھ امی جی کے ہاتھ کے پکے گرم گرم لوچدار پراٹھے ۔۔۔ اسلم تین چار پراٹھے بھی گڑکا جاتا ۔۔۔ ہر بچہ کم ازکم دو فل سائیز پراٹھے کھا کر ہی سیر ہوتا پہلا پراٹھا ہمیشہ بلی میاوں میاوں کرکے ہتھیا لیتی ۔۔۔ہم بچے بھی اسی کا حق سمجھتے ۔۔۔کچن ایک چھوٹے کمرے کی طرح ہی تھا جس میں ایک چھوٹی سی چارپائی بھی اکثر ڈلی ہوتی ابو جی اس پر بیٹھ رہتے ہم دستیاب دو تین لکڑی کی چوکیوں یا بقایا بوری سی بچھا کر امی جی کے دھڑا دھڑا اترتے پراٹھے نوش جان کرتے امی جی کی پراٹھا روٹی اسپیڈ ایسی تھی کہ بقول ان کے وہ عورت ہی کیا جو گھڑ سوار کو روٹی پکا کر نہ دے پائے مطلب اتنی تیز۔۔۔ لکڑیوں کی آگ ہوتی پتہ ہی نہ چلتا ایک ڈلتا ایک اترتا ایک گھی لگا رہی ہوتیں ایک تھپتھپا رہی ہوتیں مطلب مشینی پراٹھے ۔۔۔ اور لذیذ ایسے کہ ویسے پراٹھے بس انہی کو پکانا آتے تھے نرم سکے ہوئے لوچدار لچک دار گھی سے نہ بہت تربتر نچڑتے نہ کہیں سے خشک یا کم و بیش ۔۔۔ ایک طرف خوب سارا گھی ڈالتیں پھر دوسری طرف بھی اسی گھی میں سینک لیتیں اندر بل دار پیڑے میں خوب گھی لگاتیں گھی بالکل مناسب لگتا اور پراٹھا مزیدار بن جاتا اور پھر ساتھ بیھ کلیجی یا پائے ، رات کا سالن ، لہسن لال مرچ کی چٹنی اچار۔۔۔ گرم گرم چائے مزہ آجاتا۔۔۔ بہر حال اس وقت بھی چائے اور چکن کٹلیٹس کاابتدائی ناشتہ انجوائے کر رہی ہوں ، پراٹھا اور قیمہ بھی آگیا۔۔۔ چائے کی سیکنڈ ڈوز بھی مل گئی
من و سلوی کی طرح عیش ود آوٹ کیش ۔۔ اللہ کریم بھائیوں بھابیوں کو سلامت رکھے آمین ثم آمین
مجھے جہاں اپنا حصہ ڈالنا ہوتا ہے خوب ڈالتی ہوں اور جم کے ڈالتی ہوں کہ بھائیوں بال بچے دار (غریبوں) کا تو وہ حال ہے ایک کو اپنے باس کی طرف سے انسینٹو کے طور پر امپورٹڈ ٹی شرٹ ملی ( چالیس ہزار والی) کہ ارب پتی باس کا کہنا تھا جیسی خود پہنتا ہوں ویسی گفٹ کروں گا ۔۔۔ عمران رون ہاکا ہوگیا
“سر مجھے پیسے دے دیتے ۔۔۔ میں بجلی کا بل دے دیتا “
دوسرا لالچ ملا
اگلے مہینے ٹارگٹ اچیو کر لو آئی فون دوں گا سب کو۔۔
“نہیں سر ۔۔۔۔ پیسے دے دیں اے سی کا بل بہت آرہا ہے”
یہ حال ہے سفید پوشوں کا ۔۔۔ اب وہ ٹی شرٹ تو اس نے کیا پہننی ابا جان ہے تو بیٹے کو دے دی ۔۔۔ مگر بلز ظاہر ہے ہم دونوں بہن بھائی ہی ذمہ دار ہیں جو گھر میں بل نہیں بھرتے لاپرواہ اور عیش میں ہیں جو بھرتے ہیں فالتو بتیاں پنکھے ہی چیک کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ہاہاہا
سب سے زیادہ کباڑہ دو اے سی کرتے ہیں پچھلے مہینے ایک چلا تو پچاسی ہزار تک پہنچ گئے تھے اس بار دونوں آن ہیں تو لاکھ سوا تو آئے ہی آئے۔۔۔ سولر پینل ہر سال سردیوں میں پلین کرتے ہیں مگر سردیاں اپنے اخراجات لے کر آتی ہیں اکثر گاڑیوں کے کام بھی سردیوں میں نکل آتے ہیں کسی کی بیٹری پھس تو کسی کی بریک کلچ یا انجن میں کوئی گڑبڑ ۔۔۔کبھی پانی کی موٹر جل گئی تو کبھی یہ کبھی وہ خرچ اور کچھ نہیں تو کسی بچے کی سیمسٹر فیس ہی آجاتی ہے پھر کوئی دوسرا ایڈمیشن فارم لئے کھڑا ہوتا ہے خیر سے ۔۔۔۔ بس شکر ہے اللہ کا نظام ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے کسی کی محتاجی نہیں مل جل کے امی جی کے نظام مادری و پدری کے تحت چل رہے ہیں خو ش و خرم اور بخیر و عافیت رب کی رحمتوں کے سائے میں ۔۔۔
چھوٹے بھائی ہیں تو مجھے چھوٹی امی کا ہی درجہ دیتے آئے ہیں شروع سے ۔۔۔ کہ ٹین ایج سے ہی جونہی میں نے ایکسچینج میں جاب شروع کی ان کی چھوٹی امی ہی بن گئی اور پیار کے حوالے سے تو پیدائشی ماں تھی شائید ان سب کی ۔۔۔اور آج تک بنی رہتی ہوں شکر الحمد للہ ۔۔۔
بڑی باجی بھی یوں محبت اور مامتا کے حوالے سے شروع ہی سے مجھ سمیت ہم سب کی چھوٹی امی ہیں اللہ سلامت رکھے انہیں آمین ثم امین
اور سب کو اپنے بچوں کی بہت بہت خوشیاں دکھائے آمین ثم آمین
نظر بد دور اور حاسدوں کا حسد دور دور رہے آمین ثم آمین پیاروں کی دعاوں کا شکریہ جزاک اللہ خیر کثیرا
اللہ ہم سب کو اور ہمارے پیاروں کو ہمیشہ سلامت اور خوش باش رکھے (آمین ثم آمین)
شکر الحمد للہ
اور مزید پوچھیں تو پوری پاکستانی قوم ہی ( سوائے چند استثنیات کے) ایک ٹانگ پہ بگلا بنی کھڑی ہے اس سوچ کے ساتھ کہ اتنا بڑا تالاب اور مچھلیاں سب شکاری لے گئے ۔۔۔ اب بگلا بھگت بھائی ایک ٹانگ پہ کھڑے سوچ میں فلاسفر بن جائیں یا ادھر ادھر گردن مٹکائیں کہ کہاں سے مچھی لائیں اور کھائیں
“ساڈی نہر بڑی ٹھنڈی سی “
اس نہر کا ذکر اور وٹالے گرداسپور کے درمیان امی جی کے بچپن کا ذکر میں نے اتنی بار سنا ہے کہ اب امی کے گاؤں کا گھروں کا نہر کا ایک پکا نقشہ میرے ذہن میں بھی بنا ہوا ہے پنڈ انکا کانو واھن کے قریب ہی ‘حویلی ‘ نام کا تھا دو تین اور بھی نام اس گاؤں کے بتاتی ہیں جو اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہیں جاگیں گی تو پوچھ کر بتاؤں گی…..
“امی ساڈی لہور والی نہر توں وی سوہنی سی اوہ نہر….”
“ہاں…. ” کہنے میں ایک لمحہ نہیں سوچنا پڑتا انہیں
“نیلا کچ پانی…. ٹھنڈی، دندیاں وجدیاں سی چھال مار کے “
“میں بڑا تر دی سی”
“ہدوانے سٹ کے منڈیان نے تری جانا نال نال….. ٹھنڈا ہوجانا فیر بہہ کے کھانا”
“میں وی ہدوانے نال تری ہوئی آں”
امی کی آنکھوں میں بچپن تیرنے لگا
میں نہیں سمجھتی کہ ان کی زندگی کا کوئی ایسا دن ہوگا جب انہوں نے اپنے گاؤں اور بچپن کی باتیں نہ سنائی ہوں ہمیں…. اگرچہ دیکھا نہیں مگر انکا گاؤں اور بچپن مجھے بھی حفظ ہے ایک بار موبائل پہ گوگل میپ سرچ کرتے ہوئے میں انکے گاؤں لے گئی انہیں، یہ ریل کی پٹڑی یہ نہر ساری ڈائریکشنز وہ موبائل پہ سمجھانے لگیں….. ان کی خوشی دیدنی تھی جیسے سچ مچ اپنے گاؤں کی نہر اور گاؤں دیکھ کر آئی ہوں اللہ سلامت رکھے انہیں آمین ثم آمین
ساڈی نہر وی بڑی سوہنی سی…. مطلب رائیس کینال، پر او ذرا خونی مشہور سی کہ ہر سال اک دو تارو ڈب جاندے سن…..
ہور ساڈی ایس نہر دا تے جواب ای نئیں جھڑی لہور شھر دے وچوں وچ لنگدی اے ، ایہہ تے جیویں جنت دی مکھ وکھالی اے
سنجے لیلا بھنسالی کے اس
” ہیرا منڈی ” ڈرامے سے کہیں بہتر آرٹسٹک اور رئیلسٹک پاکستانی فلم “بول ” ہے
جو تھوڑی بہت اسی قسم کا بیک گراونڈ ۔۔۔
مگر کچھ کچھ رئیل ماحول اور سنجیدہ موضوع پر بنی ہوئی خوبصورت اور آرٹسٹک فلم ہے
وہ فلم دوبارہ بھی دیکھی جاسکتی ہے اگرچہ اس میں بھی پرانے دور کا دلدر بھرا اندھیرا سیٹ اپ بھی مولوی صاحب کے گھر میں غیر ضروری طور پر ہائی لائیٹ کیا ہوا ہے اس طرح کے سیٹ سے چاہے فلم میں ہی ہو مجھے کوفت ہوتی ہے جو غربت کسمپرسی بے چارگی دکھانے کے لئے بد رنگ بے ڈھنگا بکھرا ٹوٹا پھوٹا اور اندھیرا اندھیرا سا ہو ۔۔۔ یہ مجھے اوور ایکٹنگ کی طرح اوور سیٹ ڈیزائننگ لگتی ہے جیسے سنجے لیلا بھنسالی کی فلموں میں اوور گلیمرائزڈ سیٹ ڈیزائننگ ہوتی ہے وہ بھی برداشت نہیں ہوتی ۔۔۔ پاکستانی فلموں میں تو خیر عام طور پر گتے کے سیٹ ہی لگائے جگاتے تھے رنگ رنگا کر چمکا کر وہ الگ مضحکہ خیزی مگر امراو جان ادا اور انجمن کے سیٹ اچھے ہی ہیں نہ اوور گلیمرائزڈ نہ بالکل پھیکے بے ڈھنگے سے ۔۔۔ ویسے سب سے زیادہ رئیل لوکیشن پر اچھا کام ہوتا ہے
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دی