12 یادش بخیر

Front view of a smiling woman

اونچے پہاڑ مجھے متاثر کرنے کی بجائے گھبراہٹ میں مبتلا کرتے ہیں تصویر بھی دیکھوں تو چاروں طرف سے گھیرے جانے کی گھبراہٹ محسوس ہونے لگتی ہے سر سبز پہاڑیاں جو دور دور ہوں اور خوبصورت وادیاں یا
سر سبز میدانی علاقے میٹھے پانی کی نہروں کے ساتھ میرے پسندیدہ ہیں
مارگلہ کی سر سبز پہاڑیوں کے دامن میں واقع قائد اعظم یونیورسٹی….. ایم فل کے دوران گرلز ہاسٹل سے بایولوجیکل سائنسز کے ڈیپارٹمنٹ تک مارگلہ کی پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ واک کرتے جانا، اور کبھی کبھار پائنس کی ادھر ادھر بکھری کومبس میں سے ایک آدھ اٹھا کر اپنے روم میں سجادینا ، ایک خوشگوار سی یاد ہے ایک آدھ کومب تو ابھی تک میرے پاس ہے یا پھر ٹیکسلا سے آگے پرانی بدھا یونیورسٹی کا وزٹ اور گوتم بدھا کے ہر سائیز کے مجسمے، اور ڈیکوریشن پیس کے طور پر بکتے بدھا کے دربار اور پیدائش وغیرہ کے محلاتی سین…. جو دو تین خرید لئے تھے میں نے اور گھر میں سجانے پر امی جی اور ابوجی کی سرزنش کا سامنا کرنا پڑا تھا….. کہ یہ کیا بت سجا دئے ہیں گھر میں ، یاد نہیں کہاں گئے کسی کو گفٹ کر دئے تھے شائید….. یا پھر دادو کالج کی ہر پکنک میں ہم دو چار دوستوں کا نئے کپڑے پہن کر تیار ہوکر سب سے پہلے بس میں سوار ہوجانا، شدید گرمی کی ایک پکنک تھی آدھے راستے میں ہی کولرز کا پانی ختم ہوچکا تھا پھر لو دھوپ اور پیاس تھی…. عام پانی سے پیاس بجھ نہیں رہی تھی پھر ایک جگہ تپتی دھوپ میں برف کا ریڑھا نظر آیا کولرز میں بھی برف بھری اور برف کی ڈلیاں چبا چبا کر ہم نے بھی پیاس کو کچھ افاقہ دیا….. ہوش آیا تو حمیدہ نے کہا
“چشمہ تو اتارو…. آنکھیں نظر نہیں آرہیں لگتا ہے، کوئی اور بیٹھی ہے”
تپتی دوپہر میں میں نے بھی سن گلاسز اتار کے پرس میں رکھ لئے تھے
یا پھر سوات اور کالام کا وہ سفر جب ہماری گاڑی کے سامنے اور پیچھے شدید بارش کی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ ہو گئ تھی بائیں ہاتھ خوبصورت مگر خوفناک روانی سے بہتا دریائے سوات اور دائیں ہاتھ پہاڑوں سے لڑھکتے پتھر نظر آرہے تھے دریا کے اس پار سبز پہاڑیوں پر بادل نیچے تک جھک آئے تھے سارا گروپ خوفزدہ تھا میں نے خوف پہ قابو پا رکھا تھا نہ جانے کیوں میں لاپرواہ تھی سنگینی سے مجھے خوف کا ذرا بھی احساس نہیں تھا بلکہ خدا کے بھروسے اور محبت نے میرا موڈ خوشگوار کر رکھا تھا پریشان حال لوگوں میں میں نے کہا
“دریا کے اس پار تو دیکھیں سبز پہاڑیون پہ جھکے بادل….. اور یہ نیلا دریا منظر کتنا خوبصورت ہے جہاں ہم رکے ہوئے ہیں “
سب لوگ متوجہ ہوگیے تھے
“واقعی…. سبحان اللہ “
پھر سب خواتین نے حلقہ بناکر درود تنجینا شروع کردیا 313 بار پڑھنا تھا ابھی سو کے آس پاس ہی تھے کہ ڈرائیور نے سب سے اجازت لے کر” نعرہ تکبیر اللہ واکبر” لگوا کر آر یا پار، گرتے پڑتے پتھروں میں فل ایکسیلیٹر دے کر پھسلواں روڈ کی چڑھائی عبور کرلی تھی دیکھا دیکھی آمنے سامنے رکی گاڑیاں بھی ہمت کر کے چل پڑیں…… رات مدین میں قیام تھا یونیورسٹی کے البیلے البیلیاں استادان گرامی قدراں کے ساتھ دوسرا دن نکلتے ہی کالام کا ادھورا رہ جانے والا سفر پورا کرنے کے لئے پھر روبہ سفر تھے اسی خطرناک راستے پر، ہم تین دوست کیمرہ بھول آئی تھیں باقی سب ٹھکا ٹھک فوٹو گرافی کرتے آئے تھے سارا راستہ
ایک ادھ گروپ فوٹو سے ہماری تسلی بھی نہیں ہورہی تھی اچانک میری نظر ایک چھوٹی سی دکان پر پڑی کیمرہ رول سیل کرائے پر کیمرہ وغیرہ وغیرہ کرائے پر کیمرہ یقین آنا ذرا مشکل تھا کوسٹر رکوائی ، شوخ و شنگ نوجوان پٹھان بھائی تین نوجوان لڑکیوں کو کیمرہ فری میں بھی دینے پر آمادہ تھا واپسی کے وعدے پر…. مگر ہم نے چارسو کرایہ دیا جس میں سے سو روپے کرایہ کاٹ کر بقایہ واپسی پہ مشروط تھا رول ڈلوائی سیل ڈلوایے اور دعا کر کے کہ رزلٹ اچھا ہو مدین سے کالام کے لیے کوسٹر میں سوار ہوگئیں…. دریا میں چارپائیوں پر بیٹھ کر ادھر ادھر خوب فوٹو گرافی کی گروپس میں بھی آفر کیں سب حیران تھے ہماری کیمرہ کہانی عرف کارستانی پر…. واپسی میں اسی دکان کو ڈھونڈ کر کیمرہ واپس کیا بقایہ پیسے لئے اور اسلام آباد پہنچ کر رول دھلوا لیا
کیمرہ سستا ضرور تھا مگر رزلٹ ٹھیک ہی تھا….. کاش آج کی طرح موبائلز کیمراز ہوتے تو کون ایسے جتن کرتا….. اس وقت نوکیا 3310 ٹائیپ موبائل ہی اکا دکا کسی کے پاس تھے صرف کال یا میسیج کوئی network 3G or 4G نہیں عام طور پر اسلام آباد میں بھی سگنلز کا پرابلم رہتا تھا بس نام کی سہولت تھی جو اکا دکا شوقین لوگ ہی avail کررہے تھے شوق مجھے بھی تھا مگر سگنلز کا حال دیکھ کر شوق کو عملی جامہ نہ پہنایا تھا سو روپے کا کارڈ ڈال کر ڈبے ٹاییپ بوتھ میں چند منٹ گھر بات ہوجاتی تھی اللہ اللہ خیر صلی
جب میں نے تین چارسال کی عمر میں ہوش سنبھالا ہم اماں مینا کی اوپری منزل پر کرائے دار تھے میری پیدائش بی بی (نانی) کے گھر کی تھی مگر شادی شدہ بیٹیاں میکے میں بھی جوائنٹ فیملی سے الگ رہنا پسند کرتی ہیں اس کا ثبوت امی جی کا
بی بی کے برابر والے گھر کی اوپری منزل پر کرائے پر شفٹ ہونا تھا اسلم اکرم شبانہ اماں مینا کے گھر ہی پیدا ہوئے اس لحاظ سے بی بی کے ساتھ ساتھ دائی پٹھانی ، بوا سودن (اماں مینا کی بڑی نند )اور اماں مینا (اللہ بخشے) سب ہی ہمارے پیدائشی گواہ تھے سو ان سب کی شفقت اور محبت ہمارے لئے ننھیال سے بھی فزوں تر تھی اور آج تک ہے اگرچہ ان کی فیملی بال بچے برسوں سے کراچی اور ہم لاہور میں ہیں ملنا جلنا نہ ہونے کے برابر ۔۔۔ مگر وہ ہمارے اپنے ہیں ہم ان کے اپنے ہیں اکا دکا فرد سے میسیجز کا رابطہ قائم ہے سب کی محبتیں اور تصویریں شیئر ہوتی رہتی ہیں نجمہ میری بھی بچپن کی اور بہترین دوست ہے اللہ اسے سلامت رکھے ناجو باجی ، باجی ہی ہیں اماں مینا امی کو بیٹی اور ان کے سب بچے امی کو ‘آپا’ کہتے تھے سو نجمہ اگرچہ مجھے سے چھوٹی تھی مگر جب کہیں تعارف کرواتی تو بڑے دبدبے سے کہتی
“یہ ہماری آپا کی بیٹی ہے ۔۔۔ میں اس کی خالہ ہوں “
اور مجھے بھی اسے چھوٹی خالہ سمجھتے ہی بنتی جب ناجو باجی بھی لقمہ دیتیں
“ہم دونوں ان کی خالہ ہیں ۔۔۔ یہ ہماری آپا بڑی بہن کے بچے ہیں”
اور آپا اور اماں مینا کا پیار تو کبھی کبھار بی بی کا میکہ والا گھر بھی امی کو بھلا دیتا تھا وہ بے بی کے گھر جائیں نہ جائیں ان کے برابر اماں مینا سے ضرور دن میں ایک بار مل کر آتیں ۔۔۔ بی بی اللہ بخشے خود دن میں دوچار لگا کر امی جی سے ملنے آتیں اماں مینا بہت سوشل ، دھیمی متین دانشمند اور بہترین خاتون تھیں سارا دن ان کا گھر خواتین کی محفل جمی رہتی وہ سب کو پان کھلاتی رہتیں اور سب کی بات چیت میں اپنی دانشمندی کے ایک آدھ جملے کا اضافہ کرکے محفل سمیٹ لیتیں امی جی کی ذہانت اور دلائل کی وہ شائق تھیں سارے پٹودی والوں سے ہمارے رشتے اماں مینا کے حوالے سے قائم تھے جو ان کے بچوں کا چاچا چاچی ہمارے بھی چاچا چاچی ان کے بچوں کے ماما مامی ہمارے بھی ماما مامی خالہ خالو بوا ابا قاسم ۔۔۔وغیرہ ہم دوچار گلی آگے اپنے گھر میں شفٹ ہوگئے تھے مگر کھیل کود کے لئے ابھی تک بی بی کی گلی میں جاتے اماں کے مٹکوں سے غڑاپ غڑاپ کرکے خود اور ساتھ کھیلتے بچوں کو پانی پلاتے اماں کے گھر کے کونوں کھدروں میں آنکھ مچولی اور چھپن چھپائی کھیلتے کہ وہ ہمارا اپنا گھر تھا ۔۔۔ اور یہ سہولت ہمیں بی بی نانی کے گھر بھی میسر نہ تھی کہ سارے بچوں کو ساتھ لے کر کمروں میں دندناتے پھریں ہماری کھیل کود کے وہ سب شروع سے عادی تھے نجمہ کبھی کبھار جل کر چونڈیاں کاٹتی ۔۔۔ گلی میں کسی بچے نے اسلم اکرم کی دھنائی کی نہیں ان کے رونے کی آواز پر سب سے پہلے ناجو باجی یا اماں مینا باہر لپکتیں اور مارنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ کرتیں یا کان مروڑتیں ۔۔۔ ساتھ میں بی بی کا گھر تھا مگر ہمارا ننھیال اماں مینا ہی بنی رہتیں
اماں کے لاڑکانہ سے کراچی شفٹ ہوجانے کے بعد ان کی روحانی بیٹی امی نے ان کی گدی سنبھال لی محلے بھر کا خواتین کلب ہمارا گھر بن گیا اماں مینا کے پاندان کی جگہ چائے کا لنگر کھل گیا سارا دن چائے کی پتیلی چولہے پر چڑھی رہتی پکتی چائے میں پانی پتی چینی دودھ ڈال کر برکت کے ساتھ ساتھ پینے والی خالاوں کی تعداد بھی ہر آدھ گھنٹے بعد بڑھتی رہتی ابو جی اور ہم بچے چائے بناتے اور سپلائی کرتے رہتے اتنا شکر ہے کہ ایک خاتون عام طور پر ایک ہی بار چائے لیتی ۔۔۔ ہر فریش آنے والی خالہ کوچائے کا فریش کپ تھمادیا جاتا کبھی کوئی پاندان خالہ چار پانچ پان لگا لاتیں وہ بھی ایک ایک کتر سب چبالیتیں ساری جی بھر کے اپنے اپنے مسئلے مسائل دکھڑے بیان کرتیں باری باری ۔۔۔ جو آس پاس سنتے سناتے مجھے بھی ازبر ہو چکے تھے اگر ابو جی گھر نہ ہوتے تو ہلکی پھلکی گیت گانے کی محفل بھی رچا لیتیں اور اکا دکا ایک دو خالائیں جوش میں آکر کمر لہرا کر ہاتھ بھی لچکا لیتیں خواتین کی منڈلی جمی رہتی سب ابو سے پردہ کرتیں اور نظر پڑتے ہی سائیڈ سے بڑا سا گھونگٹ کھینچ لیتیں ۔۔۔ایک شرارتی خالہ جو اگرچہ امی ابو سے عمر میں بڑی تھیں کبھی کبھار جب سفید نائلون کا دوپٹہ پہن کر آتیں منہ پر کھینچ کر ضرور
“بھائی سلانوالیکم” کرتیں سارا چہرہ رخ روشن سا سامنے ہوتا ابوجی جز بز ہوجاتے دیکھیں یا سلام کا جواب دیں وہ ‘سالی’ بنی خوب انجوائے کرتیں ہم بچے اور امی بھی ہنستے رہتے ۔۔۔
گھونگٹ کی اوٹ سے بھی نائلون کے سفید دوپٹے میں ان کا پورا دیدار ہوجاتا
بہت اچھا وقت تھا محبت اخلاص اور سچائی سے بھرپور ، جو رشتہ قائم ہوتا اپنوں سے بڑھ کر نبھایا جاتا ان قائم شدہ رشتوں کی ساکھ ہی بہترین طور پر نبھانا تھی ۔۔۔ آج تک اماں مینا کے گھرانے سے ہمارا دلی رشتہ قائم ہے کراچی اور لاہور کے مابین ، حقیقتا سب پٹودی والے ہی سونا لوگ تھے اور اب تک ہیں
ایک میٹنی شو کے ٹائیم پہ بے بی اور مجھے احساس ہوا گھر میں کچھ خواتین مہمان آئی تھیں گھرکی خواتین ان کے ہمراہ غائب ہیں
تجسس ہوا تو پتہ چلا اسٹیشن کے دوسری طرف کسی عزیزوں کے گھر میلاد پر گئی ہیں بچوں سے چھپ چھپا کے ۔۔۔ دو بچیاں پتہ چل جائے تو کیسے باز آجائیں چل پڑیں سیدھے ان کے گھر پہنچ گئیں۔۔۔ گھر میں ایک ہی نوجوان لڑکا جو بہنوں کی غیرموجودگی کا فائدہ اٹھا کر برآمدے میں ٹنگا جھولا جھول رہا تھا زور و شور سے ۔۔۔ ہم نے مامی خالہ کا پوچھا۔۔۔
وہ کامیڈین اللہ بخشے دوسرا منور ظریف ہی تھا اپنی حرکات میں
“ہاہ ۔۔۔ہائے تہانوں چھڈ گئیاں ۔۔او تے ساریاں فلم تے گئیاں نے”
مطلب ان کی اور ہماری ساری خواتین مشترکہ پروگرام بناکے فلم دیکھنے گئی ہوئی تھیں
ہم روہانسیاں ہوگئیں
اس نے دونوں کے ہاتھ پکڑے چل دیا رائل سنیما کی طرف ۔۔۔ اور دوڑا دیا اوپر لیڈیز باکس کی طرف ۔۔۔ وہاں ہمارا سارا مطلوبہ ٹولا فلم انجوائے کررہا تھا دیبا روزینہ وحید مراد ،فلم کا قوالی نما گانا چل رہا تھا
تنہائی میں اکثر راتوں کو
تنہائی میں اکثر راتوں کو
ہم ذکر تمہارا کرتے ہیں ۔۔۔
تصویر سی دل میں کھینچتی ہے
تصویر سی دل میں کھینچتی ہے
ہم نقش ابھارا کرتے ہیں ۔۔۔
گانا ختم ہوتے ہی
انٹرول ۔۔۔
سیٹی بج گئی پردے گر گئے لائٹیں جل گئیں
بقیا آدھا حصہ دیکھا مگر شروع کا آدھا حصہ رہ گیا ۔۔۔
اف اس آدھی فلم کے مس ہونے کا افسوس آج تک دل میں باقی ہے
پھر کبھی دیکھی بھی نہیں پتہ نہیں کون سی تھی آدھی کی آدھی اور ادھوری ہی ہے آج تک ۔۔۔
مل گئی تو پوری ضرور کروں گی مگر جب بے بی لاہور آئے گی تب مل کے دیکھیں گے ۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔۔
(ان شا اللہ )
بے بی اپنی امی اور میں مامی کے اور دیگر خواتین کے پیچھے لگ کر سنیما ہال پہنچ ہی جاتی تھیں اس ایج سے جب اسٹوری کا سر پیر کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا ۔۔۔ ہاں گانے ڈانسز اور چلتی پھرتی تیار شدہ خوبصورت ہیروئینز ضرور اٹریکٹ کرتیں ۔۔۔ شاباش بے بی کو ہے جو خواتین کی سرگوشیوں مین بنتے ان پروگرامز کی پوری سن گن رکھتی اور سرشاری مین مجھے بھی بتا دیتی
“اج فلم تے جان گئیاں ۔۔۔ سونویں نہ “
بے چینی میں نیند آئے بھی کس کافر کو۔۔۔ کھیل کود چلتا رہتا دھیان پورا خواتین کی طرف کہ کب برقعے نکال کر پہنتی ہیں کہ ساتھ گریس کی طرح چپک لیں
مشترکہ پروگرامز کے باوجود بےبی کے فلمیں دیکھنے کا تناسب مجھ سے ڈبل ٹرپل ہی ہوگا کہ دوسرے شو کے پروگرام تک میں جاگ نہی پاتی تھی ایک بار یاد ہے پروگرام سن کر میں بی بی کے صحن میں پڑی چارپائی پر ہی سوگئی اوپر سے مامی اور دیگر خواتین برقعے سرسراتی میرے برابر سے گزر گئیں ۔۔۔ سب سے پیچھے بےبی ۔۔۔اس نے گزرتے گزرتے میری فراک کھینچی
“فلم تے جارئے آں “
ہائے ۔۔۔ میں رہ گئی کیا سٹپٹا کے اٹھی اور ان کے پیچھے آدھ جاگی آدھ سوئی میں بھی ہولی
“ایہہ وی آگئی جے ۔۔۔”
وہ بے بی کو انگلی لگانے کے خیال سے ہی بیزار تھیں شائید یک نہ شد دو شد ۔۔۔
“چپ کرجا ۔۔۔ ہور نہ آجان “
مامی کو ڈر ہوا کہیں گلی میں اسلم اکرم بھی نہ موجود ہوں اور وہ بھی ساتھ چل دیں ۔۔۔ کون سنبھالے گا وہ ساتھ لے کر جاتی نہ جاتیں بچوں نے ان کے پیچھے چلتے جانا تھا سنیما تک مجبورا روڈ پار کرتے ہوئے انہیں ہاتھ پکڑ کے سنبھالنے ہی پڑتے فالتو بچے بھی ۔۔۔۔ہاہاہا
اسی طرح اکثر فلمیں دیکھیں سمجھ میں آتی نہ آتی
امراو جان ادا آئی تو امی اور باجی بھی پروگرام بنا بیٹھیں ساتھ مجھے لے لیا ۔۔۔ بلکہ یہ دونوں مجھے لے کر ہی جاتیں اکثر ۔۔۔ اب میرا کام ہوتا پہلا شو چل رہا ہے دوڑ کر سیڑھیاں چڑھ کر لیڈیز باکس میں چلی جاوں شو ختم ہونے سے پہلے ہی کہ گیٹ کیپر بچہ سمجھ کے جانے دیتے جونہی فلم ختم ہوتی میں آگے کی طرف دوڑ کر تین سیٹیں یا جتنی خواتین ہیں میری ہاتھ پھیلا کر سیٹس روک لوں بے بی ساتھ ہے خواتین زیادہ ہیں تو ہم دونوں تقریبا لیٹ کر بازو پھیلا کر اگلی ساری رو کی کرسیاں قبضہ کر لیتیں جب تک امیاں آتیں ان کے لئے باکس کی بہترین سیٹس قبضہ ہو چکی ہوتیں ۔۔۔ مطلب اب یہ خواتین ہماری افادیت کی قائل ہو چکی تھیں امراو جان ادا ۔۔۔میں دوڑ کر اوپر گئی رانی کا آخری گانا چل رہا تھا کالے کپڑے جگمگاہٹ سے بھری سکرین ۔۔۔ میری آنکھیں ایکسائیٹمنت اور خوشی سی پھٹی کی پھٹی رہ گئیں
آج تک خوشی محسوس کرتی ہوں کہ یہ عظیم گانا پہلی بار ہی میں نے دوبار دیکھا تھا۔۔۔ اگرچہ اس کے بعد آج تک بیسیوں بار دیکھ چکی ہوں مگر وہ دو بار دیکھنے کا موقع جو ملا تھا آج بھی میری آتما کو آنند اور خوشی سے بھر دیتا ہے ۔۔۔
اب پھر دیکھوں گی کسی وقت امراو جان ادا ۔۔۔
اپنی ہوم سکرین پہ

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Mother Language title
Read More

ماں بولی

!پنجابیو پنجابی بولوپنجابی لکھوپنجابی پڑھوایویں تے نئیں میں سکھ لئی سی یار پنجابیماں بولی سی جمدیاں میرے نال…
Read More