Ashaar
: صبر بھی ہے شکر بھی ہے سبحان اللہ
خاک پائےنبی سرمہ سا بھی ہے ماشا اللہ
کوئی جلال میں دیکھے وہ جمال بےپناہ
راکھ بھی شعلہ اور شعلہ جو اڑاتا ہے ہوا
اس حسن فسوں خیز کا جو اشارہ ہوا
کن کےنام پہ خلق جہان سارا ہوا
: خیال یار سے پناہ چاہئے
مجھ کو خالی جگہ چاہئے
بہت سے ایسے لوگ ہیں جب ملے
دل نے ہر بار کہا در فٹے منہ
مجھےیقیں ہے یقیں سے آگے بھی گماں کی سرحد کا
اس پھیلاؤ سے آگے بھی پھیلے ہویے دشت وسعت کا
روشن کرن جو مجھ په مرتکز هے
اسکا طول زمیں سے آسماں تک هے
سو جتن کئے صبح سے شام تک
ہم نہ پنہچے غم کے انجام تک
اک ہجر میں صبح سے شام تلک
دل زمانے سے الجھا رہتا ہے
فراق کا موسم بھی بے چارہ گزر گیا
ہم نے جاں بچائے رکھی دل سنبھلنے تک
ہجر کے قاصد سے کہو اب یہاں کچھ نہیں رکھا
ایک نامہ لکھا تھا وہ بھی پڑھا اور پھاڑ دیا
میرے گھر سے نہ ملے گا میرا پتہ
یہ راز تو مجھ کو بھی معلوم نہیں
دل سنبھلا بھی ہوا ہے کچھ بکھرا بھی ہوا ہے
اک ذرا ٹھیس کا ڈر ہے خدا خیر کرے
تسلی کے لئے تجھے دل سے لگا رکھا ہے
یوں اپنا اور ترا حوصلہ بنا رکھا ہے
اب سنبھل بھی جا اے دل مضطرب
کب تک اس بےخبر په الزام دھرے گا
یہ شغل نا امیدی بھی گرچہ کھیل ہی ہے
اسی کھیل سے میرے حوصلےجواں ہیں
جھوٹی ہر ایک کہانی ہے
یہ سلسلہ ہی بے معنی ہے
لفظ کتنا بولتے ہیں
گونگی کائنات میں
صدیوں کے سفر میں کائنات رہی خاموش
لمحوں کی بات پہ زمیں نے شور اٹھایا بہت
ہاۓ وائے واویلا جتنا بھی کرلو
چیونٹی کے پر ہیں جھڑ جائیں گے
میں کیا ہوں، آخر کیا ہوں!؟
جو اس قدر خود سرا ہوں
آہا ! میں نے فلسفہ جھاڑ کے اپنا
کائنات کو بھی ، گرد راہ گردانا
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے