Yadish Bakhair – 13 یادش بخیر

Front view of a smiling woman

یادش بخیر

سونف پودینہ الائچی زیرہ اٹرم پٹرم قہوہ مل گیا ۔۔۔
عمران نے کل ڈانٹ ڈپٹ کے شگر اپریٹس میں سیل ، اسٹرپس ، پرکر
ڈلوایا کہ سال بھر سے شگر چیک نہیں کی کیا لاپرواہی ہے ۔۔۔خیر صبح صبح پہلے ڈر کر ایک شگر ٹیبلٹ کھائی ایک گھنٹے بعد اس کے پاس لے گئی
“لو چیک کردو ۔۔ مجھ سے پرکر ان آف نہیں ہورہا”
“سیدھی ہو کر چلو ۔۔۔ کمر سیدھی کرو “
صبح صبح نہیں ہوتی بستر سے آٹھ کر آئی ہوں ( سارا دن کون سی ہوتی ہے مہروں کا مسئلہ ہے مزاق ہے کیا۔۔۔ کبھی کبھی ہوجاتی ہے ہاہاہا)
“بندہ کوشش تو کرتا ہے نا ۔۔۔ کوشش کیا کرو سیدھی ہو کے چلو اتنا مسئلہ نہیں جتنا بنایا ہوا ہے”
پھر چھوٹے بھائی نے سمجھایا بلکہ ڈانٹا
شگر چیک کی ایمانداری سے بتایا ایک گھنٹہ پہلے ٹیبلٹ کھائی ہے رات کو نہیں کھائی تھی
162
“چلو ٹھیک ہے 150 کے اندر ہی رکھا کرو کوشش کر کے ۔۔۔”
“ٹھیک ہے “
نام بدل دوں کیا ؟
کل شرط لگی تھی
“شگر بڑھی ہوئی ہے تمہاری شرط لگا لو ایک سال سے چیک نہیں کی ۔۔ نہ بڑھی ہو تو میرا نام بدل دینا ۔۔۔ بلاں بلاں بلاں”
میں نے کہا
ہاں بدل کے سلطان (ابوجی کا نام ) رکھ دوں گی
چھوٹا ہے بڑا بن کے ڈانٹ ڈپٹ بھی لیتا ہے۔۔۔ مزہ اس وقت آتا ہے جب اس کا اپنا بیٹا’ محمد انس عمران بلال’ اس کا ابا بنا ہوتا ہے ۔۔۔ جب اس کی گاڑی مکینک کے پاس لے کر جائے یا اسکی پینٹیں شرٹس کی درزی سے درستگی کروانی ہو کپڑے لانڈری سے لانا ہوں یا باپ کی دیگر کوئی ذمہ داری نبھانا ہو
“انس شادی کرلو ” چھیڑتی ہوں
“پاپا کی کروادیں۔۔۔ انہیں شوق ہے ، وہ چار بھی کرلیں گے”
“یار میں پاپا کا بچہ ہوں ۔۔۔ یا ابا نے ہی بچہ بنے رہنا ہے ہمیشہ سارے گھر کا ۔۔۔ہاہاہا “
واقعی ذہنی طور بچہ ابا ہے کیونکہ وہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے اور ابا ۔۔۔بچہ ہے کہ وہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے ۔۔۔ تو اسے لاڈیاں کر کرکے آج تک ہم نے بچہ ہی سمجھا ہوا ہے اب وہ بچوں کا بھی لاڈلا ابا ( بچہ ) بنتا ہے خیر سے ۔۔۔
یاد ہے جب انس پیدا ہوا ۔۔۔تو جونہی ابا آفس سے آتا بچہ ہمک کے اس کی گود میں چڑھ جاتا
ابا چیخیں مارتا
“امی ۔۔۔ اینہوں پھڑو۔۔ہن میں انہوں کھڈاواں کی ۔۔۔ اندے ای میرے اتے سوار ہوجاندا اے “
شرٹ چھڑا چھڑو کے جھنجلا کے پٹخ دیتا
دو بچے دادی پھپھیوں اور ماں نے پالے اس نے ہاتھ لگا کر نہیں دیکھے
پھر بیٹی ہوئی تو اس نے بھی جب وہی حرکت کی کھڑے کھلوتے کی شرٹ کھینچ کھانچ کر گود میں سوار ہوئی تو ابا جی نے اٹھالی۔۔۔ پیار کرکے پھر واپس رکھ دی
(شادی کا شوق تھا بچوں کا نہیں )
سب سے چھوٹا شہباز جب پیدا ہوا تو ابا جی کی مامتا جاگی ۔۔۔ اسےسارا وقت اپنے ساتھ لٹائے کشور کمار اور دیو آنند کے گانے دکھا دکھا کر ۔۔۔ اسے پرانے گانوں فلموں کا فین بنا دیا سب سے چھوٹے بچے کو دیو آنند پسند ہے اور اس پہ فلمائے سارے گانے پورے پورے یاد ہیں آواز بھی اچھی ہے تو سارا دن گنگناتا رہتا ہے ۔۔۔ مگر سب سے چھوٹا ہے تو وہ بھی دل سے ‘بچہ’ ہی ہے باپ کی طرح
دل تو بچہ ہے جی
اور مجھے تو شروع سے
چھوٹی امی بنایا ہوا ہے میری مامتا کے جذبات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ۔۔۔سلامت رہیں سب آمین ثم آمین

میں ٹھیک نہیں ہوں جان جاں جان جاں
دعائے خیر کرو براہ خدا جان جاں جان جاں

جان جاں کی گردان کرنے کا من تھا سو بلا وجہہ ہی کرلی ۔۔۔ہاہاہا
ویسے واقعی طبیعت مزے میں نہیں ہے دل جگر گردے ریڑھ ، ہاتھ ، پیر سب مصر ہیں
کہ حکیمی علاج کراو کسی طبیب کو دکھاو یا وید کو بلاو ۔۔۔
ورنہ ہمارا ذمہ نہیں کہ تمہیں ساٹھ سے اوپر لے کر چلتے رہیں اور بچہ بنیں رہیں تمہاری طرح ۔۔۔
ارے ۔۔رات خواب میں ایک بہت پیارا بچہ دیکھا پنجابی بول رہا تھا بہت پیاری اسکول میں کلاس فیلو سکھ بچے سے سیکھی تھا لمبا خواب تھا طارق کا اپنے (تیسرے ؟ ) پنجابی بولتے بیٹے سمیت ۔۔۔۔ جس کا اسے پتہ ہی نہیں ہے آتا ہے تو میں دکھاتی ہوں کہ دیکھو یہ مجھ سے بھی اچھی پنجابی بول رہا ہے کہ اسکول میں سکھ بچہ اس کا دوست ہے وہ رضیہ اور طارق کا تیسرا بیٹا ہے طارق کی بڑی بڑی آنکھیں موٹے موٹے آنسووں سے بھر جاتی ہیں کہ وہ اسے نہیں دیکھ سکا زندگی میں ۔۔۔ (پوتا ہو شائید )
“اچھا ۔۔پھر جب آنا ہوا ملنا ہوگا”
یہ کہہ کر وہ اداس سا چلا جاتا ہے
وہ بچے کے ساتھ مجھے کھیلتا اور پنجابی میں بات چیت کرتا چھوڑ کر سامنے رضیہ کے گھر جاتا نظر آتا ہے بہت ہی رومانوی اور محبت بھری سی شکل بنا کر ۔۔۔ہاہاہا
پھر دونوں خوبصورت بگھی پر سوار جارہے ہیں ۔۔ایک جم غفیر انہیں دیکھ رہا ہے ۔۔۔ میں بھی دیکھ رہی ہوں
میں پنجابی بولتے بچے کے ساتھ خوش ہوں کہ وہ اسے میرے پاس چھوڑ گئے ہیں

امبانی پریوار کی پری ویڈنگ ۔۔۔۔ ویڈنگ میں کب بدلے گی ؟
غریب پریوار میں تو اتنے عرصے میں بچہ بھی پیدا ہوجاتا اور چھٹی پہ کھسرے نچائے جارہے ہوتے
ان کے ہاں تو لالی ووڈ بالی ووڈ ہالی ووڈ سب ناچ لئے ۔۔۔
نو من تیل بھی ہے رادھا نچا بھی دیں اب
رادھا بھی بھاری بھرکم دولہا کے ساتھ لگی تو رہتی ہے ٹوئسٹ کرنے میں ۔۔
دیکھیں کب ساسو ماں کے اور سسرجی کے ارمان پورے ہوں اور یہ پری ویڈنگ ۔۔۔ ویڈنگ میں بدلے۔۔۔ سچی بہت بیزار کردیا امبانی سندھی فیملی ہے ایک فنکشن ہمارے سندھ میں بھی رکھ لیں ہم سب “لائوں” کی رسم نبھا دیں گے دولہا دلہن کے سر ٹکرا کر ۔۔۔۔ ہاہاہا


گرمیوں کی راتیں اس لحاظ سے بڑی خوشگوار ہوتیں کہ صحن یا چھت پر تاروں کی ٹھنڈی چھاوں میں چارپائیوں پر سویا جاتا ۔۔۔ ہمارا صحن خاصا بڑا اور ہوا دار تھا آدھا کچا آدھا پکا اور گھر کے باہر ہمارا باونڈری والا پلاٹ تو بالکل ہی کچا تھا باونڈری بہت چھوٹی اور لکڑی کا بڑا دسا دیوہیکل گیٹ اندر تعمیر شدہ دو تین مکانوں کو سیفٹی اور مین اینٹری کے طور پر استعمال ہوتا پھر تینوں پورشنز کے اپنے اپنے ذاتی گھر اور دروازے شروع میں چھوٹا گھر اور باقی سارا احاطہ ہمارے زیر استعمال بڑا گھر کرائے پر پھر چھوٹا گھر بیرونی طرف ایگزٹ دے کر کرائے پر ساتھ ہی بڑے احاطے میں دو کمروں کی چاردیواری کرکے ان کی بھی ایک ایکزٹ بقیہ بچے آدھے پلاٹ میں اور ایک باہر روڈ کی طرف تینوں گھر انٹر کنیکٹڈ بھی ایک چورس بچے پلاٹ میں اور باہر اپنی اپنی ایکزٹ بھی ۔۔۔ وہ دونوں گھر کرائے پر دئیے ہوئے تھے
ہم بڑے گھر میں شفٹ ہوگئے جس میں مین کمرے تو دو ہی تھے مگر بیس بائی بیس کے یا زیادہ کے خاصے بڑے اور آگے طویل برآمدہ پانچ چوڑے دروازوں کے دو رویا ستونوں والا پھر بڑا سا صحن جس کی لمبی مسافت کے بعد ہی آگے کمرے نما کچن اور نہانے دھونے اور حوائج ضروریہ کا علاقہ آتا تھا
ہمارا گھر بنیادی طور پر پورے دڑی محلے کے ایک یا دو وسیع ترین گھروں میں شمار ہوتا تھا کہ سارا دن امی جی کے پاس بیسیوں قرآن پاک پڑھتی بچیوں کا پلے گراونڈ بھی بن جاتا امی جی کی سہیلیوں کا سوشل کلب بھی بنا رہتا اور رات کو کلی طور پر ہم افراد خانہ کا ہوتا اور ہم بڑے سے آنگن میں چھ سات چارپائیوں اور دو پیڈسٹل فین لگا کر ۔۔۔ اگرچہ آنگن بہت ہوادار بھی تھا تاروں کی چھاوں میں نیند کا خوب آنند لیتے اور اگر چاندنی رات ہے تو چاندنی اس طرح چٹکی ہوتی کہ پورا آنگن بقعہ نور بنا ہوتا ۔۔۔ چاندنی رات میں ایک بار ضرور میری آنکھ کھل جاتی جب چاند عین میرے سرپہ اکے میری نیند اور آنکھوں پہ اسقدر جگمگاتا کہ روشنی سے میری آنکھ کھل جاتی ۔۔۔ چاند مجھے بہت خوبصورت لگتا مگر بہت دیر تک اس کے جگائے جانے پر مجھے چڑ بھی بہت لگتی ۔۔ کہ کب یہ میرے عین سر سے تھوڑا آگے کھسکے اور میری آنکھوں کو اس روشن چاندنی سے چھٹکارا ملے اور میں سو پاوں ۔۔۔ نیند تو مجھے چاند چاندنی سب سے زیادہ پیاری رہی ہے ہمیشہ سے اور آج تک ہے ، میں اگر اپنا کوئی نام رکھوں تو وہ ‘نندیا پری ‘ ہوگا یا خواب پری ۔۔۔ہاہاہا یا سست پڑی (پری )
وہ بڑا سا ہوا دار آنگن چاند تاروں کی چھت تلے سونا ۔۔۔کبھی کبھی سر شام جب حبس سا ہوتا تو بچپن سے باجی کے بتائے ٹوٹکے پر عمل شروع ہوجاتا
پر ( پور )گنو دس یارہ گنو گے تے ہوا چل پئے گی
ہم گنتے شکار پر (پور) بہاولپور پور ، کیمبل پور ، شہداد پور سارے پور سوچ،سوچ،کر اور سب بہن بھائیوں کے پور، پور کے لقمے (اضافے کرتے) یاد کرتے ایک ڈیڑھ گھنٹہ گزر جاتا سات آٹھ ہی پور گن پاتے کہ دس بجے کوئٹہ سے بولان آجاتی ہمارے دڑی سے روڈ کے اس پار اسٹیشن پر اور وہ شاید اپنے ساتھ ہوا کو اس طرح راستے بھر سے دھکیلتی ہوئی لاتی کہ غالبا پورے لاڑکانہ اور خصوصی ہمارے محلے میں ٹھنڈی ہوا کے رات بھر چھاج برستے رہتے اور سب آرام سے سوبجاتے جو شدید گرمی میں بولان کی آمد کے منتظر ہوتے اور ہم جو اپنے آنگن میں’ پور پور ‘ گن رہے ہوتے وہ بھی ۔۔۔ہاں میں یہ دعا مانگنا کسی رات نہ بھولتی گڑگڑا کر پورے خلوص دل سے
“اللہ تعالی صبح جب میں جاگوں تو میرا رنگ گورا ہوچکا ہو اور بال کمر سے بھی نیچے لمبے اور گھنے “
اور صبح آنکھ کھلتے ہی کمر پہ ہاتھ لگا کر بال چیک کرتی لمبے ہوئے کہ نہیں ۔۔۔ نہیں ہوئے تو رنگ بھی کالا ہی ہوگا آج بھی ۔۔۔ پھر بھی پورے یقین سے روزانہ دعا مانگ کر سوتی اور صبح چیک کرتی ۔۔۔ اج تک نہ رنگ گورا ہوا نہ بال لمبے مگر یہ آرزو ٹھنڈی پڑ گئ بالآخر ہوش سنبھالتے سنبھالتے ہی ۔۔۔۔
گر کبھی رات کو برسات ہوجاتی تو وہ انتہائی ناپسندیدہ رات ہوتی اگرچہ اس کے بعد رات بہت ٹھنڈی اور پرسکون ہوجاتی
“کنیاں پین لگیاں نے ۔۔۔”امی جی کی آواز آتی ایک دو پے کر آنکھ کھل بھی چکی ہوتی ۔۔۔ ابو جی تندہی سے منڈیاں بستر برآمدے میں شفٹ کرتے نظر آتے ۔۔ جونہی مجھے پہلی شفٹ منجی بسترا نظر آتا ۔۔۔ میں آنگن سے دوڑ کر اس منجی پہ قبضہ کر لیتی اسلم اکرم اور شبانہ ادھر ادھر صحن میں ہی نیند جاگ میں حواس باختہ کوئی چادر یا تکیہ سمیٹے سینے سے لگائے اپنی منجیوں کے اندر شفٹ ہونے کا انتظار کر رہے ہوتے اور ایک آدھ نظر مجھ پہ بھی ڈالتے رشک سے ۔۔۔ کہ آرام سے پڑگئی ہوں میں بغیر کسی چادر یا تکئے کو اٹھا کر ابو جی کا ہاتھ بٹانے کے۔۔۔ سو مجھے بارش کی کنیاں آج تک چبھتی ہیں میں بارش دیکھنا پسند کرتی ہوں مگر بارش میں نہانا فلمی سین بنانا مجھے شروع سے آج تک نا پسند ہے اگرچہ ایک اچانک بارش میں صفدری اور میں ایکسچینج سے واپسی پر سارے راستے میں رکشہ ڈھونڈتےاور کہیں گھٹنوں تک پانی کہیں وہاں سے بچنے کی کوشش میں اور گہرے سینے تک پانی میں ڈوبتے تیرتے اپنی طرح ہی اکا دکا ڈوبتے تیرتے راہگیروں کو ہنساتے اور انجوائے کرواتے بھی بمشکل گھر پنہچے تھے ایک ہمارا ریشم گلی کا ہندو سچو دکاندار بھی تھا اسی قلزم میں ہمین جو پہچان کر اور دیکھ کر ہنسا اور دور سے نعرہ لگایا “باجی آج پھنس گئئ ہو ۔۔۔۔ ” اس پہ اور غصہ آیا کہ کم بخت پہچان ہی لیا تھا تو نظر انداز کر دیتا “باجی ۔۔۔۔ کہہ کے پہچان پکی تو نہ کرتا میں چادر لیتی تھی وہ برقعہ پہنتی تھی نشیبی علاقے میں گھٹنے سینے تک پانی مگر بڑی کوشش سے ہم اس دریائے بارش سے نکلیں ۔۔۔۔ باوجود اس کے گرتے پڑتے ہماری اپنی ہنسی کا سیلاب الگ آیا ہوا تھا
( اللہ کریم میری پیاری صفدری کو جنت الفردوس میں جگہ دے ہائے ۔۔۔پچھلے سال وہ بھی دغابازی کر گئی ۔۔۔ رونا آرہا ہے شی واز ون آف مائی بیسٹ فرینڈ ۔۔۔ سب سے بیسٹ کہہ دوں تو بھی سچ ہے ) دادو میں آپا ثریا ۔حمیدہ ، بے بی ، نجمہ اللہ سب سکھیاں کو سلامت رکھے آمین کہ سب سہیلیوں سے اوپر بہنوں کا درجہ رکھتی ہیں اور ہاں بلقیس بھی اللہ سب کو خوش رکھے آمین اور ساری دیگر کولیگز اور فیس بک کی سکھیاں بھی خوش اور آباد رہیں آمین ثم آمین
اب آگے کیا لکھوں ۔۔۔ صفدری یاد آگئی بہت اچھی مخلص اور ہر حال میں ساتھ دینے والی دوست تھی اللہ تعالی جنت الفردوس میں جگہ دے آمین محرم الحرام کا سوگوار مہینہ ہے یہ تو یوں بھی سوگوار ہے کہ میرے پیارے اکرم اور بڑی مامی کے بھی جانے کے لئے نو محرم کا دن مقرر ہوا تھا اور صفدری کی یادیں بھی اس سے جڑی ہیں کہ وہ اکثر اپنے ساتھ مجالس پر بھی مجھے لے جاتی تھی ۔۔۔اور پھر امام حسین عیلہ السلام اور بہتر شہیدوں کا غم تو ہمیشہ منایا جانے والا غم ہے ۔۔۔ میں اگرچہ مسلکا پیدائشی طور پر شیعہ نہیں ہوں ۔۔۔ مگر ہر نو یا دس محرم کو احتراما اور سوگواری میں سینے پر دو ہاتھ ضرور رکھتی ہوں اور چند ایک مرثیے ضرور سنتی ہوں نم آنکھوں کے ساتھ ۔۔۔ یہ میرے خاندان کی نہیں میری اپنی رضا اور اظہار غم ہے

اچھا میرا بچپن کا باجی سے سیکھا ہوا ایک اور ٹوٹکا جو یک ٹک ہے میں دادو تک صحن میں سوتے سمے اپلائی کرتی تھی
اگر اکا دکا بادل آسمان پہ نظر آتے اور رات بارش کا امکان ہوتا تو کھلے آنگن میں سونے والوں کی تو رات اور نیند کا بیڑہ غرق ہونا لازمی ہوتا ۔۔۔ آنگن میں سوتے ہوئے رات کی بارش مجھے انتہائی نا قابل قبول تھی سب کو ہی ہوتی ہے باجی ٹوٹکا اپلائی کرتیں اپنے دوپٹے کے کونے میں کوئی بھی ایک نظر آتا ستارہ باندھ لیتیں اسے انسٹرکشن دے کر ۔۔۔ میں نے تمہیں باندھ لیا ہے اب ساری رات کہیں نہ جانا ۔۔۔ مطلب آسمان پر ایک بھی ستارہ موجود ہو تو مطلب بادل بہت گہرے نہیں ہیں سو بارش کا امکان کم ہوجاتا ۔۔۔ہاہاہا ہے نہ مزیدار اور مضحکہ خیز ٹوٹکا ۔۔۔ ٹوٹکے اوٹ پٹانگ ہی ہوتے ہیں مگر پورے پتہ نہیں کیسے ہوتے ہیں یہ ایک راز ہے کائنات کے سینے میں مدفون ۔۔ہاہاہا
یہ ٹوٹکہ میرا یک ٹک آزمایا ہوا ہے ۔۔۔ جب تک دادو میں بھی رہی آسمان پہ اگر رات کو بادل کی ایک ٹکڑی بھی نظر آتی ۔۔۔ تو میں بارش سے پہلی احتیاطی تدبیر پلو کے کونے میں اگر واحد موجود ستارہ بھی نظر آتا تو اس کو مخاطب کرکے گرہ لگا دیتی
” ھن جانا نئیں کتے ساری رات ، میں تنوں بنھ لیا اے ۔۔۔ “
وہ بے چارہ ساری رات بادلوں کو ہی بھگاتا اور بارش کے امکان کو رد کرتا گزار دیتا ہوگا میرے دوپٹے سے بندھا ہوا ۔۔۔
یقین مانیں بارش کبھی نہیں ہوئی اس رات نہ گہرے بادل ہی آئے ۔۔۔ جس رات ستارہ بندھ گیا وہ آسمان پہ موجود ہی رہا اور اگر بادل گھر بھی آئے تو وہ جوابا اپنے سارے ستارے چمکانے کی کوشش کر تا رہا آسمان پر ۔۔۔ بادل یہ جا وہ جا ۔۔۔۔ہاہاہا ۔۔۔ہاہاہا ۔۔۔
دوسرے ایک اور خوش عقیدگی اب تو بہت سے لوگ مضحکہ ہی کرتے ہیں ان باتوں پر (معاذ اللہ ۔۔۔)
عمران خیر سے تین ماہ کا تھا جب دس دن ایسا بیمار پڑا کہ ابو جی نے سات بکرے صدقہ کرائے کوئی ڈاکٹر وید ملا حکیم پیر نہیں چھوڑا ۔۔۔ بہت پریشان تھے ابوجی اور سارے گھر والے جہاں اور بہت سی منتیں مانیں امی ابو نے ۔۔۔وہاں کسی نے کہا ٹھیک ہوجائے تو پانچ سال کی عمر تک ہر مہینے بی بی سیدہ کی نیاز دلانا ۔۔۔ امی جی نے نیاز مان لی اللہ سلامت رکھے ٹھیک ہوگیا خیر سے ۔۔سب نے اپنی منتیں پوری کیں ۔۔۔امی جی مجھ سے ہر مہینے بی بی سیدہ کی کہانی سنا کرتیں باقاعدگی سے اور نیاز دلاتیں ۔۔۔ پھر محلے بھر میں جس کو معجزہ سننا ہوتا مجھے بلا لیا جاتا کہ میں بچی بھی تھی اور ہر وقت فارغ بھی ایک طرف جہاں میں پورے محلے کی خالائوں کو خط لکھ کر دیتی وہیں بی بی سیدہ کی کہانی سنانے کے لئے بھی مجھے بلایا جاتا چند ریوڑیاں ٹافیاں یا کوئی بھی میٹھا تبرک سب سے پہلے عقیدتا مجھے پیش کیا جاتا پھر باقی بچوں کی باری آتی ۔۔۔
امی جی نے پانچ سال کی بجائے پورے بارہ سال ہر مہینے مجھ سے کہانی سنی ۔۔۔پھر زردے کی دیگ پکوا کے تقسیم کی اور یہ سلسلہ بڑھایا ۔۔۔ مگر پھر خیر سے عمران خود کو ئی میٹھی چیز خرید لاتا اور امی سے کہتا اس پہ بی بی سیدہ کی نیاز پڑھ دیں ہمارے گھر میں مردوں لڑکوں میں بھی ثواب کی خاطر تقسیم کی جاتی کہ بی بی سب کی ماں ہیں ۔۔۔بہرحال پڑھ پڑھ کے مجھے تو زبانی یاد ہوگئی امی جی نے پھر کہانی سننے کی بجائے اکثر و بیشتر یونہی نیاز دلانا شروع کردی ۔۔۔
اب تک ہر مہینے میں بھی ایک آدھ بار ضرور نیاز دلا دیتی ہوں اور اب ان کی روحانی شفقت اور مہربان ماں ہونے کا یہ کرم ہے مجھ پر کہ ۔۔۔ جو دعا مانگوں نیاز کی منت مان کے ۔۔۔
ناممکن بھی اکثر ممکن ہی ہو جاتا ہے ( شکر الحمد للہ)
رب کے راز رب ہی جانے ۔۔۔۔
(واللہ اعلم بالثواب)


چاندنی رات ان دادو کوارٹر ۔۔۔یہ چودھویں کا چاند مشرق سے مغرب ساری رات سفر کرکے اس آنگن سے گزرتا ہوا صبح سے پہلے مغرب کی طرف غروب ہوتا تھا یہی اینگل اور پیسیج اس کا ہمارے لاڑکانہ کے آنگن کا بھی تھا اور بچپن سے ہی سوتے سمے جب عین میرے سرپہ ہوتا تھا ۔۔۔ چاندنی اتنی روشن اور تیز ہوتی تھی کہ میری آنکھ کھل جاتی تھی ۔۔۔ اب تو کمرے ہیں اور اے سیز ہیں وہ چھتوں انگنوں اور چاند تاروں کی چھاوں میں سونے کا لطف ہی چلا گیا


میری بادل کی فوٹو گرافی ۔۔۔ یہ بادل سو گز یا زیادہ ساتھ ساتھ چلے تھے گاڑی کے حیدرآباد سے جامشورو جاتے پل سے پہلے روڈ پہ بہت سے کلکس لئے تھے بہت خوبصورت بادل اور شام تھی کہ سڑک اور پودے سب نیم اندھیرے میں ہیں بعد میں دیکھا تو اس لمحہ ایک البیلی الہڑ سی لڑکی بن رہی ہے منظر میں مجھے لگتا ہے اس کے داہنے ہاتھ میں بڑا سا گلدستہ ہے اسٹائل سے پیچھے کی طرف کیا ہوا اور بایاں ہاتھ رقص میں ہدادو کا وہ عظیم الشان سرونٹ کوارٹر جہاں میں گریڈ 20 میں ایز آ پرنسپل رہائش پذیر رہی کیونکہ وہاں ہاسٹل کے علاوہ کوئی اور آپشن نہ تھا۔۔۔۔ پہلے ہاسٹل میں رہتی تھی مگر جب گلبرگ کالج لاہور میں تقریبا چھ سال ڈیپوٹیشن کے بعد واپس گئی تو ہاسٹل حال سے بد حال ہوچکا تھا ( میرے فراق میں ۔۔۔) یہ دو کمروں کا سرونٹ کوارٹر ہی بہتر اور آخری آپشن تھا خیر سامان یہاں پٹخ کے کالج کے بعد دن بھر میں اپنی عزیز ترین دوست آپا ثریا یا (آپا ) حمیدہ کی طرف چلی جاتی تھی کہ اے سی کے بغیر اس تنور میں رہنا ممکن نہ تھا ہاں رات اسی چھوٹے سے آنگن کے خوشگوار ماحول میں تاروں کی چھاوں تلے سوتی تھی پیڈسٹل فین لگا کر پڑوسی عبداللہ کی ایک دو چھوٹی بچیوں کے ساتھ کہ اکیلی میں ہاسٹل اپنے کمرے میں بھی سونے سے بہت ڈرتی تھی خاص طور پر باد و باراں میں پڑوسی کوارٹر کی کوئی نہ کوئی بوڑھی دادی یا بچی میرے پاس ہوتی تھیں ۔۔۔ انہی بچیوں میں سے تانیا ( تانی) تو میری بیٹی ہی خود کو سمجھتی ہے آج تک اور یقینا میں بھی بہت سے دوسرے (اپنے پیارے ) بچوں کی طرح اس کے لئے بھی اپنے دل میں خصوصی محبت اور مامتا محسوس کرتی ہوں جیتے رہیں سب (آمین )
غالبا 2020 کی اس صبح اس وقت میں سویرے سویرے گرمیوں کی رات صحن میں میٹھی نیند کے مزے اور یقینا کچھ اچھے خواب دیکھ لینے کے بعد خوشگوار موڈ میں ۔۔۔۔ ایک ٹنڈ منڈ درخت پہ بسیرا کرنے والی چیل کمیونٹی کی وڈیو بنا رہی تھی ۔۔۔ چھوٹی چھوٹی ہر چیز اپنی ایک الگ دلکشی رکھتی ہے اور میں نے ہمیشہ ہر منظر کو خواب انجوائے کیا ہے ۔۔۔ اور شائید یہی میری خوشی اور طمانیت کا راز بھی ہے ۔۔۔ شکر الحمد للہ ے اور خود لہراتی بادلوں میں چلی جا رہی ہے زمانے سے پیٹھ پھیرے اپنی دھن میں مگن ۔۔۔۔
(میرے خیال میں )


دادو کا وہ عظیم الشان سرونٹ کوارٹر جہاں میں گریڈ 20 میں ایز آ پرنسپل رہائش پذیر رہی کیونکہ وہاں ہاسٹل کے علاوہ کوئی اور آپشن نہ تھا۔۔۔۔ پہلے ہاسٹل میں رہتی تھی مگر جب گلبرگ کالج لاہور میں تقریبا چھ سال ڈیپوٹیشن کے بعد واپس گئی تو ہاسٹل حال سے بد حال ہوچکا تھا ( میرے فراق میں ۔۔۔) یہ دو کمروں کا سرونٹ کوارٹر ہی بہتر اور آخری آپشن تھا خیر سامان یہاں پٹخ کے کالج کے بعد دن بھر میں اپنی عزیز ترین دوست آپا ثریا یا (آپا ) حمیدہ کی طرف چلی جاتی تھی کہ اے سی کے بغیر اس تنور میں رہنا ممکن نہ تھا ہاں رات اسی چھوٹے سے آنگن کے خوشگوار ماحول میں تاروں کی چھاوں تلے سوتی تھی پیڈسٹل فین لگا کر پڑوسی عبداللہ کی ایک دو چھوٹی بچیوں کے ساتھ کہ اکیلی میں ہاسٹل اپنے کمرے میں بھی سونے سے بہت ڈرتی تھی خاص طور پر باد و باراں میں پڑوسی کوارٹر کی کوئی نہ کوئی بوڑھی دادی یا بچی میرے پاس ہوتی تھیں ۔۔۔ انہی بچیوں میں سے تانیا ( تانی) تو میری بیٹی ہی خود کو سمجھتی ہے آج تک اور یقینا میں بھی بہت سے دوسرے (اپنے پیارے ) بچوں کی طرح اس کے لئے بھی اپنے دل میں خصوصی محبت اور مامتا محسوس کرتی ہوں جیتے رہیں سب (آمین )
غالبا 2020 کی اس صبح اس وقت میں سویرے سویرے گرمیوں کی رات صحن میں میٹھی نیند کے مزے اور یقینا کچھ اچھے خواب دیکھ لینے کے بعد خوشگوار موڈ میں ۔۔۔۔ ایک ٹنڈ منڈ درخت پہ بسیرا کرنے والی چیل کمیونٹی کی وڈیو بنا رہی تھی ۔۔۔ چھوٹی چھوٹی ہر چیز اپنی ایک الگ دلکشی رکھتی ہے اور میں نے ہمیشہ ہر منظر کو خواب انجوائے کیا ہے ۔۔۔ اور شائید یہی میری خوشی اور طمانیت کا راز بھی ہے ۔۔۔ شکر الحمد للہدادو کا وہ عظیم الشان سرونٹ کوارٹر جہاں میں گریڈ 20 میں ایز آ پرنسپل رہائش پذیر رہی کیونکہ وہاں ہاسٹل کے علاوہ کوئی اور آپشن نہ تھا۔۔۔۔ پہلے ہاسٹل میں رہتی تھی مگر جب گلبرگ کالج لاہور میں تقریبا چھ سال ڈیپوٹیشن کے بعد واپس گئی تو ہاسٹل حال سے بد حال ہوچکا تھا ( میرے فراق میں ۔۔۔) یہ دو کمروں کا سرونٹ کوارٹر ہی بہتر اور آخری آپشن تھا خیر سامان یہاں پٹخ کے کالج کے بعد دن بھر میں اپنی عزیز ترین دوست آپا ثریا یا (آپا ) حمیدہ کی طرف چلی جاتی تھی کہ اے سی کے بغیر اس تنور میں رہنا ممکن نہ تھا ہاں رات اسی چھوٹے سے آنگن کے خوشگوار ماحول میں تاروں کی چھاوں تلے سوتی تھی پیڈسٹل فین لگا کر پڑوسی عبداللہ کی ایک دو چھوٹی بچیوں کے ساتھ کہ اکیلی میں ہاسٹل اپنے کمرے میں بھی سونے سے بہت ڈرتی تھی خاص طور پر باد و باراں میں پڑوسی کوارٹر کی کوئی نہ کوئی بوڑھی دادی یا بچی میرے پاس ہوتی تھیں ۔۔۔ انہی بچیوں میں سے تانیا ( تانی) تو میری بیٹی ہی خود کو سمجھتی ہے آج تک اور یقینا میں بھی بہت سے دوسرے (اپنے پیارے ) بچوں کی طرح اس کے لئے بھی اپنے دل میں خصوصی محبت اور مامتا محسوس کرتی ہوں جیتے رہیں سب (آمین )
غالبا 2020 کی اس صبح اس وقت میں سویرے سویرے گرمیوں کی رات صحن میں میٹھی نیند کے مزے اور یقینا کچھ اچھے خواب دیکھ لینے کے بعد خوشگوار موڈ میں ۔۔۔۔ ایک ٹنڈ منڈ درخت پہ بسیرا کرنے والی چیل کمیونٹی کی وڈیو بنا رہی تھی ۔۔۔ چھوٹی چھوٹی ہر چیز اپنی ایک الگ دلکشی رکھتی ہے اور میں نے ہمیشہ ہر منظر کو خواب انجوائے کیا ہے ۔۔۔ اور شائید یہی میری خوشی اور طمانیت کا راز بھی ہے ۔۔۔ شکر الحمد للہ

مجھے ایسے لوگ بہت اچھے لگتے ہیں جو فری میں محض اپنے شوق کی خاطر راہگیروں کو اپنے کرتب دکھا رہے ہوتے ہیں
جیسے ڈھول بجا کے بھنگڑا ڈالنا
ایک پہیے والی سائیکل چلانا
ٹائیر پر سوار ہوکر سائیکل کی طرح چلاتے جانا
موٹر سائیکل پر ہلکے پھلکے کرتب کرنا
اسٹریٹ تھئیٹر کرنا
یا سڑک پر پینٹنگ بنانا
یا میری طرح فیس بک پہ شاعری پیش کرتے رہنا۔۔۔۔۔ سب اپنے شوق کی تسکین کر رہے ہوتے ہیں بنا کسی مطلب کے
They enjoy their hobby



دل بہلانے کے کتنے ہی سامان ہیں
پینسٹھ انچ اینڈرائیڈ سکرین پہ نیپالی گاؤں کی ڈاکومینٹری دیکھ رہی ہوں اور نمکو کھا رہی ہوں
سکرین پہ ایک چھوٹا بچہ آگیا ہاتھ میں چپس یا نمکو کا پیک لئے میں پہلا دانہ بے دلی سے نکال رہی تھی کیمرہ اس پہ فوکس تھا اس نے بھی اپنے پیک سے ہاتھ ڈال کے کچھ نکالا کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے اور جیسے(مجھے) دکھا کر اشارہ کیا کھاؤ !
میں نے اپنا دانہ اسے غائبانہ دکھایا اور چیئر کیا…
اس نے اپنی چیجی کھالی میں نے اپنی چیجی…
مگر مل کر کھانے کا بڑا مزہ آیا !
میرا بچپنا نہیں گیا ابھی تک…. ہاہاہا


اف!
اب ایک ٹوٹی پھوٹی شکستہ نیپالی بوڑھی بچوں کے اسکول کی سائیڈ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بے بسی کی تصویر بنی بیٹھی دور سے کیمرے کو دیکھ رہی ہے…
اور دیوار کے ساتھ ہی اسکول کے کاریڈور میں چھوٹے چھوٹے بچے کیمرہ میں اپنی مووی بنتی دیکھ کر ہنس رہے ہیں اور خوش ہورہے ہیں


اخے نیتا امبانی جیڑا کپڑا اک وری پالوے دوجی وری نئیں پاندی ۔۔۔
فیر وی ہر چم چم ساڑھی چ اکو جئی لگدی اے زیورات نال لدی تے جگمگ جئی ساڑھی ۔۔۔ ثابت ہویا پسند تے اسٹائل نئین بدلدی بس کپڑے بدلدی اے ۔۔۔ میرے وانگ ای ۔۔۔ہاہاہا
اک واری اکوئی سٹائیل دے پنچ چھ سوٹ سوالئے، ( ہمیشہ ایس طراں ای ہوندا اے میرے نال ۔۔۔)
اک ٹریننگ تے چار دن سوٹ بدل بدل کے جاندی رہی پہلے دن توں بعد کسے نوٹس نہ لیا ۔۔۔ پنجویں دن میں دوست نوں کہیا
“کپڑے بدل آواں ۔۔۔فیر چلنے آں”
دوست کہندی اے
“خیر اے ۔۔۔ بدل کے وی کوئی فرق نئیں پینا — روز اک جہے کپڑے بدل رہی ہیں “
فیر اندازہ ہوئیا
اوہ روزانہ کلرز ، پیٹرنز ، سٹائل جیولری میک اپ ، ہر سٹائل ڈرامائی انداز نال پچھلے دن تو مختلف کر رئی سی ۔۔تائیوں روز نویں لگدی سی تے دوستو ایہہ وے فیشن تے ڈریسنگ دا سنہری اصول ۔۔۔ جیڑا آج تک میرے کولوں وی فالو نئیں ہویا اگرچہ سمجھ آگیا جے۔۔۔ ہر شے ملدی جلدی قسم دی خرید کے اکوئی سٹائل چ سلوا کے پانی او ہوئی اکو ہیئر سٹائل ، ریپیٹڈ میک اپ جے کیتا تے ، اوہوئی شکل ۔۔۔جنا مرضی سج بن لوے اوہوئی پرانی دی پرانی ۔۔۔ہاہاہا


میری کہانی موٹی موٹی میری زبانی:
متوسط طبقے میں آنکھ کھولی
بچپن خوشحالی میں ہی گزرا مگر ٹین ایج میں کچھ مالی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا… جب ابو جی ابو ظہبی برٹش آئل کمپنی سے اپنی خرابی ء طبع کے باعث پاکستان آگیے اور اپنی جمع پونجی کاروباری سمجھ نہ ہونے کے باعث دو تین سال کے قلیل عرصے میں گنوا دی…. میٹرک کے فورا بعد ٹین ایج میں ہی میں نے بھی جاب شروع کردی اور ابوجی بھی جاب کے ساتھ ساتھ ادھر ادھر ہاتھ پیر مارنے لگے سب پڑھنے لکھنے اور کھانے پینے والے ایک برابر تھے ایک دو پراپرٹیز کا کرایہ بھی آجاتا تھا اور امی جی کی کنجوس سلیقہ مندی بہت مہارت سے معاملات کو سنبھالے ہوئے تھی ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھائی لکھائی میرا پیشن تھی
جاب کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی چلتی رہی اور ایم ایس سی فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن بھی آگئی سندھ یونیورسٹی ذولوجی ڈیپارٹمنٹ سے بعد ازاں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے اسٹڈی لیو پر ایم فل بھی کرلیا جینیٹکس میں وہ بھی A + میں ایم ایس سی کے بعد ایک ڈیڑھ سال میں ہی پبلک سروس کمیشن کر کے لیکچرر شپ بھی مل گئی تھی سروس کا سارا پیریڈ تقریبا دادو میں گزرا اور شکر ہے اللہ کا پروفیسر کی حیثیت سے بیسویں گریڈ تک بھی پہنچ گئی جاب کا تقریبا سارا عرصہ سوائے پانچ چھ سال کی ڈیپوٹیشن ان لاہور گلبرگ کالج کے، گورنمنٹ گرلز کالج دادو میں تھی آخری اسائنمنٹ بھی وہیں ایز پرنسپل گورنمنٹ گرلز کالج دادو ہی تھی
دوسری طرف مرحوم بھائی محمد اکرم بھی اللہ بخشے، برسر روزگار ہوگیاتھا اس کی پرائیویٹ انٹرنیشنل فارما کمپنی اسے میری لیکچرر شپ سے زیادہ پے کر رہی تھی… امی جی کا ہاتھ بھی سوکھا ہوگیا تھا جسے انہوں نے زیادہ ظاہر نہ ہونے دیا
دوسرے بہن بھائی بھی رفتہ رفتہ پڑھ لکھ کر برسر روزگار ہوگئے شادی بیاہ بھی ہوگئے… لاہور میں دو گھر بھی بن گئے ہر ایک کے پاس اپنی چھوٹی بڑی گاڑیاں بھی آگئیں مگر یہ گاڑیاں شاڑیاں بچپن کی خوشحالی میں بھی تھیں … مگر ہم سارے لاڑکانہ شہر میں بچپن سے پیدل ہی چلنے پھرنے کے عادی تھے وہ ٹیکسیوں کے طور اور پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر ڈرائیور حضرات چلاتے تھے اسی کاروبار میں ابوجی فیل ہوچکے تھےپھر مشکل کا دور شروع ہوا…
بہرحال حق حلال کی کھاتے آئے ہیں سب…. نہ اب تک بنگلے پہ بنگلہ بنا نہ بنک بیلنس پہ بنک بیلنس اللہ کا شکر ہے سب کھا کما رہے ہیں بچے پڑھ رہے ہیں سب سے بڑی بہن فیصل آباد میں ہاؤس وائف شکر ہے اللہ کا دو بچوں اور انتہایی شریف النفس شوہر کے ساتھ خوش باش زندگی گزار رہی ہیں اکرم کے تین پلس بچے اور بیوی گجرانوالہ رہائش پزیر ہیں بھابی بھی ڈی ایس پی کی پوسٹ سے ریٹائر ہوئی ہیں بہر حال اکرم کے چلے جانے کے بعد کچھ مشکل وقت سے وہ ضرور گزرے ہیں اور اب تک ہیں اللہ آسانی کرے آمین ثم آمین
سوائے باجی کے سب بہن بھائی مجھے سے چھوٹے ہیں اور میں ٹین ایج سے ہی ان کے لئے مامتا کے جذبات سے بھرپور رہی ہوں دو بھائی اور ان کے بال بچے چھوٹی بہن اور میں اپنے فیملی ہاؤس مطلب امی ابو کے گھر میں ہی رہتے ہیں بھابیاں بہت اچھی ہیں امی ابو جنت کو چلے گئے ہیں مگر ہم الگ ہونے کا ابھی تک تصور ہی نہیں کرسکتے بچے چاہیں گے تو آگےجاکر الگ ہوجائیں گے
شکر الحمد للہ
اچھی گزری ہے گزر رہی ہے اپنی زندگی سے بے حد مطمئن اور خوش ہوں سوائے چند ہلکے پھلکے جسمانی عوارض کے جو اس عمر کا خاصہ ہیں شادی میری خاصی لیٹ میریج ہی تھی اور بہت زیادہ خوشگوار بھی نہیں کہی جاسکتی اولاد نہ ہونے میں بھی بہتری ہی تھی کہ چند سالوں میں شوہر صاحب اللہ کی بارگاہ میں چلے گئے تھے اللہ ان کی
مغفرت فرمائے آمین
باقی راوی چین ہی چین لکھتا ہے شکر ہے اللہ کا لاکھ لاکھ بار….
ہمیشہ بہت اچھے دوست ملے عزیز رشتہ داروں بہنوں بھائیوں والدین سب سے، اداروں اور اسٹوڈنٹس سے بھی بہت عزت اور محبت ملی بہت سے اسٹوڈنٹس ڈاکٹرز پروفیسرز تحقیق ریسرچ باعزت عہدوں پر ہر فیلڈ میں پایے جاتے ہیں اور کامیاب گھریلو خواتین بھی ہیں جہاں گئی اکثر اچھے یا بہت اچھے لوگوں سے واسطہ پڑا
میرا فیورٹ رشتہ اب
‘ پھپھو’ ہی ہے پیارے بھانجے بھانجی
‘ آنٹی’ کہتے ہیں جیتے رہیں سب اور خوش رہیں
آمین ثم آمین



ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر نیپالی غریب عورتیں بھیڑوں کی اون اتار کر دھوتی ، ہاتھوں سے پنجتی ،ہاتھوں سے دھاگہ بناتی، اونی کمبل تیار کرتی اور ساتھ گھر کے جملہ امور سر انجام دیتی ۔۔۔۔ بالآخر دس دس بارہ بارہ کمبل کمر پر لادے مخصوص ٹوکروں میں اوپر ایک آدھ بچہ بٹھائے قطار در قطار پہاڑی پگڈنڈیوں پہ میلوں مارکیٹ کی تلاش میں سرد و سرد سے ہی لڑتی چلی جارہی ہیں ۔۔۔راستے میں رات کو کہیں رکتی ہیں آگ جلا کر قریب سے کچھ ساگ پتے وغیرہ توڑ کر سب کے لئے پکاتی ہیں ایک بڑے پتیلے میں آٹا گھول کر پکاتی ہیں اور جب پک جاتا ہے تو اس آٹے کی بائٹس چاولوں کی طرح ساگ سے رلا رلاکر کھارہی ہیں اور عورتوں کی مخصوص کمپنی کھانا پینا انجوائے کررہی ہے پھر رات کو سب کمبل سرہانے رکھے آگ جلا کر ٹھٹھرتے آسمان تلے ایک پہاڑی کی اوٹ میں سو گئی ہیں
مشکلات کی زندگی مصائب کا سفر ، مسلسل بوجھ اٹھائے چل رہی ہیں ابھی تک کسی چھوٹی موٹی یک دو دوکانی مارکیٹ میں کسی کا کچھ نہیں بکا ۔۔۔۔ پھر ایک نسبتا چار پانچ چھوٹی چھوٹی دکانوں والی بڑی مارکیٹ میں ان بیس پچیس کمبل کی تاجروں نے ڈیرے ڈال لئے
اتنی محنت مشقت کا مول ہزار گیارہ سو ہی لگ رہا ہے وہ تیرہ سو پہ بحث کررہی ہیں مشاق تاجرانہ انداز میں خریدنے والے بھی قصبے کے غریب ہی ہیں گیارہ سو بارہ سو پہ سودا چکا کے وہ اپنی انٹیوں میں پیسے باندھ رہی ہیں ۔۔۔۔ کچھ بکے کچھ بچے کچھ اونے پونے گئے چند دن رات وہ مارکیٹ میں ہی ہیں پیسوں کی چمک ان آنکھوں میں رفتہ رفتہ طمانیت لا رہی ہے
کچھ پیتل تانبے کے برتن خریدے ایک آدھ رنگین کپڑا کھانے پینے کا کچھ سامان ، انٹیوں میں کچھ پیسے۔۔۔۔ واپسی کی پہاڑی پگڈنڈیوں پہ پھر چل سو چل۔۔۔۔
زندگی کتنی مشکل ہے اکثر
خدا کی مخلوق کے لئے۔۔۔ اور پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں
سوچ رہی ہوں


کوئی بھی زبان سیکھنے سے پہلے دنیا کے تمام بچے ملتی جلتی آوازوں میں ایک ہی انداز سے اظہار خیال کرتے ہیں
چاہے وہ چینی ہوں
انگلش،افریقن،جرمن،
عربی،ترکی،فرانسیسی
جاپانی،رشین،پرشین،
بنگالی ،اردو، ہندی ،پنجابی،سندھی،
بلوچ ،پٹھان
یا کوئی بھی انسان ہو
ہم سب ایک ہیں کہ یہ سائنسی اصول ہے جب بھی کسی جاندار کی اصلیت تلاش کرنی ہوتی ہے تو اس کی انتہائی ابتدائی ساخت سے ہوتے ہوئے اس کی تعریف مرتب کی جاتی ہے زبانوں کو بنیاد بنا کر انسان کی تقسیم ناقابل قبول ہے مذہب ذات پات کڑم قبیلہ ملک وطن یہ تو اس کے بھی بعد کی اور زیادہ ناقابل بھروسہ اور غیر اہم تقسیم رہ جاتی ہے
آج کا سبق :
ہم سب ایک ہیں
سرخ خون والے
چاہے ہماری کھال سفید ہے گندمی کالی یا پیلی
سائنسی طور پر بھی انسان کی ایک ہی قسم ہے
Home sapien sapien
دوسرا sapien سنگل sub species کی نشاندہی کے لئے ہے
اور آپ لوگوں کی خوشی کے لئے species کی تعریف بھی کردی جائے کہ وہ اقسام جو دیکھنے میں عمومی طور پر سوائے جنس کی تخصیص کےایک جیسے ہوں جن میں باہم ملاپ سے صحتمند فرٹائل بچے پیدا ہو سکیں
کوئی بھی افریقی اور چائنیز اگر شادی کرلیں
انگریز یا پاکستانی شادی کرلیں
دنیا کا کوئی بھی مرد کسی بھی عورت سے شادی کرلے۔۔۔۔ الحمد للہ اولاد کی نعمت سے ضرور سرفراز ہوگا بلکہ اس کی نسل بھی پھولے پھلے گی ۔۔۔۔
یہ سب نارمل ہے اس لئے انسان کی ایک ہی species ہے
جبکہ دوسرے ملتے جلتے جانداروں میں بیسیوں سینکڑوں کہ کہیں تو ہزاروں species پائی جاتی ہیں
انسان اس لحاظ سے بہت انمول اور منفرد ہے خدا نے اس میں کوئی تفرقہ نہیں ڈالا سو ہمیں بھی تفرقے بازی نہیں کرنی چاہئے
سارے انسانوں کو یونیورسل آنکھ سے دیکھنا چاہئے کہ یہ سب سے بڑا کار ثواب ہے

اچھا میرا بچپن کا باجی سے سیکھا ہوا ایک اور ٹوٹکا جو یک ٹک ہے میں دادو تک صحن میں سوتے سمے اپلائی کرتی تھی
اگر اکا دکا بادل آسمان پہ نظر آتے اور رات بارش کا امکان ہوتا تو کھلے آنگن میں سونے والوں کی تو رات اور نیند کا بیڑہ غرق ہونا لازمی ہوتا ۔۔۔ آنگن میں سوتے ہوئے رات کی بارش مجھے انتہائی نا قابل قبول تھی سب کو ہی ہوتی ہے باجی ٹوٹکا اپلائی کرتیں اپنے دوپٹے کے کونے میں کوئی بھی ایک نظر آتا ستارہ باندھ لیتیں اسے انسٹرکشن دے کر ۔۔۔ میں نے تمہیں باندھ لیا ہے اب ساری رات کہیں نہ جانا ۔۔۔ مطلب آسمان پر ایک بھی ستارہ موجود ہو تو مطلب بادل بہت گہرے نہیں ہیں سو بارش کا امکان کم ہوجاتا ۔۔۔ہاہاہا ہے نہ مزیدار اور مضحکہ خیز ٹوٹکا ۔۔۔ ٹوٹکے اوٹ پٹانگ ہی ہوتے ہیں مگر پورے پتہ نہیں کیسے ہوتے ہیں یہ ایک راز ہے کائنات کے سینے میں مدفون ۔۔ہاہاہا
یہ ٹوٹکہ میرا یک ٹک آزمایا ہوا ہے ۔۔۔ جب تک دادو میں بھی رہی آسمان پہ اگر رات کو بادل کی ایک ٹکڑی بھی نظر آتی ۔۔۔ تو میں بارش سے پہلی احتیاطی تدبیر پلو کے کونے میں اگر واحد موجود ستارہ بھی نظر آتا تو اس کو مخاطب کرکے گرہ لگا دیتی
” ھن جانا نئیں کتے ساری رات ، میں تنوں بنھ لیا اے ۔۔۔ “
وہ بے چارہ ساری رات بادلوں کو ہی بھگاتا اور بارش کے امکان کو رد کرتا گزار دیتا ہوگا میرے دوپٹے سے بندھا ہوا ۔۔۔
یقین مانیں بارش کبھی نہیں ہوئی اس رات نہ گہرے بادل ہی آئے ۔۔۔ جس رات ستارہ بندھ گیا وہ آسمان پہ موجود ہی رہا اور اگر بادل گھر بھی آئے تو وہ جوابا اپنے سارے ستارے چمکانے کی کوشش کر تا رہا آسمان پر ۔۔۔ بادل یہ جا وہ جا ۔۔۔۔ہاہاہا ۔۔۔ہاہاہا ۔۔۔
دوسرے ایک اور خوش عقیدگی اب تو بہت سے لوگ مضحکہ ہی کرتے ہیں ان باتوں پر (معاذ اللہ ۔۔۔)
عمران خیر سے تین ماہ کا تھا جب دس دن ایسا بیمار پڑا کہ ابو جی نے سات بکرے صدقہ کرائے کوئی ڈاکٹر وید ملا حکیم پیر نہیں چھوڑا ۔۔۔ بہت پریشان تھے ابوجی اور سارے گھر والے جہاں اور بہت سی منتیں مانیں امی ابو نے ۔۔۔وہاں کسی نے کہا ٹھیک ہوجائے تو پانچ سال کی عمر تک ہر مہینے بی بی سیدہ کی نیاز دلانا ۔۔۔ امی جی نے نیاز مان لی اللہ سلامت رکھے ٹھیک ہوگیا خیر سے ۔۔سب نے اپنی منتیں پوری کیں ۔۔۔امی جی مجھ سے ہر مہینے بی بی سیدہ کی کہانی سنا کرتیں باقاعدگی سے اور نیاز دلاتیں ۔۔۔ پھر محلے بھر میں جس کو معجزہ سننا ہوتا مجھے بلا لیا جاتا کہ میں بچی بھی تھی اور ہر وقت فارغ بھی ایک طرف جہاں میں پورے محلے کی خالائوں کو خط لکھ کر دیتی وہیں بی بی سیدہ کی کہانی سنانے کے لئے بھی مجھے بلایا جاتا چند ریوڑیاں ٹافیاں یا کوئی بھی میٹھا تبرک سب سے پہلے عقیدتا مجھے پیش کیا جاتا پھر باقی بچوں کی باری آتی ۔۔۔
امی جی نے پانچ سال کی بجائے پورے بارہ سال ہر مہینے مجھ سے کہانی سنی ۔۔۔پھر زردے کی دیگ پکوا کے تقسیم کی اور یہ سلسلہ بڑھایا ۔۔۔ مگر پھر خیر سے عمران خود کو ئی میٹھی چیز خرید لاتا اور امی سے کہتا اس پہ بی بی سیدہ کی نیاز پڑھ دیں ہمارے گھر میں مردوں لڑکوں میں بھی ثواب کی خاطر تقسیم کی جاتی کہ بی بی سب کی ماں ہیں ۔۔۔بہرحال پڑھ پڑھ کے مجھے تو زبانی یاد ہوگئی امی جی نے پھر کہانی سننے کی بجائے اکثر و بیشتر یونہی نیاز دلانا شروع کردی ۔۔۔
اب تک ہر مہینے میں بھی ایک آدھ بار ضرور نیاز دلا دیتی ہوں اور اب ان کی روحانی شفقت اور مہربان ماں ہونے کا یہ کرم ہے مجھ پر کہ ۔۔۔ جو دعا مانگوں نیاز کی منت مان کے ۔۔۔
ناممکن بھی اکثر ممکن ہی ہو جاتا ہے ( شکر الحمد للہ)
رب کے راز رب ہی جانے ۔۔۔۔
(واللہ اعلم بالثواب)


چاندنی رات ان دادو کوارٹر ۔۔۔یہ چودھویں کا چاند مشرق سے مغرب ساری رات سفر کرکے اس آنگن سے گزرتا ہوا صبح سے پہلے مغرب کی طرف غروب ہوتا تھا یہی اینگل اور پیسیج اس کا ہمارے لاڑکانہ کے آنگن کا بھی تھا اور بچپن سے ہی سوتے سمے جب عین میرے سرپہ ہوتا تھا ۔۔۔ چاندنی اتنی روشن اور تیز ہوتی تھی کہ میری آنکھ کھل جاتی تھی ۔۔۔ اب تو کمرے ہیں اور اے سیز ہیں وہ چھتوں انگنوں اور چاند تاروں کی چھاوں میں سونے کا لطف ہی چلا گیا


میری بادل کی فوٹو گرافی ۔۔۔ یہ بادل سو گز یا زیادہ ساتھ ساتھ چلے تھے گاڑی کے حیدرآباد سے جامشورو جاتے پل سے پہلے روڈ پہ بہت سے کلکس لئے تھے بہت خوبصورت بادل اور شام تھی کہ سڑک اور پودے سب نیم اندھیرے میں ہیں بعد میں دیکھا تو اس لمحہ ایک البیلی الہڑ سی لڑکی بن رہی ہے منظر میں مجھے لگتا ہے اس کے داہنے ہاتھ میں بڑا سا گلدستہ ہے اسٹائل سے پیچھے کی طرف کیا ہوا اور بایاں ہاتھ رقص میں ہدادو کا وہ عظیم الشان سرونٹ کوارٹر جہاں میں گریڈ 20 میں ایز آ پرنسپل رہائش پذیر رہی کیونکہ وہاں ہاسٹل کے علاوہ کوئی اور آپشن نہ تھا۔۔۔۔ پہلے ہاسٹل میں رہتی تھی مگر جب گلبرگ کالج لاہور میں تقریبا چھ سال ڈیپوٹیشن کے بعد واپس گئی تو ہاسٹل حال سے بد حال ہوچکا تھا ( میرے فراق میں ۔۔۔) یہ دو کمروں کا سرونٹ کوارٹر ہی بہتر اور آخری آپشن تھا خیر سامان یہاں پٹخ کے کالج کے بعد دن بھر میں اپنی عزیز ترین دوست آپا ثریا یا (آپا ) حمیدہ کی طرف چلی جاتی تھی کہ اے سی کے بغیر اس تنور میں رہنا ممکن نہ تھا ہاں رات اسی چھوٹے سے آنگن کے خوشگوار ماحول میں تاروں کی چھاوں تلے سوتی تھی پیڈسٹل فین لگا کر پڑوسی عبداللہ کی ایک دو چھوٹی بچیوں کے ساتھ کہ اکیلی میں ہاسٹل اپنے کمرے میں بھی سونے سے بہت ڈرتی تھی خاص طور پر باد و باراں میں پڑوسی کوارٹر کی کوئی نہ کوئی بوڑھی دادی یا بچی میرے پاس ہوتی تھیں ۔۔۔ انہی بچیوں میں سے تانیا ( تانی) تو میری بیٹی ہی خود کو سمجھتی ہے آج تک اور یقینا میں بھی بہت سے دوسرے (اپنے پیارے ) بچوں کی طرح اس کے لئے بھی اپنے دل میں خصوصی محبت اور مامتا محسوس کرتی ہوں جیتے رہیں سب (آمین )
غالبا 2020 کی اس صبح اس وقت میں سویرے سویرے گرمیوں کی رات صحن میں میٹھی نیند کے مزے اور یقینا کچھ اچھے خواب دیکھ لینے کے بعد خوشگوار موڈ میں ۔۔۔۔ ایک ٹنڈ منڈ درخت پہ بسیرا کرنے والی چیل کمیونٹی کی وڈیو بنا رہی تھی ۔۔۔ چھوٹی چھوٹی ہر چیز اپنی ایک الگ دلکشی رکھتی ہے اور میں نے ہمیشہ ہر منظر کو خواب انجوائے کیا ہے ۔۔۔ اور شائید یہی میری خوشی اور طمانیت کا راز بھی ہے ۔۔۔ شکر الحمد للہ ے اور خود لہراتی بادلوں میں چلی جا رہی ہے زمانے سے پیٹھ پھیرے اپنی دھن میں مگن ۔۔۔۔
(میرے خیال میں )


دادو کا وہ عظیم الشان سرونٹ کوارٹر جہاں میں گریڈ 20 میں ایز آ پرنسپل رہائش پذیر رہی کیونکہ وہاں ہاسٹل کے علاوہ کوئی اور آپشن نہ تھا۔۔۔۔ پہلے ہاسٹل میں رہتی تھی مگر جب گلبرگ کالج لاہور میں تقریبا چھ سال ڈیپوٹیشن کے بعد واپس گئی تو ہاسٹل حال سے بد حال ہوچکا تھا ( میرے فراق میں ۔۔۔) یہ دو کمروں کا سرونٹ کوارٹر ہی بہتر اور آخری آپشن تھا خیر سامان یہاں پٹخ کے کالج کے بعد دن بھر میں اپنی عزیز ترین دوست آپا ثریا یا (آپا ) حمیدہ کی طرف چلی جاتی تھی کہ اے سی کے بغیر اس تنور میں رہنا ممکن نہ تھا ہاں رات اسی چھوٹے سے آنگن کے خوشگوار ماحول میں تاروں کی چھاوں تلے سوتی تھی پیڈسٹل فین لگا کر پڑوسی عبداللہ کی ایک دو چھوٹی بچیوں کے ساتھ کہ اکیلی میں ہاسٹل اپنے کمرے میں بھی سونے سے بہت ڈرتی تھی خاص طور پر باد و باراں میں پڑوسی کوارٹر کی کوئی نہ کوئی بوڑھی دادی یا بچی میرے…



میری کہانی موٹی موٹی میری زبانی:
متوسط طبقے میں آنکھ کھولی
بچپن خوشحالی میں ہی گزرا مگر ٹین ایج میں کچھ مالی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا… جب ابو جی ابو ظہبی برٹش آئل کمپنی سے اپنی خرابی ء طبع کے باعث پاکستان آگیے اور اپنی جمع پونجی کاروباری سمجھ نہ ہونے کے باعث دو تین سال کے قلیل عرصے میں گنوا دی…. میٹرک کے فورا بعد ٹین ایج میں ہی میں نے بھی جاب شروع کردی اور ابوجی بھی جاب کے ساتھ ساتھ ادھر ادھر ہاتھ پیر مارنے لگے سب پڑھنے لکھنے اور کھانے پینے والے ایک برابر تھے ایک دو پراپرٹیز کا کرایہ بھی آجاتا تھا اور امی جی کی کنجوس سلیقہ مندی بہت مہارت سے معاملات کو سنبھالے ہوئے تھی ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھائی لکھائی میرا پیشن تھی
جاب کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی چلتی رہی اور ایم ایس سی فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن بھی آگئی سندھ یونیورسٹی ذولوجی ڈیپارٹمنٹ سے بعد ازاں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے اسٹڈی لیو پر ایم فل بھی کرلیا جینیٹکس میں وہ بھی A + میں ایم ایس سی کے بعد ایک ڈیڑھ سال میں ہی پبلک سروس کمیشن کر کے لیکچرر شپ بھی مل گئی تھی سروس کا سارا پیریڈ تقریبا دادو میں گزرا اور شکر ہے اللہ کا پروفیسر کی حیثیت سے بیسویں گریڈ تک بھی پہنچ گئی جاب کا تقریبا سارا عرصہ سوائے پانچ چھ سال کی ڈیپوٹیشن ان لاہور گلبرگ کالج کے، گورنمنٹ گرلز کالج دادو میں تھی آخری اسائنمنٹ بھی وہیں ایز پرنسپل گورنمنٹ گرلز کالج دادو ہی تھی
دوسری طرف مرحوم بھائی محمد اکرم بھی اللہ بخشے، برسر روزگار ہوگیاتھا اس کی پرائیویٹ انٹرنیشنل فارما کمپنی اسے میری لیکچرر شپ سے زیادہ پے کر رہی تھی… امی جی کا ہاتھ بھی سوکھا ہوگیا تھا جسے انہوں نے زیادہ ظاہر نہ ہونے دیا
دوسرے بہن بھائی بھی رفتہ رفتہ پڑھ لکھ کر برسر روزگار ہوگئے شادی بیاہ بھی ہوگئے… لاہور میں دو گھر بھی بن گئے ہر ایک کے پاس اپنی چھوٹی بڑی گاڑیاں بھی آگئیں مگر یہ گاڑیاں شاڑیاں بچپن کی خوشحالی میں بھی تھیں … مگر ہم سارے لاڑکانہ شہر میں بچپن سے پیدل ہی چلنے پھرنے کے عادی تھے وہ ٹیکسیوں کے طور اور پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر ڈرائیور حضرات چلاتے تھے اسی کاروبار میں ابوجی فیل ہوچکے تھےپھر مشکل کا دور شروع ہوا…
بہرحال حق حلال کی کھاتے آئے ہیں سب…. نہ اب تک بنگلے پہ بنگلہ بنا نہ بنک بیلنس پہ بنک بیلنس اللہ کا شکر ہے سب کھا کما رہے ہیں بچے پڑھ رہے ہیں سب سے بڑی بہن فیصل آباد میں ہاؤس وائف شکر ہے اللہ کا دو بچوں اور انتہایی شریف النفس شوہر کے ساتھ خوش باش زندگی گزار رہی ہیں اکرم کے تین پلس بچے اور بیوی گجرانوالہ رہائش پزیر ہیں بھابی بھی ڈی ایس پی کی پوسٹ سے ریٹائر ہوئی ہیں بہر حال اکرم کے چلے جانے کے بعد کچھ مشکل وقت سے وہ ضرور گزرے ہیں اور اب تک ہیں اللہ آسانی کرے آمین ثم آمین
سوائے باجی کے سب بہن بھائی مجھے سے چھوٹے ہیں اور میں ٹین ایج سے ہی ان کے لئے مامتا کے جذبات سے بھرپور رہی ہوں دو بھائی اور ان کے بال بچے چھوٹی بہن اور میں اپنے فیملی ہاؤس مطلب امی ابو کے گھر میں ہی رہتے ہیں بھابیاں بہت اچھی ہیں امی ابو جنت کو چلے گئے ہیں مگر ہم الگ ہونے کا ابھی تک تصور ہی نہیں کرسکتے بچے چاہیں گے تو آگےجاکر الگ ہوجائیں گے
شکر الحمد للہ
اچھی گزری ہے گزر رہی ہے اپنی زندگی سے بے حد مطمئن اور خوش ہوں سوائے چند ہلکے پھلکے جسمانی عوارض کے جو اس عمر کا خاصہ ہیں شادی میری خاصی لیٹ میریج ہی تھی اور بہت زیادہ خوشگوار بھی نہیں کہی جاسکتی اولاد نہ ہونے میں بھی بہتری ہی تھی کہ چند سالوں میں شوہر صاحب اللہ کی بارگاہ میں چلے گئے تھے اللہ ان کی
مغفرت فرمائے آمین
باقی راوی چین ہی چین لکھتا ہے شکر ہے اللہ کا لاکھ لاکھ بار….
ہمیشہ بہت اچھے دوست ملے عزیز رشتہ داروں بہنوں بھائیوں والدین سب سے، اداروں اور اسٹوڈنٹس سے بھی بہت عزت اور محبت ملی بہت سے اسٹوڈنٹس ڈاکٹرز پروفیسرز تحقیق ریسرچ باعزت عہدوں پر ہر فیلڈ میں پایے جاتے ہیں اور کامیاب گھریلو خواتین بھی ہیں جہاں گئی اکثر اچھے یا بہت اچھے لوگوں سے واسطہ پڑا
میرا فیورٹ رشتہ اب
‘ پھپھو’ ہی ہے پیارے بھانجے بھانجی
‘ آنٹی’ کہتے ہیں جیتے رہیں سب اور خوش رہیں
آمین ثم آمین


[3:10 PM, 7/24/2024] Azra Ufone: کوئی بھی زبان سیکھنے سے پہلے دنیا کے تمام بچے ملتی جلتی آوازوں میں ایک ہی انداز سے اظہار خیال کرتے ہیں
چاہے وہ چینی ہوں
انگلش،افریقن،جرمن،
عربی،ترکی،فرانسیسی
جاپانی،رشین،پرشین،
بنگالی ،اردو، ہندی ،پنجابی،سندھی،
بلوچ ،پٹھان
یا کوئی بھی انسان ہو
ہم سب ایک ہیں کہ یہ سائنسی اصول ہے جب بھی کسی جاندار کی اصلیت تلاش کرنی ہوتی ہے تو اس کی انتہائی ابتدائی ساخت سے ہوتے ہوئے اس کی تعریف مرتب کی جاتی ہے زبانوں کو بنیاد بنا کر انسان کی تقسیم ناقابل قبول ہے مذہب ذات پات کڑم قبیلہ ملک وطن یہ تو اس کے بھی بعد کی اور زیادہ ناقابل بھروسہ اور غیر اہم تقسیم رہ جاتی ہے
آج کا سبق :
ہم سب ایک ہیں
سرخ خون والے
چاہے ہماری کھال سفید ہے گندمی کالی یا پیلی
سائنسی طور پر بھی انسان کی ایک ہی قسم ہے
Home sapien sapien
دوسرا sapien سنگل sub species کی نشاندہی کے لئے ہے
اور آپ لوگوں کی خوشی کے لئے species کی تعریف بھی کردی جائے کہ وہ اقسام جو دیکھنے میں عمومی طور پر سوائے جنس کی تخصیص کےایک جیسے ہوں جن میں باہم ملاپ سے صحتمند فرٹائل بچے پیدا ہو سکیں
کوئی بھی افریقی اور چائنیز اگر شادی کرلیں
انگریز یا پاکستانی شادی کرلیں
دنیا کا کوئی بھی مرد کسی بھی عورت سے شادی کرلے۔۔۔۔ الحمد للہ اولاد کی نعمت سے ضرور سرفراز ہوگا بلکہ اس کی نسل بھی پھولے پھلے گی ۔۔۔۔
یہ سب نارمل ہے اس لئے انسان کی ایک ہی species ہے
جبکہ دوسرے ملتے جلتے جانداروں میں بیسیوں سینکڑوں کہ کہیں تو ہزاروں species پائی جاتی ہیں
انسان اس لحاظ سے بہت انمول اور منفرد ہے خدا نے اس میں کوئی تفرقہ نہیں ڈالا سو ہمیں بھی تفرقے بازی نہیں کرنی چاہئے
سارے انسانوں کو یونیورسل آنکھ سے دیکھنا چاہئے کہ یہ سب سے بڑا کار ثواب ہے


صبح صبح سوئی ہوئی دوست کو پندرہ سال بعد نیند سے اچانک جگا کر وڈیو کال کرنا بھی کھلی دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے ۔۔۔ کیوں بھئی نجمہ ؟
کورس میں” ہیپی برتھ ڈے ٹو یو” میں نے اور بے بی نے گایا پتہ چلا نجمہ کی برتھ ڈے ٹو اکتوبر میں ہے ۔۔۔فیس بک نے پرانک کروادیا آج بتا کر ۔۔۔سدھر جا مار زرق برق !
ویسے نجمہ فورا سیٹ ہوگئیں تم بال سمیٹ کر سر پہ دوپٹہ اوڑھ کر وہی پرانی کی پرانی نجمہ ۔۔۔ مگر اٹیک میرا اور بے بی کا تھا تو کاونٹر اٹیک ہم پہ بھی اچھا نہیں تھا فورا ایکسائیٹمنٹ میں کال آن کرتے ہی موبائل بہت قریب تھا تمہارے فیس کے سیٹ ہوئے بنا ، چوتھائی چہرہ نظر آیا آدھی ناک ادھوری کھلی بند انکھ سمیت پھر دوسری آنکھ کھلتی ہوئی نظر آئی تو ناک غائب ۔۔۔جب تک تم سیٹ ہوئیں اور موبائل ڈھنگ سے بال سمیٹ کے دوپٹہ اوڑھ کے پکڑا اور اپنی خوبصورت ہنسی دکھا کر بات شروع کی ہم مستقل وڈیو کال کے اثرات بد کے زیر اثر تھے شکر ہے تم نے چار سیکنڈ نہیں لگائے سیٹ ہونے میں ۔۔۔ویسے بہت مزہ آیا صبح صبح وڈیو کال کر کے جگانے کا ۔۔۔ بھئی تم بچپن سے ہماری دیکھی بھالی ہو گھبرانے کی کیا بات ہے ۔۔۔ جیسی بھی دکھو ہمیں پتہ ہے ۔۔۔ مگر یقین کرو بال سمیٹ کر سر پہ پرنٹڈ دوپٹہ سجا کر تم ہنستی ہوئی واقعی بہت اچھی لگ رہی تھیں سالوں بعد دیکھا دل خوش ہوگیا ۔۔۔مگر ناجو باجی نے آخر تک پوز سیٹ نہیں کیا بس دیکھتی رہیں ایک خوشگوار آنکھ سیٹ کر رکھی تھی ہم پر ۔۔۔۔ چہرہ کلوز اپ وہی آدھے کا آدھا کبھی اوپری چہرہ پیشانی آنکھیں کبھی ٹھوری ناک والا حصہ کبھی ایک کان کبھی دوسرا کان ہاں جو بھی حصہ نظر آیا بے بی کا اور میرا آدھا پورا چوکھٹا دیکھ کر بہت خوش نظر آئیں وہ ۔۔۔سلامت رہو خوش رہو بہت اچھا لگا ۔۔۔۔ آئندہ تمہیں دعوت ہے کسی بھی وقت بے وقت وڈیو کال کرکے بدلہ چکا سکتی ہو ۔۔۔ ہاہاہا

بے بی آئی ہوئی ہے تو صبح صبح جڑی بوٹیوں کا قہوہ مل گیا ۔۔۔ مطلب سونف الائچی زیرہ اٹرم پٹرم ناقابل شناخت۔۔۔ معدے اور عمومی جسمانی صحت کے متفرق ٹوٹکے ہیں اس کے پاس تو جہاں بھی ہو خود بھی استعمال کرتی ہے اور اپنی عزیز ہستیوں کو بھی استعمال کراتی ہے کل پوچھ رہی تھی ہمدرد دواخانہ کہاں ہے جوارش کمونی اور اسطخو دوس اور پتہ نہیں کیا کیا لے کر آوں مجھے تو نام بھی نہیں آتے ماموں نے اس کو بچپن سے کھلا کھلا کر عادی کیا ہوا ہے اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ میں اسے بہت عزیز ہوں اور وہ بھی میری پیاری دودھ شریک بہن ہے تو ۔۔۔ تو ظاہر ہے مجھے بھی بے انتہا عزیز ہے جب آجائے تو گھر والے میری طرف سے کچھ کچھ بے فکر اور لاپرواہ ہی ہوجاتے ہیں مہمان وہ آتی ہے خیال میرا رکھتی ہے کھانا پینا پکانا دینا لینا تقریبا سب اسی کے ذمے لگا ہوتا ہے ۔۔۔ کیونکہ ماشا اللہ کیئرنگ بہت ہے بچپن سے میرا خاص خیال رکھتی آئی ہے خود اکلوتی ہے تو میں ہی اس کی سگی دودھ شریک بہن ہوں بلکہ ہم سب بہن بھائی ہی ۔۔۔۔ بچپن سے میرے ساتھ ہنستی کھیلتی گڑیاں بیاہتی ناچتی گاتی ہنستی ہنساتی آئی ہے میری شوخی اور چنچلتا سے کچھ سوا ہی رہی ہے بچپن سے مگر اب سنجیدگی کا آنچل لپیٹ رکھنے کی کوشش کرتی ہے مگر مجھے تو اس کی اصلیت کا پتہ ہے سو خوب ہنستے ہنساتے ہیں فلمیں گانے دیکھتے ہیں وحید مراد دونوں کو پسند ہے کل راجیش کھنہ کو دیکھ کر انجوائے کیا ۔۔۔
جتنا ہنسے ہنسائے اتنا ہی زندگی نے رلانے کا بندو بست رکھا تھا شائید۔۔۔ مگر نہیں وہ مجھ سے بھی زیادہ بہادر اور اللہ لوک ہے ماموں مامی نہیں رہے شوہر نہیں رہا مگر ہم سب تو ہیں نا پورا خاندان ۔۔۔ پھر چھوٹے ماموں مامی (خالہ) جو اس کے دوسرے والدین ہی ہیں سب ہیں شکر الحمد للہ خیال کرنے والے ۔۔ ہم دونوں کی اولاد ہوتی تو یقینا سمدھنیں بننا بھی پسند کرتے مگر اللہ نے بہتر ہی کیا سمدھنیں چاہے بہنیں بھی ہوں دل میں بال آہی جاتا ہے (غالبا )
بڑے ماموں (اللہ بخشے )کی بے انتہا لاڈلی تھی جیسے اکلوتی اولاد ہوتی ہے آنکھ کا تارا دل کا سہارا ۔۔۔ اللہ سلامت رکھے اسے مجھے بھی بہت پیاری ہے بلکہ جنم کی سہیلی ہے صرف دو ڈھائی ماہ کی چھوٹ بڑائی (وہ چھوٹی میں آپی ) تو ہمیشہ اپنے ساتھ ہی دیکھا ہے اسے ہاہاہا۔۔۔ یاد آیا بچپن میں ہمیں کوئی بھی باجی نہ کہتا تھا دونوں کو شدید ارمان تھا کوئی ہمیں بھی باجی کے باعزت مقام ہر فائز کردے اسلم اکرم کی بد تمیزیوں سے یہ باعزت برتاو متوقع نہیں تھا ہم نے ایک دن اسکول سے آتے سمے یہ دردمندانہ فیصلہ کیا کہ ۔۔۔ہمیں کوئی باجی نہیں کہتا ہم آپس میں اب ایک دوسرے کو باجی کہا کریں گے ۔۔۔ فیصلہ ہوگیا باجی باجی ۔۔۔باجی باجی ۔۔کرکے ایک دوسرے سے بات چیت کرنے لگیں ماموں نے شائید سنا ہو یا نہیں ۔۔۔ انہیں بے بی کے شوق کا اندازہ جو ہوا تو انہوں نے بیٹی کو’ باجی’ کہنا شروع کردیا سالوں تک یہ ماما مامی کی باجی بنی رہی بلکہ پورے خاندان کی بے بی باجی آج تک ہے ۔۔۔ بہت ہنستے کھیلتے بچپن سے اج تک سب سے بہترین دوست کی حیثیت سے بہترین وقت اور یادوں کا مشترکہ خزانہ ہے ہمارے پاس ، بلکہ مجھے تو اسے دیکھ کر کبھی کبھی لگتا ہے میرے اندر بڑے ماموں کی روح اتر آئی ہے اس کی خاطر اسی شفقت و محبت سے میرا دل بھر جاتا ہے جو یقینا جب تک وہ حیات تھے اس کی ضرورت نہیں تھی۔۔۔۔ مگر اب ہے میرے خیال میں
اللہ سلامت رکھے میری پیاری بہن بے بی عرف چڑیا کو اور ہمیشہ خوش و خرم اور پرسکون رکھے آمین ثم آمین
اب تو چھوٹے بہن بھائی سب مجھے بہن بھائیوں سے زیادہ اولاد ہی لگتے ہیں بچے ہیں سب میرے بے بی سمیت اور باجی سمیت ۔۔۔ اللہ سلامت رکھے خوش رکھے ہم سب کو (آمین ثم آمین)

امی جی نے اردو میں ہر اخبار رسالہ ڈائجسٹ افسانہ ناول عمران سیریز جوبھی انکے ہاتھ لگا
پڑھ کر چھوڑا بعد میں جو چند ایک میرے ادبی ذخیرے میں کتب شامل تھیں کسی وقت ان کو بھی پڑھ ڈالا ایک دن کہتی ہیں
“راجہ گدھ، کہاں ہے مجھے ڈھونڈ کے دو میں نے دوبارہ پڑھنی ہے….”

میں حیران ہوگئی کہ عمران سیریز اب راجہ گدھ پہ بھی ہاتھ صاف کر رہی ہے
خیال رہے امی جی نے اسکول کی روایتی تعلیم حاصل نہیں کی ہوئی
ایک دن مجھ سے کہتی ہیں
“اپنی شاعری دی کتاب دے میں وی پڑھاں گی”
میں نے بصد احترام و عقیدت نذر کی ڈرتے ڈرتے….. کہ اس رومینٹک ورژن پہ جانے وہ کیا کہیں کیا سوچیں، ساری زندگی کی ڈانٹ آج اکٹھے ہی کھانا پڑے گی
‘خیال خام ‘چند صفحے الٹے پلٹے، پڑھنے کی کوشش کی
“پتہ نہیں کی لکھیا ہے…. مینوں تے سمجھ ای نئیں لگدی، بڑی مشکل اے”
اصل میں شاعری سے کوئی ایسا لگاؤ بھی نہیں انہیں…..
میں نے بھی شکر الحمد للہ کر کے واپس لے لی


شہباز عمران میرا پیارا شہزادہ اللہ صحت تندرستی سلامتی دے آمین
ماشااللہ جب پانچ چھ ماہ کا تھا تو اس کی شکل بالکل ہندوؤں کے کرشن کنہیا جیسی تھی جیسا تصویروں میں دکھایا ہوتا ہے خاص طور پر بالوں کے کرل وغیرہ ایک دن اسلم بھائی نے مجھے نوٹ کروایا تو واقعی مجھے بھی لگنے لگا میں نے اسے اکثر میرا موہن اور ‘موہنا’ کہنا شروع کر دیا جو اب بھی کہتی ہوں
اگرچہ اب وہ میٹرک کلاس کا ایک بزعم خود بہت بڑا بچہ بن چکا ہے
اور وہ گانا اسے dedicate کیا
‘وے سب توں سوھنیا
ہائے وے من موھنیا’
جسے سن کر اب بھی اس کی ناک پھول جاتی ہے اور وہ کھل اٹھتا ہے
تین چار سال کا ہوگا کہ میں ایک دن ہیر وارث شاہ ، پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی شہباز نے لڑکے لڑکی کی پرکشش تصویر کا ٹائیٹل دیکھ کر کہا
‘پھپھو…. مجھے بھی سناؤ ‘
مین نے بھر پور اغلاط کے ساتھ پنجابی پڑھنا شروع کردی…. ایک تو کچھ مختلف سی پنجابی جو اس نے گھر میں کبھی نہیں سنی، اوپر سے میری غلطیوں کا تڑکا تیسرے اس کے باوجود روانی سے پڑھے جانا، بچے نے بہت ہی انجوائے کیا شوق اپنی جگہ نمایاں تھا مگر مسکراہٹ اپنی جگہ پھوٹ پھوٹ کے بہہ رہی تھی شہباز کے ہر انداز سے… بہر حال اس دن سے ہیر وارث شاہ شہباز کا اور میرا مشترکہ اثاثہ بن گئی ہر ایک دو گھنٹے بعد شہباز بڑی سی ہیر وارث شاہ اٹھائے چلا آرہا ہے
“پھپھو…. سناؤ “
ایک دن مین نے اسے فلم ہیر رانجھا کی پوری اسٹوری سنادی…. فلم لگی ٹی وی پر اس نے بڑے شوق سے دیکھی اور ساتھ لقمے بھی دئے بڑی میٹھی نظروں سے ہیر کو دیکھتے ہوئے
“اچھا یہ ہیر ہے…. “
اس دن سے میں نے اسے ‘رانجھنا’ کا خطاب بھی دے دیا ، ٹھیک کیا نا


آج صبح ٹی وی پی ترجمے کے ساتھ سورہ انعام سن رہی تھی ہمارے ترجمہ نگار بھی عربی جیسی بلیغ زبان کے ساتھ بعض اوقات عجیب سطحی سا ترجمہ کر دیتے ہیں ترجمہ پڑھ کے ایک بار پھر آیت پڑھتی رہی اور بے اختیار سبحان اللہ سبحان اللہ کہتی رہی بہت سی جگہوں پر آج کل کے نیم دانشوران سیکیولر اور لادین مذہبی ذہن کے لوگوں کے بارے میں خیال آیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر یہ الہام شائید ان جیسے باغیانہ خیالات کے حامل لوگوں کے لئے ہی اترا تھا بتوں سے انکی بیزاری پھر ہر بڑی اور روشن چیز کو خدا ماننا پھر خود ہی اس کی نفی کردینا بالاخر مظاہر قدرت کا مشاہدہ کرتے ہوئے توحید کا اقرار کرنا اور خدائے واحد کا شعور حاصل کرنا…… یہ سب آج سے ہزاروں سال پہلے ایک نبی کی ایکسٹرا ذہانت کا الہامی اور کرشماتی شعور ہی دریافت کر سکتا تھا انہون نے اپنے لوگوں سے بغاوت کردی اور ایک اللہ کا اقرار کیا….. آج جو ہمارے ملحدین اور سیکیولر نیم مرتدین ہیں جو پیدائشی مسلمان تو ہیں مگر نت نئے شوشے چھوڑ کر مزاقیہ اورخوامخواہ کی سوالیہ موشگافیاں کرتے رہتے ہیں وہ قرآن پاک ترجمے سے پڑھیں اور خود بھی آیات پر غور کریں تو یقینا ان کے سارے سوالات کی تشفی ہوجائے گی ہم نے سطحی ملاؤں کو سنا ہے سطحی سی مذہبی تعلیم حاصل کی ہے اور اسلام کے بارے میں نعوذ باللہ بڑے بڑے سوال اٹھانے لگے ہیں بغیر خود پڑھے سمجھے یا قرآن کی فلاسفی کا احاطہ کیے آیات کی بلاغت ایسی ہے کہ آپ حیران ہوتے ہیں کہ ایک امی شخص پیغمبر( بغیر کسی وحی یا الہام کے) کیسے یہ کہہ سکتا ہے ……
بحیثیت ایک شاعر تخلیق کار کے میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ معمولی سا ایک لفظ ڈھنگ سے نہیں لکھ سکتے جب تک کوئی خصوصی اشارہ یا وجدان آپکی رہنمائی نہ کرے
کوشش کریں اور عربی کی کچھ شد بد حاصل کریں پھر محبت اور دلجمعی سے قرآن کریم کو پڑھیں آپ اللہ کی وحدانیت، رسول خدا کی حقانیت اور محبت میں چور ہوجائیں گے سبحان اللہ، صلو علی الحبیب وسلم علی خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، جزاک اللہ خیر کثیرا


ایک بار بی بی (اللہ بخشے) نانی کو دیوداس دکھائی پتہ تھا سمجھ نہیں آئے گی انہیں وہ چلتی پھرتی تصویریں ہی دیکھیں گی بس اور پھر بیزار ہوجائیں گی انہیں کیا ٹی وی سے ڈراموں سے خبروں سے فلموں سے وہ پرانی جنریشن کے پرانے سیدھے سادے لوگ ۔۔۔ چوپڑ کے اچار کے ساتھ روٹی کھائی میٹھے میں گڑ کی ڈلی اور کولڈ ڈرنک کے نام پہ لسی پی لی گوشت مرغی مچھلی بھی پسند تھی مگر عام خوراک سادہ دال سبزی ہی پسند تھی بہرحال انہیں دیوداس جو دکھانا مقصود تھی تو انہیں سبق سمجھانے کے لئے پوری اسٹوری سنائی
ٹریجڈی بچپن کی دوستی پھر کہیں اور شادی پھر دیوداس کی بیچارگی اور آخر میں المناک موت ۔۔۔
بی بی نے دلچسپی سے فلم دیکھی ۔۔ پارو انہیں بھی بڑی بھائی ، فلم پوری کرکے ایک آہ بھری
“ہائے ۔۔۔ بچ ۔۔پن دی محبت “
اس کمینٹ سے مجھے پتہ چل گیا اور تسلی ہوگئی کہ ۔۔۔
فلم انہیں سمجھ آگئی ہے


اتنی زیادہ لدی پھندی امبانیز اور ان کے مہمان خواتین و حضرات جو انتہائی بھاری بھرکم پھولے پھلائے رنگ برنگ کپڑوں اور ست لڑے (پتھریلے ) ہیروں کے ہاروں سےکم کچھ بھی پہننے پر تیار نہ محسوس کر رہے تھے خود کو ۔۔۔۔ کیسا فیل کر رہے تھے من من بھر وزن اٹھا کر ۔۔۔۔ سوچ کر ہی وحشت ہونے لگی ہے ہم جیسیوں کو جو نرم لان کے کپڑوں میں ہی خود کو تھوڑا بہت ایزی فیل کرتی ہیں اور جیولری تو نک دا کوکا بھی دل چاہتا بھوڑک کے نکل جائے نک سے تو ۔۔۔سکھ کا سانس آئے کہ لونگ گواچا مکیا سیاپا ۔۔۔ ایک کنگن ایک نازک سی مندری اور اسے بھی اتار کر میرے ترلےگھر کی بچی بچی سے
‘پہن لو پلیز ۔۔۔۔’
اور ان عید برات پر آرٹیفیشلیوں کے نخرے ہمیں نہیں اچھی لگتی گولڈ جیولری ۔۔۔
گلے کی چینز (نو لکھے ہار نہیں ) چھوٹے موٹے ائیرنگز اور میری پسندیدہ چوڑیاں انگوٹھیاں شنگوٹھیاں کب کی پیک ہوکر ۔۔۔ بینک لاکرز کے حوالے ہوچکی ہیں
اب یہ تین چار روزمرہ کی زیر استعمال ‘جیولری ‘ سارا دن ادھر سے ادھر لڑکیوں کے ترلے کھاتی رلتی پھرتی ہے ۔۔ابھی بھی سائیڈ ٹیبل پر ایک انگوٹھی اور کنگن سجا ہوا ہے کانوں میں ٹاپس چبھ رہے ہیں اور نک دا کوکا ۔۔۔ میری بے بسی پہ مسکرا رہا ہے ۔۔۔ اللہ تمہارا بھلا کرے امبانیز ، جیا بچن فیملی ۔۔شاہ رخ خان اور جملہ انڈینز بڑے بڑے ہار لٹکائے اپنے تئیں سجے سجائے ہوئے ۔۔۔ ادھر شادی تھی ادھر محرم تھا ، کبھی سجی سجائی دولدل دیکھتی تھی ۔۔کبھی اننت امبانی اینڈ براتی ۔۔۔ہاہاہا
(معذرت کے ساتھ )

دل بہلانے کے کتنے ہی سامان ہیں
پینسٹھ انچ اینڈرائیڈ سکرین پہ نیپالی گاؤں کی ڈاکومینٹری دیکھ رہی ہوں اور نمکو کھا رہی ہوں
سکرین پہ ایک چھوٹا بچہ آگیا ہاتھ میں چپس یا نمکو کا پیک لئے میں پہلا دانہ بے دلی سے نکال رہی تھی کیمرہ اس پہ فوکس تھا اس نے بھی اپنے پیک سے ہاتھ ڈال کے کچھ نکالا کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے اور جیسے(مجھے) دکھا کر اشارہ کیا کھاؤ !
میں نے اپنا دانہ اسے غائبانہ دکھایا اور چیئر کیا…
اس نے اپنی چیجی کھالی میں نے اپنی چیجی…
مگر مل کر کھانے کا بڑا مزہ آیا !
میرا بچپنا نہیں گیا ابھی تک…. ہاہاہا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
A man walking on sea
Read More

گپ شپ

عذرا مغل ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں…
Read More