Yadish Bakhair – 14 یادش بخیر

Front view of a smiling woman

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جارہا ہے کوئی شب غم گزار کے
ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

لطف آگیا ۔۔۔
فیض صاحب کی شاعری اور مہدی حسن صاحب کی گائیکی ۔۔۔

اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا
تجھ سے بھی دلفریب تھے غم روزگار کے

اگر میں غالب کو چچا مانتی ہوں تو فیض کو بھی رئیل انکل مانتی ہوں (شاعری کا)
مزہ کرکرا ہوگیا نا ۔۔۔ہاہاہا
تو دوستو !
جنہیں فیض اور مہدی حسن پسند ہے آپ خود سن لو یوٹیوب پہ جاکے۔۔۔
مزہ دوبالا ہوجائے گا ۔۔۔
دوبالا پہ ہمیشہ مجھے مدھوبالا یاد آجاتی ہے ۔۔۔
اور پھر شیلا کی جوانی ،
ہائے ۔۔۔ہاہاہا

سات کتابیں لکھ ڈالیں نظموں کی ۔۔۔ایک دو عدد اور بھی ہو سکتی ہیں کہ جو مواد تحریری شکل میں موجود ہے ۔۔۔کافی سارے پہ ازکی کے بیمار بلے نے پچھلے دنوں پوٹی کر کے حوالہ ء ڈسٹ بن کروادیا منہ ناک پہ کپڑا باندھ کے ۔۔۔خدا وندا جو میں کہتی یا سنتی ہوں وہ بو یا خوشبو کیوں آجاتی ہے مجھے ۔۔۔
مجھے تو لگتا ہے ٹی وی کے ٹرانسمیٹر نہ صرف آواز اور رنگ و روشنی تصویر کی لہریں کیپچر کرتے ہیں بلکہ غیر محسوس طور پر یہ ماحول کی خوشبو بھی کیپچر کرتے ہیں ۔۔۔جس کا سائنس دانوں کو ابھی تک پتہ نہیں مگر مجھے پتہ چل گیا ہے ۔۔ ہاہاہا
کہ ٹی وی پہ پکتے کھانوں کی ایک لمحہ ہوتا ہے جب مجھے اروما سنگھائی دے جاتا ہے بالکل رئیل۔۔۔ فلاورز نیچر آئی واچ ، لسن وائئسز ، اینڈ سم ٹائیم سمیل دا فریکوینسی آف فریگرنس وین میچ مائی مائنڈ ۔۔۔اوہو ۔۔ہو ۔۔ہو ۔۔
اور ایسا پہلا تجربہ بچپن میں ‘کبڑا عاشق ‘ فلم کے دوران ہوا تھا ٹی وی پر دیکھتے ہوئے یقینا وہ پاکستانی فلم گندھک کی چٹانوں میں نہیں بنی ہوگی ( جو اس احساس کی تردید کے لئے کافی ہے) مگر مجھے فلم دیکھتے ہوئے گندھک کی بو آتی رہی جس سے میں فیمیلیئر تھی بچوں کے پٹاخے پھوڑنے کی وجہ سے ۔۔ہاہاہا
آثار تو کم سنی سے ہی پاگل پن کے تھے
یہ محبت تھی جو نام کو بہانہ بنی

شعر آگیا ۔۔۔ پوٹی ۔۔۔
بلی کی پوٹی کرنے کے لئے نہیں۔۔ ہاہاہا
اب سوچا ہے نظمیں شعر بہت ہوئے آئندہ غزلیات پر بھی طبع آزمائی کرونگی ۔۔۔
مگر اس سے پہلے مجھے کسی اچھے استاد سے عروض کی تعلیم لینی پڑے گی جو مجھے فاعلن فعلن فعولن فع
میں فرق سمجھا سکے۔۔۔ اور گنگنا کر شعر کہنا سکھا سکے پھر اسی زمین پہ قدم دھرتے پانچ چھ قدم چلنا سکھا سکے اور مزید ردیف قافیہ وزن بے وزنی کا احساس دلا سکے ۔۔۔
ناممکن ہے میرا دماغ چلتا ہی نہیں جتنی مرضی غزلیں پڑھ لوں سر دھن لوں ۔۔۔ سکتہ اور رواں کا بہاو بتا سکوں
غذل کا سوچ کر ہی میں تو سکتے میں اجاتی یوں
میرے خیال سے زبان تک غذل چپ اور گم سم ہی رہتی ہے ۔۔۔آخر غذل کیسے غذل کہہ کے اپنے طلسماتی نظمیہ حسن کا پھیلاو اور خوشبو سمیٹ سکتی ہے ۔۔ہاہاہا
چلو خوش رہو سب ۔۔۔اللہ بیلی
پسند ویسے مجھے بنیادی طور پر غذل ہی ہے کہ یہ اردو ادب کا عظیم سرمایہ ہے جب سے غالب کو پڑھا نورجہاں کی گائیکی کی طرح وہ بھی سر پہ سوار ہے دونوں ہم عصر ہوتے تو ضرور ایک دوسرے کے محبوب رہے ہوتے ۔۔وہ تو یوں بھی ڈومنی کا پرستار تھا
باقی کل خیر ۔۔۔
اپن نہ ڈوم نہ ڈومنی نہ غالب نہ نورجہاں
ہاں ملکہ ء نورجہاں کا گماں خود پہ رہتا ہے
کہ ‘تزک جہانگیری ‘ میں شائید کہیں ذکر آیا تھا میرا بھی ۔۔
اللہ کی قسم میں نے تزک جہانگیری نہ پڑھی نہ دیکھی فارسی مجھے کب آتی ہے ۔۔۔ہمیں اسکول میں فارسی کی جگہ ایک مولانا صا حب عربی پڑھاتے تھے جس معصوم بوڑھے سے کبھی کسی لڑکی نے ڈھنگ سے سبق یاد کر کے نہ دیا ۔۔۔ پوری کلاس کو ان معصوم سے مولانا صاحب کو زچ کرکے بہت مزہ آتا تھا آٹھویں کلاس میں ۔۔۔وہ شائید بچیوں کو ڈانٹنا بھی معیوب سمجھتے تھے مسکین سبق سننا چاہتے ۔۔۔ جن کو یاد ہوتا مجھ جیسی وہ بھی کہہ دیتیں یاد نہیں ۔۔۔ عذرا تم بھی سب جیسی نالائق ہوگئی ہو
ایک دن وہ مجھے سلجھا ہوا سمجھ کر شاکی ہوئے
نالائق کیوں کہا ہمیں
نالائق کیوں کہا ہمیں
پوری کلاس ان کے پیچھے لگ گئی وہ بے چارے پگڑی سنبھال جٹا اسٹک پکڑے زچ ہوکر نو دو گیارہ ہوگیے۔۔۔ پھر کبھی نہ کلاس میں آنے کے لئے پتہ نہیں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی کیوں ہم اس غریب مولوی کو تنگ کرتی تھیں کچھ کچھ
بپا جانی عطاری جیسا اسٹائل تھا منہدی رچی داڑھی کی وجہ سے ۔۔۔ توبہ استغفار بے چارے مولوی صاحب کو بہت تنگ کرتی تھی پوری کلاس
تو ثابت ہوا فارسی اور
تزک جہانگیری میں نے نہیں پڑھی ۔۔۔ قرآن پاک امی جی سے چند سپارے پڑھنے کے بعد اپنے انتہائی خوبصورت مولوی صاحب جن کا نام مجھے نہیں پتہ ، ان سے چھ سال کی عمر میں پڑھ کر دہرا بھی لیا تھا اور ان کے ہونہار شاگردوں میں شامل ہوگئی تھی ۔۔۔ بڑی ہوگئی تھی ایک بار راہ چلتے مجھے نظر آئے، میں نے سلام بھی نہ کیا کہ مجھے نہیں پہچانتے ہوں گے ۔۔۔دوسری بار شبانہ کو ملے اس سے پوچھا
“عذرا کی بہن ہونا ۔۔۔ عذرا لیکچرر بن گئی ہے نا”
اف وہ مجھے کیا میری چھوٹی بہن کو بھی پہچانتے تھے
آج تک شرمندگی ہوتی ہے کہ پہچان کا اظہار کر کے سلام کیوں نہ کیا دوسرے پرائمری کی ٹیچر تھیں کنیز باجی ۔۔ایک بار ہی ملیں مجھے بار بار دیکھ رہی تھیں مگر میں بڑی ہوگئی تھی تو سمجھ رہی تھی مجھے نہیں پہچانتی ہوں گی ۔۔۔سلام نہ کیا آج تک دکھ ہوتا ہے بس وہ ٹین ایج کا بدتمیز سا ایٹیٹیوڈ تھا شائید دماغ میں ہوا بھری ہوئی تھی ۔۔۔ جو لگتا آج تک بھی ہے شائید (واللہ اعلم )
ہاں آج شائید میری ساری پرانی استاد مجھے ملیں تو دل سے پیر چھوکر سلام کروں گی یہ جی چاہتا ہے اب کہ ان کو خراج عقیدت پیش کروں اور کہوں کہ میں جو کچھ بھی ہوں اپنے والدین اور انہی کی دعاوں اور کوشش کی وجہ سے ہوں

‘خیال خام ‘ کی تقریب پذیرائی تھی میرا پہلا تجربہ وہ بھی نسوانیت سے لبریز ۔۔۔
بہت زیادہ تعریفی کلمات نصیب ہوئے کہ میں حیران ہی رہ گئ اور لگا کہ شائید اس عہد کی سب سے بڑی شاعرہ پیدا ہوگئی ہے کہیں کہیں تو انگلش شعرا ء کو بھی پیچھے کردیا گیا کہ ورڈز ورتھ کی ڈیفوڈلز سے بھی بڑی نظم ہے جو خیال خام کے بیک فلیپ پہ ہے
تو عرض کیا ہے ملاحظہ فرمائیے
تنقیدی جائزے کے لئے پیش خدمت ہے

ساری بستی
میں پوری آنکھیں کھول کر دیکھتی چلی آئی
بالاخر جہاں فصلوں میں بالیاں جھوم رہی تھیں
میں بھی رقص کرنے سے باز نہ رہ سکی
میں ناچتی رہی ۔۔ناچتی رہی
زمیں سے قد آدم اوپر
ایک سمت سے دوسری سمت
ناچتی ہی رہی ۔۔۔
پھر درختوں نے مجھ سے باتیں شروع کردیں
پہل مگر میری طرف سے ہی تھی
پھر تو ہر وجود
مجھ پہ منکشف ہونے کو بے تاب تھا

کہیں جان کیٹس سے ملایا گیا کہ اردو میں تو میرے پائے کا شاعر دستیاب ہی نہیں ہورہا تھا
میری آنکھیں نم ہوگئیں
اور آواز رندھ گئی
میں نے کھڑے ہوکر سب کا شکریہ ادا کیا اگرچہ مختصر سی محفل تھی
میری دوست ( چیف آرگنائزر) نے دوپٹے کا پلو کھینچ کر مجھے انکھ سے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔ کہ ان کے خیالات پر اتنی جذباتی نہ ہو اے نوجوان خوبصورت دکھتی دوشیزہ ( سب بوڑھے ہیں) ہاہاہا ۔۔۔
استغفر اللہ معذرت کے ساتھ سب بزرگان میرے لئے بہت قابل احترام ہیں ۔۔۔یہ چٹکی ازراہ تفنن ہے کچھ نیک شخصیات تو مرحومین کا درجہ بھی پا چکی ہیں اللہ غریق رحمت کرے آمین مگر میں ان کے خلوص پذیرائی اور دریا دلی کی ممنون منت ہوں ہمیشہ کے لئے
کاش ٹیپ ریکارڈر ہوتا ۔۔۔
اور یہ آئیڈیا مجھے پذیرائی کرتی مہربان شخصیت نے ہی دیا تھا کہ ٹیپ ریکارڈر ہوتا تو یہ ساری تعریف ریکارڈ کا حصہ بن جاتی کیونکہ اس میں کوئی مبالغہ نہیں (ماشا اللہ)
کہ تعریف برحق تھی مگر کچھ زیادہ نہیں ہوگئی تھی چلو اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔۔۔ اخر تقریب پزیرائی تھی جگ ہنسائی تو نہیں نا کہ تنقیدی جائزہ بھی لیا جاتا ۔۔۔ہاہاہا
پھر دوسری کتاب کی رونمائی ہوئی پھر تیسری کی ۔۔۔
آخر میں نے انکار کردیا
کہ بس بہت ہوا اب ۔۔۔
اب ساتویں آئے گی تو سوچ رہی ہوں ساتویں بچے کی دھوم دھام سے ہو
سنتیں یا شادی جو بھی ہو
سنتیں مطلب تنقید
شادی مطلب تعریف ۔۔۔ہاہاہا
پیٹ کھروڑی دا اے ، امی جی عمران کے لاڈ مین کہتی تھیں ہمیشہ ۔۔۔ ہاہاہا
دماغ کھروڑی دا لگدا اے ۔۔۔ایہوئی نکڑا بال اے
آگے دیکھئے کی ھندا اے کہ دل تے ھالی وی جوان اے شاعری لئی ۔۔۔ ہڈ ماس دا کوئی حال نئیں
تے سوہنی شاعری جواں دل نال بڑی دلربا جئی ہوجاندی اے ۔۔۔
تے چلو فیر انتظار کرو !
“ساتواں در کھلے ” کا
کجھ ایس وارے میں وی واہوا سستی وکھائی اے۔۔۔ خورے وڈھیپے دا کر کے ۔۔۔ہاہاہا

“ساتواں در کھلے “
میری پچھلی بیشتر کتب میں نظمیں اور مفرد اشعار کی طرح یہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ ذہن نظم کی سمت ہی رواں رہتا ہے
عنوان میں معنویت تلاش نہ ہی کروں تو بہتر ہے بجز اس کے کہ یہ ساتویں کتاب ہے اور خیالوں معنی کے ساتویں در کی تلاش کا ایک سفر ہے
مجھ پر جو پہلا در خیال خام ”سے کھلا تھا وہ امکانات کے اتنے جہاں رکھتا تھا کہ ہر جہت پہ ایک نئی کتاب لکھی جاسکتی تھی اور یہ شائید اسی کا تسلسل ہے جو چلا آرہا ہے یوں بھی کہیں بھی کچھ بھی نیا نہیں ہے بس لفظوں کا ہیر پھیر اور برتنے کا انداز ہے جو انفرادیت تخلیق کر دیتا ہے ۔۔۔
اپنے ذاتی اسلوب سے پیچھا چھڑانا بھی اکثر ناممکن ہی ہی رہتا ہے اور اس کی خاص ضرورت بھی نہیں کہ یہی آپ کی پہچان بھی ہے وہی اسلوب وہی نظمیں ، کچھ نئے موضوعات ،کچھ نئے انداز سے برتنے کی کوشش ضرور کی ہے
ہاں ساتویں در کے پیچھے اگر کچھ نیا ملا تو ضرور مل کے دیکھیں گے
تب تک یہی ہے جو کچھ ہے سمٹاو بھی پھیلاو بھی ۔۔۔
کتاب بند کر لو تو کچھ بھی نہیں کھل جائے تو کائنات کھلتی چلی جاتی ہے
میری کتاب کھلی ہوئی ہے میں ساتویں در سے گزر رہی ہوں اور اس سارے پھیلاو کو جو اگرچہ ازلی اور پرانا ہے اپنی نظر سے دیکھ رہی ہوں اور اپنے انداز سے برت رہی ہوں آپ بھی ملاحظہ کریں مجھے خوشی ہوگی کہ اگر کوئی ایک بات بھی آپ کے دل کو چھو کر گزری اور یاد رہ گئی ۔۔۔وہیں میں اپنی تخلیق کی شاخ پہ ایک پھول کھلتا دیکھوں گی ضرور ، جو میرے لئے ہمیشہ بہار گلرنگ کا پیغام بنا رہے گا

ایک اور ناسٹیلجیا
وہ جگہیں چھوڑتے ہوئے مجھے بہت تکلیف ہوتی تھی جہاں سوئچ بورڈز کے سوئچز مجھے حفظ ہوجاتے تھے کہ پنکھا کس سے چلتا ہے لائیٹ کس سے جلتی ہے کون سا پلگ خراب ہے اور کس پلگ میں استری کا سوئچ ٹھیک سے لگ جاتا ہے ۔۔۔ماروی ہاسٹل ، قائداعظم یونیورسٹی، دادو ہاسٹل ، اپنا پرانا گھر ، جامشورو کا گھر، ہر جگہ کچھ لمحے ٹھہر کر میں نے سوئچ بورڈز کو بھی ضرور دیکھا ہوگا
مجھے یہ اس لئے بھی یاد ہے کہ کسی ایک جگہ میں نے ٹھہر کر سوئچ بورڈ سے کہا بھی تھا
کہ ۔۔۔
“اب تو بٹن مجھے یاد ہوئے تھے ۔۔۔ اب جارہی ہوں “
پھر مجھے احساس ہوا میں سوئچ بورڈ کے لئے ناسٹیلجک ہو رہی ہوں جس جگہ کے سوئچز آپ کو یاد ہوجائیں اس جگہ آپ نے کچھ عرصہ ضرور قیام کیا ہوتا ہے وہ آپ کی مانوس جگہ ہوتی ہے اور وہاں سے ہجرت کا دکھ بھی ضرور ہوتا ہے
ہے نا کچھ عجیب و غریب بات
مگر ہے تو ٹھیک ہی ۔۔۔ ہاہاہا
پچھلے دنوں کسی دوست نے کہا تھا
دادو کے چوہے بھی یاد ہیں
مجھے دادو کی ایک چیونٹی بھی یاد ہے ۔۔۔ہاہاہا
اس پر نظم بھی لکھی تھی جو چھپوائی نہیں کہ پاگل پن ہی ہے (شائید )
صبح سویرے انڈے پراٹھے کا ناشتہ کر رہی تھی پلیٹ میں چڑھتی ایک چیونٹی نظر آئی۔۔نرمی سے چٹکی سے اٹھا کر ایک طرف رکھ دی میز پر ۔۔۔وہ تڑپ تڑپ کر قلابازیاں کھانے لگی
اف میں نے کیا کردیا اتنی نرمی سے اٹھا کر رکھا ہے یہ اتنا تڑپ کیوں رہی ہے آخر ۔۔۔
میں فارغ بندی ناشتہ چھوڑ کے غورو خوض کرنے لگی
ایک خیال کوندا اس کی آنکھوں پہ گھی لگ گیا ہے نظر نہیں آرہا اس لئے تڑپ رہی ہے
وہ کشفی لمحات تھے شائید کہ ایک چیونٹی مجھ پہ کھل رہی تھی
گلابی دوپٹے کا چھوٹا سا کونہ بنایا اور نرمی سے اس کی دونوں نظر نہ آتی آنکھیں اندازے سے صاف کردیں ۔۔۔وہ غیرمحسوس طور پر نارمل ہوگئی میز سے خوبصورت گلابی دوپٹے پر سوار ہوگئی اور چہل قدمی شروع کردی
میں نے اس سے باتیں کیں یعنی شاعری کی وہ سنتی تھی یا نہیں مگر دوپٹہ چھوڑنے سے انکاری رہی ۔۔۔جھٹکتی رہی وہ چپکی رہی میں نے دوپٹہ اتار کے ایک طرف رکھ دیا چلو گھومو پھرو تمہارے حوالے ہے یہ ۔۔۔ ہاہاہا
خود ٹھنڈا ناشتہ کیا کالج کے لئے تیار ہوئی اسے اور دوپٹے کو اس کے حال پہ چھوڑ کر ۔۔۔۔
اسے یہ کہہ کر کہ
(ذرا سا سہارا ملا اسے چھوڑنے سے ڈرتی ہو
تم بالکل میرے جیسی ہو)
کچھ ایک دو اور بھی فلسفے جھاڑے تھے چیونٹی سے ۔۔۔کبھی وہ نظم ملی تو شیئر کرونگی ۔۔۔ہاہاہا
جانور آپ سے باتیں کرتے ہیں مطلب دے ایکسپریس دئیر فیلنگز ، اگر اپ تھوڑا غور کریں تو بالکل پتہ لگ جاتا ہے
جیسے اس وقت بلی نے باہر سے چیخ کر گواہی دی کہ
ہاں یہ سچ ہے ۔۔۔
پاگل ہوں ۔۔۔
بالکل نہیں ۔۔۔
ایکسٹرا آرڈنری ہوں !!
۔۔۔۔ ارے اپنی خوبصورت نظم یاد آگئی
ایک تو اپنی ذاتی چیزیں بھی مجھے یاد نہیں رہتیں خیال خام کے بیک فلیپ پہ ہے شائید

ساری بستی
میں پوری آنکھیں کھول کر دیکھتی چلی آئی
بالآخر جہاں فصلوں میں بالیاں جھوم رہی تھیں
میں بھی رقص کرنے سے باز نہ رہ سکی
میں ناچتی رہی ۔۔۔ ناچتی رہی
زمیں سے قد آدم اوپر
ایک سمت سے دوسری سمت
میں ناچتی ہی رہی ۔۔۔
پھر درختوں نے مجھ سے باتیں شروع کردیں
پہل مگر میری طرف سے ہی تھی
پھر تو ہر وجود
مجھ پہ منکشف ہونے کو بیتاب تھا

(چیونٹی والی ابھی یاد نہیں ہے
ہوسکتا ہے یہ جو اوپر لکھی ہے اس میں بھی کوئی ایک آدھ لائن مسنگ ہو ۔۔۔واللہ اعلم )
ایک چیونٹی قائداعظم یونیورسٹی والی بھی ہے اس کا بھی تعارف کراونگی کسی وقت ۔۔۔
یہ جانور تتلیاں کتے بلیاں گدھے کے بچے سب میرے دوست ہیں بھئی ۔۔۔ بہت سے کسی نہ کسی حوالے سے یاد بھی ہیں
انسان تو دوست ہیں ہی سارے
( شکر الحمد للہ )

کبھی کبھار ہی بھوک لگتی ہے
سوتے سوتے آنکھ کھل گئی
اس وقت کچھ کھانے کا من ہے
مثلا مثلا ۔۔۔۔
مثلا بیھہ مرچ اور امبی کے پکوڑے دادو والے
دادو کے پکوڑے بڑے مزے کے ہوتے ہیں اور بہت ورائٹی ہوتی ہے ان میں ۔۔۔خا ص طور پر بیھہ کے پکوڑے بہت ہی مزیدار ہوتے ہیں آس پاس بھان اور میھڑ سے بھی بائی روڈ سفر کرتے ہوئے بڑے گندے دھول مٹی کے ماحول میں مگر بڑے ذائقہ دار پکوڑے ملتے ہیں میں تو دادو سے جامشورو جاتے سمے سیہون کے پکوڑوں اور کولڈ ڈرنک کا منی لنچ ضرور کرتی تھی لاڑکانہ جاتے سمے یہ منی لنچ میھڑ کے پکوڑوں سے ہوتا تھا۔۔۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے پکوڑے مجھے کس قدر پسند ہیں
آج شام بارش میں بنانے کا موڈ تھا مگر دھنیا پودینہ دستیاب نہ ہوا سستی الگ طاری ہوگئی نہ امبی ہی تھی بیھہ تو ظاہر ہے یہاں ملنے سے رہے ، کل بناوں گی (ان شااللہ)
میں بیسن میں لہسن پیاز ہری مرچ ہرا دھنیا پودینہ ثابت دھنیا زیرہ اجوائن نمک لال مرچ اور چٹکی بھر میٹھا سوڈا ڈال کر بناتی ہوں کبھی کبھار انار دانہ بھی ڈال لیتی ہوں ۔۔۔ یعنی حکیمی پکوڑے
آپ لوگ بھی بنا یا بنواکر کھالینا پالک شملہ مرچ امبی آلو کے چپس یا اسی طرح کاٹ کر یاسلائسز کر کے کدو یا ٹینڈوں کے بھی مزیدار لگتے ہیں
اکثر میری ایک دوست اسپیشل آرڈر دے کر میرے لئے بنوا کر لاتی تھی بیھ کے پکوڑے جس میں آدھا بیھہ کاٹ کر آدھا آلو کا کھٹا مصالحے دار بھرتا بھرا ہوتا ہے اور پھر وہ بیسن میں لپیٹ کر پکوڑا بنایا جاتا ہے
چراغ کا جن ہے نہیں جو دادو سے لاکر پیش کردے
پیاری دوست حمیدہ کو پتہ تھا مجھے گوار کی سبزی اور چاول کے آٹے کا چلا بہت پسند ہے
وہ اکثر کالج آنے کے لئے جہاں بھاگم بھاگ تیار ہورہی ہوتی میرے لئے صبح صبح گوار فرائی اور چلا بنواکر بھی لاتی ۔۔۔
دوسرے بے شمار کھانے وہ اور آپا ثریا خصوصی طور پر میری پسند کے بناتی اور کھلاتی تھیں مثلا پلا ،مچھی ، پکھی ، چائنیز (وغیرہ وغیرہ ) سلامت رہیں سب اتنی محبتیں یہ قرض کیسے اتار پاوں گی ؟ کہ انہوں نے گھر سے اتنی دور دادو کو میرے لئے گھر سا بنائے رکھا ۔۔۔ دادو میں اگر دو تین گھر ہیں میرے تو اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں چاہے وہ آپا ثریا کا ہو یا پیاری حمیدہ کا ۔۔۔یا چلو میرا ہاسٹل ہی سہی ! دے آر مائی فرینڈز بٹ ناٹ لیس دین رئیل سسٹر ز ،
مجھے اپنی سگی بہنوں اور ان میں فرق محسوس نہیں ہوتا ۔۔۔
دادو کی محبتوں اور دوستوں کا قرض ہمیشہ ہمیشہ مجھ پہ قائم رہے گا سب سلامت رہیں خوش رہیں صحت تندرستی کے ساتھ رہیں آمین
دادو کے سارے لوگوں اور خصوصی طور پر دوستوں کا خلوص محبت اور خیال رکھنا بے حد مثالی رہا ہے
چپ چاپ سوجاتی ہوں
سب پیاری فرینڈز کے لئے دعائیں و پیار سلامت رہیں خوش رہیں آباد رہیں آمین
I really miss them all , we spent almost 30 years together like family and

‘خیال خام ‘ پہلی کتاب ہے اگرچہ بہت عرصے سے تحریر ہو رہی تھی مگر پبلش 2013 میں ہوئی
اس میں بے شمار چھوٹی چھوٹی تاثراتی نظمیں ہیں
جن میں سے کچھ مجھے یاد ہیں
بیشتر یاد نہیں رہتیں
احمقانہ سادگی تو شائید اب بھی نظموں میں موجود ہو
مگر اس دور میں کچھ زیادہ ہی تھی کچھ پتہ نہیں تھا شاعری اگر ہوتی ہے تو ، کیا ہوتی ہے ؟
عام روایتی شاعرانہ موزونیت سے انحراف کرتا سراسر تاثراتی اظہار خیال ہے جو بہت سادگی سے کیا گیا ہے مگر دل پہ اثر ضرور کرتا ہے ( میرے ۔۔۔ہاہاہا )
المیہ یہ ہے کہ اب میں خود بھی ‘خیال خام ‘ پڑھنے سے کتراتی ہوں ایک تو بہت خام محسوس ہوتی ہے دوسرے فونٹ سائیز نارمل ہی ہے بارہ یا چودہ ہوگا ۔۔مگر مجھے چشمہ لگ چکا ہے تو چشم بد دور سر میں درد ہوجاتا ہے کچھ مہین پڑھنے پڑھانے سے۔۔۔
بقایا تمام کتب کا فونٹ سائیز ذرا بڑا ہی ہے کہ بچے بوڑھے جوان ، عینکی بے عینکی سب آرام سے پڑھ سکیں ۔۔۔
مگر اگر لیکن ویکن یہ وہ ہاں نہیں تو ۔۔۔کوئی بھی کتاب مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے اس کے لئے آپ کو میری ذاتی منت کرنا پڑے گی
نہ بھی کریں تو فیس بک پہ آپ لوڈ کرکے زبردستی پڑھاتی ہی رہتی ہوں پڑھنے والوں کو ۔۔۔ لکھنے والوں کے پاس اگرچہ میری طرح ہی فرصت نہیں ہوتی کہ پرائی موشگافیوں پڑھیں اور درد سر سے نپٹیں ۔۔۔انجوائے یور لائیف اینڈ ریڈ مائی ہینکی پھینکی ود اٹ موسٹ دلچسپی
۔۔۔بڑا مزہ آتا ہے بھئی اردو انگلش پنجابی سندھی مکس بولنے میں۔۔۔
کاش مجھے فرینچ بھی آتی بلوچی اور پشتو بھی ۔۔۔ بنگالی فلمیں ویسے میں دیکھتی ہوں کچھ کچھ سمجھ بھی جاتی ہوں کہ
وہ شوب لوفج میں اولف کی جگہ واو کی اوواز نکولتا ہے (واللہ اعلم )

آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے ہم سب یا ہمارے خاندان متوسط یا متوسط غریب تھے ٹی وی نہ فرج گاڑی نہ موٹر ، اکثر گھروں میں مٹی کے چولہوں پر لکڑیاں جلا کر سیدھا سادہ دال روٹی سبزی یاکبھی کبھار آلو گوشت پکایا جاتا تھا عموما گھروں میں بجلی کے کنکشن بھی نہیں تھے معمولی سرکاری نوکری کلرک یا پڑھے لکھے ہونا بہت ہی باعزت ذریعہ معاش تھا عام افراد اپنے چھوٹے موٹے کاروبار کپڑے کی دکان جوتے کی دکان پرچون کریانہ یا محنت مزدوری سے وابستہ تھے سادگی اخلاص ملنساری اور خوش اخلاقی بچوں سے لے کر بڑوں تک میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی لوگ ایک دوسرے کی خوشی میں دل سے ہنستے ہنساتے تھے اور ایک دوسرے کے غم میں شریک دلی صدمے سے روتے تھے عموما پیدل چلنے پھرنے کو ترجیح دی جاتی تھی روزمرہ دور کا آنا جانا ہوا تو سائیکل سواری کرلی یا بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرلی عید بقر عید پر کپڑے بنائے یا موسم بدلا تو ایک آدھ جوڑا اضافی بنا لیا جاتا تقریبات کے لئے اکثر ایک ہی خوبصورت گوٹے کناری والاجوڑا خواتین بناکر رکھ لیتیں اور ہر شادی بیاہ میں وہی زیب تن ہوتا سونے کے زیورات عموما سب خواتین کے پاس پانچ دس تولہ کے یا زائد ضرور ہوتے جو اسی جوڑے پر پہن لئے جاتے
چاہے گرمی سے پسینہ بہتا ہو یا سردی سے دم نکلتا ہو اگر وہ جوڑا شہنیل کا ہوتا تو بھر پور گرمی میں بھی بلا تکلف وہی پہنا جاتا ۔۔۔۔ ہاہاہا
میں اتنی پرانی نہیں ہوں لیکن ۔۔۔۔ امی کو دیکھا اور سنا ہے تو سب پتہ ہے
میں نے میچنگ بیل باٹم فلیپر امبریلا اونچی قمیضیں لمبی ہیلیں جارجٹ امبرائیڈڈ سندھی ملتانی بلوچی سوٹ اے ٹائیپ شرٹس کلیوں والے کرتے جو بھی ان تھا سب پہنے ہوئے ہیں
آجکل ترجیح پاکستان کا قومی لباس کھلا ڈھلا ایمبرائیڈڈ یا پرنٹڈ موسم کے حساب سے ۔۔۔ بڑا دوپٹہ سر ڈھکا ہوا ہے سردیوں میں شالیں اور گرم کپڑے خوب انجوائے کرتی ہوں جب سے پیروں میں نیوروپیتھی کی تکلیف اور چلنا پھرنا محدود ہوا ہے ہیلز ترک کردی ہیں عموما گھر سے باہر بھی ایزی چپل پہن کر نکلتی ہوں کافی ساری ہیں اس کے باوجود ایک ہی جو باہر نکلی ہوتی ہے وہی پہنتی ہوں باہر جا کے سوچتی ہوں ارے میچنگ کی پہن آتی ۔۔۔۔ میک اپ بہت کم اور اگر انتہائی ضروری ہو تو لائٹر ٹونز میں ہوتا ہے آرٹیفشل جیولری کبھی نہیں پہنتی کہ کان پک جاتے ہیں چین اگر ہوتو گردن میں خراش ہونے لگتی ہے بلکہ اب تو ہلکا پھلکا گولڈ بھی ترک کردیا ہے۔۔۔۔ گولڈ اگر پہنوں تو یہ سوچ ضرور آتی ہے یہ کیا لوہا نما دھات پہن کر خود کو اذیت دینا ، انتہائی ضروری ہو تو ڈائمنڈز پہن سکتی ہوں مگر وہ میرے پاس ہیں نہیں ایک آدھ انگوٹھی میں شائید ہے تو وہ اب چھنگلیا میں بھی پھنسی پھنسی لگتی ہے ایک زمرد ، روبی اور چھوٹا سا ڈائمنڈ انگوٹھیوں سے نکل کر گم ہوچکے ہیں سو اب یہ شوق بالکل ہی ترک ہوچکا ہے
سیدھی سادی عام طور پر بڑی بوڑھیوں کے گیٹ اپ میں خوش رہتی ہوں ۔۔۔مگر یہ سب میں کیوں لکھ رہی ہوں میری مرضی ۔۔۔۔ لکھ لیا تو اب مٹاوں گی تو نہیں نا ۔۔۔۔ سو شیئر کر رہی ہوں کوئی پڑھے نہ پڑھے ۔۔۔مینوں کی ، دادے مگھانا کھسماں نوں کھانا /کھانی ۔۔۔۔ سلامت رہیں آپ سب اور آپ کا باغ پریوار آمین

مٹکا مٹکو مٹکو
مچکا مچکو مچکو
Mitka matkoo mitkoo
مطلع کا مصرعہ ء ثانی بھی اسی ردیف بحر قافیے میں ہے بوزن
فعلن فعلن فعلن ۔۔۔یا جو بھی ہے ہاہاہا
اس وقت خیال کی اسی طرح شریر سی آمد ہوئی
(شعراء کرام سے معذرت کے ساتھ)
اس پہ ایک غذل تو لکھ دیں دعوت کلام ہے
جملہ شاعرات حسینان میک اپان کو اور شعراء زلف دراز نام بدنام کو
ہائے اس بات پہ چٹی زلفوں اور چٹی مونچھوں والے دو بلاکڈ بابے یاد اگئے جو روز ہی سویر دا سلام کرنے لگے تھے ۔۔۔ہاہاہا
پلیز غذل ارشاد ہو ۔۔۔
پلیز پلیز پلیزنٹ سی ۔۔۔۔
غزل پہ تو میری ایک عزیز دوست کے ناول کی وہ ہیروئن یاد آگئی جو ان کے خیال میں ۔۔۔۔۔ خیر مجھ پہ تو طارق نے بھی دوتین خوبصورت کہانیاں لکھ کر مجھے خاصا متاثر کر لیا تھا ۔۔۔۔ہیروئین ہیروئین ۔۔۔۔ نشے والی نہیں ، پکڑوا نہ دینا کہیں ۔۔۔ (ہاہاہا)
ہاں اگرچہ طارق کا مشہور ترین ناول اس کی محبوبہ ء اول یا نہ جانے کس نمبر والی مگر غالبا اصلی کے بارے میں تھا
جسے وہ اب اکثر نہیں مانتا تھا ۔۔۔ خفا تھا شائید اس سے اب تک ، مگر میں نے اسےایک دن سمجھایا تھا بلکہ اس لڑکی کی وکالت کی تھی جس سے محبت کرتے ہیں اسے معاف کردیتے ہیں وغیرہ وغیرہ( نتھو خیرا)
شائید معاف کر دیا تھا اس نے ۔۔۔۔
ایک بار ڈیپارٹمنٹل اسٹور پر نظر آئی تھی طارق الماریوں کی ریک کے بیچ سے دوسری طرف سامنے آئینے میں نظر آتے عبایہ میں ملبوس چہرے میں گم ہوگیا تھا ۔۔۔
کون ہے ؟ میں نے رضیہ سے سرگوشی میں پوچھا اس نے اس کی ہیروئین کا نام بتایا ۔۔۔
اس کے شوہر اور رضیہ نے ہائی ہیلو بھی کی تھی
میں چہل قدمی کرتی اس طرف گئی کہ دیکھوں کیسی ہے ۔۔۔؟
اس نے انتہائی انتہائی بجھے چہرے سے بجھی سی نظر مجھ پہ ڈالی ۔۔۔( اسے طارق کی دوسری شادی نے یقینا مایوس کیا ہوگا ۔۔۔)
طارق نے بتایا تھا شروع شروع میں کہ اس کے خواب میں وہ آئی پہلی بار ۔۔۔۔
دوسری شادی پر بہت دانت پیس رہی تھی اور لڑ رہی تھی اس سے ۔۔۔اس نے اسی کے انداز میں دانت پیس پیس کر مجھے بہت ہنسایا اور ہنستا رہا
مگر اس روز ڈیپارٹمنٹل اسٹور پہ مجھے بھی دکھی کر گیا اس کا انتہائی بجھا بجھا سا انداز ۔۔۔
میرے خدا بہت اداس تھی وہ اس لمحے ۔۔۔ مجھے آج بھی اس کا چہرہ یاد آئے تو میں اداس ہوجاتی ہوں
مگر یہ اپنی (دو عدد خواتین ) سے بے نیاز تھا تو وہ بھی بلا خوف و خطر تھی اپنے دراز قد شوہر اور دو عدد ٹین ایج لڑکوں سے اس لمحے ۔۔۔
دونوں بلا جھجھک وبلا تکلف محو آئینہ داری تھے
نہ اس کے شوہر کو کوئی اعتراض تھا نہ ہمیں کوئی مسئلہ ۔۔۔
اور یہی اس کی خوبی تھی اس ناول میں بھی کہ وہ ایک بہادر لڑکی تھی اپنے ہر ایکشن میں ، اپنی مرضی کی مالک روایتوں سے باغی سی ۔۔۔
میں نے طارق کو بتایا
وہ بہت بجھی ہوئی تھی بے پناہ اداس لگ رہی تھی ۔۔۔وہ شوق سے سن رہا تھا چمکتی نظر میں اس کا چہرہ لئے
طارق مجھ سے کہتا رہا مر کر بھی گرچہ کہ ۔۔۔
کبھی کبھی بڑی لمبی چھوڑتا تھا نیزے والی ۔۔۔
جب وہ مجھے چھوڑ کر گئی تھی تم اس وقت مجھے مل جاتیں تو میں رضیہ سے شادی نہیں کرتا ۔۔۔ تم سے ہی کرتا ( یقینا) کیونکہ اس وقت میں اتنا ٹوٹا ہوا تھا کہ مجھے ضرورت تھی کہ کوئی مجھے سنبھال لے ۔۔۔رضیہ سے بات ہوئی تو میں نے پندرہ دن میں اس سے شادی کر لی
پندرہ دن میں ، میں تو ضرور شادی کرتی جس نے دس سال کا لمبا عرصہ لیا اس فیصلے تک پہنچنے میں ۔۔۔ہاہاہا
(معروضی حالات کی وجہ سے )
بیٹا تو پندرہ سال غیر شادی شدہ رہتا تو مرجاتا ۔۔۔ہاہاہا
اور جتنے اختلافات ناول کی ہیروئین سے ہوئے اس سے سوگنا زیادہ شائید مجھ سے ہوجاتے ۔۔۔اور ہم دونوں ایک دوسرے پہ لعنت بھیج کے اپنی اپنی زندگی گزار رہے ہوتے ۔۔۔
اگرچہ رضیہ جیسی بے حد خوبصورت اور کیئرنگ بیوی مرد کی انتہائی خو شقسمتی ہی ہوسکتی ہے۔۔
وقت نے ثابت کیا کہ رضیہ انتہائی اچھی عورت اور بیوی ثابت ہوئی طارق کے لئے ۔۔۔
میں بھی ایک اچھی عورت اور نیک پروین بیوی ہی تھی مگر رضیہ کو بیوی نمبر 1 کا سرٹیفیکٹ میں بھی بلا رشک و حسد دیتی ہوں
شروع شروع میں طارق کی سب سے چھوٹی بہن نے مجھے پیار سے نئی بھابی اور رضیہ کو پرانی بھابی کہہ کر مخاطب کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ طارق نے مائنڈ کیا اور تصیح کی
بھابی نمبر 1
بھابی نمبر 2
کہا کرو ۔۔۔
نئی پرانی کوئی نہیں ہے
رضیہ ہمیشہ نئی رہے گی ۔۔۔
( اور یہ بظاہر نئی والی صدیوں پرانی بوڑھی عورت کے دکھ جھیلے گی )
وہ مجھ سے دلی پیار کرتی تھی اس لئے
بھابی نمبر 2 اس نے کبھی نہ کہا ۔۔۔ صرف بھابی پہ اکتفا کرلیا
(طارق تیری جرآت کو سلام ہے بلکہ لعن طعن ہے ۔۔۔ہاہاہا )
ہاں تو وہ ناول والی ہیروئین ( ناٹ بھابی ) ہمیشہ کے لئے اس کے نام سے منسوب ہو چکی ہے ادب کی دنیا میں بہت ہی خوبصورت طریقے سے ۔۔۔ تو میرا خیال ہے سب کی اپنی اپنی جگہ اپنا اپنا مقام ہے
(تین عورتیں تین کہانیاں ۔۔۔)
مزید اللہ ہی جانے مردوں کے افسانے تو روز کی ایک کہانی بھی بیان کر سکتے ہیں ۔۔۔ہاہاہا
پھر میں ایک نظم لکھوں
ہیرا پھیری سرپھری دوپہری سی ۔۔۔۔ہاہاہا
عرض کیا ہے
ہیرا پھیری کرتی سر پھری دوپہری سی
جوں ہے ابر ڈھکی شام دسہری سی
چل بھئی چل چھتری پکڑ
پھر نہ جائے برس
تیرا پیرہن بھیگ کر
جائے گا چپک ۔۔۔
اے رستہ چلتی لڑکی !
سارے لوگ
اندھے نہیں ہوتے
نہ بارش جیسے لاپرواہ
کہ تجھے دیکھیں
اور پھسل کے گر نہ پڑیں
بارش میں دیکھ
مت اتنا ہنسا ہنسایا کر ۔۔۔ !!
کہ بارش بے پرواہ ہوتی ہے
بہت زیادہ ہنستی آنکھوں کو
رلانے کے بھی
بہت امکاں رکھتی ہے ۔۔
دیکھ سکھی !
مٹکا مٹکو مٹکو
مچکا مچکو مچکو
دھرتی پہ پولے پاوں
کیچڑ کے ڈر سے نہ رکھا کر
اچھا تو یہ ہے
بارش میں گھر سے
بلا وجہ ، یونہی نہ نکلا کر ۔۔۔۔
چاہے وہ پول سے چپکا کھڑا ہو
جانے دے ۔۔۔جانے دے

گانا سن رہی ہوں
ایک چنبیلی کے منڈوے تلے
۔۔۔منڈوے کا مطلب کیا ہے پلیز ؟
چنبیلی کا جھاڑ ، شاخ ، سایہ ، کیاری ۔۔۔ بتادو نا ( اردو دانوں سچی مجھے نہیں پتہ)
ہم تو پٹودی میں “منڈھا ” رت جگے ( ر’ جگے) بارات سے ایک رات پہلے جشن کی رات کو کہتے تھے
‘چنبیلی کا منڈوا ‘ مینوں نئیں پتہ ۔۔۔پنجابن جو ہوئی میں۔۔ کڑیو تے منڈیو دس دیو پلیج ۔۔ میں وی اگلی نجم چ کتے پادیاں گی ۔۔۔۔ہاہاہا
یعنی عرض کیا ہے

چنبیلی کے منڈوے تلے
خوشبو سی کنیا کھڑی
کیاری سے چمپا توڑ رہی
اک ہار بنایا ساجن کا
اک مالا گلے میں ڈالی
ست رنگی ساڑھی کاپلو مچل گیا
اسے سنبھالا ۔۔۔
اک چمپا کا بالا کان میں ڈالا
اک گجرے سے وینی مہکائی
اک گجرا زلفوں میں سجایا
چندا چمیلی اور ساجن
چنبیلی کے منڈوے تلے
کیا کیا نہ رات نے رنگ جمایا

ٹھیک ہے یہ فی البدیہہ چنبیلی کا منڈوا ۔۔۔ ویسے میں تو سب کچھ فی البدیہہ ہی لکھتی ہوں اور اگر اسی لمحے نہ لکھوں تو ہمیشہ کے لئے ایسے ہی بھول جاتی ہوں جیسے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ جانے کیا کیا بھول چکی ہوں ؟
ہاہاہا ۔۔۔۔
یہ ہاہاہا ۔۔۔تو جیسے میرا insignia بن چکا ہے
مجھے نہیں پتہ insignia یہاں صحیح استعمال کیا ہے یا نہیں مگر اس لمحے ذہن میں اتر آیا ۔۔۔
کل لائبہ نے آن لائن ہائی ہیل سینڈل منگائی اسی برینڈ کی ، مجھے دکھانے لائی حسب عادت
“پھپھو ساڑھے تین ہزار کی آئی ہے سیل میں۔۔۔ ویسے دس ہزار کی تھی “
اس نے برینڈ نام پڑھوایا
“اچھی ہے بہت ۔۔۔ بلو کلر ہے جینز کے ساتھ چلے گی “
“ہاں اسی لئے منگوائی ہے میٹیریل بھی جینز جیسا ہے “
میری رگ خریداری بھی جوش میں آگئی سیل لگی ہوئی ہے تو میں بھی کچھ ٹرائی کروں ۔۔۔نیوروپیتھی کی وجہ سے ایزی کمفرٹیبل فٹ وئیرز کے علاوہ ہیلز وغیرہ متروک ہوچکی ہیں ویسے بھی بہت سی نئی نکور پڑی سڑ رہی ہیں ۔۔۔ ویب سائیٹ کھولی کچھ پرسز اور کلچ وغیرہ نظر آئے۔۔۔ ضرورت تو ان کی بھی نہیں بے شمار پڑے لٹک رہے ہیں۔۔۔پھر بھی ایک کلچ پر ذرا نظر ٹکی ، قیمت دیکھی تو انیس ہزار سم تھنگ ان سیل ۔۔۔۔ توبہ میں نہیں لیتی
رات کو لائبہ نے اپنا سینڈلز کا سارا اسٹاک بیڈ کے نیچے سجا رکھا تھا صرف ہیل کا سائیز چیک کرنے کے لئے کہ آدھا انچ دوسری سینڈلز سے اونچی ہے یا نہیں !
یہ چھوٹی چھوٹی خواہشیں بچوں کی جو بڑی تسکین لاتی ہیں ان کے دل میں ۔۔۔ سلامت رہیں سلامت رہیں ۔۔
خوش رہیں ہمیشہ سب بچے ، اور ان کے سارے ارمان پورے ہوں
زندگی بھر (آمین ثم آمین )

صبح سویرے
Waiting for tea !
ابوجی !
کہ ابو جی (اللہ بخشے ) نے ہی یہ بیڈ ٹی کی عادت ڈالی تھی بچپن میں ۔۔۔
صبح صبح وہ ایک چائے کا کپ لئے میری پائنتیوں کھڑے مجھے نظر آتے کبھی جگاتے نہ تھے ۔۔۔ مگر چائے کی خوشبو سے میری آنکھ کھل جاتی ۔۔۔وہ اشارے سے پوچھتے مسکرا کے ” پینی اے”
ہاں ہاں ۔۔۔ میں لیٹے لیٹے ہی گردن ہلا کر فورا چائے کا کپ پکڑنے کو اٹھ جاتی ۔۔۔وہ اپنی چائے لے کر مجھے نہیں پتہ کیسے کہاں بیٹھ کر پیتے تھے ۔۔۔کہ میں نیم غنودگی میں اپنا کپ ختم کر کے پھر دھڑام سے سوجاتی کپ بھی وہ ہی اٹھاتے ہوں گے کہیں میری سائیڈ سے ۔۔۔ بھئی بتایا ہے نا میں انتہائی انتہائی لاڈلی بچی تھی اپنے ابو جی ۔۔۔ ایسا بچہ جو ہر وقت آنکھوں کا تارا ہوتا ہے مجھ سے تین چھوٹے اسلم اکرم شبانہ اس مقام و مرتبے کو نہیں پاسکے جب کہ عمران نے پیدا ہوتے ہی مجھ سے یہ مرتبہ ہتھیا لیا بلکہ وہ میرا بھی لاڈلا ترین بن گیا اور میں خوشدلی سے دوسرے نمبر پر آگئی ۔۔۔ اگرچہ امی دل وجان سے بڑے بیٹے اسلم کی شیدائی تھیں مگر خاصے عرصے بعد یعنی ان کی اولڈ ایج میں ، میں پھر سرفہرست لاڈلی ہوگئی ۔۔۔سب بچے والدین کا پیار پاتے ہیں مگر کچھ خصوصی پیار کے حقدار ہوتے ہیں شکر الحمد للہ میرا شمار انہی میں رہا ہے اور اس کا سبب امی جی میرا احساس ذمہ داری سب کا خیال رکھنا پیار کرنا اور نیک دل ہونا ہی گردانتی تھیں ۔۔۔ میرا خیال ہے امی جی اور میں دو مائیں گھر میں رہی ہیں ہمیشہ ۔۔۔ چلو باجی کو بھی شامل کرلیتے ہیں جب تک وہ اپنے گھر کی نہ ہوئیں ہم سب کی ماں ہی رہیں آج تک ہیں مگر اب میں سب کی اصلی ممتا جان بنی رہتی ہوں( پیدائشی۔۔۔)
امی جی کو اگر کسی بچے سے کوئی کمی بیشی بھی ہوئی تو آخر تک مجھے شکایت دیتی تھیں ” اینہے وگاڑیا اے ۔۔ نہ کہو کجھ نہ کہو۔۔۔ چھوٹا ہے آپے سدھر جاوے گا ۔۔۔ نی تیرے توں ای چھوٹا اے نا توں پندرہ سالاں دی ذمہ دار بن گئی ایہہ آج تک نئیں بندا “
(امی جی ایک کا بچپن چھن گیا یہ کافی نہیں کیا میں سوچتی ۔۔۔وہ بچپن جو اب تک اپنے خیالوں میں کھیلتی رہتی ہوں)
اسلم کی غیر سنجیدہ طبیعت کا ذمہ دار ہمیشہ وہ مجھے گردانتی تھیں ۔۔۔ بھئی وہ پیدائشی فلاسفر ہے تو آپ اسے کیوں زبردستی ٹھوک ٹھاک کر دنیا دار بنانے پہ تلی ہیں ۔۔۔ میں کسی بہن بھائی کو امی جی کو زیادہ ڈانٹنے نہیں دیتی تھی کہ مجھے دلی تکلیف ہوتی تھی سو سنوارتے سنوارتے ہر بگاڑ کی ذمہ دار بھی ٹھہرائی جاتی رہی ۔۔ مگر میری غیر مشروط محبت پر سب کو یقین تھا اور ہے ۔۔۔۔ اور میں نے ہر رشتے سے ہمیشہ غیر مشروط محبت ہی کی ہے چاہے وہ شادی جیسا ذمہ دار بندھن ہی کیوں نہ ہوں
دینا سیکھا اور جی جان سے ۔۔۔ لینے میں چاہنے کے باوجود اس نام کے رشتے سے آنسو ہی ملے ہونگے شائید اور کچھ نہیں ۔۔۔ چتی چتی جوڑ کر رلی بناتی رہی جو کہ آخر تک بن کر نہ دی کہ چتیاں ہی اتنی کم تھیں کہ گڑیوں کے پٹولے بھی مشکل سے بنتے ۔۔۔ہاہاہا
زندگی گزرگئی ۔۔۔۔ خدا نے اگرچہ بہت اچھا سامان کیا کہ بالآخر اپنے ساتھ جوڑ لیا (کسی حد تک) مگر دنیا ، لینے کے لئے اتاولی اور دینے کی حد تک بے نیاز ہی رہی ،
اگرچہ اب گھر کا بچہ بچہ بساط بھر خیال کرتا ہے
رات کو انس آیا بہن سے چائے بنوانے ۔۔۔وہ جب سے ایکزامز سے فارغ ہوئی ہے روز میرے پاوں دباتی ہے ہلکا ہلکا مساج کرتی ہے ۔۔۔
“پھپھو ۔۔چائے بنادوں اسے “
“چل اس سے کہہ میرے پاوں دبائے تب تک “
“ڈاکٹر کو کیوں نہیں دکھاتی ہیں ۔۔۔”
انس فکرمندی سے بھڑک اٹھا
“ٹانگ دیکھی ہے میرے بازو جتنی پتلی ہوگئی ہے “
“اچھا واقعی ۔۔۔”
لائبہ رحم دلی اور دلجوئی سے مساج کرنے لگی پھر پندرہ منٹ بعد چائے بنانے گئی
“پھپھو شوگر چیک کی ہے “
لائبہ بہت فکرمند ہوگئی ہے یوں بھی ایکزام سے فارغ ہونے کے بعد اب وہ سمجھتی ہے سب کا خیال اس نے رکھنا ہے ( اچھی بچی ماشاءاللہ )
“صبح کروں گی “
مگر پھر بھول گئی اب چائے سامنے ہے شوگر چیک کی تو ٹھنڈی ہوجائے گی
اس بہانے بچے میرا فکر تو کرتے ہیں
(شکر الحمد للہ)

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
A man walking on sea
Read More

گپ شپ

عذرا مغل ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں…
Read More