Yadish Bakhair – 15 یادش بخیر

Front view of a smiling woman

Yadish Bakhair

بلوچ من حیث القوم بہت ہی شاندار لوگ ہیں ذاتی طور پر میری پسندیدہ قوم ہے کہ دادو میں میرے آس پاس فرینڈز اور اسٹاف میں بلوچ لوگ اتنی کثرت میں تھے کہ شائید سندھی کم ہوں ایسے بلوچ جن کے آباواجداد نے اپنا مستقل مسکن سندھ کو بنالیا اور اب وہ سندھی شناخت رکھنے کے باوجود اپنے بلوچ ہونے کا ایک فخریہ احساس برتری ضرور رکھتے ہیں ۔۔۔ انا پسند صاف دل صاف گو احساس برتری کے حامل فرینڈلی ذمہ دار روایتوں کا احترام کرنے والے بہت ہی اچھے لوگ ، اگرچہ تعلیم کی طرف زیادہ رجحان نہ بھی ہو تو طرز عمل میں نجابت شرافت اور وضعداری فطری اور خاندانی تربیت کا خاصا نظر آتی ہے چاہے وہ گھر میں سندھی بلوچ سرائیکی کچھ بھی بولتے ہوں ہزار سندھی کلچر میں جذب ہونے کے باوجود اپنی بلوچ شناخت پر فخر کرتے پائے جاتے ہیں ادا نذر ، گل محمد ، حمید ، باورچی چوکیدار کالج میں تقریبا آدھے سے زیادہ سٹاف جنہوں نے ہمیشہ میرا اس قدر خیال رکھا اور اس قدر احساس ذمہ داری سے کہ ساری زندگی ان کے گن گاتی رہوں ، سندھ کے لوگوں میں نیاز نوڑت عاجزی انکساری خلوص محبت اور وضعداری جہاں مثالی ہے وہیں وہاں رہنے والے بلوچ بھی اپنی ذاتی شناخت کے ساتھ ساتھ ان تمام خصوصیات کا بھی بدرجہ اتم مظاہرہ کرتے ہیں محبت کرنے والے لوگوں سے محبت ہی کی جا سکتی ہے نفرتوں کے بیج جانے کہاں پنپتے ہیں اور پھر نفرتیں پھیلاتے ہیں سارے لوگوں میں ایک دوسرے کے لئے ۔۔۔ میں نے تو محبت پڑھی اور پڑھائی محبت سیکھی اور سکھائی اور محبت اور احساس ہی دیکھا اپنے آس پاس سب لوگوں کے بیچ ۔۔۔ اور کہیں کچھ کمی بیشی دیکھی بھی تو صرف سوچ کی جہالت کے باعث ۔۔۔ جسے اپنے معاشرے سے دور کرنا اشد ضروری ہے چاہے وہ مزہبی جہالت ہو یا رنگ نسل فرقے ذات برادری مذہب بولی یا خطے کی بنیاد پر ۔۔۔ عدم برداشت کسی بھی انسانی معاشرے کے لئے سم قاتل ہے
اور اگر آپ اپنے حقوق کے حوالے سے کوئی خاص تحفظات رکھتے ہیں تو معاشرے کے تمام پسماندہ گھٹی اور دبی ہوئی مخلوق کے ساتھ اپنے حقوق طلب کریں مگر منفی روئیے کسی بھی معاشرے اور ملک کو کبھی بھی راس نہیں آتے پھر جبر کی داستانیں بھی رقم ہوتی ہیں اور بغاوت کے علم بھی اٹھتے ہیں دیکھیں کہاں غلط ہیں ہم اور کہاں ہمارے ساتھ غلط ہو رہا ہے ایک ہی لاٹھی سے سب نہ ہانکیں ۔۔۔ یہاں سب انسان ہیں گدھا کوئی نہیں
جس قوم کا دانشور طبقہ اپنی قوم کی کم عقلی اور جہالت کو ایڈریس کرکے اسے جہل سے نہیں نکال سکا وہ اپنی قوم کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکا ۔۔۔ کسی قوم کی سب سے بڑی کمزوری کم عقلی اور جہل ہے
پچھلے دنوں اپنی دوست ثمینہ کی بات کر رہی تھی جس کا نام ایکسچینج کی دنیا میں فیمیل آپریٹرز کے عرفی نام کی حیثیت اختیار کر چکا تھا آج اس کی خالہ کے گھر کا تذکرہ جن کے ہاں جاکر وہ روزانہ شوقیہ مجھ سے فون پر بات کرتی تھی
خالہ کے گھر میں تین گھنے بیری کے درخت تھے اور وہ بالکل مین روڈ پر واقع تھا اور یہی ہمارے پرائمری دوسری تیسری کلاس کا رستہ تھا
بیری جب بیروں سے لدی ہو اور بیرونی جانب بھی ہو تو کون ہے جو پتھر نہ مارے سارا دن بیری سنگباری کی زد میں رہتی
ہماری جو شامت آئی اسکول جاتے ایک دن پتھر یہ سوچ کر مارے کہ پتھر بیری کو بے شک اندر کی طرف لگیں گے بیر باہر ہمارے سامنے گریں گے
دو یا تین اپنے جیسے کم سن معصوم اور بھولے بھالے پتھر مارے ہی تھے جو ہمارے ننھے ہاتھوں کی رینج کم ہونے کی وجہ سے بیری کو لگے بھی نہ تھے مگر اندر صحن میں ضرور جاگرے ۔۔۔ کہ ان کے ٹین ایج لڑکے جانے کب سے خار کھائے ہوئے اور تاک میں تھے
ایک پتھر کی اچھال کے ساتھ میرے پاوں بھی زمین سے اوپر اچھال میں تھے کہ ۔۔۔۔ کمر سے دبوچی گئی
چیکیں مارتے پتہ چلا ہم تین چار بیر چوروں کو ۔۔۔تین چار ٹین ایج لڑکے پکڑے ہوئے پٹخنے کے لئے تیار کھڑے ہیں راہگیرو ں نے آکر چھڑوایا اور بچایا خوف سے گھگھی بندھ گئی ۔۔۔اس گھر سے نفرت سی ہوگئی انٹل جب کالج میں جاکر ثمینہ سے دوستی ہوئی اور اس نے اسی گھر میں ہمیں کھانے اور وی سی آر کی دعوت دی ۔۔۔ وہ لڑکے بال بچے دار تھے ان کی بیگمات نے ہی کھانا بنایا اور پلیٹیں بھر کے گھر کے بیر بھی رکھے ۔۔۔۔ ذائقہ اچھا تھا مگر بڑے سالوں بعد نصیب ہوا ۔۔۔ہاہاہا

جس قوم کا دانشور طبقہ اپنی قوم کی کم عقلی اور جہالت کو ایڈریس کرکے اسے جہل سے نہیں نکال سکا وہ اپنی قوم کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکا ۔۔۔ کسی قوم کی سب سے بڑی کمزوری کم عقلی اور جہل ہے
پچھلے دنوں اپنی دوست ثمینہ کی بات کر رہی تھی جس کا نام ایکسچینج کی دنیا میں فیمیل آپریٹرز کے عرفی نام کی حیثیت اختیار کر چکا تھا آج اس کی خالہ کے گھر کا تذکرہ جن کے ہاں جاکر وہ روزانہ شوقیہ مجھ سے فون پر بات کرتی تھی
خالہ کے گھر میں تین گھنے بیری کے درخت تھے اور وہ بالکل مین روڈ پر واقع تھا اور یہی ہمارے پرائمری دوسری تیسری کلاس کا رستہ تھا
بیری جب بیروں سے لدی ہو اور بیرونی جانب بھی ہو تو کون ہے جو پتھر نہ مارے سارا دن بیری سنگباری کی زد میں رہتی
ہماری جو شامت آئی اسکول جاتے ایک دن پتھر یہ سوچ کر مارے کہ پتھر بیری کو بے شک اندر کی طرف لگیں گے بیر باہر ہمارے سامنے گریں گے
دو یا تین اپنے جیسے کم سن معصوم اور بھولے بھالے پتھر مارے ہی تھے جو ہمارے ننھے ہاتھوں کی رینج کم ہونے کی وجہ سے بیری کو لگے بھی نہ تھے مگر اندر صحن میں ضرور جاگرے ۔۔۔ کہ ان کے ٹین ایج لڑکے جانے کب سے خار کھائے ہوئے اور تاک میں تھے
ایک پتھر کی اچھال کے ساتھ میرے پاوں بھی زمین سے اوپر اچھال میں تھے کہ ۔۔۔۔ کمر سے دبوچی گئی
چیکیں مارتے پتہ چلا ہم تین چار بیر چوروں کو ۔۔۔تین چار ٹین ایج لڑکے پکڑے ہوئے پٹخنے کے لئے تیار کھڑے ہیں راہگیرو ں نے آکر چھڑوایا اور بچایا خوف سے گھگھی بندھ گئی ۔۔۔اس گھر سے نفرت سی ہوگئی انٹل جب کالج میں جاکر ثمینہ سے دوستی ہوئی اور اس نے اسی گھر میں ہمیں کھانے اور وی سی آر کی دعوت دی ۔۔۔ وہ لڑکے بال بچے دار تھے ان کی بیگمات نے ہی کھانا بنایا اور پلیٹیں بھر کے گھر کے بیر بھی رکھے ۔۔۔۔ ذائقہ اچھا تھا مگر بڑے سالوں بعد نصیب ہوا ۔۔۔ہاہاہا

ایکسچینج کی انتہائی چیخ پکار شور شرابہ والی مصروفیت میں کان کھجانے کی بھی فرصت نہ ہوتی ۔۔۔پھر بھی کچھ پبلک کے للو پنجو تنگ کرنے کے لئے بھی 109، 17 یا18 پہ کال کھڑکائی رکھتے ۔۔۔
“اسلام علیکم “
“وعلیکم اسلام “
کان متوجہ ہوتے ہی ۔۔۔
“آپکا نام کیا ہے ؟”
ٹھک “کی ‘ آف ہوجاتی ۔۔۔
مگر ان کم بختوں کے کون سے پیسے لگتے تھے آجکل کے انباکس والے ویلوں کی طرح اس وقت بھی اکا دکا ویلے ضرور پائے جاتے تھے
میری ایک دوست ثمینہ بھی فون پہ شوقیہ روز ہی پڑوس میں اپنی خالہ کے ہاں جا کر مجھ سے بات چیت کرتی (بلا ناغہ ہی۔۔۔)
ایک دن پھر کسی ویلے نے پوچھا
“آپکا نام کیا ہے ؟”
میں ایک ‘ کی’ پر ثمینہ سے بات کر رہی تھی
اور کچھ نہ سوجھا
“ثمینہ ” کہہ کر میں نے جان چھڑالی
دوسرے دن کوئی “ثمینہ ثمینہ “
کا پوچھ کر کال ملا کے پوچھ رہا تھا
“ثمینہ تو یہاں کوئی نہیں ہے”
پھر لڑکوں کو بھی شرارت سوجھی سمجھ گئے کسی لڑکی نے رانگ نمبر کو غلط نام بتایا ہے ہیلوجی۔۔۔
ہیلو ۔۔۔
جی ۔۔۔
وہ ہیں
“کون ثمینہ ؟”
لڑکوں نے خود ایسوں سے نمٹنا شروع کردیا ۔۔۔
جو بھی ٹھرکی محسوس کرتے
ثمینہ سے بات کرنی ہے ۔۔۔ثمینہ ابھی اٹھ کر گئی ہے
یا کسی بھی لڑکی کو ۔۔۔
ثمینہ یہ لو تمہارا پوچھ رہے ہیں
کوئی بھی لڑکی ثمینہ بن جاتی
غرضیکہ ‘ثمینہ’ نام کا ایک شغل لگ گیا تھا ۔۔۔ کس کو پتہ نہ تھا کہ اصل ثمینہ کون ہے (سوائے میرے ۔۔) لڑکے نام کی پاپولیریٹی سے متاثر ہوکر پوچھتے بھی
کہ پہلے پہل ثمینہ نام کس عظیم لڑکی نے متعارف کروایا تھا تاکہ اسے (شرارتی ) خراج عقیدت پیش کیا جائے اور اس کا ریکارڈ لگایا جائے ۔۔۔ میں گھنی چپ ہی رہتی اور ثمینہ غریب کے تو فرشتوں کو بھی پتہ نہ تھا کہ اس کا نام ایک “عرفیت “بن چکا ہے رانگ نمبرز کو بتانے کے حوالے سے ۔۔۔زیادہ تو شرارتی لڑکوں نے پاپولر کیا
اب ہمارے کچھ شرارتی لڑکوں نے یہ کیا کہ دوسرے اسٹیشن پر جو بھی فیمیل آپریٹرز ہوتیں انہیں ثمینہ نام سے ہی مخاطب کرتے
ثمینہ یہ کال ملادیں
ثمینہ نمبر نوٹ کریں
ثمینہ انورڈ نمبر یہ ہے اور آوٹ ورڈ یہ
ثمینہ یہ کال ارجنٹ ہے پلیز جلدی کنکٹ کریں
لڑکیاں بھی ساری شرارت میں ثمینہ بنتی چلی گئیں
ثمینہ نام کا پھیلاو اور بڑھنے لگا
وہ لوگ بھی ہمیں ثمینہ کہہ کر ہی مخاطب کرنے لگے ۔۔۔
سیٹ پر بیٹھتے ہی دوسرے اسٹیشن سے اسلام و علیکم کے بعد تعارف کی روایت کے طور پر
“کون ثمینہ بات کر رہی ہو”
“جی “
بڑی تمیز اور اعتماد سے جواب دیا جاتا
ظالمو ٹی وی (نیٹ پہ) گانا آگیا ہے
“کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا “
(ثمینہ بتادوں )
کیا کو انسیڈینس ہے ویسے!
میری زندگی تو ایسے معاملات سے بھری ہوئی ہے آپ کو حیران ہونا ہے تو ہولیں۔۔۔ہاہاہا
بہر حال ثمینہ نام رانگ نمبرز اور غلط نام بتانے کے حوالے سے خاصی شہرت پاگیا۔۔۔
کسی کو کچھ پتہ نہ تھا اصل ثمینہ کون ہے اور کیوں ہے ؟
ہنسی حیرت اور خوشگواری مجھے تب محسوس ہوئی جب کراچی ٹی وی سے ایک ڈرامہ نشر ہوا چھوٹا سا سین
اسی طرح ایکسچینج کا , کی بورڈ , فیمیل آپریٹر ۔۔۔
کوئی رانگ نمبر نام پوچھتا ہے آپریٹر لڑکی سے ۔۔۔
“ثمینہ “
میرے قہقہے چھوٹ گئے
وہ وہی نام بتاتی ہے جو ایکسچینج کی دنیا میں رانگ نمبرز کو بتانے کے لئے لڑکیوں کا عرفی نام ہوتا تھا اور میرا چھوڑا ہوا شوشا اور میری ہی ایک پیاری دوست کا نام ۔۔۔۔
آج تلاش کرتی ہوں اسے بھی فیس بک پہ، یاد آگئی ہے
میں اس نام کی خاص قسم کی پاپولیریٹی پہ مسکرا کر ہی رہ گئی ۔۔۔
بہرحال اس دور میں ایکسچینج کی بیشتر لڑکیاں ‘ثمینہ ‘نام کی تھیں جنرل پبلک کے لئے ۔۔۔ہاہاہا
رات کا کامیڈی فلمی خواب ۔۔۔ مردوں کی دلچسپی اور خواتین کی جلی کٹی کی نذر :

طارق (مر کر بھی ) باز نہیں آرہا ، میرے خواب میں تیسری شادی کرلی ہے ایک نسبتا کم عمر لڑکی سے جو کراچی میں اس کی پرانی دوست تھی رخسانہ عالیہ جانے کیا نام ہے ۔۔۔بہت اونچا ٹاور پہ سب سے اوپر والا کمرہ یا فلیٹ جو بھی ہے ہمارا گھر ہے ۔۔۔کھڑکی کے ساتھ میرا بیڈ ہے بیچ میں سائیڈ ٹیبل پھر دوسرا بیڈ جس پر وہ نئی دلہن دراز ہے میں دوپہر کے وقت گھر پنہچی ہوں ڈیوٹی سے ،
طارق نئی شادی اور پرانی دوست کے ساتھ یہ منظر سامنے ہے میں حسب عادت مجبورا “صبرن شکرن ” اپنے کھڑکی والے بیڈ پر کھڑکی سے باہر دیکھ رہی ہوں بظاہر لاپرواہی سے کہ وہ اپنی مرضی کا مالک ہے جو چاہے کرے مجھ سے ڈرتا ہے کیا ؟
پھر وہ کمرہ ٹرین کا ڈبہ ہے کراچی کی گاڑی پلیٹ فارم پہ ہو جیسے ۔۔اس لڑکی کی بہن کو صبح کراچی سے لایا ہے اب اسے چھوڑنے جانا ہے (سالی ہی تھی کمبخت ۔۔۔ہاہاہا ۔۔۔مقصد ہنی مون ٹور کا ہے جیسے ۔۔۔ )
میں پھر سوچ رہی ہوں کہ ابھی تو میں آئی ہوں اور یہ کراچی (نئی شادی اور ہنی مون ) پہ نکل کھڑا ہوا ہے ۔۔۔بہرحال میں کیا کہہ سکتی ہوں میری کون سی چلتی ہے وہاں مگر اتنا ہے کہ وہ جب تک ٹرین چلے میری کھڑکی کے پاس آکر مجھے ‘پٹاو’ طور پر دیکھ اور بات چیت کر رہا ہے ۔۔یعنی اپنے حساب سے مجھے ٹائیم دے رہا ہے کہ میں اس کا کراچی جانا ہضم کرلوں چپ چاپ ۔۔۔
دو گھنٹے جانے کے دو واپس آنے کے شام ہو جائے گی ۔۔۔سارا دن تو میرے ساتھ کا اس نے یونہی گزار دیا پھر کیا وقت باقی بچے گا ؟
کچھ کچھ مایوسی سی ہے مگر تحمل والی ہوں تو چپ ہوں
میں گھر کی دوسری طرف والی کھڑکی سے ٹرین کو ‘بائی ‘کر تی ہوں
(جاو بھئی جہاں جانا ہے میں کیا کرسکتی ہوں)
(ابھی فلم چل رہی ہے انٹرویل ہوا ہے سمجھیں۔۔۔ہاہاہا )
ایک بد تمیز موٹا پہلوان نما بھائی تیسری والی کا ابھی گھر پہ قبضہ گیر ہے میں کھڑکی سے نیچے جھانکتی ہوں رضیہ بہت ہی بوسیدگی کسمپرسی اور برے حال مٹیالے بوسیدہ سے کپڑے پہنے نیچے کھڑی ہے
” رضیہ یہ تم کیوں اس طرح گھر سے باہر کھڑی ہو “
مجھے اس کی حالت زار پہ پریشانی ہوتی ہے
مجھے طارق نے گھر سے نکال دیا ہے ( تیسری شادی کی وجہ سے)
“تم کیوں گئیں اوپر آو ۔۔۔”
وہ کہتی ہے
‘اس نے دروازہ بند کر دیا ہے ‘
‘میں کھولتی ہوں فورا گھر واپس آو ‘
میں اوپری منزل پہ کھڑے کھڑے نیچے والا دروازہ کھول دیتی ہوں وہ آجاتی ہے
“تم کیوں چلی گئیں گھر چھوڑ کر ۔۔۔ کرلی تو کرلی تیسری شادی

“مجھے خود نکال دیا ہے اس نے ہاتھ پکڑ کر ۔۔۔۔کمرے کی ضرورت تھی نا اسے “
“اور تم آرام سے چلی گئیں ۔۔۔جب میں آئی تھی تب تو نہیں گھر چھوڑا تھا “
( میرے سینے پہ مونگ دلتی رہیں تھیں اب اتنی بے بس ہوگئیں ۔۔۔ دل میں سوچتی ہوں )
“تم نے گھر بالکل نہیں چھوڑنا اپنا اچھا ۔۔۔وہ دونوں آئیں گے تو دیکھ لیں گے ، ہم دونوں مل کر “
وہ راضی ہوگئی ہے ہم رضیہ کا کمرہ دیکھتے ہیں اس کے رہنے کے لئے سارا سامان بیڈ الٹ پلٹ کر ٹوٹا پھوٹا ہوا ہے
( سیٹ کر لیں گے سوچتی ہوں بڑا بیٹا ہالار بھی وہیں گھوم پھر رہا ہے )
خیر میں اپنے اور تیسری بیوی کے فی الحال مشترکہ کمرے میں لے آتی ہوں اسے، مجھے یقین ہے طارق رضیہ کو دیکھتے ہی تیسری ویسری سب بھول جائے گا کہ انکی محبت اور تعلق ہی ایسا ہے
وہ کمرہ حجلہ ء عروسی بہت ہی خوبصورت اور نفاست سے سجایا ہوا ہے دیواروں پر خوبصورت چمکتا سلور سا پینٹ کہیں سے ابھرے ابھرے سے خوبصورت پیچز والے ڈیزائن ایک طرف دیوا ر سے لٹکتی چھوٹی بڑی بہت ہلکے خوبصورت سوفٹ رنگوں کی پھولوں کی چھوٹی بڑی لہراتی لڑیاں جو دیوار کے سلور کلر کے امتزاج سے بہت حسین تاثر دے رہی ہیں ۔۔
“حجلہ ء عروسی دیکھو کتنا اچھا سجایا ہے ۔۔۔ پورا کمرہ سجا رکھا ہے (بیڈ کی بجائے )
تمہارا سجایا تھا ایسے کمرہ “
میں رضیہ سے پوچھتی ہوں
“نہیں ۔۔۔گھر والوں نے ہی سجا دیا تھا عام سا (بیڈ کے اردگرد لڑیوں والا) یہ تو پورا کمرہ سجا ہوا ہے “
“اور مجھے تو خالی دیواروں میں لا بٹھایا تھا “
(میرے خیال میں خالی دیواروں والا ایک نیم اندھیرا بے کار سا کمرہ آجاتا ہے )
میں اپنے بیڈ پہ بیٹھی ہوں وہ تیسری والی کے بیڈ کے کنارے پر ۔۔۔۔
“کتنا زندہ رہے گا یہ ۔۔۔دس سال اور ، بیمار تو ویسے ہی ہے یہ تو اس سے پہلے ہی اسے چھوڑ بھاگے گی “
مطلب اس کا کوئی لالچ وغیرہ ہے پیسے وغیرہ کا شائید جو پورا ہوتے ہی وہ دو تین سال میں رفوچکر ہوجائے گی بائی نیچر وہ پروفیشنل کھاو بھگوڑی ہے
میری دس سال کی پریڈکشن پہ رضیہ دکھی ہوجاتی ہے ۔۔
“چلو چند سال اور بڑھا لو ۔۔۔بیمار آدمی ہوکر بھی حرکتوں سے باز نہیں آرہا ۔۔۔۔چلو ہم دونوں مل کے دیکھ لیں گے سارا کچھ ۔۔۔ گھر چھوڑ کر نہ جانا اب کبھی بھی”
(مقابلہ طے کر لیا ہے دونوں بڑی والیوں نے ۔۔ تیسری والی ( لالچی قسم کی دوشیزہ اور شوقین شوہر سے نمٹنے کا ۔۔۔ہاہاہا)
خواب ختم ہوگیا ۔۔۔ مزیدار فلم تھی نا ۔۔۔
یعنی یہ صرف میرا خرافاتی خواب تھا بس مگر کیوں تھا رب ہی جانے ۔۔۔ مگر فلم دلچسپ تھی
اللہ مغفرت کرے طارق کی اور جنت الفردوس میں جگہ دے ( آمین ثم امین)
کہاں ہے وہ چہرہ کہاں ہیں وہ آنکھیں
جو جب بھی میری سمت اٹھیں پیار سے بھری ہوئی تھیں
وہ پیرالائزڈ تھیں
میں سارا دن ان کے سامنے اور ساتھ ہی ہوتی موبائل بھی ان رہتا فیس بک کی مصروفیت بھی رہتی وہ چپ چاپ نظر جمائے مجھے پیار سے دیکھ رہی ہوتیں یا اچانک میری نظر پڑتی تو ایک ہاتھ جو موو کرتا تھا اس سے میری ‘بلائیں ‘ لیتی نظر آتیں جوابا میں بھی دونوں ہاتھوں سے انہی سے سیکھا انہی کا بلائیں لینے والا ایکشن دیتی ۔۔۔ دوتین بار ہم دونوں یہ ایکشن دہراتیں ۔۔۔کبھی ان کو زیادہ ہی لاڈ آتا تو وہ آنکھ سے اشارہ کرتیں
“ایدر آ ۔۔۔”
میں ان کے برابر جاکر پیار سے گود میں ان کا سر لے لیتی اکثر سیلفیز بناتی وہ خوش ہوتیں ۔۔۔ مجھے نہیں پتہ وہ میرا بچہ بن گئی تھیں یا میں ان کا بچہ تھی
اور ان کی باتیں تو اب ۔۔۔عمر بھر کی سنجیدگی اور متانت کا چولا اتار کر وہ ہنسانے والے ایسے چٹکلے نما جملے جو اکثر ذہانت سے بھرے بھی ہوتے برجستگی اور معصومیت سے اس طرح کہتیں کہ قہقہہ بار کر دیتیں ۔۔۔اللہ امی جی کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے آمین ثم آمین

مجھے نہیں پتہ ماں کی محبت سے بڑھ کر کیا ہوتا ہے
ماں کی آنکھ میں دیکھو شرک نہ سمجھو تو خدا ہوتا ہے
جہاں بھی ہوں گی جنت ان کے پیروں تلے ہی ہوگی
اللہ کریم امی جی ابو جی اکرم اور ہمارے سارے پیاروں کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں بہترین جگہ دے آمین
میرے خواب انوکھے ہیں میرا مشغلہ ہیں میری محبت ہیں لو پھر شئیر کرتی ہوں
رات خواب میں چھ سات سالہ بچے سے کھیل رہی تھی وہ جیسے ایک فیس بک دوست کا بیٹا ہے وہ اپنے گھر کی بالکونی جیسی جگہ (جو زمین پر ہی ہے) میں بغیر دوپٹے کے کھڑی ہے میں گراونڈ میں ہلکے ہلکے دوڑتے بچے کے ساتھ دوڑ رہی ہوں اس کے شانوں پہ ہاتھ رکھے بہت دلچسپ کھیل ہے وہ دوڑ رہا ہے میں بھی اس کے ساتھ ساتھ پورے گراونڈ میں دوڑ رہی ہوں ۔۔۔بار بار چھوٹتا ہے پھر میں شرارت سے آگے بڑھ کر شانوں سے پکڑ کر ٹپ ٹپ ٹپ دونوں دوڑتے ہیں میں خاصا جھک کے شانوں سے پکڑتی ہوں کہ وہ چھوٹا بچہ ہے ۔۔۔ وہ پھر چھڑوا کے آگے بھاگتا ہے اس کی ماں پریشانی سے اپنے بالکونی نماآنگن سے تنبیہ کرتی ہے زور سے آواز دے کر
اتنی تیز نہ بھاگو ۔۔۔تمہاری ماں نہیں ہے ساتھ جو بچا لے گی (گرنے سے )
ایسی بھی کیا بات ہے ماں نہیں تو کیا میں کھیلتے بچے کو گرتے ہوئے بچاوں گی نہیں ؟
(سوچتی ہوں )
میں دوڑ کر پھر اسے پکڑ لیتی ہوں کہ گراونڈ سے باہر نکل کے گم نہ ہوجائے جہاں پکڑتی ہوں وہاں ساتھ ہی مستطیل شکل کا کنواں ہے آدھا لکڑی کے پھٹے سے ڈھکا تھوڑا سا کھلا ۔۔۔ میں بچے کو ادھر سے دوڑ کر ذرا دور لے جاتی ہوں ۔۔۔پھر ہم ٹرین بنے ہوئے ہیں وہ آگے ہے تو انجن بنا ہے میں پیچھے تو ڈبہ بنی ہوئی۔۔۔
سندھ سیکریٹیریٹ سیکریٹری
ایجو کیشن کے آفس کے سامنے سے ہماری ٹرین گزرتی ہے ۔۔میں ایک ذمہ دار شخصیت ہوں اس آفس سے وابستہ مگر ۔۔۔
بچے کے ساتھ بچہ بنی کھیل رہی ہوں اس وقت۔۔۔
ہماری ٹرین نے آفس کے سامنے سے گزرنا ہے ۔۔۔ سامنے سے اس کی ماں بھی پریشان ہو کر گھر سے نکل آئی ہے اور وہ بھی ٹرین بن کے چلی آرہی ہے اسی آفس میں ۔۔۔
نہ بچہ ماں کے پاس جانا چاہتا ہے کھیل مکا کے نہ میں ہی بچے سے کھیل چھوڑنا چاہتی ہوں سامنے امی ٹرین کو آتے دیکھ کر میں کہتی ہوں
کراس ۔۔کراس ہے ۔۔ کراس ہے (ٹرینوں کا)
انجن اور ڈبہ دوسری امی ٹرین کے برابر سے چھک چھک کرتا گزر جاتا ہے آفس کے دروازے کے سامنے سے ۔۔۔امی ٹرین بھی مجبورا کراس کرتی آگے چلی جاتی ہے
میں کراس کا لمبا سا پاں کرنا چاہتی دوسری ٹرین کے لئے مگر آفس ہے تو ذرا آگے ہوتے ہی
چھوٹا سا ‘پاااں ‘ کرتی ہوں دراصل میں بچے کو سکھانا چاہ رہی ہوں کہ جب دو ٹرین کراس کریں تو پااااں کی آواز کرکے کراسنگ سگنل بھی دینا ہوتا ہے ۔۔۔ہاہاہا
خوبصورت خواب ہنستے کھیلتے انجوائے کرتے آنکھ کھل گئی بچہ اور کھیل تو پیارا لگا مگر سیکریٹری کالجز کے آفس کے سامنے سے ٹرین بنےچھوٹا سا ‘ پاں ‘کر نے کا اپنا مزہ تھا ۔۔۔۔ ابھی تک ہنسی آرہی ہے بچہ سامنے ہو تو ، اپنے انجن کو گود میں ہی اٹھا لوں اور دوتین پیار کروں ۔۔۔(بہت پیارا تھا ماشا اللہ)
اللہ اچھی تعبیر کرے میرے خواب میں سرخ رنگ دیکھنا اور بچہ (لڑکا )دیکھنا ویسے خوشی کی تعبیر ہی رکھتا ہے ہمیشہ ۔۔۔ اللہ اچھی تعبیر کرے گا ان شا اللہ ( آمین )
طبیعت بدمزہ سی ہے
ڈیڑھ کپ چائے دو میں ڈال نہیں سکتی اگرچہ مدد کو اک مہربان شخصیت ابو جی موجود ہیں
مگر چائےہمیشہ کی طرح کہ
ایک کپ سے دوسرے میں ڈالوں گی تو آدھی سے زیادہ گرجائے گی
ابو جی کو دیکھ رہی ہوں وہ ڈال دیں کپس میں
مجھے ایسے پیچیدہ کام نہیں آتے
سدا کی پھوہڑ میں
دعوت بھی دوں دوستوں کوخواب میں بھی توالگ الگ ڈونگے الگ الگ ڈیزائن کے پکڑاتی ہوں سفید ابلے چاول
اور چور بچوں سے بچا کچھا
چڑ چڑاتا ہو صرف آدھا ڈونگا
آلو چکن کا سالن
مگر میں نے بنایا ہے تو بہت ذائقہ دار ہے جو گھر کے بچے آدھے سے زیادہ چٹور گئے ہیں بغیر دعوت اور مہمانوں اور بے عزتی کا سوچے
اپنی بن بلائی سہیلیوں کے ساتھ
میری تقریبا بارہ سہیلیاں تھوڑا سا کھانا وہ تب بھی خوش ہیں
میں شرمندہ ۔۔۔
دعوت کا کھانا بھی کم ڈشز کی تعداد بھی کم ۔۔۔کمرہ بھی نیم اندھیرادیوار کے ساتھ سلوٹوں والی چادر بچھا کر پھس پھرا کے بیٹھ گئی ہیں سب
مگر مخلص ہیں تو ہر کھانے
ہر کمی بیشی ہر انداز میں
مجھ سے خوش اور راضی ہیں
میں ندامت سے انہیں ایک اور کھانے کی دعوت دیتی ہوں
گھر کی بجائے باہر کسی اچھی جگہ پر اور حساب بھی کرتی ہوں بارہ لڑکیاں ۔۔۔ کتنا خرچ آئے گا دس لڑکیاں میں نہیں پہچانتی
مگر وہ میری دعوت پر آئی ہیں تو میری کرٹیسی اور اگلی اصلی دعوت کی حقدار بھی ٹھہری ہیں
دو سینیر کولیگز دوست صرف وہی ہیں جنہیں میں پہچانتی ہوں
ایک چپکے سے کان میں کہتی ہے
کھانے کی کوئی بات نہیں چائے تو ملے گی نا !
ہاں ۔۔۔ہاں ضرور
چائے مگر وہ بھی کیسے ملے گی ؟سوچ رہی ہوں
کس سے بنواوں ترلوں سے
بن گئی ہے کچن میں
دو کی بجائے جل کے ڈیڑھ کپ رہ گئی ہے
لیکن سجا کے پیش کرنے کی
ہزار خواہش کے باوجود کہ
فائیو اسٹار ارینجمنٹ کروں گی
سب پھوہڑ بے چارہ مشکل سا ہے
ایک کپ چائے بنی ہے وہ اسی دوست نے پی لی ہے جو کچن کی چوکھٹ کے ساتھ کھڑی ہے
اندر کمرے والی کو ملی ہیں نہیں
جس نے مانگی تھی
چلو جس کو بھی ملی مل تو گئی
اسی پرانی اور اچھی دوست کے ساتھ نکلتی ہوں گھر جانے کو
بھٹکتے بھٹکتے شام کردیتی ہوں
وہ بھی برسات کی اندھیری شام
سامنے ہی راستوں میں بھرا سیلابی پانی ڈبونے کو گردن تک آ پنہچا ہے
ہم فیصلہ کرتی ہیں آگے نہ جائیں تو بہتر ہےجب تک راستہ صاف نہ ہوجائے
شام گہری بادلوں بھری موسلا دھار برسنے کو تیار کھڑی ہے اور راستے بھی پانی سے بھرنے والے ہیں ۔۔۔میں اس سے کہتی ہوں رکشہ کرا لیتے ہیں میں تمہیں جناح ہاسپٹل وہیں گھر ہے نا تمہارا تمہیں گھر چھوڑتے ہوئے اپنے گھر چلی جاوں گی ۔۔۔اگرچہ یہ بھی رسکی ہے کہ آدھے راست میں ہی بارش آلے گی ۔۔۔وہ ازراہ مہربانی وہیں اپنے رشت داروں کے گھر گھس جاتی ہے کہ نہیں تم سیدھی گھر چلی جاو ۔۔۔ میں یہاں سے کسی کو ساتھ لے کر چلی جاوں گی بارش رکنے پر ۔۔۔بارش اس وقت ہو نہیں رہی مگر ہوچکی ہے اور بہت زیادہ موسلا دھار برسنے کو بادل تیار کھڑے ہیں
میں بھی جان پہچان کے ایک گھر چلی گئی ہوں گلی کے کنارے پر وہ مجھے دیکھ کر خوش ہوتی ہیں مین انہیں دیکھ کر کہ وہ پاری کی چھوٹی بہن رانی اور کچھ دوسر ی لڑکیاں ہیں کچھ دیر بعد ان کی چھت سے نیچے دیکھ رہی ہوں راستے کی صورت حال جو اب خاصی بہتر ہے
چھت سے ایک دو پاوں نیچے ٹکا کر کھڑی گاڑیوں پہ رک کے میں اتر آئی ہوں ڈر یہ بھی ہوتا ہے کہ گار میرے سفید کڑکدار نکھرے پائنچوں کے کنارے کو بھی نہ چھولے کہ
ذاتی طور پر بے حد نفیس طبع ہوں
اگرچہ پھوہڑ اپنی جگہ ہوں
بچ بچا کے کھڑی ہوں شام کنارے
گھر کے آدھے رستے میں نہ ادھر کی نہ ادھر کی ۔۔۔
گہری شام بارش اگرچہ رکی ہوئی ہے لیکن رستے کیچڑ بھرے ۔۔۔
بیچ شہر میں آدھا رستہ پیچھے گھر نہیں ہے اور آگے رستہ بارش کی گار سے بھرا سا
آس پاس چند گاڑیاں اور دیہاتی ڈرائیور کھڑے ہیں اپنے ڈالے لئے
سوچ رہی ہوں کسی ایک میں اگلی سیٹ پر بیٹھ کر گارے کے اس پیچ سے نکل جاوں جو پہلے سے کافی چھوٹا صرف دو تین میٹر اور گلے گلے سے پیروں تک ہی رہ گیا ہے ۔۔۔ اور اگر پیدل نکلی تو پھسلن کی وجہ سے گر بھی سکتی ہوں جو میں بالکل افورڈ نہیں کرسکتی اپنے اجلے کپڑوں اور چوٹ وغیرہ کے خدشے سے
ڈرائیوروں کا جائزہ لیتی ہوں شریف اور سیدھے سادے لگ رہے ہیں پھر بھی ڈرتی ہوں اگلی سیٹ پر ساتھ بیٹھی تو بدنیت نہ ہوجائے اور مجھے ٹچ کرنے کی کوشش نہ کرے ۔۔۔ دوتین گھنٹوں میں شام ابھی تک شام ہی ہے ۔۔۔ بلکہ کہیں کہیں سورج بھی نکل آیا ہے
سوچ میں ہوں اور ڈرائیوروں کا جائزہ لے رہی ہوں
لاڑکانہ نواتک سے ملا چوک کو جاتے رستے پہ یعقوب دہی والے اور چاچاامام بخش دکاندار کے بیچ میں رستے میں بشیر شیخ کپڑے والے کی دکان کے پار اس طرف ۔۔۔
صادق نائی کی گلی کے شروع میں ۔۔۔ہاہاہا
ساری دعوت اور سرونگ بی بی کے گھر ان کے ہال کمرے میں ہوئی تھی اب بھی مجھے پھر وہیں جانا ہے
وہی میرا گھر ہے
پتہ نہیں برسات میں نکلی کیو ں تھی ؟ شائید ایک دوست کو گھر چھوڑ کر آنے کے لئے جو مجھے بیچ میں چھوڑ کر ایک اور دوست فیملی کے گھر چلی گئ ۔۔۔ہاہاہا
(رات کا خواب ہے یہ ۔۔۔ تعبیر اس کی کسی چھوٹی موٹی بیماری بمعنی ‘گارا ‘کی کر سکتی ہوں
ہے نا کافکا اسٹائل کی موشگافیاں۔۔۔
مجھے لگتا ہے وہ بھی اپنے اوٹ پٹانگ خواب ہی لکھتا تھا اکثر )
پنجابی یا سندھی ایک مخصوص علاقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں جو قومیتوں کے لحاظ سے بلوچ سرائیکی سندھی پنجابی اور مزہب کے حساب سے مسلمان سکھ عیسائی ہندو کچھ بھی ہوسکتے ہیں اس لئے جب آپ ان کے بارے میں کوئی بھی شناختی کلیہ بنائیں تو اس بنیادی ڈھانچے کو ضرور مد نظر رکھیں کہ ایک لفظ جو خود آپ کو بھی اپنا حصہ بنائے ہوئے ہے کیا اس سے دشمنی آپ کی اپنے علاقے مزہب اور بولی سے دشمنی تصور نہیں کی جاسکتی جب کہ ان کی اکثریت بھی آپ کی طرح ایک عوامی یا بے چاری اکثریت ہو ۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں پنجاب کا شناختی کارڈ دیکھ کر کوئی سرائیکی بولنے والا بلوچ اپنے ہی بھائی یا کزن کا نشانہ بن رہا ہو یا کوئی مسیحی سکھ یا ہندو اپنا پنجابی شناختی کارڈ چھپا رہا ہو اقلیتی احساس کمتر ی جس کا دنیا میں ہر جگہ کسی بھی لحاظ سے اقلیتی افراد کو شعوری یا لاشعوری طور پر سامنا ہے وہ الگ اور اس صورت حال میں پنجابی دشمنی الگ ۔۔۔ کہ پنجابی ہوں بلوچستان نہ جاوں میں یا فلاں لوگ جگہ میرے لئے مناسب نہیں۔۔۔ آدھا پنجاب بلوچ پٹھان اور دیگر افراد سے بھرا ہوا ہے سب عمومی طور پر امن سکون محبت اور بھائی چارے کی فضا میں زندگی گزار رہے ہیں سوائے اکا دکا انفرادی مزہبی عدم برداشت کے معمولی نوعیت کے حادثات کے ، ایسے جنہیں کوئی ان دیکھی دشمن چنگاری بھڑکا دیتی ہے اور پھر پورا پاکستان اس آگ کو بجھانے کے لئے محبت رواداری ندامت ہمدردی کے احساسات اور متاثرین کی دلجوئی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا اور اس میں کسی کو کوئی احسان نہیں جس بھی مظلوم بے گناہ انسان کے ساتھ کوئی ظلم ہو ہر دوسرے انسان کا دل ضرور دکھتا ہے اور ان واقعات کو اس قدر اچھالا جاتا ہے کہ ایک ایک واقعے کو سو سو بار مثال کے طور پر پیش کرکے منفی ذہن لوگوں کو یاد کرایا جاتا ہے اس داغ کو جو سب کے سینے پر اگرچہ قائم ہوتا ہے مگر اس حوالے سے اسے ایک مخصوص اکثریت طبقے یا قومیت کا ناسور باور کرایا جاتا ہے بے واجبی کرو مگر ایسی بھی نہ کرو کہ تمہیں خود شرم آجائے اکثر واقعات کو پنجاب دشمنی میں اس قدر اچھالا جاتا ہے کہ گویا جنگی عظیم اول یا دوئم کے ایٹمی دھماکہ بھی اس کے سامنے کچھ نہیں غلط اگرچہ معمولی ہو یا بڑا اس کو غلط ہی کہا جاتا ہے اور مانا جاتا ہے سب اہل فکر و نظر کی طرف سے ۔۔۔ مگر سوچیں اک بار۔ سمجھداری سے آپ پھر خود کو ہی نشانہ بنا رہے ہیں عقل سے سوچیں ۔۔۔ لڑنا ہے تو دشمن سامراجی قوتوں سے لڑیں جس میں ہر طبقے صوبے بولی کے افراد موجود ہیں ایک مزدور کا چولہا چاہے وہ کوئی بھی ہو بجھا کے کون سے نفلوں کا ثواب ملے گا سوائے اس غریب کے بچوں کے آنسو اور بد دعاوں کے ۔۔۔ غریب اور مظلوم اپنے ہی جیسے غریبوں اور مظلوموں کو نشانہ بنائیں گے تو سامراج تو وہی عیش میں رہے گا آپ ایک ہاتھ کا ساتھ ضرور کھو دیں گے ۔۔۔ویسے انصاف سے کہیں پنجابی کو ناجائز مورد الزام ٹھہرانے کا جرم کب سے کر رہے ہیں آپ باری باری ۔۔۔اس کے باوجود اتنی ٹھنڈی متانت اور تحمل سے گالی کے جواب میں بے قصور ہوکر بھی وضاحتیں پیش کرنے کی رواداری اور حوصلہ بھی یہیں کے برد بار لوگوں میں دیکھا ہوگا آپ نے ، کہ سارے ناکردہ گناہ جو ا ن کی بےگناہ اکثریت پر آپ تھوپتے رہیں وہ آپ کے سامراج سے بھی بڑھ کر ہوں ۔۔۔وہ تب بھی آپ کی دلجوئی اور دلاسا بننے کے لئے ندامت کا اشتہار بنے رہیں ۔۔۔ آپ مل جل کر عام پنجابی کے احساسات و جذبات سے کھیلتے آئے ہیں اور مستقل کھیل رہے ہیں ۔۔۔ او بھائی خدا کا خوف کرو کچھ ، عام غریب مظلوم کی بد دعا نہ لو اسے بے گناہ پٹ پٹ کے ۔۔۔ اللہ ہدایت دے سب کو انسانیت محبت رواداری قائم رہے اور ہم سب میں جو بھی مشکل میں ہیں اللہ ان کے لئے آسانی کرے آمین سندھی پنجابی بلوچ پختون مہاجر ہندو سکھ مسلمان پارسی عیسائی اور دیگر سب سکھ چین سے رہیں پاکستان زندہ باد


ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Mother Language title
Read More

ماں بولی

!پنجابیو پنجابی بولوپنجابی لکھوپنجابی پڑھوایویں تے نئیں میں سکھ لئی سی یار پنجابیماں بولی سی جمدیاں میرے نال…
Read More