Ashaar
بات کچھ بنی نہیں کھیل میں اب دلکشی نہیں
زندگی کی بات تھی زندگی سے کچھ نبھی نہیں
کب کشٹ کٹیں گے کب کھل کے هنسیں گے
کب بھاگ کھلیں گے کب تم سے ملیں گے
کس عذاب میں هوں خواهش گرداب میں هوں
اک بکھرے هوئے خواب تمنا کے سراب میں هوں
گزر گئے ہیں زمانے سوتے ہوئے
وہ خواب تھا کہ یہ خواب ہے
کب کشٹ کٹیں گے کب کھل کے هنسیں گے
کب بھاگ کھلیں گے کب تم سے ملیں گے
کبھی کبھی کچھ ایسے لوگ بھی یاد آتے هیں
جن سے امید بڑی تھی کام اگرچه چھوٹے تھے
میرے دکھوں کا علاج کردے
چاره گر ! مجھے معاف کردے
جس کو بھی پکارا دشت بلا میں
سنتا تو تھا مگر عذر تھا خاموشی
کیا کریں کهیں کوئی آهٹ هے نه جواب
لمحے بھی بن گئے هیں سوال در سوال
ایک اک غم اٹھا کر دیکھا
پھر وہیں سجا کے رکھ دیا
مزید نوٹنکی کی گنجائش نہیں ہے
جوتیاں سنبھالو ، نکلو یہاں سے
کیا کہنا ہے کسی سے کون سنے…..
بات خود سے بھی دہرانے کو جی نہ کرے
ڈھیروں بے تر تیبی کے رنگ پڑے ہیں
تجرید کی صورت بکھری ہے زندگی
میں ٹھیک نہیں ہوں
یہ مسیحائی کہاں ہے؟
یہ جاں نکل رہی ہے رفتہ رفتہ
ہم روز مر رہے ہیں آہستہ آہستہ
وصل کی تصویر بنائی ہے
آنکھ پر آنکھ ، سجائی ہے
زمیں پہ ہر جگہ تھکان بچھ گئی ہے
ایسے ہر قدم جو رکھتے ہیں تھکا ہوا سا لگتا ہے
جب غم بھی دل کےکسی کام نہ آسکا
سمجھا، کہ بے حسی کا پیمانہ بھر گیا
سب کی اداسیاں اپنی اپنی ہیں
ہجر کی کہانیاں اپنی اپنی ہیں
اس کا خیال ہے میرا دماغ چل گیا
ارے بابا ۔۔۔۔چل گیا تو چل گیا !
ابھی وہ ٹھیک سے نہیں بھولا
ابھی دنیا میں دل لگائےکون ؟
زیاں ہی اصل سود بنا دل کا کاروبار ہوا
جس کا سودا نہیں بکا وہ ہی ساہوکار ہوا
نہ جانے اتنی خواہشیں جو تھیں کہاں چلی گئیں
ہر خواہش پہ دم نکلتا تھا وہ کہاں مرگئیں
خوش کلامی بھولتی جارہی ہے
خود کلامی پاگل کئے جارہی ہے
اک دم ڈھلا ہے رنگ و روپ مرا
اور جوبن بھی تیرے بعد نہیں رہا
اس نے کہا میں بہت خوش ہوں
میں نے بے یقینی سے اسے دیکھا
پھر دل مسمار ہی کیا
مانا تم نے پیار ہی کیا
اک طرف وہ حسن کی مثال بنی
دوسری جانب مسخ شدہ حال رہی
آج کی شام بڑی خاص ہو گئی
دیر سے سہی ، دور سے آیا کوئی
وقت گزارنا ہے گزر رہا ہے
اچھا یا برا کٹ تو رہا ہے
کسی کے کب کام ہم اس طرح آ ئے
کہ زندگی کا سبب کوئی دعا بن جائے
ایک عجب کدہ ہے میرے دل کے اندر
خوشی سے بے کنارکبھی غم کااک سمندر
رو کر ہی رات کٹنی تھی سو کٹی
آس تھی کہ شام سے ہی ٹوٹ گئی
یہ گھر بھی ایک زندان ہے
یا پیار کا گورکھ دھندا ہے
البیلا من اٹکھیلی سے باز نہ آئے
روز خالی خط ہی بھیجے جائے
فرد فرد ہے فرد جرم کس پہ عائید ہو
کچھ یاد نہیں کیسی یہ سزا پائی ہے
بات میں کوئی ربط ملا نہ معاملات کا کوئ سرا
خرد مندوں نے جنوں کے مارے سمجھ کے چھوڑ دیا
معلوم ہے تم اور کچھ دے نہیں پاؤ گے
جینے کی اگر تھوڑی سی آسانی دے دو
دشت میں سرگراں ہے دل
اپنے گم سائے کے ساتھ
یہاں ایک بوسیدہ ٹوٹی پھوٹی روح رہتی ہے
کھنڈر کا اندھیرا جاں کی نشانی دے رہا ہے
کچھ اندر بھی ٹوٹا پھوٹا یے
لہجے کا ٹوٹا پن گواہی دیتا ہے
شام کے اس پار فسوں گر ہوتے ہیں
جوڑا کھول کے مت جا ، بانوری
ہزار دکھ ہوں اک خوشی جگا کے سو نا ہے
ہر رات غم بھلا کے ہنس ہنسا کے سونا ہے
کسی نے روکا ہوا ہے مجھے
شام کے اس پار جانے سے
مجھے بخش ہی دیں گے میرے بہی خواہ
اگر میں تجھ کو بھلا نے سے گریز کروں
شہر کا شہر دیکھنے کو امڈا آتا ہے
تماشا کیا زخموں کا اک لگایا ہے
زندگی تجھ سے سمجھوتہ چل رہا تھا
کیا ملا تجھے اک نیا مذاق کرکے بھلا
چشم گریاں اب بھی ہے آب دیدہ سی
حرف تسلی اب بھی ہے ناکام سا
میرا فلسفہ بہت سادہ ہے
! زندگی سے ، پیار کا بس
آج بھی زلف سنواری نہیں آج بھی کاجل لگایا نہیں
آج بھی آئینہ دیکھا نہیں آج بھی کچھ دل کو بھایا نہیں
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے