Ashaar – اشعار

Dried flowers on torn paper

خزاں سے ہم کلامی بھی اپنے ہی معنی رکھتی ہے
یہ کچھ نہ کہہ کر بہت سے رنگ منہ زبانی رکھتی ہے

اتنا سنجیدہ کیوں رکھا ہے پاگل خود کو
اس بے ثبات سی زندگی کے بارے میں

کبھی اس دل پہ نگاہ کی کبھی جاں پہ نگاہ کی
واہ رے مرے حبیب تری تجربہ گاہ کی

ہمیں کون جانتا تھا اس دنیا میں
اک تیرا نام لیا اور پہچانے گئے

کچھ قیمتی لمحے ہیں یادوں کےسرد خانے میں
اگر وہ بھی نہ ہوتےکیا ہوتا خراب خانے میں

کیا وقت تھا چڑیا کی کہانی سے بہلا کرتے تھے
اور اب کہ گوگل کا عجائب خانہ بھی ناکام ہوا

خزاں آگئی زرد رو چہرے کے ساتھ
کہ مرا حسن بھی دیکھو ذرا

کسی کا ہونے کو جو سادگی درکار ہے
معذرت کہ اس سے رہا سدا انکار ہے

جب بھی کسی کا کہیں کوئی عشق ناکام ہوا
ہم نے مجنوں کی فاتحہ دلائی لیلی کو سلام کیا

کائنات اتنی بڑی ہے زمیں کا دل بہت چھوٹا
رہنے کو اب ہمیں کوئی اور سیارہ چاہئے

آج زمیں کا قصیدہ کہیں یا ہجو لکھیں
دونوں ہی پہلو ہیں دونوں ہی بھرپور

ہجوم نا امیدی در پے ہے
آہ نا رسا و دل ناکام لیے

ہجوم میں گمشدہ ڈھونڈ رہے تھے اپنا پتہ
اک نام کی پکار نے جہاں بھر کو بتا دیا

ہم سب کتنے قریبی ہیں یہ وقت بتلائے گا
جب کبھی اس عصر کی تاریخ دہرائے گا

تیرے میرے خیا لات کتنے ملتے ہیں
اپنے اپنے مفادات کے بارے میں

واہ بھئی واہ آپ نے تو میری آنکھیں کھول دیں
تشریف رکھیں گے یا راہ فرار ڈھونڈ ریے ہیں

وہ راستہ سامنے ہے باہر کا
آپ کے پاؤں پڑنے کا منتظر

ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Read More

آبله پائ

بےکراں مسافتوں کیآبله پائمرهم گل سے کیامٹا چاهےانگ انگ میں پهیلی هےآرزو کی تھکنلهو نکال کے سارا بدل…
Read More
Glass pices
Read More

زوال

حسن اک زوال میں تھابکھرے ماہ و سال میں تھا وقت کی بےدرد چالوں پہآئینہ بھی سوال میں…
Read More