Ashaar – اشعار

Gold star confetti on black background. Flying shiny sparkle shower. Holiday vector colorful confetti. Sparkle bright decoration backdrop. Surprise card template

جی بہل جائے شائید
شہر بدل کر دیکھیں

کوئی کیا کھوگیا دل سے
دشت پیما نے انتہا کردی

چاند اسی صدمے سے پتھر ہوگیا کہ
چاند کہنے والوں نے اندھیر مچا رکھا ہے

وقت رکنا چاہتا ہےپھر
خواب کی دستک ہوئی

: خوابوں نے جب سے کنارہ کیا
نیندو ں نے بھی معذرت کرلی

پانی پہ کیسے چلتے ہیں ، سن ذرا
پاؤں لہر سے اوپر رکھتے ہیں دیکھ ذرا

پانی پہ چلنا آسماں پہ اڑنا
آج کل اپنا یہی مشغلہ ہے

نیند کے ستارے آنکھوں میں ٹمٹما نے لگے
خواب کے بھروسے چاند کو آزما نے لگے

میں اڑی اڑی چلوں زمیں پہ اپنے قد سے اوپر
اور میری ایڑھی بار بار آسماں چھو رہی ہے

چڑیا اپنے بچوں کو اڑنا نہ بھی سکھائے
پر والے ہیں ، پرواز کر کے ہی رہیں گے

اڑنا ہے تو میری انگلی پکڑلو پھر جست بھرو
زمیں سے آسماں تک فاصلہ محض اک قدم ہے

رات کو چھو لوں تو ستارہ ہاتھ میں آ سمٹتا ہے
دن کو ہاتھ لگاؤں تو سورج بھی پگھلتا ہے

کہاں ہیں وہ رلانے والے لوگ
رونے والے تلاش کرتے ہیں

: ہلال کی کمان ، تیر ہوگئی
چودھویں شب اخیر ہوگئ

رات کو چھو لوں تو ستارہ ہاتھ میں آ سمٹتا ہے
دن کو ہاتھ لگاؤں تو سورج بھی پگھلتا ہے

: میرے زمیں آسماں کی وسعت نہ پوچھو
آزاد پرند ہ ہے من ، آزادی سے اڑنے دو

زمانے کی آواز سن رہی ہوں
یامیرے نام کی بازگشت ہے

اداسی کا بھی کوئی موسم ہونا چاہئے
یہ کیا کہ بہار میں بھی کوئی اداس ہو

اب دل کا رونا روئیں گے
آنکھیں تو جواب دے گئیں

آنکھ خشک ہوگئ رو رو کر
دل اب بھی بھرا بھرا سا ہے

رونے کو بس بہانہ چاہئے
زخم نیا ہو یا پرانا چاہئے

برسات کے بھی کچھ راز ہوتے ہیں
جو کسی پر اور کبھی کبھار کھلتے ہیں

بارش نے چپکے سے کچھ کہا پھر مکر گئی
میں نے بھی سنا ان سنا کیا اور ہنس دی

ہاہاہا…… ہنسی آگئی اس لمحے پر
اک سال بڑھا اور عمر رواں

چلو خوش ہو لیتے ہیں پھر
یہ لمحہ خوشی کا جان کے ہم

اکرم کے نام
دن گزر جائیں گے مهینے بھی سالوں میں بدل جائیں گے
مگر جو غم تازه هیں ترے سالوں میں نه دھل پائیں گے

بے وفائی کوئی بھی کسی سے کرتا ہے
نفرت میری اپنے بے وفا سے بڑھتی ہے

بات کچھ بنی نہیں کھیل میں اب دلکشی نہیں
زندگی کی بات تھی زندگی سے کچھ نبھی نہیں

زندگی تجھ سے سمجھوتہ چل رہا تھا
کیا ملا تجھے اک نیا مذاق کرکے بھلا
ماضی کی تصویروں سے بہلے رہتے ہیں
جب سے آ ئینے ہم سے روٹھے رہتے ہیں

وقت آگے بڑھے کچھ سہولت سے
مسئلہ بھی حل ہو کچھ عجلت سے

ایسی بھی بات نہیں کہ کچھ نہ کہیں
دل مانا تو سب کچھ کہہ دیں گے

بچے فٹ بال کھیل رہے ہیں
اور میرے خیال پنگ پانگ

بوریت کا بھی سمندر ہوتا ہے کیا
اسی پہ تیر رہی ہوں ۔۔ بیزاری سے

گزر گئے ہیں زمانے سوتے ہوئے
وہ خواب تھا کہ یہ خواب ہے

کس عذاب میں هوں خواهش گرداب میں هوں
اک بکھرے هوئے خواب تمنا کے سراب میں هوں

کب کشٹ کٹیں گے کب کھل کے هنسیں گے
کب بھاگ کھلیں گے کب تم سے ملیں گے

میرے دکھوں کا علاج کردے
چاره گر ! مجھے معاف کردے

کبھی کبھی کچھ ایسے لوگ بھی یاد آتے هیں
جن سے امید بڑی تھی کام اگرچه چھوٹے تھے

جس کو بھی پکارا دشت بلا میں
سنتا تو تھا مگر عذر تھا خاموشی

کیا کریں کهیں کوئی آهٹ هے نه جواب
لمحے بھی بن گئے هیں سوال در سوال

ایک اک غم اٹھا کر دیکھا
پھر وہیں سجا کے رکھ دیا

مزید نوٹنکی کی گنجائش نہیں ہے
جوتیاں سنبھالو ، نکلو یہاں سے

کیا کہنا ہے کسی سے کون سنے…..
بات خود سے بھی دہرانے کو جی نہ کرے

ڈھیروں بے تر تیبی کے رنگ پڑے ہیں
تجرید کی صورت بکھری ہے زندگی

میں ٹھیک نہیں ہوں
یہ مسیحائی کہاں ہے؟

یہ جاں نکل رہی ہے رفتہ رفتہ
ہم روز مر رہے ہیں آہستہ آہستہ

وصل کی تصویر بنائی ہے
آنکھ پر آنکھ ، سجائی ہے

جب غم بھی دل کےکسی کام نہ آسکا
سمجھا، کہ بے حسی کا پیمانہ بھر گیا

زمیں پہ ہر جگہ تھکان بچھ گئی ہے ایسے
ہر قدم جو رکھتے ہیں تھکا ہوا سا لگتا ہے

سب کی اداسیاں اپنی اپنی ہیں
ہجر کی کہانیاں اپنی اپنی ہیں

اس کا خیال ہے میرا دماغ چل گیا
ارے بابا ۔۔۔۔چل گیا تو چل گیا !

ابھی وہ ٹھیک سے نہیں بھولا
ابھی دنیا میں دل لگائےکون ؟

خوش کلامی بھولتی جارہی ہے
خود کلامی پاگل کئے جارہی ہے

زیاں ہی اصل سود بنا دل کا کاروبار ہوا
جس کا سودا نہیں بکا وہ ہی ساہوکار ہوا

نہ جانے اتنی خواہشیں جو تھیں کہاں چلی گئیں
ہر خواہش پہ دم نکلتا تھا وہ کہاں مرگئیں

اک دم ڈھلا ہے رنگ و روپ مرا
اور جوبن بھی تیرے بعد نہیں رہا

: اس نے کہا میں بہت خوش ہوں
میں نے بے یقینی سے اسے دیکھا

پھر دل مسمار ہی کیا
مانا تم نے پیار ہی کیا

اک طرف وہ حسن کی مثال بنی
دوسری جانب مسخ شدہ حال رہی

آج کی شام بڑی خاص ہو گئی
دیر سے سہی ، دور سے آیا کوئی

وقت گزارنا ہے گزر رہا ہے
اچھا یا برا کٹ تو رہا ہے

کسی کے کب کام ہم اس طرح آ ئے
کہ زندگی کا سبب کوئی دعا بن جائے

ایک عجب کدہ ہے میرے دل کے اندر
خوشی سے بے کنارکبھی غم کااک سمندر

رو کر ہی رات کٹنی تھی سو کٹی
آس تھی کہ شام سے ہی ٹوٹ گئی

یہ گھر بھی ایک زندان ہے
یا پیار کا گورکھ دھندا ہے

البیلا من اٹکھیلی سے باز نہ آئے
روز خالی خط ہی بھیجے جائے

فرد فرد ہے فرد جرم کس پہ عائید ہو
کچھ یاد نہیں کیسی یہ سزا پائی ہے

بات میں کوئی ربط ملا نہ معاملات کا کوئ سرا
خرد مندوں نے جنوں کے مارے سمجھ کے چھوڑ دیا

معلوم ہے تم اور کچھ دے نہیں پاؤ گے
جینے کی اگر تھوڑی سی آسانی دے دو

دشت میں سرگراں ہے دل
اپنے گم سائے کے ساتھ

کچھ اندر بھی ٹوٹا پھوٹا یے
لہجے کا ٹوٹا پن گواہی دیتا ہے

یہاں ایک بوسیدہ ٹوٹی پھوٹی روح رہتی ہے
کھنڈر کا اندھیرا جاں کی نشانی دے رہا ہے

شام کے اس پار فسوں گر ہوتے ہیں
جوڑا کھول کے مت جا ، بانوری

ہزار دکھ ہوں اک خوشی جگا کے سو نا ہے
ہر رات غم بھلا کے ہنس ہنسا کے سونا ہے

کسی نے روکا ہوا ہے مجھے
شام کے اس پار جانے سے

مجھے بخش ہی دیں گے میرے بہی خواہ
اگر میں تجھ کو بھلا نے سے گریز کروں

شہر کا شہر دیکھنے کو امڈا آتا ہے
تماشا کیا زخموں کا اک لگایا ہے

میرا فلسفہ بہت سادہ ہے
زندگی سے ، پیار کا بس !

چشم گریاں اب بھی ہے آب دیدہ سی
حرف تسلی اب بھی ہے ناکام سا

زندگی تجھ سے سمجھوتہ چل رہا تھا
کیا ملا تجھے اک نیا مذاق کرکے بھلا

[ خوشی لاکھ کی ہے
اداسی سوا لاکھ کی

ترے بغیر بھی گزارے چل رہے ہیں
ہم غم دنیا کے مارے چل رہے ہیں

ہر حال میں خوش ہیں
ترے خیال میں خوش ہیں


سوال میں خوش ہیں
قیل و قال میں خوش ہیں

: سوال تیرے بھی عجیب و غریب تھے
جواب میرے بھی عجیب و غریب رہے


ہم ایک ساتھ جینے مرنے کی کوشش کر سکتے تھے
اگر وقت سے پہلے کہیں کسی اور سیارے پر ملے ہوتے

لو ہم تو برے ہوئے ہمارا نام بھی برا ہوا
خامشی بھی نہ بھائی کلام بھی برا ہوا

دکھا سکوں میں کس طرح سے اپنی بینائی
جسے خدا بھی دکھتا ہے خدائی بھی دکھتی ہے

تمہاری ضد ہے کہ اسے دکھاو مجھے
دیدہ ء بینا تو لاو ، پھر عظمت بینائی دکھتی ہے

تیری راہ ہے اپنی ، ہے میر ا راستہ اپنا
میری سیدھی دکھتی ہے ، تری ٹیڑھ کھائی دکھتی ہے

یہ جبل نور ہے، سر ہوتے ہوتے ، ہوتا ہے
کہ دور سے ذرا سی ، چڑھائی دکھتی ہے

دکھا سکوں میں کس طرح سے اپنی بینائی
جسے خدا بھی دکھتا ہے خدائی بھی دکھتی ہے

تمہیں خدا نظر نہیں آتا مجھے خدائی بھی دکھتی ہے وہ دید بھی دکھتی ہے ، دلآرائی بھی دکھتی ہے

تمہاری ضد ہے کہ اسے دکھاو مجھے
دیدہ ء بینا تو لاو ، پھر عظمت بینائی دکھتی ہے

میں تو مگن اور ٹھیک ہی تھی
یہ محبت نحوست کہاں سے آٹپکی

پیاس اتنی تھی کہ تشنگی میں ہم نے
سرابوں پہ بھی سوکھے ہونٹ رکھے

چپ تاسف بھی ہے محبت بھی رنجش بھی
شکوہ بھی ہے شکایت بھی ، تکلف بھی


بے طلب رہے خود سے بھی ہم
کیا طلب کرتے ، پھر یہ دنیا

بے طلبی کا لطف ، کسی آرزو میں کہاں
یہ ہو ، وہ ہو ، تو ہو کہ سارا جہاں !

سادھ سنبھالے پھرتے تھے ۔ چمتکاری دنیا میں
دنیا نے بخشا پھر بھی نہیں ، ناچی آکر آگے آگے

دلا ! چپ چپ چلا چل ، نظر تھامے ، رستے اپنے
اطراف میں دیکھا تو نو رنگی ء جہاں سے ٹھہر جائے گا

چپ پسند ہے تنہائی پسند ہے اور اک خیال
میرا گزارا ہوجاتا ہے ، اپنے حسب حال

چپ مجھے پسند تو ہے لیکن
نہ اس قدر کہ ، گنگ ہوجاوں

چپ چپ چپ ۔۔اب اس سے آگے چپ
زمانہ سن رہا ہے ، کان لگائے ہوئے

چپ ہونٹوں میں دبا کے رکھتے ہیں
جب شکوے، بہت سے کر نے ہوں !!

چپ مری زمانے میں مشہور ہوگئی
کہ بولنے کا جیسے یہی دستور ہوگئ

ذرا سی دیر میں کھل گئے فسانے کئی
که جس کو بھولنے میں لگے تھے زمانے کئی


شکر گزار هیں دوستوں کی پزایرائی پر
که پرسش حال کو آئے عیادت کے بهانے کئی

اپنے من کی هم بھی لکھ رهے تھے
اپنے دل کی وه بھی پڑھ رهے تھے


نه هم سمجھا پائے نه وه سمجھے
هم غالب وه شیکسپیئر پڑھ رهے تھے

جانتے ہیں جو بھی زندگی کا فلسفہ ہے
پڑھ کے رٹا نہیں ہے ہم پہ نازل ہوا ہے

کتنی پرانی صبحیں تھیں وہ
یونیفارم میں اسکول جانے کی

اس ڈرامے کا ڈراپ سین یهی هوگا
هیرو هیروئین ایکسٹرا هو جائیں گے


هم تم بھی ناچ ناچ کر اس ناٹک میں
پرده گرتے هی تھک کر گر جائیں گے

چلو گھر سے نکل کسی شاپنگ مال کو چلتے هیں
لینا لوانا کچھ نهیں بس ونڈو شاپنگ کرتے هیں

کتنے پرانے دن تھے وہ بچپن کی سردی کے
جب منہ سے بھاپ نکال کے کھیلا کرتے تھے

گھر میں تھے تو کچھ ایسے بھی افسردہ نہیں تھے
رونق بازار نے تو ہم کو ہستی سے مٹا ڈالا

سجائے رکھتے ہیں آنگن کو چاند تاروں سے
اور پھر سمجھتے ہیں غریب ہیں ہم

عمریں گنوائے بیٹھے ہیں عشق میں لوگ یہاں
یا حیرت حسن ! جو اک لمحہ بھی قضا نہ کریں

وقت میرا بھی حساب کردے گا
سوال سارے لاجواب کردے گا

[ حرف آتا ہے چارہ گری پہ
کہ آپ مرا آزار نہ سمجھے

نظر نہ اشارہ نہ گویائی
کیا ہے یہ انداز پزیرائی

تجھ سے کوئی طلب بھی نہیں
دھیان بٹ جائے ، اب بھی نہیں

سحر کے ساتھ ہی جاگا پرواز کا شوق
لگ گئے ٹوٹے پروں کو جوڑنے میں

گمان حسن میں خود سر ہوئے پھرتے ہیں
سایا جوڈھل رہا ہے اس سے بے خبر دکھتے ہیں

ترا عکس جمال لئے ہوئے مرا آئینہ
بھول گیا اپنے ہی چہرے کا رنگ

اپنے آپ سے نکلے تو دنیا کو دیکھیں گے
یوں بھی اس کو هم سے کوئی کام نهیں

وقت همیں دیکھتا هے هاتھ په هاتھ رکھے
هم بھی اسے چڑاتے هیں خوب جی بھر کے

میں نئیں دینا کسے گل دا جواب
کردےرهو کرنے نے جنے وی سوال

کس طرح سے وقت کو هاتھ میں کریں
که یه مانتا رهے جو بھی اس سے کهیں

جو جهاں هے رنگ جمائے بیٹھا هے
اپنی لیلا میں راس رچائے بیٹھا هے

بھول بھلیاں جاوں کہاں
نیچے زمیں اوپر آسماں


ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Read More

آبله پائ

بےکراں مسافتوں کیآبله پائمرهم گل سے کیامٹا چاهےانگ انگ میں پهیلی هےآرزو کی تھکنلهو نکال کے سارا بدل…
Read More
Glass pices
Read More

زوال

حسن اک زوال میں تھابکھرے ماہ و سال میں تھا وقت کی بےدرد چالوں پہآئینہ بھی سوال میں…
Read More