Ashaar – اشعار

Picnic Basket with Flowers on Table

آج بھی زلف سنواری نہیں آج بھی کاجل لگایا نہیں
آج بھی آئینہ دیکھا نہیں آج بھی کچھ دل کو بھایا نہیں

مایوسی کا سچ جھوٹی خوشی سے اچھا ہے
اک بار ہی طے ہوجائے آگے کیا رکھا ہے !؟

نہ بحث کی نہ شکوے نہ شکایت کی پھر بھی ہار گئی
یہ کیسی لاپرواہی تھی جو اندر اندر ہی مجھ کو مار گئی

بات کچھ بنی نہیں کھیل میں اب دلکشی نہیں
زندگی کی بات تھی زندگی سے کچھ نبھی نہیں

خدا کو ترے سامنے لاکر بٹھا دوں کیا ۔۔۔؟
وہ میرے کہنے میں اب اس قدر بھی نہیں

حسن کہتا ہے خدا کی قسم ہے
عشق بھی اذن خدا وندی ہے

حرف آتا ہے چارہ گری پہ
کہ آپ مرا آزار نہ سمجھے

نظر نہ اشارہ نہ گویائی
کیا ہے یہ انداز پزیرائی

تجھ سے کوئی طلب بھی نہیں
دھیان بٹ جائے ، اب بھی نہیں

سحر کے ساتھ ہی جاگا پرواز کا شوق
لگ گئے ٹوٹے پروں کو جوڑنے میں

گمان حسن میں خود سر ہوئے پھرتے ہیں
سایا جوڈھل رہا ہے اس سے بے خبر دکھتے ہیں

ترا عکس جمال لئے ہوئے مرا آئینہ
بھول گیا اپنے ہی چہرے کا رنگ

اپنے آپ سے نکلے تو دنیا کو دیکھیں گے
یوں بھی اس کو هم سے کوئی کام نهیں

وقت همیں دیکھتا هے هاتھ په هاتھ رکھے
هم بھی اسے چڑاتے هیں خوب جی بھر کے

میں نئیں دینا کسے گل دا جواب
کردےرهو کرنے نے جنے وی سوال

کس طرح سے وقت کو هاتھ میں کریں
که یه مانتا رهے جو بھی اس سے کهیں

جو جهاں هے رنگ جمائے بیٹھا هے
اپنی لیلا میں راس رچائے بیٹھا هے

بھول بھلیاں جاوں کہاں
نیچے زمیں اوپر آسماں

در در پھرے کس جستجو میں ہم
ہر در یچے پہ اپنا ہی چہرہ نظر آیا

دل گیا دل کے آزار رہ گئے
عشق تیرے سزاوار رہ گئے

نیاخواب دیکھتا ہے کہ مصروف ہوگیا ہے
کسی طور کوئی سلسلہ ہو تو پتہ بھی چلے

کیسے دشوار ہیں یہ دن رات بھی
کہ تیری خبر ہےنہ اپنا ہی پتہ ہے

سب ہی کچھ تھا زمانے میں
ہم ہی نظر چراکے بیٹھ رہے

دکھ کے سر میں، درد کے ساز پر
پھر صدائے غم کے تار بجنے لگے

ہمیں بھی اپنے ساتھ لے لو ، ٹھہرو
ان راہوں پہ تھکن بکھری ہوئی ہے

اختیاری کیا تھا اور بے اختیاری کیا تھی
اختیاری نبھانا تھی اور بے اختیاری محبت تھی

هے دور بهت هی منزل اور اسباب بهت
خود کو چھوڑیں اسباب کو یا منزل کو

کھینچ کر تصویر تری وه سامنے رکھی هے
خیالی هے جیسی بھی بنی ، بنا تو لی هے

انتہا ہوگئی ہے اب اے ستم ایجاد
خدا ہی ہے جو سن لے کوئی فریاد

بےچارگی ہے پیروں سے یوں لپٹی ہوئی
اک قدم آگے چلے تو دوقدم پیچھے پڑے

سچ مچ بہت بری ہوں میں
بس خود کو چاہتی ہوں میں

اور زندگی کی طرف لوٹنے کا ارادہ بھی نہ ہو
اور خوشی سے کیا ہوا کوئی وعدہ بھی نہ ہو


سب اپنے اپنے دکھ لے کے پھرتے رہیں
مگر کاش کسی کا ہم سے زیادہ بھی نہ ہو

دل کے جہاز اڑتے ہیں
یہ انجن خراب اڑتے ہیں

ایسی بھی بے امنگ عمر ابھی نہیں آئی
کہ ترک دنیا کئے بیٹھے ہیں سودائی

ڈھکوسلے ہیں سارے غم کے بہانے ہیں
یہ ہو یا وہ سب دکھ آنے جانے ہیں

لے کے ہمراہ چلیں گے غم کے قافلے کو
دردمندوں کو ساتھ چلنا ہے تو چلیں

درد مندوں کی بستی میں ایک خدا ہوتا ہے
جو ہر ایک درد کان لگا کے سنتا ہے

درد مندوں کی بستی میں ایک خدا ہوتا ہے
جو ہر ایک درد کان لگا کے سنتا ہے

میرے پاس حل نہیں ہے یوں لگتا ہے
میرے پاس ہی حل ہے مگر ایسا ہے

اتنی سی بات ہے نیند میں جاتے جاتے
خواب کے لئے دروازہ کھلا رکھنا

کوفت کی کہانی ہے بیزاری کی زبانی ہے
اپنی ہی پریشانی ہے غصے کی ترجمانی ہے

سلسلہء محبت کچھ دن اور چل بھی سکتا تھا
مگر تھکان اتنی تھی کہ پوچھئے نہ ہمیں

کروٹ بدل لینا اس خواب سے تم
جو تعبیر سے بھی ، ڈرا ڈالے

اس نے ویسے ہی چھوڑ جانا تھا
اچھا ہوا جو تم نے پہل کردی ہے

چھوڑ آئے بہت سوں کو
چل ایک تو بھی سہی

ہاں ابھی ذرا دل مشکل میں ہے
کہ ترک محبت ہے کھیل نہیں

میرا رخ ہے ایک آئینہ , مرے شکست گر
کبھی خود کو مجھ میں بھی دیکھ لے

محبت ہر حال میں اداسی کیوں ہے
یہ مل کر بھی تشنہ رہ جاتی کیوں ہے

خیال کی رو میں بہہ کر جانے کہاں سے کہاں نکل گئے
نام کس کا تھا فسانہ کوئی ہوا الزام کس پہ لگ گئے

خیال مجھ کو بھی کسی کا ہو شائید
مگر نہ اس قدر کہ لوگ رشک کریں

خیال کو جانے دو اپنی لہروں کے پار
جو بھی نیا لگے کنارے ، سب ہے بے کار


بدبختوں کی نہ دوستی اچھی نہ دشمنی اچھی
کچھ ہم نشینوں سے ہم سوں کی توبہ بھلی اچھی

کہیں ٹھکانہ ہے کیا کہ درد کو سمیٹ رکھ دیں
بکھرے ہوئےعالم وحشت کو کہیں لپیٹ رکھ دیں

نقش بنتے ہیں مٹتے ہیں بگڑ جاتے ہیں
ہیولے سے بدل بدل کے رنگ لہراتے ہیں

کچھ اورخراب حال ہے
زخم صورت اندمال ہے

ہم وہ دلگیر صفت تھے ہر بات پہ روئے
زخم کھلنے پہ روئے داغ بھرنے پہ روئے

شام کے ہاتھ میں اکثر وہ ساز ہوتا ہے
جودکھ کی دھن پہ از خود ہی بجتا ہے

پیش بندی کر نے لگے نظر انداز کرنے کی
سر جھکادیں نظر چرا لیں یا راہ بدل لیں

ارے خانہ خراب دل وائے تری قسمت
آیا بھی تو کس پہ جو مانے نہ محبت

زخم بھرنے لگا دل بکھرنے لگا
پاگل کا کیا ، غم پہ ہنسنے لگا

دل نکال کے رکھ دوں کیا سمجھ پاؤ گے
اس کے روگ سبھی اور اپنی چارہ گری

بہت کچھ چھوڑنا چاہتے ہیں
بہت کچھ چھوڑ نہیں پا رہے

ہائے یہ کیسی بے بسی ہے
جو مری ذات بن گئی ہے

تماشا فلک بھی دیکھتا ہوگا
کس کس رنگ سے کھیلتا ہوگا

کب تلک یہ لمحہ خاموش رہے گا
آگےکیا ہے اس کے پاس ، نہ کہے گا

کچھ ایسے لوگ بھی تھے یہاں
جن سے ملنا تھا زندگی کا گماں

بات کرنے لگیں تو ختم ہوکے نہیں دیتی
یہ کیا عادت ہوئی ترا تذکرہ کرنے کی

وارفتگی سےبیاں کرتے چلے گئے
فسانہ ء دل ، کوئی سنے نہ سنے

دیکھے ہیں رنگ ہزار اس زندگی کے
جو بچپنے کا تھا ، وہی بادشاہی تھا

نندیا ذرا خواب کا آج پھول کھلا
میری ریشمی باہوں میں چندا لے آ

خیال کی رو میں بہہ کر جانے کہاں سے کہاں نکل گئے
نام کس کا تھا فسانہ کوئی ہوا الزام کس پہ لگ گئے

خیال مجھ کو بھی کسی کا ہو شائید
مگر نہ اس قدر کہ لوگ رشک کریں

خیال کو جانے دو اپنی لہروں کے پار جو بھی نیا لگے کنارے ، سب ہے بے کار

محبت ہر حال میں اداسی کیوں ہے
یہ مل کر بھی تشنہ رہ جاتی کیوں ہے

سلسلہء محبت کچھ دن اور چل بھی سکتا تھا
مگر تھکان اتنی تھی کہ پوچھئے نہ ہمیں

کروٹ بدل لینا اس خواب سے تم
جو تعبیر سے بھی ، ڈرا ڈالے

یہ پہل کر کے اس کا کوئی نقصان نہ ہو
چھوڑنا ٹھیک سہی مگر وہ پریشان نہ ہو

چھوڑ آئے بہت سوں کو
چل ایک تو بھی سہی

: ہاں ابھی ذرا دل مشکل میں ہے
کہ ترک محبت ہے کھیل نہیں

اس نے ویسے ہی چھوڑ جانا تھا
اچھا ہوا جو پہل تم نے کردی


میرا رخ ہے ایک آئینہ , مرے شکست گر
کبھی خود کو مجھ میں بھی دیکھ لے

کبھی اس دل پہ نگاہ کی کبھی جاں پہ نگاہ کی
واہ رے مرے حبیب تری تجربہ گاہ کی

ہمیں کون جانتا تھا اس دنیا میں
اک تیرا نام لیا اور پہچانے گئے

اتنا سنجیدہ کیوں رکھا ہے پاگل خود کو
اس بے ثبات سی زندگی کے بارے میں

کچھ قیمتی لمحے ہیں یادوں کےسرد خانے میں
اگر وہ بھی نہ ہوتےکیا ہوتا خراب خانے میں

کیا وقت تھا چڑیا کی کہانی سے بہلا کرتے تھے
اور اب کہ گوگل کا عجائب خانہ بھی ناکام ہوا

خزاں آگئی زرد رو چہرے کے ساتھ
کہ مرا حسن بھی دیکھو ذر

پیاس اتنی تھی کہ تشنگی میں ہم نے
سرابوں پہ بھی سوکھے ہونٹ رکھے

چپ تاسف بھی ہے محبت بھی رنجش بھی
شکوہ بھی ہے شکایت بھی ، تکلف بھی


بے طلب رہے خود سے بھی ہم
کیا طلب کرتے ، پھر یہ دنیا

بے طلبی کا لطف ، کسی آرزو میں کہاں
یہ ہو ، وہ ہو ، تو ہو کہ سارا جہاں !

سادھ سنبھالے پھرتے تھے ۔ چمتکاری دنیا میں
دنیا نے بخشا پھر بھی نہیں ، ناچی آکر آگے آگے

دلا ! چپ چپ چلا چل ، نظر تھامے ، رستے اپنے
اطراف میں دیکھا تو نو رنگی ء جہاں سے ٹھہر جائے گا

چپ پسند ہے تنہائی پسند ہے اور اک خیال
میرا گزارا ہوجاتا ہے ، اپنے حسب حال

چپ مجھے پسند تو ہے لیکن
نہ اس قدر کہ ، گنگ ہوجاوں

چپ چپ چپ ۔۔اب اس سے آگے چپ
زمانہ سن رہا ہے ، کان لگائے ہوئے

چپ ہونٹوں میں دبا کے رکھتے ہیں
جب شکوے، بہت سے کر نے ہوں !!

چپ مری زمانے میں مشہور ہوگئی
کہ بولنے کا جیسے یہی دستور ہوگئ

کچھ قیمتی لمحے ہیں یادوں کےسرد خانے میں
اگر وہ بھی نہ ہوتےکیا ہوتا خراب خانے میں

کیا وقت تھا چڑیا کی کہانی سے بہلا کرتے تھے
اور اب کہ گوگل کا عجائب خانہ بھی ناکام ہوا

کسی کا ہونے کو جو سادگی درکار ہے
معذرت کہ اس سے رہا سدا انکار ہے

عمریں گنوائے بیٹھے ہیں عشق میں لوگ یہاں
یا حیرت حسن ! جو اک لمحہ بھی قضا نہ کریں

وقت میرا بھی حساب کردے گا
سوال سارے لاجواب کردے گا

آج بھی زلف سنواری نہیں آج بھی کاجل لگایا نہیں
آج بھی آئینہ دیکھا نہیں آج بھی کچھ دل کو بھایا نہیں


مایوسی کا سچ جھوٹی خوشی سے اچھا ہے
اک بار ہی طے ہوجائے آگے کیا رکھا ہے !؟

نہ بحث کی نہ شکوے نہ شکایت کی پھر بھی ہار گئی
یہ کیسی لاپرواہی تھی جو اندر اندر ہی مجھ کو مار گئی

بات کچھ بنی نہیں کھیل میں اب دلکشی نہیں
زندگی کی بات تھی زندگی سے کچھ نبھی نہیں

خدا کو ترے سامنے لاکر بٹھا دوں کیا ۔۔۔؟
وہ میرے کہنے میں اب اس قدر بھی نہیں


حسن کہتا ہے خدا کی قسم ہے
عشق بھی اذن خدا وندی ہے

حرف آتا ہے چارہ گری پہ
کہ آپ مرا آزار نہ سمجھے

نظر نہ اشارہ نہ گویائی
کیا ہے یہ انداز پزیرائی

تجھ سے کوئی طلب بھی نہیں
دھیان بٹ جائے ، اب بھی نہیں

سحر کے ساتھ ہی جاگا پرواز کا شوق
لگ گئے ٹوٹے پروں کو جوڑنے میں

گمان حسن میں خود سر ہوئے پھرتے ہیں
سایا جوڈھل رہا ہے اس سے بے خبر دکھتے ہیں

ترا عکس جمال لئے ہوئے مرا آئینہ
بھول گیا اپنے ہی چہرے کا رنگ

اپنے آپ سے نکلے تو دنیا کو دیکھیں گے
یوں بھی اس کو هم سے کوئی کام نهیں

وقت همیں دیکھتا هے هاتھ په هاتھ رکھے
هم بھی اسے چڑاتے هیں خوب جی بھر کے

میں نئیں دینا کسے گل دا جواب
کردےرهو کرنے نے جنے وی سوال

کس طرح سے وقت کو هاتھ میں کریں
که یه مانتا رهے جو بھی اس سے کهیں

جو جهاں هے رنگ جمائے بیٹھا هے
اپنی لیلا میں راس رچائے بیٹھا هے

بھول بھلیاں جاوں کہاں
نیچے زمیں اوپر آسماں

در در پھرے کس جستجو میں ہم
ہر در یچے پہ اپنا ہی چہرہ نظر آیا

دل گیا دل کے آزار رہ گئے
عشق تیرے سزاوار رہ گئے

نیاخواب دیکھتا ہے کہ مصروف ہوگیا ہے
کسی طور کوئی سلسلہ ہو تو پتہ بھی چلے

کیسے دشوار ہیں یہ دن رات بھی
کہ تیری خبر ہےنہ اپنا ہی پتہ ہے

سب ہی کچھ تھا زمانے میں
ہم ہی نظر چراکے بیٹھ رہے

دکھ کے سر میں، درد کے ساز پر
پھر صدائے غم کے تار بجنے لگے

ہمیں بھی اپنے ساتھ لے لو ، ٹھہرو
ان راہوں پہ تھکن بکھری ہوئی ہے

اختیاری کیا تھا اور بے اختیاری کیا تھی
اختیاری نبھانا تھی اور بے اختیاری محبت تھی

هے دور بهت هی منزل اور اسباب بهت
خود کو چھوڑیں اسباب کو یا منزل کو

کھینچ کر تصویر تری وه سامنے رکھی هے
خیالی هے جیسی بھی بنی ، بنا تو لی هے

انتہا ہوگئی ہے اب اے ستم ایجاد
خدا ہی ہے جو سن لے کوئی فریاد

بےچارگی ہے پیروں سے یوں لپٹی ہوئی
اک قدم آگے چلے تو دوقدم پیچھے پڑے

کس خواب کی تمنا میں ہے وہ
کہ اسے ہم ذرا بھی یاد نہ آئے

خاموش یوں رهے که اسے بولتا سنیں
ورنه کیا بولنے کا هنر هم جانتے نه تھے

نیند کچھ اڑی اڑی سی هے
طبیعت تھکی تھکی سی هے


تیرا خیال خیر ساتھ هے
بات مگر بگڑی هوئی سی هے

پھر تکلف کیا محبت کا پھر دعوت پزیرائی
پھر شام کے گزرتے هی تماشا نه تماشائی

سلسلہء محبت کچھ دن اور چل بھی سکتا تھا
مگر تھکان اتنی تھی کہ پوچھئے نہ ہمیں

کروٹ بدل لینا اس خواب سے تم
جو تعبیر سے بھی ، ڈرا ڈالے

اس نے ویسے ہی چھوڑ جانا تھا
اچھا ہوا جو تم نے پہل کردی ہے

یہ پہل کر کے اس کا کوئی نقصان نہ ہو
چھوڑنا ٹھیک سہی مگر وہ پریشان نہ ہو

چھوڑ آئے بہت سوں کو
چل ایک تو بھی سہی

ہاں ابھی ذرا دل مشکل میں ہے
کہ ترک محبت ہے کھیل نہیں

اس نے ویسے ہی چھوڑ جانا تھا
اچھا ہوا جو پہل تم نے کردی


میرا رخ ہے ایک آئینہ , مرے شکست گر
کبھی خود کو مجھ میں بھی دیکھ لے

خدا کو ترے سامنے لاکر بٹھا دوں کیا ۔۔۔؟
وہ میرے کہنے میں اب اس قدر بھی نہیں


حسن کہتا ہے خدا کی قسم ہے
عشق بھی اذن خدا وندی ہے

مایوسی کا سچ جھوٹی خوشی سے اچھا ہے
اک بار ہی طے ہوجائے آگے کیا رکھا ہے !؟

نہ بحث کی نہ شکوے نہ شکایت کی پھر بھی ہار گئی
یہ کیسی لاپرواہی تھی جو اندر اندر ہی مجھ کو مار گئی

بات کچھ بنی نہیں کھیل میں اب دلکشی نہیں
زندگی کی بات تھی زندگی سے کچھ نبھی نہیں

خدا کو ترے سامنے لاکر بٹھا دوں کیا ۔۔۔؟
وہ میرے کہنے میں اب اس قدر بھی نہیں


حسن کہتا ہے خدا کی قسم ہے
عشق بھی اذن خدا وندی ہے

روتے دھوتے غریب مر مر کےجی رہے ہیں
زندگی ہے یا کوئی زہر ہے پی رہے ہیں


ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You May Also Like
Read More

آبله پائ

بےکراں مسافتوں کیآبله پائمرهم گل سے کیامٹا چاهےانگ انگ میں پهیلی هےآرزو کی تھکنلهو نکال کے سارا بدل…
Read More
Glass pices
Read More

زوال

حسن اک زوال میں تھابکھرے ماہ و سال میں تھا وقت کی بےدرد چالوں پہآئینہ بھی سوال میں…
Read More