Gravity and time relation
مطلب جہان جس زمان و مکان میں سیارے یا ستارے پر گریوٹی زیادہ ہوگی وقت سست رفتار ہوگا
بہت ہی دلچسپ ذاتی تجربات و مشاہدات ہیں میرے وقت کے بارے میں جن کا میں نے اپنی ایک دو نظموں کا لکھت میں ذکر بھی کیا ہے ۔۔اگرچہ اس کی سائنسی توجیہہ سے کچھ دن پیشتر ہی معلومات ملیں گوگل سے ۔۔۔ ابھی چند سیکنڈ پہلے پھر گوگل سے کنفرم کیا کہ یہ میرا وہم ہے یا واقعی میں نے پڑھا تھا کاپی کرنا چاہی تو بہت تفصیلی مواد ۔۔۔ فیس بک پوسٹ کے لئے مناسب نہیں لگا ۔۔۔اگر کسی کو دلچسپی ہو تو گوگل پہ گریوٹی اینڈ ٹائیم لکھے بہت سی معلومات موجود ہیں
میرے تجربات ویسے عجیب سے اور مجھے اس معلومات نہ ہونے سے پہلے کے ہیں اور مجھے خوشی ہے میری آبزرویشنز کسی حد تک ہی سہی سائینس سے کنفرم ہونے کی پوزیشن میں آسکتی ہیں
آبزر ویشنز کسی بھی عام انسان یا صاحب دانش و فہم کو ناقابل یقین اور احمقانہ یا سراسر میرا وہم بھی لگ سکتی ہین مگر چونکہ گریوٹی اور ٹائیم میں راست تعلق ہے تو میں بہرحال رد نہیں کروں گی کہ میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ بھی ہے (الہامی یا وجدانی ہی سہی)
ابھی ابھی ایک بہت ہی ہنسی کی اور نامعقول بات ہوئی ہے ۔۔۔اس پہ ہنس لوں پھر آگے سائنسدانوں کرتی ہوں ۔۔۔ آٹو ریکٹ کریکٹر کریکٹر کریکٹ کے حوالے سے ۔۔۔ چیک دس لکھتی ہوں آرزوئیں ۔۔ ابزرویشن لکھا تھا اس سے پہلے’ ابھریں’ یہ لکھا آیا اس سے پہلے آبرو ریزی ۔۔۔
اگر آپ بغیر دیکھے روانی میں لکھتے چلے جائیں تو بپتہ نہیں کیا کا کیا لکھا جاتا ہے
میرا خیال ہے جب میں سوتی ہوں میری اور زمین کی گریوٹی میں کچھ اضافہ ہوجاتا ہے ۔۔۔اور وقت سست رفتار ۔۔۔ہاہاہا
اس کی تفصیلات پھر کسی پوسٹ میں لکھوں گی لمبی کہانی ہے بہت سے دوستوں کو غیر دلچسپ اور بکواسی بازی بھی لگ سکتی ہے ۔۔۔
مگر اس طرح ہے تو ہے
اسباب میں سارے تو تلاش نہیں کرپائی مگر گریوٹی اور وقت کا اگر ریلیشنز ہے تو یہ بھی ہو سکتا ہے
وقت ایک تو کانسٹیبل (کانسٹینٹ )فنا مینا نہیں پوری کائنات میں گریویٹی کے حساب سے تیز رفتار سست رفتا ر ہوسکتا ہے ۔۔۔ اورا مادہ جس کی لطیف ترین حالت ہم روشنی کو کہتے ہیں تین لاکھ چھیاسی ہزار میل پر سیکنڈ کی رفتار سے چلنے والی ۔۔۔ ہوسکتا ہے کہیں یہ ایسی بے وزنی اور لطیف کیفیت میں آجائے یا نسبتا چھوٹے پارٹیکلز اور بے وزنی میں ہو کہ 00000000001.
صورت ہو ۔۔۔۔
مطلب نینو فوٹان سے بھی چھوٹا چھوٹا چھوٹا چھوٹا ۔۔۔۔ اب مادہ غالبا مادہ نہیں نینو انرجی ضرور بچا ہے (خیال بھی ہو سکتا ہے ) ظاہر ہے ٹائیم بھی سکڑ کر نل یا نل کے قریب تر اور مکان بھی ۔۔۔ نو مکان ۔۔۔ ہاہاہا
تو ملئے 2024 کی آئیں سٹائین سے ۔۔۔۔اس نے بھی تو تھیوری دی تھی ۔۔۔
میرا بیکر بھی کائنات ہے اسی کی طرح اور
میری بھی مکاں سے لامکاں اور وقت سے بے وقتی کی تھیوری ہے یہ ۔۔۔ہاہاہا ۔۔۔ جو اسی سائنسی اسٹیٹمنٹ پر بیس کر رہی ہے کہ زیادہ گریوٹی ٹائیم کو سست رفتار کر دیتی ہے کم گریوٹی زمان وقت کو تیز رفتار اور مکان کو سکڑا ہوا ۔۔۔
سو
نو گریوٹی نو ٹائیم نو سپیس ۔۔۔ OK 👍🏻
گریوٹی وزن مادہ پارٹیکلز فوٹان ۔۔۔۔کوائنٹان۔۔۔
مزید مزید مزید ۔۔۔۔ چھوٹے چھوٹے ۔۔۔۔۔۔ نینو نینو کوائنٹان ۔۔۔
ایک اسٹیج پہ بے وزنی کو تقریبا چھوتے ۔۔۔ گریوٹی نل ۔۔۔ ٹائیم نل ڈسٹینس نل ۔۔۔ نو زمان نو مکان ۔۔۔ یک جنبش لامکان ۔۔۔ مادہ ۔۔ماورا میں تبدیل ہو چکا ہے فزکس میٹا فزکس بن چکی ہے OK 👍🏻
مگر میری ہائی گریوٹی سٹیٹ نیند , بھی میرے لئے میرے وقت کو سست رفتار کر دیتی ہے ۔۔ ۔( conclusion ) پھر لکھوں گی اپنی نیند ، جسٹ آنکھ بند کرکے لیٹنے اور ٹائیم کے ریلیشن میں ۔۔۔
سب کے ساتھ ہوگا مگر میں چونکہ بہ قائمی ہوش و حواس ایکسپریئنس کرلیا ہے تو یہ سٹیٹمنٹ دینے کی پوزیشن میں ہوں ۔۔۔ آپ بھی غور و فکر کریں اسی طرح جیسے قرآن کریم میں غورو فکر کرنے کا حکم ہے ۔۔۔ آئیں سنائیں یہودی ہو کے مان گیا غور و فکر کرنے لگا تو کتنے راز دروں کھلے
ملا بھی بنیں ۔۔۔
کوئی اعتراض نہیں مگر
غورو فکر بھی کریں
مطالعہ مشاہدہ اور تجربہ بھی ضروری ہے
ذہن کھلا اور روشن رکھیں اینڈ بی پوزیٹو اینڈ پوزیٹو ایز مچ ایز یو کین بی
سلامتی دعائیں سب کے لئے ۔۔۔۔
خیر سے رہیں
کائنات بہت عظیم الشان ہے
اور ہم سب شائید اس زمین کے اپنی نوعیت کے اکلوتے مگر وقتی مہمان
انسان کی قدر کریں کہ اس جیسا اور کہاں !؟
روشنی کی رفتار سے دیکھا جائے تو ایک کائناتی دن نہ جانے کتنے سالوں پہ محیط ہو ۔۔
آفاقی سچائیوں کو محض ہم اپنی زمینی حقیقت سے مربوط کر کے کبھی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے
کائنات اور آئین سٹائن کے تناظر میں ہم اپنے دنیاوی دن اور کائناتی دن کا تقابل نہیں کر سکتے ۔۔۔ ایولیوشنری ہسٹری میں دیکھیں تو eras زمینی تبدیلیاں … چھ سات ایراز ۔۔۔ یا وقت کے کسی اور پیمانے میں رفتار روشنی کی صدیوں دن کہنا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ٹائیم لیس نیس بھی موجود ہے کچھ واقعات میں۔۔۔
کائناتی چھ سات دن ۔۔۔ وقت کے تناظر میں
حسن بیان کی نشانی ہے اور عظیم الشان واقعات کو مختصر انداز میں بیان کرنے کا ایک دلچسپ اور عظیم پیرایہ ۔۔۔ واللہ اعلم بالثواب
لفظ ۔۔۔ محض ظاہری تناظر میں دیکھنا لفظ کی بہت سی خوبصورت اندرونی جہات سے محروم کر دیتا ہے معاملات کو صحیح انداز سےسمجھنے کے لئے بالغ نظری وسعت قلبی اور
روشنی کی اسپیڈ
386 000 miles / sec
خیال خام کی ابھی ماپی نہیں جا سکی
ورنہ کائنات کے بہت سے مابعد الطبیعات اسرار و رموز کھل جاتے
میں سائنسدان تو ہوں مگر اتنی بڑی نہیں کہ ۔۔۔ سیب پر غور کروں کہ اڑتا کیوں نہیں ۔۔۔
پرندہ ہے کیا ؟
اچھا ہاں بھئی سیب سے یاد آیا پان بھی
ہا ضمے کے لئے اور پیٹ کے بہت سے مسئلے مسائل کے لئے بہت اچھا ہے
انڈینز ایور ویدک قوم نے اس کو یونہی تو رواج نہیں دیا ہوگا اس کی ہربل میڈیسنل کوالیٹیز ہیں معدے اور آنتوں کے لئے اگر چہ دانتوں اور منہ کی رنگینی لپ سٹک کی کمی دور کردیتی ہے مگر پھر بھی ۔۔۔ دانت خراب ہو جاتے ہیں
پٹودی کی دلہن تیار کی جاتی کسی زمانے میں تو ۔۔۔ بالوں میں تیل سرخ چوٹی آنکھوں میں سرمہ دانتوں پہ انگلی سے مسی لگوا کر پان کا بیڑا کھلا دیا جاتا ۔۔۔
اور گایا جاتا
اری اے بنو میں آوں گا
تیرے دادا کے بنگلے اتروں گا
میرے دادا کے بنگلے جگہو نہیں
دادی پیاری کا پہرا جاگے گا
میری رن جھن پائل باجے گی
غرضیکہ وہ پورے خاندان کے بنگلوں میں اترتا ملنے کے لئے۔۔۔ مگر ہر جگہ پہرہ لگا ہوتا اور رن جھن پائل کو آواز کا ڈر ۔۔۔۔ ہاہاہا
ایسی ہی ایک بے انتہا حسین روایتی دلہن صابرہ باجی میں نے تیار ہوتے دیکھی تھی اپنے بہت ہی بچپن میں ۔۔۔
پھر ولیمے پر اس کا حسن اف توبہ ۔۔۔
گوٹے کا مہاجال غرارہ سوٹ گلابی یا سرخ
اب اس کی تیاری شبنم کے فلمی اسٹائل کی تھی ۔۔۔
وہ میری دو چار انتہائی خوبصورت دلہنوں میں سے ایک ہے آج تک ۔۔
پھر میری اپنی باجی نے کمال روپ وتی ہونے کا مظاہرہ کیا تھا ۔۔۔ اداکارہ فردوس (ہیر )کی طرح ۔۔۔
ایک آنٹی تھیں ۔۔۔ ان کا حسن و دلربائی نہیں بھولتی
چند ایک اور بھی ہوں گی
بھئی سچی بات دلہن کون سی حسین نہیں ہوتی ۔۔۔۔
میں اور بے بی اکثر دلہن رونمائی کے پہلے گھونگٹ میں دیکھ آتی تھیں سب عورتوں میں گھس گھسا کر ۔۔۔کہ پہلی پبلک رونمائی ساس کے ہاتھوں ہوتی تھی اور ہم ساس سے پہلے اپنے چھوٹے چھوٹے مکھڑے گھونگٹ میں گھسا دیتی تھیں اکثر ساسوں کو ایک کی بجائے اکٹھے تین مکھڑے نظر آئے ہوں گے
پھر بھی پیار سے کہتی
اری ۔۔چھوریو تم تو ایک طرف کو ہو جاؤ
عورتیں بھی ہنسنے لگتیں
“اری ہم بھی ایسے ہی ہوویں تھیں ۔۔سب سے پہلے میں ای دیکھوں دلہن کو “
اچھا وقت تھا
میں بہت پرانی نہیں ہوگئی ہوں
پان کا سبز پتہ ۔۔۔سلاد کا پتہ سمجھیں کتھا ٹھنڈا کسیلا اینٹی ۔۔۔ سم بیڈ تھنگ ضرور ہوگا میری تحقیق نہیں ورنہ کہہ دیتی اینٹی بیکٹیریل ہے ۔۔۔ منہ کے چھالوں کے لئے تیر بہدف ۔۔۔ چونا بھی اندر معدے انتڑیوں کی صفائی ستھرائی کے لئے بہترین
چھالیہ الائچی خوشبو سلائیوا کنٹرول ۔۔۔ اور تمباکو تو پھر آپ سب کو پتہ ہے نشہ ہی نشہ ۔۔۔ جس کو کوئی بھی سگریٹ نشے کی لت ہو چھوڑ دے پان تمباکو کام کرے گا ۔۔۔
میں نے ویسے غلطی سے تمباکو کی صرف ایک پتی چبا لی تھی ٹین ایج میں ۔۔۔ گھر میں شور ڈال دیا تھا مجھے پتہ نہیں کیا ہورہا ہے (چکر آنے لگے ) میں مرنے لگی ہوں ۔۔۔شائید
اسلم دوڑ کے آیا ۔۔۔ منہ میں پان دیکھا تو پانی کا یخ گلاس بھرلایا ۔۔۔
یہ لو تمباکو کھالیا ہے غلطی سے
خدا وندا ۔۔۔ واقعی پانی پی کر صحیح ہوگئ
ایسی خطرناک چیز ہے
ہاں ہاضمے کے لئے کبھی کبھار بغیر تمباکو کا دوسرے تیسرے دن ضرور کھالیتی ہوں بازار سے منگوا کر ۔۔۔ دو پان منگواتی ہوں فرج میں رکھ دئیے تین دن چل گئے ۔۔۔ پھر وقفہ بہت ضرور ہے کہ عادی نہ ہو جاؤں کچھ دن کھا کے کچھ دن وقفہ ۔۔۔
عید کے دن پچپن سے ناگزیرہے ۔۔۔ میٹھا پان !
باقی سارا سال سادہ کڑوا پان ۔۔۔ہاضمہ درست رکھنے کے لئے
اگر مشورہ مناسب لگے تو بد ہضمی کے مریض کبھی کبھار ضرور آدھا چوتھائی پان کھالیا کریں
دیگر علاج معالجے یعنی دہی اسپغول کھچڑی پھکی کے علاوہ
ابتدائی طور پر ا ب سے لے کر ابتدائی جمع تفریق تقسیم ضرب امی جی نے بتادی ۔۔۔ ابتدائی قرآنی تعلیم نماز کلمے بھی انہوں نے یاد کروائے … ABC چھوٹی بڑی ابو جی نے سکھائی جو انہوں نے بھی اسکول کی بجائے ڈریکٹ انگریز دوستوں اور کو ورکرز سے سیکھی تھی اسی لئے ان کی انگلش بول چال بھی اچھی تھی عربی کی شد بد بھی تھی مگر اردو بولنے لکھنے پڑھنے میں گوا کے لوگوں یا جیسے اینگلو انڈین بولتے تھے ہم پٹودی دہلوی اردو دان بچوں کو ہنسانے اور کسی سے بات کر رہے ہوں تو انتہائی شرمندہ کروانے کے لئے ۔۔۔۔ پنجابی فیروز پور فاضل دے بنگلے دی کھڑی پنجابی
گھ بھ کی اردو آواز والی
گھیو ۔۔ بھین بھرا ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ دوسری کلاس میں تھی جب امی جی نے مجھ سے خط لکھوا کر ابو جی کو بھیجا ۔۔۔ پھر ہمیشہ ابو جی کو مجھ سے ہی خط لکھوایا کہ ان کی رائٹنگ کچی پکی تھی اور میری ، میری بوڑھی سی ٹیچر کنیز باجی کو اس قدر پختہ اور پسند اتی کہ جب چوتھی پانچویں میں انہیں کلاس ورک دکھاتی تو وہ میری تحریر دیکھنے لگ جاتیں اگرچہ میری کچھ فرینڈز کی لکھائی بذات خود مجھے پسند تھی تو ٹیچر میری تحریر دیکھتیں مسحور ہوکر ۔۔۔ اور کوئی دسیوں بار انہوں نے کہا ہوگا
تمہارا کام دیکھوں ۔۔۔ یا لکھائی ۔۔۔ اتنی سی بچی ایسی پختہ تحریر کیسے لکھتی ہے ۔۔۔ “
نہ جانے میری معصوم سی تحریر میں انہیں کون سی پختہ تصویریں نظر آتیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے
آمین )اب تک زندہ نہیں ہونگی اسکول کی سب سے بوڑھی اور ذہین استاد تھیں
ساری زندگی پڑھتے پڑھاتے جو ڈانٹ کھائی امی ابو سے کہ کبھی کتاب کھول لیا کرو گھر میں بھی۔۔۔ امی دکھ سے کہتیں
نی ۔۔ مینوں ارمان ای رہیا میرا کوئی بچہ گھر چ بیٹھا ہووے کتاب کھول کے پڑھدا ہووے “
ان کے طعنوں تشنوں سے گھبرا کر فورا کوئی بک اٹھالاتی ان کے سامنے ایک دو صفحے پلٹاتی ۔۔۔ صرف تین سے پانچ منٹ ۔۔۔پھر ٹھپ کے رکھ دیتی
کیا پڑھوں ساری تو مجھے منہ زبانی یاد ہے فوٹو گرافک میموری )
۔۔۔۔ پڑھ لیا بس
امی جی پھر گھرکتیں
کی پڑھاں ساری تے مینوں آندی اے
میں پھر امی جی کی ہوم ورک کرتے دیکھنے کی خواہش کو ٹھوکر تلے رکھ کے ۔۔۔ نظر بچا کے بی بی کے گھر گلی کو بھاگ جاتی جہاں بچوں سے بھری گلی اور سہیلیاں گڑیاں گھر گھولے ہنڈکلیاہ سب میرے انتظار میں ہوتے یہی حال اسلم اکرم کا تھا ۔۔۔ہم گھر کے نہیں گلیوں کے بچے تھے گھر باجی کا یا چھوٹے عمران اور شبانہ کا جو امی سے چپکے رہتے
ہمیں نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا وہیں ماموں کے ہاں کھا پی بھی لیتی کبھی کبھار اسلم اکرم بھکے بھانے چیجیوں پہ چلتے رہتے چیجی کے پیسے لینے گھر جاتے ۔۔۔ کبھی باجی گھر کے خرچے میں سے پکڑا دیتی کبھی جاکے امی کے لڑ لگ جاتے ۔۔۔ مجھے مل گئے ہیں تو اسلم اکرم اگلے امیدوار ۔۔۔ انہیں مل گئے ہیں تو میرا حق راسخ ۔۔۔ دن میں تین چار بار چیجی کے پیسے لیتے حسب ضرورت و لالچ ۔۔ امی جی اپنی سائیڈ جیب میں پیسے کھلے کرائی رکھتیں ہمارے لئے ۔۔۔ گھر کا خرچہ باجی کے پاس ہوتا شوکیس کے اوپر اخبار بچھاکر اس کے نیچے پیسے بچھے ہوتے پورے مہینے کے خرچے کے ۔۔۔ ہم بچوں نے کبھی ان پر اپنا حق نہ سمجھا ۔۔۔ ہاں ایک بار باجی کو کچھ شک سا ہونے لگا کہ کچھ گڑ بڑ ہور ہی ہے ۔۔۔میں تو شک سے مبرا رہی امی جی نے اسلم اکرم کو دبوچ لیا ۔۔۔ مان کر نہ دیں اکرم (اللہ بخشے) ہائے۔۔ میرے آنسو ) شرارتی تھا تو شک اسی پہ ہوا مگر حرکت میسنے اسلم کی تھی ۔۔تھوڑی سی ٹھوکا ٹھکائی سے معاملہ صاف اور سدھر گیا
اب اکرم کی بات کے بعد لکھنا ۔۔۔ میرا اندر آنسو وں سے بھر جاتا ہے اس وقت بھی میں رو رہی ہوں دو تین بار آنکھیں صاف کرنے کے باوجود آنسو امنڈے چلے آرہے ہیں
اکرم کیوں چلا گیا ایں ۔۔سوھنیا
ہاہ ۔۔۔۔ دنیا کے گئے ہیں پیارے
سب کے دل چھلنی ہوئے ہیں
ہاں تو میں یا اسلم اکرم ہم گھر میں پڑھتے نہیں تھے کبھی بھی ۔۔۔۔
میرا دماغ ہر بار سونے سے پہلے سوچ میں پڑھائی یا رویزن کرکے حافظ کتاب ہوتا ۔۔۔ تو امی جی کی فرمائش پر میں کتاب کھول کے کیا کرتی ۔۔۔ لڑکے دونوں لاپرواہ اور تختی پہ تختی مار کے روز تلوار بازی کھیل کے تختیاں توڑ لاتے اور اسی ٹوٹی تختی سے مار کھاکے بھی نہ سدھرتے دوسرے تیسرے دن نئی تختیاں کھڑکاتے اور توڑتے پھرتے ۔۔۔ بہت شرارتی تھےسارے بچوں بڑوں میں مشہور اور سارے محلے کے لاڈلے بھی ۔۔۔ سب پیار کرتے تھے ان سے ، ان کی حرکتوں پہ اور چھیڑ چھیڑ کر انہیں شرارتیں یاد دلاتے تھے
بھئی اکرم پہلوان
اسلم پہلوان ۔۔۔ آج دنگل نہیں کیا ۔۔۔ دونوں بھڑ جاتے ۔۔۔ قلابازیاں مٹی میں لوٹ پوٹ ۔۔۔ مجھے ارمان ہی رہتا
ہائے اللہ کبھی میرے بھائی بھی لوگوں کے بھائیوں کی طرح صاف ستھرے نظر آئیں
ادھر باجی نہلا دھلا کر صاف ستھرا کرکے باہر نکالتی ادھر ان کی قلابازیاں شروع ۔۔۔اور مجھ نہائی دھوئی کو گھسیٹ کر گرد آلود کرنا ان کے کھیل کا مزہ دوبالا ہو جاتا اور میں مدھو بالا چیختی پکارتی رہ جاتی ۔۔۔ یہ نٹ کھٹ موہن دونوں ۔۔۔یہ جا وہ جا
اکرم تو موہن کنہیا ہی تھا اپنی حرکتوں میں ۔۔۔
باجی اور میں جیسے ان کی یشودھا میا ۔۔۔۔ آج تلک
چلا بہت جلدی گیا میرا اکرم ۔۔۔ ہنستے کھیلتے شرارتیں کرتے ۔۔۔
باقی
اللہ ہم سب کو سلامتی اور تندرستی دے آمین ثم آمین
آن لائن جو بھی شے درکار ہو گاڑی سے لے کر سوئی تک مجھ سے رابطہ کریں
میرے گھر میں اٹا ہوا سارا سامان بیچ کر رینوویشن کا ارادہ ہے
پتیلے
پودے
گملے
کپڑے
بالٹیاں
مگ
چمچے
لوٹے
چھریاں
چھابیاں
پلیٹیں
منجیاں
پیڑھیاں
کرسیاں
صوفے
بیڈ
پردے
سرھانوں کے اشاڑ
چادریں
ٹی وی
فرج فریزر
موبائل
ونڈو اے سی
سپلٹ اے سی
دھاگے کی نلکیاں سوئیاں قینچی
سلائی مشینیں
گاڑیاں
موٹر سائیکل
سائیکل
بجلی پہ چلنے والی استری
استری ہونے والے کپڑے
دھونے والے کپڑے
وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
سب دگنی قیمت پر دستیاب ہے
کیونکہ اکثر اشیاء پچاس سال سے زیادہ پرانی ہیں اور اب نوادرات کا درجہ رکھتی ہیں !
اور اس گھر کے سب افراد کا شمار اب عجائبات میں ہے کہ بیشتر کا تعلق پچھلی صدی سے ہے اور انکی عادات بیسویں اور اکیسویں صدی کا انتشاری ملغوبہ شمار کی جاتی ہیں اور ہر عادت پہ ایک سوالیہ نشان یقینا بنتا ہے !؟
اور بچے۔۔۔۔ بچے اس گھر کے ناقابل فروخت ہیں کیونکہ ان
‘شیطانی پتلوں’ کی قیمت ان کے والدین کو ہی ادا کرنی ہے اور
وہی ادا کرسکتے ہیں ویسے بھی یہ ان کا قصور ہے کوئی اور کیوں بھگتے۔۔۔؟
لڑکیاں جو اب بوڑھیاں ہوچکی ہیں ناقابل ویاہ ہیں ۔۔۔۔کہ اب چڑیلیں بھی ان سے پناہ مانگتی ہیں اور ہر شریف آدمی انہیں
‘آپا’ کہنا پسند کرتا ہے
اور جو آپا نہ کہہ پائے وہ اس سیاپے سے دور ہی رہتا ہے !!
مرد اس گھر کے مردم بیزار ہیں
اور انہوں نے گھر کی ہر چیز کو بمع گھر کے افراد , اس کے حال پہ چھوڑ رکھاہے ۔۔۔۔۔
اور اسی میں سب کی بھلائی اور ان کی عافیت ہے
وہ بظاہر ناقابل فروخت ہیں مگر اس قوم کے بیشتر افراد کی طرح ان کا تن من دھن سب گروی ہے۔۔۔۔
کس کے پاس ؟
بظاہر ان کی بیویوں کے پاس مگر درحقیقت
آئی ایم ایف کے پاس, راست سوال کا معکوس جواب ہے
میں کون ہوں ؟
میں کیا میری ہستی کیا !؟
گھر کے بڑوں کے رخصت ہوجانے کے بعد۔۔۔
میں بزعم خود , خود کو گھر کا بڑا سمجھنے کی فاش غلطی کرتی رہتی ہوں
جسے بچے بھی دل سے تسلیم نہیں کرتے
اور میرا کام وہی ہے
جو نقارخانے میں توتی کا ہوتا ہے
توتی کے سبز رنگ سے یاد آیا
سبز باغ دکھائی گئی قوم کی طرح ، حرماں نصیب ہوں
عبدالرحمن کا دکھڑا
پھپھو جی سوزو پکنک پر گئے ہم تین دوستوں نے پیسے ملاکر گول گپے لئے ٹیچر آگئی ” گول گپے کھارہے ہو بچو…. گلا خراب ہوجائے گا”
میرے کھٹے میں گول گپا ڈال کے کھا لیا منہ سے سارا کھٹا نکل کے میرے کھٹے کے پیالے میں گر گیا
چار پانچ گول گپے کھا لئے، مجھے. اپنا سارا کھٹا پھینکنا پڑا ….. “
زیب النساء اور حور ٹائیپ رسائل کا مطاله ٹین ایج میں همارے لئے شجر ممنوعه تھا که اکثر افسانه رومانوی ماحول سے لبریز اور آ خر میں هیرو کا هیروئین کا گھونگٹ اٹھانے پر منتج هوتے تھے یه ماحول تو فلموں میں بھی تھا مگر وه دکھانے پر اعتراض نهیں تھا هاں هیرو هیروئین کی ساری تگ و دو همیں بالواسطه یا بلا واسطه بھائی بهن کے پیار سے مماثل کر کرکے باور کرائی جاتی ذهن کو حتی الامکان فلم کے اس حصے سے ڈائیورٹ کرانے کیلئے…. همیں بھی رومانس سے زیاده دلچسپ ناچ گانا هی لگتا…. بهرحال بچوں کی دنیا اور نونهال کی کهانیاں ٹین ایج میں بھی لطف دیتیں اس میں بھی تو شهزاده اور شهزادی آخر میں هنسی خوشی زندگی گزارنے لگتے، کوئی ناول یا افسانوں والی کتاب پڑھنے کی اجازت نهیں تھی
مگر ٹی وی فلم وغیره وغیره کا دروازه کھلا هوا تھا وحید مراد آج تک پسند هے مگر اس وقت اسکی کسی خاص رومانی خوبی کا ادراک نهیں تھا مظهر شاه اسد بخاری الیاس کاشمیری نگو چھم چھم اور مینا چوهدری کو بھی اچھی طرح پهچانتے تھے….. که فلموں کی اسٹوری کم هی سمجھ میں آتی تھی هاں ڈانسز اور مار دھاڑ سمجھ میں آجاتی تھے که الله بھلا کرے اسکول میں کچھ دوستوں نے خواتین کے افسانوی رسائل کی طرف مائل کردیا جو دنیا بھر کے ڈائجسٹس کو ڈائجسٹ کرتا هوا ، ادبی افسانوں تحاریر ناولز ، بین الاقوامی شهکار تخلیقات کے تراجم شده نسخے پڑھتے پڑھاتے لکھنے کی طرف بھی مائل کرگیا ایسا که اب پڑھنے سے زیادی لکھنے میں مزه آنے لگا هے
برابر کے گھرسےشام ایک زوردار چیخ سنائی دی
‘کاکے دا پٹاکا وجا اے’
میں نے اچانک چیک کی تشریح کی ۔۔۔
کچھ دیر بعد پھوپھوز بہلاتے ہوئی اسے پہلی بار ہماری طرف لے آئیں جس کا کارن اس بلے کا پیچھا تھا جو کاکے کو دوڑا رہا تھا کیوٹ کاکا بہت شورشرابا تو کرتا ہے مگر ابھی بات نہیں کرتا
بلا جو سارا دن ہمارے گھر کے آس پاس ہی پھرتا ہے اسےدیکھ کر کہیں چھپ چھپا گیا کاکا کمرے میں رکھے کرسٹل کے ڈیکوریشن پیس کی طرف متوجہ ہوا ازکی نے پکڑ جھکڑ کر اپنی قیمتی اشیا کی حفاظت کی ۔۔۔کاکا دلجمعی سے میری طرف متوجہ ہوا اور شام کے پٹاکے کاسارا بدلہ مجھ سے لینے کی ٹھان کر ، ڈیکوریشن پیس سے توجہ ہٹانے پر سرخ سالڈ بال سے میرے سر کا نشانہ لے ڈالا شکر ہے نشانہ خطا ہوا اور وزنی بال آگے آنے کی بجائے پیچھے گرگئی کاکا پھر چیکو چیکی ہوگیا
اور میرا پٹاکا بجتے بجتے رہ گیا !
ابھی تک پڑوس کے گھر سے اپنی ناکام کوششوں پر کاکے کی جھنجلائی ہوئی چیخ وپکار جاری ہے اور جھنجلاہٹ اس پر یوں بھی طاری ہے کہ پچھلے ہفتے سے اماں جان کی گود میں نیا کاکا آگیا ہے ۔۔۔
پھوپھو ز کو وہ کب تک اور کیوں برداشت کرے ؟
2013 میں ‘خیال خام’ پبلش ہوئی ۔۔۔اگرچہ وہ بیاض ڈائری کی صورت 90s سے احاطہ ء تحریر میں تھی مگر چھپوانے کا ارادہ نہ سوچا نہ بنا تھا ذاتی ڈائری کی حیثیت میں جو من میں آتا لکھ کر رکھ چھوڑتی تھی ۔۔ طارق اگرچہ بہت اچھا رائیٹر تھا مگر نہ وہ میری شاعری سے متاثر تھا نہ میں اس کی شاعری سے ۔۔۔ہاں میری بھی نثر سے ہی وہ متاثر تھا اور اسے چھپوانے پر انکریج بھی کرتا اور بعض اوقات سندھی میں ٹرانسلیٹ کر کے کچھ چھپوا بھی دیتا تھا ۔۔۔اس کا اصرار تھا میں سندھی میں لکھوں نوک پلک وہ سنوار دے گا مگر میں سندھی لکھنا پڑھنا ضرور سیکھ چکی تھی مگر ادبی لحاظ سے نا آموز ہی تھی چند ایک چیزیں لکھیں جن کی معمولی نوک پلک درست کرکے اس نے مہران یا دیگر میگزینز میں چھپوا دیں ۔۔۔ مگر جس لینگویج میں فلوئنٹ نہ ہو اس میں لکھ کے انسان تھکتا بھی ہے اور شاذ ہی اچھا لکھ بھی سکتا ہے اس کے باوجود میری چند ایک تحریریں ہی چھپیں مگر مناسب پزیرائی ضرور ملی جو طارق کی زبانی ہی مجھے پتہ چلتی ۔۔۔ وہ شائید مجھے اور لکھنے کے لئے انکریج کرتا تھا نور الھدی شاہ کی طرح ڈرامہ لکھو ۔۔۔کہ وہ اس کی بے حد اچھی اور مخلص دوست تھی وہ مجھے اسی لائین پہ لگانا چاہتا تھا ۔۔۔ خیال خام چھپنے سے پہلے کئی بار اس کی نظر سے گزری مگر اشاعت کے بارے میں کبھی کوئی حوصلہ افزائی نہ ہوئی بلکہ حوصلہ شکنی ہوئی کہ بس ٹھیک ہے مگر چھپوانے کے لائق نہیں فلاں (اردو کے رائیٹر ) کو بھیجوں گا وہ تصیح کردیں تو چھپوالینا ۔۔۔ خیر مجھے خود بھی ایسا کوئی شوق سرے سے نہیں تھا بقول کسے ( یا غالب)
آپ لکھتے تھے آپ اٹھا رکھتے تھے
اس کی وفات کے دوسال بعد شبانہ کی ذاتی دلچسپی سے موڈ بن گیا چھپوالی جائے اتنی بھی بری نہیں ۔۔۔
چھپ گئی
چلو جی کاغذوں میں ادھر ادھر اڑتا مواد کتابی صورت میں محفوظ ہوگیا
مارکیٹنگ پبلسٹی تو میرا شعبہ رہا ہی نہیں دوستوں میں بانٹ بونٹ کے خوش ہو لئے ۔۔۔
2011 .2013
مسلسل ان سانحات میں گزرے کہ میرا لکھنا پڑھنا موقوف تو کیا مفقود ہی ہوگیا طارق کے بعد ابوجی پھر ماما مامی پیارا اکرم ۔۔۔ جس طرف منہ کرتی چاہے دادو لاڑکانہ کسی کی موت کی خبر سنتی ۔۔۔ دادو میں میرا خیال کرنے والے لوگ پھر گھر کی پیاری ہستیاں ۔۔۔ میں سارا دن اپنے کمرے میں چپ چاپ پڑی رہتی۔۔۔ اکرم کے بعد خاص طور پر گھر میں سب ہی ضروری بات چیت ہی کرتے تھے سب ہنسنا بولنا بھول ہی چکے تھے
میں سکتہ نما گہری خاموشی کی نذر ہوچکی تھی بس کالج جاتی تھی ذمہ داریاں سر انجام دیں تھوڑی بہت دنیا داری نبھائی اور گھر آکے خاموش پڑ رہی ۔۔۔ امی اور میں ایک دوسرے سے پیٹھ موڑ کر آنسو پونچھتی رہتی تھیں اکرم بالکل توڑ گیا تھا ہمیں ۔۔۔
ایسے میں گنگ خاموشی پہ اک نظم کی آمد ہوئی پھر تو جیسے جھرنا پھوٹ بہا سمندر لہریں لینے لگا ۔۔۔ لکھ لکھ کر ایک کے بعد ایک میں بری طرح تھکنے لگی تین ماہ کے اندر پانچ چھ کتابوں جتنا مواد لکھا گیا ۔۔۔ پہلے عکس خاموشی اور سمندر کو شائید کچھ کہنا ہے چھپوائی پھر دیگر تین اور ۔۔۔۔۔
غزل میرا مزاج نہیں نہ مجھے اس کے قافئیے ردیف کی چولیں بٹھانا آتی ہیں نہ فاعلن فعولن والا فارمولہ کہ اردو بحیثیت ادب میرا سبجیکٹ رہا ہی نہیں ۔۔۔سائنس کی سٹوڈنٹ رہی سائنس پڑھی پڑھائی ہمیشہ ۔۔۔ہاں باتیں مٹھارنا آتی تھیں سو نظم کی طرف قلم و ذہن چل نکلا ۔۔۔ آج تک جو بھی نظمیں لکھتی آئی ہوں طارق کا ہیولہ کہیں نہ کہیں کسی نظم کا حوالا بن کر ہمیشہ آ ٹپکتا ہے تصور میں وہی آجاتا ہے چاہے لکھنا کسی بھی طرح سے شروع کروں خاص طور پر اگر رومانٹک مزاج کی نظم ہے تو ۔۔۔خیال اسی کے آس پاس دوڑنے لگتا ہے غیر ارادی طور پر ۔۔جیسے وہ اب بھی زندہ ہو (تیرہ سال ہوگئے اس کو وفات پائے ۔۔۔ ) مگر میں مسلسل اسی سے مخاطب ہوں لاشعوری طور پر ۔۔۔ اگرچہ اکثر حقیقی زندگی میں وہ مجھ سے ضروری بات کے علاؤہ کوئی بات نہیں کرتا تھا (ناشکرا انسان ۔۔۔) نہ زبان سے نہ آنکھ سے نہ دل سے (شائید ) کہ یہ سب وہ کسی اور کے لئے بچائی رکھتا تھا انتہائی خاص امانت سمجھ کے ۔۔۔۔
چلو بھئی اللہ تمہارا بھلا کرے ۔۔۔
فون پہ بھی دنیا جہان کی خواتین سے لگے رہتے ہو ۔۔۔ اگر دادو سے میں ہفتے کی کسی دن فون کر لیتی تو لہجے کی اکڑفوں چند منٹ سے بڑھ کر مجھ سے بھی برداشت نہ ہوتی ۔۔۔ نہ جانے کون ہر وقت اس کے سرپہ سوار رہتا اور وہ ‘انکا’ کی طرح سوار رکھتا ۔۔۔میں رضیہ کو کبھی کبھی انکا کہتی ۔۔۔ اور وہ کہتا واقعی ٹھیک سمجھتی ہو۔۔۔ میں مذاقا کہتی مجھے پھر ‘اقابلا ‘سمجھ لو ۔۔ اقابلا زمانے کی سب سے حسین عورت تھی کہ رائیٹر نے پہلے اس کی حسین کنیزوں کے حسن کے قصیدے گا گا کر قاری کو سحر حسن میں جکڑا لپیٹا ہوتا ۔۔۔ پھر اچانک ہیرو کی ایک بار کی دیکھی اور پھر زندگی بھرتلاش کرتے کی ملکہ اقابلا کا ایسا نقشہ کھینچتا کہ سارے حسین کنیزیں خاک کا ڈھیر ہو جاتیں اور اقابلا کے حسن کا پھول ایسا کھلتا کہ ہیرو کے ساتھ قارئین کو بھی اقابلا کے سحر انگیز حسن میں جکڑ لیتا ۔۔۔ آخر میں پتہ نہیں اقابلا ہیرو نے دیکھی یا اس کو ملی کہ نہیں (واللہ اعلم ) بچپن کے سب رنگ ڈائجسٹ میں پڑھے یہ کردار مجھے اب تک یاد ہیں
اس نے بدزبانی بد تمیزی یا جسمانی ریمانڈ کبھی نہیں دیا سوائے ایک بار کے تھپڑ کے جو اس نے ڈرائیونگ سکھانے ہوئے میری غلطی پر شوقیہ مارا تھا کہ اب سیکھ جاوگی استاد کا تھپڑ ضروری ہوتا ہے کچھ سکھانے کے لئے ۔۔۔۔
ہی واز آ نائس پرسن ناٹ آ روایتی شوہر میٹیریل ۔۔۔ مگر نظر اندازی ایک انتہائی قابل توجہ (شائید نرگسی) ہستی کو قتل کرنے کا ہنر رکھتی تھی جب ایک طرف ان دونوں کی وارفتگی کلاسیکی اور فلمی بنی رہتی ۔۔۔ تو دوسری طرف میں ایک تیسرے درجے کی اقلیتی مخلوق کی طرح ٹریٹ ہو رہی تھی سوائے دو بچوں کے کہ انہوں نے مجھے اور میں نے انہیں دل سے اور پیار سے قبول کر رکھا تھا
کتنا خوش قسمت ہے وہ کہ ۔۔۔ ترک محبت کے بعد بھی وہی بزم خیال کی آرائش ہے ۔۔۔ہاہاہا
اگرچہ اب میرا اس سے اگلے جہان ملنے سے بھی انکار ہے
تو میری شاعری جو بھی ہے بے شک میں نے طارق کی وفات کے بعد لکھی اس کا بیشتر حصہ خاص طور پر رومانی ایک ہی شخص سے منسوب ہے ۔۔۔ اور وہ میرے نہ چاہتے ہوئے بھی طارق کا ہی روپ دھار لیتا ہے ۔۔۔ عجیب لاشعوری پرابلم ہے جو میرا شعور بھی سمجھنے سے قاصر ہے ۔۔۔ہاہاہا ۔۔۔
اگرچہ میری زندگی کے چند سال جو اس کے ساتھ گزرے کسی طرح بھی خوشگوار اور قابل رشک نہ تھے بلکہ اذیت کا اپنا ایک سلسلہ رکھتے تھے شکر ادا کرتی ہوں کہ اس اذیتناک دور سے نکل آئی مگر ۔۔۔ اس سحر سے نہیں نکل پائی آج تک ۔۔۔جس کا سودا من میں سما گیا تھا (شائید )
خواب کسی بھی حوالے سے دیکھوں اکثر روپ وہ دھار لیتا ہے ۔۔۔ہاہاہا
کیا کروں مجبوری ہے
اس کے بغیر اب تک ہر بات اُدھوری ہے
مگر ایک رضیہ کا شوہر طارق تھا وہ میرے لئے ایک اجنبی شخص سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔۔۔قیامت تک اس سے انکار ہے ۔۔۔ چاہے وہ میرا بھی شوہر تھا بٹ آئی ہیو نو انٹرسٹ ان ہم ۔۔۔ گیٹ لوسٹ
مگر ایک میرے خیال و خواب کا سروپ تھا اس سے میں کبھی انکار نہیں کرسکتی ۔۔۔ !
نہ جانے کون کس روپ میں ملا
حیرت کا سلسلہ اک سروپ میں ملا
اور مجھے لگتا ہے
عشق اگر ہوتا ہے اول تو مجھے یقین ہے عام
طور پر نہیں ہوتا بہرحال اگر مار / رو پیٹ کر (ہاہاہا ) کہیں ہوتا ہے یا کلاسیکی مثالیں یا کہانیاں جو ہیں تو کسی انسان کسی روپ سے نہیں ہوتا
اس سروپ سے ہوتا ہے جو اس شخص میں حیرت بن کے اترتا ہے
اصل میں اس کا اصل روپ یا انسان ایک ثانوی حیثیت رکھتا ہے اور وہ دوسرے تیسرے درجے کی عام ترین شخصیت بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔
مگر سروپ جس کی چھاپ اس میں جھلک جائے ۔۔۔من موہنی بنی رہتی ہے
مثل سنی ہے نا پرانی
دل آیا گ دھ ی پہ تو پری کیا چیز ہے ؟ ہاہاہا
ایک قریب المرگ کڈنی ٹرانسپلانٹ پیشنٹ ۔۔۔ میرے خوابوں میں آ آ کر عجیب و غریب بہروپ دکھانے لگا ۔۔۔ مگر اس کے مرنے کی دیر تھی وہ میرے خوابوں میں دیوانہ وار آنے جانے لگا آج بھی اس کی روح اگر ہوتی ہے میرے پیچھے دیوانہ وار رہتی ہے (واللہ اعلم ) مرتے ہی پہلی رات وہ میرے خواب میں آگیا ہنستا کھیلتا ناچتا گاتا اور میرے ساتھ اپنی خوشی شیئر کرتا
عذرا میں ٹھیک ہوگیا ہوں
عذرا میں ٹھیک ہوگیا ہوں ۔۔۔
یہ اس کا گیت تھا اور جیسے وہ اس پہ ناچ رہا تھا مجھے بتا بتا کر ۔۔۔ کہ اس کے ٹھیک ہوجانے سے بڑھ کر ہماری کوئی خوشی نہ تھی اور وہ اس کا اعلان کر کے مجھے بتا رہا تھا ۔۔۔لاہوت اور میں اس کے جنم دن کی تیاریاں کرتے ہوئے خوش ہورہے ہیں۔ اس نے روز کا معمول بنا لیا مر کر ۔۔۔ میرے خواب میں آنے کا چلو گھومنے چلیں
وہ اکثر ہم سب کو گاڑی پر بٹھاتا ۔۔۔یا مجھے اور رضیہ کو اور ترنگ میں گھماتا پھرتا ۔۔۔یہ خواب بار بار آتا ۔۔۔ میرے ساتھ گھومنے کی نہ جانےاس کی کون سی حسرتیں رہ گئی تھیں ۔۔۔میں تنگ آگئی
امی نے کہا “مرچ تے روٹی رکھ کے دے دے جان چھڈے “
مگر میں نے اس کی روح سے خیال میں سنجیدگی سے بات کی
دیکھو تم زندہ تھے میری کوئی پرواہ نہیں کی ۔۔۔ اب برائے مہربانی میرا پیچھا چھوڑ دو اور اسی کے پاس جاؤ اسی گھر جاوجس کے پاس زندگی میں رہتے تھے جو زندگی میں تمہاری چہیتی تھی “
جناب جی اس رات وہ خواب میں آیا بہت خفا تھا ۔۔۔مگر پھر اس نے میرے خواب میں ریگولر حاضری دینا چھوڑ دی چھ ماہ بعد پھر خواب میں آیا
رضیہ سے بھی ناراض
مجھے بتاتا ہے بیرونی دروازے پر کھڑے نظریں جھکائے جھکائے ۔۔۔ رضیہ بھی مجھے گھر میں نہیں رکھ رہی ۔۔۔ میں نصیر مرزا (بہترین دوست) کے پاس ہی جا کر رہوں گا اب ۔۔۔ دروازے سے نکل گیا
کبھی کبھار خواب میں آمد و رفت رہتی ہے اس کی
اب امی جی تقریبا روز ہی میرے خواب میں ہوتی ہے پتہ نہیں یہ ہماری محبت ہے یا جانے والوں کا ہم سے روحانی لگاؤ ۔۔۔رب جانتا ہے اس اسرار کی پراسرار دنیا کا احوال۔۔۔۔
وہ شائید میری خواہشوں کا لبادہ تھا وہم یا حقیقت کوئی تجزیہ نہیں کر سکتی ۔۔۔۔
مگر میں اتنی تجزیہ کار کیوں بنی ہوئی ہوں ۔۔۔ہیر وارث شاہ تو نہیں لکھنی نا میں نے ۔۔۔
انجوائے یور لائف ۔۔۔
شب بخیر دوستو
مائی ریمیننگ ٹک ٹاک ۔۔۔ اس بار یہی یاد داشتیں چھپواوں گی کہ
میرا رخ ہے ایک آئینہ ، مرے شکست گر
کبھی خود کو مجھ میں بھی دیکھ لے
آج لگ رہا تھا کلثوم
بی بی نہیں آئے گی ۔۔۔ بارہ چھٹیاں ہوگئیں اس مہینے پھر۔۔
گھر جیسے کا تیسرا پڑا ہے میرے بستر سمیت ۔۔۔
اور وہ نہیں آئی !!
مجھے کچھ سنبھالنے کی عادت نہیں پکی ہاسٹیلائیٹ اور لاپرواہ ہوں ۔۔۔ اس بات کو طارق اور رضیہ بھی سمجھتے تھے جب میں کچھ بھی کھا پی کر پلیٹیں گلاس کپ روم میں ہی چھوڑ دیتی تھی ۔۔۔ اور میری پیاری رضیہ وہ برتن اٹھانے اور دھونے کے لئے لے جاتی تھی ۔۔۔ یارو میں اچھے اچھے کھانے پکا کر کھلاتی تھی سب کو
رضیہ نے ہی ساس بن کر میرے امور خانہ داری کا پہلا امتحان لیا تھا کوفتے کڑھی اور بریانی پکوا کر (میری اصل ساس یعنی آئی اتنی پیاری پچاسی سالہ نازک اندام پرکشش اور پیاری سی بوڑھی تھیں کہ وہ میرے قربان جاتی تھیں اور میں سارا دن انہیں پکی سہیلی بنائے رکھتی تھی اور ان کی کمپنی انجوائے کرتی تھی ۔۔۔اور وہ پرانے لاڑا ووہٹی اپنے بیڈ روم میں رومانس اور عیش کرتے تھے۔۔۔ہاہاہا
کبھی کبھار وہ مجھے کہتیں ( زبر دستی)
اماں جاؤ ۔۔۔ تم بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ ۔۔۔
مجھے آپ کے ساتھ کھانا اچھا لگتا ہے جب میں اپنا کھانا ان کے پاس کمرے میں ہی لے آتی ۔۔۔
کہ وہ آئی ( اماں) اور مجھے ایک دوسرے کے حوالے کر کے مطمئن رہتے طارق تو واقعی خوش رہتا کہ اس کی اماں کا اتنا لاڈ کیا اور خیال رکھا جارہا ہے ۔۔۔ آئی اور میں سہیلیاں بن گئی تھیں سارا دن آنے جانے والوں بہنوں کو بھی میں ہی میسر رہتی گپ شپ اور حال احوال کے لئے ۔۔۔ادی وڈی خاندان کے سارے مسئلے مسائل مجھ سے ڈسکس کرنے آتیں ہر ویک اینڈ کو صبح شام وہ چکر لگاتیں ۔۔۔ دوسری ادی مکھنا بھی ضرور آتیں اور آتے ہی پیار سے جملہ چھوڑتیں ۔۔۔ میں نے سوچا بھابی کے درشن کر آوں
مجھے درشن کی شبنم آجاتی اور میں مسکرا کر رہ جاتی ۔۔۔۔۔
اور سب سے چھوٹی
بے بی معذور تھی مگر میری دیوانی ترین ۔۔۔ اس نے مجھے منہ دکھائی میں اپنی ناک کی نتھلی اور شائید ٹاپس وغیرہ دئیے زبردستی ۔۔۔ طارق نے واپس کروادئیے پاگل ہے وہ ۔۔۔ظاہر ہے میں بھی کسی کی ناک کی نتھلی یا ٹاپس رکھ کر کیا کرتی غرضیکہ ساس نندوں کی پسندیدہ ترین ہستی بن چکی تھی ۔۔۔ مگر ایک وہ ہی تھا جسے رضیہ نے ایسا موہ رکھا تھا کہ میرا سارا طلسم حسن بے کار ہوکے رہ گیا تھا۔۔۔ہاہاہا)
یہ الگ بات کہ رضیہ واقعی ایک حسین عورت رہی ہے نیلی سبز مور پنکھ آنکھوں فیئر کامپلیکشن اور معصوم نقوش ونگار متناسب قدو قامت کی بے حد حسین دوشیزہ ۔۔۔ اپنے وقت میں کھلتے گلاب جیسی میں ظاہری حسن میں کبھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی
میں بھی اس کو تعریفی نظر سے دیکھتی خاص طور پر جب وہ سردیوں کی صبح سر پہ سرخ یا کوئی بھی اونی ٹوپی رکھے نیم گھنگریالے کمر تک سنہری بال پھیلائے کچن میں پراٹھے بنا رہی ہوتی ۔۔۔
پراٹھوں سے قطع نظر اپنے اسٹائل اور لک سے مجھے معصوم سی فرانسیسی دوشیزہ سی لگتی اور میں سوچتی طارق کیوں نہ اس کا دیوانہ ہو ۔۔۔یہ ہے ہی اتنی حسین و جمیل عورت جبکہ وہ بلاشک و شبہہ دلی طور پر بھی ایک حسین عورت رہی ہے
اور میں نیند میں سڑی بسی کالی کلوٹی اس سے پوچھنے پہنچ جاتی
میں کیا کروں ۔۔۔ (ہیلپ ان دا میکنگ بریک فاسٹ؟)
کچھ نہیں سب تیار ہے ۔۔
یہ پلیٹیں رکھ دو
طارق کو بلا لاؤ ( وہ تمہاری سڑی بسی شکل بھی دیکھے اور میرا بے مثال حسن و جمال بھی ۔۔۔طارق ویسے عموما اس کے آس پاس ہی ہوتا )
یہ بہت شکر ہے کہ طارق میری سڑی بسی شکل کو بھی حسب معمول اور نارمل ہی سمجھتا تھا ۔۔ (بد صورت اس کو میں بھی کبھی نہ لگتی تھی شائید۔۔۔ ہاہاہا ) چاہے تیار ہوں یا سڑی بسی ۔۔۔ اس کا انداز ایک جیسا ہی رہتا تھا ہاں سر کے پیچھے جو بال کھچڑی ہونا شروع ہوگئے تھے کچھ کچھ ۔۔کبھی نظر آتے تو کہتا
“بال کیوں نہیں ڈائی کرتیں ۔۔۔ میں مر جاؤں گا پھر کرو گی “
میں اسے مرنے کی بات پرخفگی سے دیکھتی
“کوئی پتہ نہیں کون پہلے مرے “
میں تمہیں لاڑکانہ میں دفن کرواؤں گا ۔۔۔ وہی تمہارا شہر ہے ۔۔ چاہے تمہارے گھر والوں سے زبردستی کرنا پڑے “
وہ خوش دلی اور پر یقینی سے کہتا ۔۔۔
بال ڈائی میں پھر ٹال جاتی کہ مجھے خود کو نظر نہیں آتے تھے میرا خیال تھا بال ڈائی کرنے سے بڑی جلدی سفید ہوتے ہیں اور یہ صحیح بھی تھا ۔۔۔ آج تک ڈائی نہیں کئے اور کام چل رہا ہے
میری مشفق و محبتی عادات کو اس کی سب ماں بہنیں اور خاندان کا بچہ بچہ سب محسوس کرتے اور بہنیں تو اتنے زیادہ خلوص و محبت کا مظاہرہ کرتیں کہ لگتا وہ سوچتی ہیں کہ مجھے کوئی کمی محسوس نہ ہو اس گھر میں ۔۔۔وہ مداوا کرتی رہیں ممکن حد تک اپنے حسن سلوک محبت اور خصوصی مان دینے سے ۔۔
وہ سب طارق کو پنھوں یا پنھل کہتیں ایک آدھ بار ادی وڈی نے مجھے پیار سے ‘سسی’ بھی کہا ہوگا
رضیہ کو ہمیشہ ھالار ماں کہہ کر بلاتیں مجھے اماں یا بھاجائی ۔۔۔ کبھی کبھار بہت سنجیدہ بات چیت ہوتی تو سنجیدگی سے میرا نام بھی لیتیں
ادی وڈی تو بذات خود ایک مثالی کردار تھیں اپنی محبت خدمت احساس اور ذمہ داری کے حوالے سے ۔۔۔ سب سے چھوٹے بھائی پنھوں طارق )کو انہوں نے ہی پالا تھا وہ بتاتیں میرے ساتھ سوتا تھا سارا دن میں کام کاج میں لگی رہتی یہ میرا دوپٹہ پکڑے ساتھ ساتھ پھرتا تھا ۔۔۔ وہ جب بھی آتیں طارق کے بچپن کی باتیں مجھ سے دہراتیں ۔۔۔
ایک بار مجھ سے ساری تفصیلات پوچھیں کہ کیسے ملے تھے ہم دونوں ۔۔
میں نے چند ایک واقعات بتائے ۔۔۔
اس کا مطلب ہے پنھوں کی سسی تم ہو “
پتہ نہیں مجھے ۔۔۔
مگر سندھی میں کہا جاتا ہے
سسی سدائیں سورن میں
( سسی ہمیشہ دکھ جھیلتی ہے)
ایک رات تو مجھے واقعی ایسا لگا تھا
نئے نئے دن تھے آدھی رات کو میں نے لاشعوری طور پر ہی سائیڈ پہ ہاتھ مارا ۔۔۔ وہ اٹھ کے نہ جانے کب کا مجھے سوتا چھوڑ کر رضیہ کے پاس جا چکا تھا
ایسے ہی سسی کے پاس سے پنھوں بھی چلا گیا ہوگا
میں نے غیر ارادی طور پر سوچا ۔۔۔ اور خاموشی سے پیٹھ موڑ کر سوگئ
میں نیند کی ماسٹر رہی ہوں ایک دو بار رضیہ کو بھی میں نے اپنی نیند پر مسکراتے دیکھا وہ سکڑ کر سونے کی عادی تھی ۔۔۔ میں پھیل کر پڑی ہوتی اور بیڈ پر اپنے فل قبضے کا آنند لیتی ۔۔۔
جاتا ہے تو جائے کہیں بھی میرا بیڈ تو پورا میرا ہے نا سکون کی نیند کے لئے ۔۔۔ہاہاہا
وہ کہتا
میرا دل نہیں مانتا رضیہ اکیلی سوئے ۔۔۔کیا سوچے گی وہ “
میں تو تھی ہی سدا کی دریا دل ۔۔
ٹھیک ہے جیسے تمہیں اچھا لگے
پہلے دن سے اس کا یہی معمول رہا دو تین سالوں تک ۔۔۔ پھر بھلا ہوا رضیہ کی کچھ رشتے دار لڑکیاں جو یونیورسٹی پڑھنے آگئیں سارا ہفتہ جب میں دادو ہوتی میرا کمرہ اور بیڈ ان کا رہتا ڈیڑھ دن جو میں وہاں ہوتی مجبورا انہیں رضیہ کے پاس سونا پڑتا ۔۔۔ طارق اور رضیہ بھی سمجھ گئے کہ آدھی رات کو اٹھ کر کمرے بدلنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔۔۔ اتنا سا حوصلہ کر لینا چاہئے یہ الگ بات کہ دو ڈھائی سال وہ لڑکیاں جہاں رضیہ چوکتی وہ سالیاں ہنسنے بولنے کے لئے موجود ہوتیں ۔۔۔
ایک بار تو تنگ آکر میں ویک اینڈ پر بھی نہیں گئی کہ کیا مصیبت ہے سب رل مل کے مجھے انتہائی ناقدری کی اذیت میں جھونکے رکھتے ہیں مطلب اب دوسرے تیسرے لوگ بھی مجھ سے زیادہ اہم ہیں
میں ویک اینڈ پہ نہیں گئی
طارق نے واقعی کمی محسوس کی ۔۔۔
کیوں نہیں آئیں
تمہارے پاس ٹائیم ہوتا ہی نہیں میرے لئے ۔۔۔ میں۔خوامخواہ گرمی سردی سفر کرتے دھکے کھاتی آتی ہوں ۔۔اس لئے اس بار دل نہیں چاہا “
وہ واقعی جذباتی ہوگیا
آئندہ ایسا کبھی نہ کرنا ۔۔۔ جو بھی ہے مجھے گھر ا چھا نہیں لگتا تمہارے بغیر ۔۔۔
میں ویک اینڈ سے دودن پہلے چھٹی لے کر چلی گئی اسی نشے میں ۔۔۔ اس نے بھی بساط سے بڑھ کر میری جائز شکایت کا خیال رکھا ۔۔۔
وہ لڑکیاں باہر ہنستی کھیلتی سنایاں کرتی رہیں رضیہ بھی حیرانی سے ایک دو بار جائزہ لے کر گئی ۔۔۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا اپنی مرضی سے ہی اٹھ کر باہر گیا وہ بھی مجھے اشارہ کرکے
چلو آؤ کھانا کھاتے ہیں “
Ok
پھر وہی معمول ٹی وی وغیرہ وغیرہ
میں اپنے کمرے میں پڑ کے سوگئی ۔۔۔ رضیہ اپنے کمرے میں جا پڑی ہوگی لڑکیوں کو ساتھ لے کر ۔۔۔
لاھوت اور طارق دیر تک پروگرامز دیکھتے تھے ۔۔۔دیکھتے رہے ۔۔
مگر سب جوں کا توں کبھی خوشی (کم کم ) کبھی غم چل رہا تھا
ہاں مگر
بہت ہی اچھی تھیں سب طارق کی اماں بہنیں اللہ جنت الفردوس میں جگہ دے سب کو (آمین)
طارق سے بڑی تھیں سب گزر گئیں طارق کے بعد ادی وڈی تو نابینا ہوگئیں تھیں اپنے آگے پیچھے گئے چار پانچ محبوب بھائیوں اور بہنوں کے لئے رو رو کر ۔۔۔وہ پورا خاندان ہی اگرچہ سب الگ الگ گھروں میں رہتے تھے مگر ویک اینڈ پر ضرور آتے ہماری طرف ۔۔
طارق کہتا یہ سب تم سے ملنے آتے ہیں اور یہ سچ بھی تھا کہ میں ان کی اتنی پزیرائی کرتی اور خلوص سے ملتی کہ ان کا میرے پاس سے اٹھنے کو دل ہی نہ چاہتا نہ طارق کا رضیہ کے پہلو سے اٹھنے کا من ہوتا۔۔۔
میں دل ہی دل میں
سوچتی ایک اتوار کا دن تھا پورے ہفتے میں وہ بھی گزر گیا بے ڈھنگا سا ۔۔۔ نہ ملے نہ بیٹھے نہ بات کی جس کے لئے آئی تھی وہ اسی میں مگن ، میں ماں بہنوں اور فیملی کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی ( کیا ہے یہ زندگی بھی؟) مجھے ایک دن کا ایک ایک لمحہ قیمتی خزانے کی طرح ہاتھوں سے سرکتا لگتا ۔۔۔ بجھتی شام تک میرا دل بھی بجھ چکا ہوتا میں صبح کے لئے بیگ کپڑے تیار کرنا شروع کر دیتی اور ان دونوں کو تو میں کہیں نہ کہیں ان کے علاوہ مصروف ہی چاہئے ہوتی ۔۔۔طارق رات گئے ٹی وی لکھنے پڑھنے فون پہ ٹاک شاک کے بعد بارہ سے دو ڈھائی کے درمیان کمرے میں آتا دن بھر کا تھکا ہوا ہی ہوتا۔۔ سورہی ہوتی تو آنکھ کھل جاتی پندرہ منٹ سے زیادہ جاگنا اور بات چیت کرنا وہ حرام سمجھتا ۔۔۔
یہی چند لمحے وہ محفوظ رکھتا تھا ہفتے بھر کے بعد ڈیڑھ دن رات میں میرے لئے شائید ۔۔۔
واپسی میں صبح اکثر میرا موڈ اداس اور نا خوشگوار ہی ہوتا وہ میرے موڈ سے انتہائی چڑ چڑاہٹ میں ہوتا جیسے کہتا ہو نہیں اچھا لگتا تو مت آیا کرو ۔۔۔ کبھی کبھار کہہ بھی دیتا
گالھہ نتھی ونے تہ نہ ایندی کر ۔۔۔
میں اور شکایتی اور اداس ہوکر اسے دیکھتی پھر جب تک میری وین آئے وہ گاڑی سے باہر منہ پھلائے موڈ آف کئے اپنا منظر دیکھتا رہتا میں اپنے منظر سے الجھی رہتی ۔۔۔
اگرچہ اس کا پورا خاندان دیوانہ وار میرا گرویدہ سا ہوگیا تھا کہ مجھے لگتا تھا اگر پہلے کوئی کمی بیشی بھی ہوگئی تھی تو طارق کو کم ازکم میں نے اتنا ضرور سکھا دیا ہے کہ وہ ان سب کا بے حد خیال رکھے ۔۔۔ ہر ویک اینڈ پہ ان کی طرف باقاعدگی سے جانا اور ایک دو گھنٹے گپ شپ لگا کے آنا ہم سب کا معمول بن چکا تھا جس کے لئے وہ کہتیں
مہینوں نہیں آتے تھے پہلے یہ ہماری طرف “
اگرچہ وہ سب پہلے ایک ساتھ ہی رہتے تھے مگر جب سے الگ ہوئے تھے فاصلے بھی ہو گئے تھے مگر میرے جاتے ہی یہ ہوا کہ طارق اماں اور ادیوں کا باقاعدہ اور بہت خیال رکھنے لگا ۔۔۔یہ واحد بات تھی جو وہ میری مانتا تھا
اس کی وہ دل سے قائل بھی تھیں اسی لئے مجھ سے دلی محبت بھی کرنے لگی تھیں ۔۔۔ رضیہ بھی سمجھدار عورت رہی ہے طارق اگر اس کے حکم کا غلام تھا تو وہ بھی نظر کا اشارہ حکم کی بجا آوری سمجھ کر ہی بر لاتی تھی ۔۔۔(اسی لئے تو اس نے دوسری شادی بھی کروادی تھی۔۔۔ اور اس جدید غلام شوہر کو اس نے پرانے دور کا زر خرید غلام عربی قسم کا بنا لیا تھا سبز آنکھ کو مسلسل دیکھتا کہ کیا حکم ہے میری آقی جانی ۔۔۔۔ایک خفیف سے غیر محسوس اشارے پہ بھی متحرک روبوٹ سا ۔۔۔ہاہاہا ظاہر ہے اتنے سالوں کا ساتھ تھا وہ ایک دوسرے کا اندر بھی پڑھی رکھتے ۔۔۔ میری پڑھائی اور تعلیمات سراسر غیر نصابی سرگرمیاں شمار ہوکر اکثر نظر انداز ہی رہتیں ۔۔۔ بلکہ نالائق شاگرد کی طرح وہ میری کلاس اٹینڈ کرنا تو کیا اس سبجیکٹ کو آپشنل حیثیت بھی نہ دیتا ۔۔۔ کہ فیل ہوتا ہوں تو ہو جاؤں میری شوہرانہ ڈگری پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا اس سے ۔۔۔ جسے راضی رکھنا ہے وہ صرف اور صرف رضیہ نام کی عورت ہے ۔۔ہاہاہا عذرا چاہے عین غین شین ہو جائے ۔۔۔ویلکم ٹو ہر فرام بوتھ آف اس رضیہ اینڈ طارق کمپنی ۔۔ہاہاہا)
شادی باقاعدہ امتحان بن گئی تھی میرے لئے ۔۔۔ پاس ہوتی ہوں یا فیل ہر وقت دھڑکا سوار رہتا ۔۔۔۔
پاس ہونا مجھ پہ منحصر تھا تو فیل بلا جواز بھی کیا جا سکتا تھا ۔۔۔ یہ امپریشن ہر وقت مجھ پہ ڈالا جاتا
اور فیلویور کسی صورت میری چوائس نہ تھی اگرچہ ہر وقت اس کے امکانات بنائے جاتے ۔۔۔
بڑا خوش قسمت انسان تھا بھئی ۔۔میں مل گئی آسانی سے ۔۔۔ رضیہ جیسی ملی جھٹ پٹ پندرہ دن کے اندر اندر ان کا پروپوزل شادی سب ہوگیا تھا ۔۔۔۔ اور بے شمار اچھے دوست سہیلیاں محبوبائیں ۔۔۔مداح قدر دان سب کچھ ہی ۔۔۔ بس زندگی مختصر تھی خدا سب دروازے کھول بھی دے تو ایک کرم کا در ۔۔۔ کبھی کبھی رہ بھی جاتا ہے لاھوت ہالار کے علاؤہ تیسری اولاد کی خواہش اسے تیسری شادی ہونے سے بھی زیادہ رہتی تھی مگر اللہ کی مصلحت بہتر ہی ہوتی ہے ورنہ میں اب مشکل میں پڑی رہتی ۔۔۔کہ ذمہ داریوں کی موجودگی میں پر سکون رہنے کا کمال ۔۔۔اپنی جگہ ایک مشکل امر ہے
میں جتنی شروع سے بچوں کی دیوانی اور آج تک ہوں اتنی بے نیاز و لاپرواہ ہوگئی تھی کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا دراصل میں دیگر معاملات میں اتنی الجھ گئی تھی کہ سب کچھ ثانوی اور غیر ضروری سا ہوگیا تھا ۔۔۔اب شکر کرتی ہوں کہ میکے میں رہ کر پرایا بچہ( اپنا ہی ) پلنا ایک امتحان بھی ہوسکتا ہے
اللہ معاف کردے ہم سب کو آمین
پیاری بہنوں جیسی دوست حمیدہ پنھور کے لئے ۔۔۔۔۔ انجوائے
مونکی یاد پون تھا پنھوار عمر
مجھے یاد آتے ہیں پنھوار ، عمر
کیا حسن بھرے تھے سنگھار (چرواہے ) عمر
منھجو ملک مٹھو ملیر ، عمر
میرا وطن میٹھا ملیر ، عمر
کلاسیکی داستان عمر مارئی کے حوالے سے ہے یہ سانگ
جب سندھ کا بادشاہ عمر مارئی کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر اسے سہیلیوں کے ساتھ کنویں سے پانی بھرتی کو اٹھا کے لے گیا اور اپنی رانی بنانا چاہا ۔۔۔
مارئی عورت کی عزت وقار جرات اور اپنوں سے محبت کے حوالےسے سندھ کی عورت کا سب سے بھر پور مزاحمتی اور پسندیدہ کردار ہے اسی حوالے سے شاہ لطیف سائیں کا شاہ جو رسالو میں ایک سر یا داستان ماروئی بھی ہے ہی ٹی وی ڈرامہ بھی موجود ہے( یہ کلام غالبا شاہ صاحب کا نہیں یے )
بہرحال اغوا شدہ غریب ماروئی ۔۔۔ حاکم عمر سومرو کو قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے اور اس قدر مزاحمت کرتی ہے اس کے محلات کھانے پوشاکوں زیورات اور ترغیبات سے کہ اس کے جواب میں پھٹے پرانے کپڑے پہنے برے حال زمین پر ہی بیٹھ رہتی ہے ہر ترغیب کا مقابلہ وہ اپنے ماروئوں یعنی لوگوں کے اٹھنے بیٹھنے رہن سہن کھانے پینے اور دیگر حوالوں سے کرتی رہتی ہے ۔۔۔ہر وقت ملیراور مارو maroo and malir ( اپنے دیس اپنے لوگ) کو یاد کرتے رہنے سے انتہائی متاثر ہوکر بہت ہی بادشاہ عمر سومرو باعزت طریقے سے اجرک پہنا کر یعنی بہن بناکر اسے واپس ملیر چھوڑ جاتا ہے
ماروئی سندھ کی باکردار عورت کا اپنے دیس اور لوگوں سے محبت کا ایک مثالی اور مزاحمتی کردار یے جس کی ہر سندھی لڑکی / عورت سے توقع رکھی جاتی ہے اس لئے سندھ میں مارئی نام رکھنا بہت پسند بھی کیا جاتا ہے
سندھ یونیورسٹی میں ہمارے گرلز ہاسٹل کا نام بھی “ماروی ہاسٹل” تھا اور سب لڑکیوں کا خطاب احتراما ‘مارئی ‘بھی سمجھ لیں کہ یہاں سب ماروئیاں رہتی ہیں ۔۔ مطلب مرنے مارنے والیاں نہیں ۔۔۔
ہاں مگر ۔۔۔ مار بھی رکھتی تھیں !
سب بہت پیاریاں تھیں اتنا حسن اور سٹائل کی فراوانی وہیں دیکھی جب آٹھ بجے یونیورسٹی پوائنٹ کے لئے سب ہاسٹل کے گیٹ پر اکٹھی تیار ہوکے پہنچی بس کا انتظار کر رہی ہوتیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیروئن بنی ۔۔۔ واللہ
میں بھی انہی میں سے ایک تھی ۔۔۔ہاہاہا
یاد آیا خدا جانے کون کس کا کبھی کوئی کزن آیا ۔۔۔شومئی قسمت ( اس کی) ایک بار آدھ گھنٹہ مجھے بیٹھنا پڑ گیاگیسٹ روم میں دوست کے ساتھ ۔۔۔ آیا کم بخت کزن سے ملنے تھا دیکھنے کا ٹارگٹ مجھے بنائی رکھا ۔۔۔ہاہاہا
جوانی کی یادیں )
مجھ سے دوبارہ ملاقات کا شرف کبھی حاصل نہ ہوسکا (اگرچہ) پھیرے وہ خوب لگاتا کزن کی طرف ۔۔۔ لڑکیوں کا سارا شرارتی گروپ اس سے ملنے ملانے نوک جھونک اور شرارتیں کرنے لگا پتہ چلا وہ کزن سے کہہ رہا ہے اپنی کسی دوست سے میری شادی کرادو ۔۔ امیدوار بھی پیش ہوئیں
منہدی لگا کے اس کا نام بھی (جانے کیا تھا) لکھ لیا متوقع دلہن نے ۔۔۔ کوئی دو چار مہینے یہ سلسلہ چلا ہوگا میرےخیال سے (میری جانے بلا ۔۔۔)
لاڑکانہ سے واپس جامشورو گئی تو (متوقع ) دلہن اور تمام سہیلیاں میرے پیچھے پڑی ہوئی ہیں
عذرا دل چاہتا ہے تمہاری آنکھیں چوم لوں”
سہیلیوں میں جب سب طرف یہی جملہ بجتے سنا تو میں کچھ ہوشیار ہوئی آخر مسئلہ کیا ہوا ہے سب کے ساتھ
پہلی بار جو مسکراہٹ آئی تھی
غصہ میں تبدیل گئی سب سے سنجیدہ اور سلجھی ہوئی کو ایک طرف لے کر گئی
کیا مسئلہ ہے یہ ۔۔۔ جس طرف جاتی ہوں ہر کوئی یہی جملہ بول دیتی ہے کوئی نہ کوئی آٹھ دس سے سنا ہے میں نے ۔۔۔
یار مائنڈ مت کرنا ۔۔۔ وہ جو ہم فلاں کی فلاں سے منگنی کرا رہے تھے نہیں ہوئی ۔۔۔وہ بھاگ گیا ہے
کیوں ؟
تمہارا پوچھ رہا تھا کہ “عذرا کہاں ہے ؟
وہ نظر نہیں آتی ۔۔۔ نظر آئے تو میری طرف سے اس کی آنکھیں چوم لینا “
میرا نام لے کے جان چھڑا کے بھاگ گیا ۔۔۔ہاہاہا
لڑکیوں نے باری باری اپنا شرارتی فرض نبھایا
بلکہ متوقع منگیتر نے تو بغیر رقابت کا اظہار کئے خوش دلی سے باقاعدہ میری آنکھیں چوم کر یہ جملہ کہا ۔۔۔ہاہاہا
بھینگا پن لگتا ہے اب تو مجھے آدھے سر میں مسلسل نیورو لوجیکل دباؤ کے باعث سکڑی سمٹی پرانی آنکھوں میں کہ تجربہ کار ہو گئی ہیں شائید ۔۔۔۔ہاہاہا
آپا ثریا کے بابا ویسے آنکھوں کے ذرا سے ٹیڑھ پن کو صوفی پنے کا نشان قرار دیتے تھے ۔۔۔کہ نشانی ہے صوفیوں کی ذرا سی آنکھ کا پھیر (واللہ عالم ۔۔۔ )
کی جاناں میں کون بلھیا ؟
ارے لوگو تمہارا کیا ؟
میں جانوں میرا خدا جانے
ہاں اتنا ہے کہ جہاں بھی ہوں بڑی آسانی سے واپسی کی چھلانگ لگا لیتی ہوں
مطلب الٹی قلابازیاں ۔۔۔ میرے سارے بھتیجے بھتیجیوں نے بھی لگائی ہیں میری طرح بچپن میں۔۔۔
ہیریڈٹی پرابلم ہے یہ اگر صوفی ازم ہے تو ۔۔۔۔
اور ابوجی کی طرف سے ہے ماشا اللہ
ان کے آنکھیں ویسے سیدھی ہی تھیں ۔۔۔ ہاں خواتین کے معاملے میں مرد ہی تھے
کہ امی جی ہمیشہ کہتیں
” نیویں نیویں پاکے تکدا اے چالاکی نال ۔۔۔ “
وہ ہمیشہ آنکھیں نیچے کر لیتے تھے کسی بھی گھر آئی خاتون کو دیکھتے ہی۔۔۔ مگر امی کہتی ۔۔ نیویں پاکے تکدا اے ۔۔۔ ویکھو لیو بھانویں ۔۔۔ہاہاہا
پتہ نہیں کہاں سے وہ نیویں آنکھوں کے ترچھے کونے دیکھ لیتی تھیں ۔۔ہاہاہا
بھئی انتہائی ہینڈسم ہالی ووڈ ہیرو سٹائل کو لیا ملے گا دیکھ کر اس ٹوپی والے سفید خیمہ پوش وجود کی نظر آنے کے لئے بنائی گئی جالیوں میں اپنی نظر جھکا کر سائیڈ سے ترچھی نظر ڈال کر ۔۔۔ ہاں کبھی کبھار ان کی جھکی ترچھی نظر ہوتی ضرور تھی کہ خاتون کے راستے میں تو نہیں ہیں کہ پرے ہٹ جائیں ۔۔۔مگر اللہ بخشے دونوں کی نوک جھونک جنت میں بھی چل رہی ہے یا سکون سے رہ رہے ہیں اللہ ان کو ابدی سکون کی جنتوں میں رکھے ہمیشہ ان کے تمام پیارے اور عزیزوں ۔۔۔اور اکرم بھی ساتھ ہی ہو ان کے (آمین ثم آمین)
ہم بھی جا ملیں گے کبھی ۔۔۔
ہاں تو ماروی ہاسٹل اور یونیورسٹی کے دنوں میں ہی ایک بار لاڑکانہ گرلز کالج کی لڑکیاں ٹرپ پر جامشورو آئیں رات ان کا قیام ماروی ہاسٹل میں تھا ۔۔۔ میں گل کو لے کر ہال میں چلی گئی کہ چلو لاڑکانہ کی لڑکیوں سے گپ شپ کر کے آتے ہیں ۔۔۔
یار لاڑکانہ کی لڑکیاں تو بہت حسین ہیں
جی جی ۔۔۔۔ سندھ کا حسن اور سٹائل وہیں سے نکلتا ہے دوستو !
مجھے ہی دیکھ لو ۔۔۔ !!
پنجاب میں لہور ہے تو
سندھ میں لاڑکانہ ہے
اور میں تو پھر دونوں جگہوں کی ہوں
ملغوبہ اینڈ کھچڑی
دیسی گھی میں بنی دیسی سی۔۔۔ہاہاہا
عزیز و محترم ۔۔۔
عذرا مغل دام ظلہ ۔۔۔ہاہاہا
عرف نرگسی شخصیت ۔۔۔ہمارا جئے بھٹو نہیں تھا کیا ؟
تھا نا ۔۔۔
ہم سب جئے بھٹو ہیں
اور جب مزاح پہ آئیں تو ۔۔۔
بھاڑو چھٹو ہیں ۔۔۔ہاہاہا
مطلب ٹرین کا کرایہ نہیں دیتے چاہے ٹرین کا روٹ ہی ہمارے شہر سے کٹ جائے
شکر ہے بولان ایکسپریس بحال ہوگئی کوئٹہ ۔لاڑکانہ ۔دادو ۔جامشورو۔کراچی کے درمیان
بھئی میں نے ہمیشہ ٹکٹ پہ سفر کیا ہے کہ ۔۔۔ ایک ایماندار پاکستانی ہوں
ہاں مگر اب لاڑکانہ نہیں جانا چاہتی کہ بچپن کے سارے چہرے وہاں ہیں ہی نہیں نہ وہ گلیاں ویسی طلسمات بھری رہیں ۔۔۔ ہاں دادو جانا چاہتی ہوں کہ اللہ میری سب دوستوں کو سلامت رکھے آمین
گئی تو رضیہ سے بھی مل کر آوں گی ایام گزشتہ کو دہرالیں گے کچھ بچوں گی باتیں کریں گے کچھ طارق کی ہنس ہنسا کر ۔۔۔ مگر اداسی سے
وہ کہتی ہے طارق اس کے ساتھ ہی ہے اب تک ۔۔۔
I respect their love and she respects me too ….
کیا رقابت کیا پیچیدگیاں۔۔۔
شروع سے دوست ہیں اب بھی دوست ہیں اور سب سے اچھی دوست (غالبا)
فرسٹ ائیر اور انٹر میں ہمیشہ پریکٹیکلز سے بھاگ نکلتی تھی کہ آگے میرے ایکسچینج ڈیوٹی آورز ان ہوتے بارہ بجے سے ۔۔۔ جب بہت سے پریکٹیکلز چھوڑ دئیے تو فراگ کیا میرا سگا تھا جو اسکا ڈائسیکشن کرتی بونز وغیرہ یاد کرلی تھیں ۔۔۔
ایکزام میں موٹے موٹے فراگ ( ڈڈو ۔۔۔ صاحب ) ڈائسیکشن ڈش میں پانی کی ہلکی ہلکی لہروں میں بے ہوش پڑے ہلکورے لے رہے ہیں مجھے نہیں پتہ مودھا کرنا ہے یا سدھا اس کا تیا پانچہ کرنے کے لئے۔۔۔ ساتھ والی کو دیکھا اس نے ڈورسل سائیڈ (کمر کے بل) لٹایا ہوا تھا ۔۔۔ میں نے بھی فراگ کو تھاما فور لمب ہائینڈ لمب کھینچ کے پن اپ کر دئیے اور پیٹ چاک کردیا ۔۔۔ بس اتنی سی بات تھی سسٹم سارے ابل پڑے ایکزامنر صاحب راوئنڈ پہ چیک کرتے مارکنگ کرتے پھر رہے ہیں ۔۔۔ دونوں کے مارکس لگا گئے
نہ جانے میرے کیوں زیادہ لگائے ۔۔۔ میں نے تو پہلی بار دیکھا اور کاپی کیا تھا ڈائسیکشن آف فراگ ۔۔۔ہاہاہا ۔۔
وہ بعد میں منمنا کر کہتی رہتی ۔۔۔
یار ۔۔تم نے تو میرا کاپی کیا تھا
بتایا ہے نا ذہانت کے ساتھ خوش قسمت بھی رہی ہوں ہمیشہ (ماشا اللہ ) ۔۔۔ وائوا میرا سب سے اچھا ہوتا تھا فرسٹ ائیر ٹو پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو تک ۔۔۔
آ سنگل کیوئسچن آئی مسڈ بٹ مینیجڈ ٹو ڈائیورٹ دا اٹینشن آف میمبر پبلک سروس کمیشن ۔۔۔ وین ادر میمبر انڈرسٹینڈنگ اینڈ ان ہیلپنگ موڈ انٹرپٹڈ ود آ فریش کیوسچن ۔۔۔ دا کیوسچن آئی کڈ ناٹ آنسر واز این اسلامک ون ۔۔۔
جب حضور پاک کے دادا کا انتقال ہوا انکی عمر کیا تھی ؟
مجھے پتہ تھا وہ دادا کی عمر پوچھ رہے تھے
میں نے تجاہل عارفانہ سے معصوم سی شکل بنا کر حضور پاک کی بتادی ۔۔
دوسرے ایکزامنر کی نیا سوال انٹری سے میری بچت ہوگئی اور پورے سندھ میں میرا دوسرا نمبر تھا پانچ سیٹوں میں سے ۔۔۔اس وقت میں جسٹ ایم ایس سی تھی ایم فل والی پہلے نمبر پر رہی ۔۔۔ مزے کی بات ہم تین کلاس فیلوز سندھ یونیورسٹی کی فرسٹ سیکنڈ اور تھرڈ پوزیشنز ہولڈرز سلیکٹ ہوئیں ۔۔۔ میری فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن تھی جبکہ کراچی یونیورسٹی کے امیدوار بھی مقابل تھے ان کے انٹرویوز کراچی میں ہوئے ۔۔۔ مگر رزلٹ اکٹھا ہی بنا تھا پورے صوبے کا ۔۔۔ پھر لکچرر ان دادو اور چل سو چل ۔۔۔ فائنلی پروفیسر آف ذولوجی کم پرنسپل گورنمنٹ گرلز کالج دادو چھ سال ڈیپوٹیشن پر گلبرگ کالج میں ایچ او ڈی ذولوجی ڈیپارٹمنٹ ۔۔۔ 2013 سے 2018 تک پھر ۔۔۔
دادو کالج واپسی ۔۔۔
کام کے حوالے سے بہت ہی جوائے فل بھر پور اور مصروف وقت گزارا گلبرگ کالج میں بھی کہ بی ایس جو نیا نیا انٹروڈیوس ہوا ود کمپلسری ریسرچ اینڈ تھیسس ۔۔۔ تو سو کے لگ بھگ اسٹوڈنٹس کو تھیسس بھی کروا دئے شکر الحمد للہ ۔۔۔ ایک بھر پور دور گزار کے اب راوی چین ہی چین لکھتا ہے پنشن آجاتی ہے بیٹھ کے کھالیتے ہیں اور بچوں کو چیجیاں چوجیاں کھلا دیتے ہیں کوئی ذمہ داری نہیں نہ فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا ۔۔۔ سارا دن موبائل ٹی وی یا کلوز فرینڈز اور فیملی سے کبھی کبھار فون پہ گپ شپ نماز روزہ ٫ تازہ عمرہ٫
شکر الحمد للہ ۔۔۔رب العالمین مہربان رہے ہمیشہ اور ہر قسم کی مالی جسمانی و دیگر معذوری و محتاجی سے بچائے دنیا و آخرت میں بھلائیاں ہی بھلائیاں کرے
مجھ نمانی کے ساتھ ۔۔۔ حاسدوں کے حسد اور نظر بد سے محفوظ رکھے ہمیشہ (آمین ثم آمین ) شروع سے عادت تھی ہر نیا سوٹ پہلے ساڑھی بناکر آئینہ دیکھتی تھی اب یہ بھی وہی حرکت کی کہ دوپٹہ پلو بناکے سیلفی بنا لی ۔۔۔ سوٹ آج سلنے گیا ہے آنکھیں چشمہ اتار کر کچھ بھینگی سٹپٹائی سی لگتی ہیں یہاں بھی لگ رہی ہیں مجھے یا واقعی دماغی کمزوری اور موبائل پہ مسلسل نظر ٹکانے کا پھیر سا آگیا ہے کچھ نہ کچھ لگتا ضرور ہے آنکھوں کے چندھیانے کا سبب ۔۔۔بڑھاپا دماغ اور نظر کا ہر وقت فوکس چوکس رہنا بال بہت جھڑ گئے ہیں سو بوقت ضرورت (کسی شادی بیاہ یا پروگرام میں دھڑلے سے) مصنوعی بالوں کا استعمال کیا جائے گا ۔۔۔ جو ایکسٹیشنز آن لائین پچھلے ہفتے آئی ہیں ۔۔۔
بھئی میں تو سیدھی سچی آئینہ رو اور شیشہ (دل سے لڑکی ۔۔۔ہاہاہا ) عورت ہوں نہ عیب چھپاتی ہوں نہ ثواب ۔۔۔ کہ سچ ہی میرا آئینہ ہے اور میرا دلی سرمایہ بھی ہے ۔۔۔ فطرتا شروع ہی سے بہت ہی کم گو رہی ہوں ۔۔۔ اب لکھ کے ساری بھڑاس نکال دیتی ہوں خاموشی کی ۔۔۔ انتہائی خاموش رہنا پسند ہے اور اب تو باتوں لوگ بھی برداشت نہیں ہوتے اگرچہ ہمیشہ سے اچھی لسنر تھی اب ایک سے دوسرا فالتو جملہ اریٹیٹ کر دیتا ہے بلڈ پریشر ہو شائید
مزید یہ کہ (لڑکے / لڑکیاں) مرد عورتیں سب مجھے ایک سے لگتے ہیں فیمینسٹ ایک حد تک ہوں مگر بے حد انصاف پسند بھی ۔۔۔ نیچر لور اینیمل لور ، ہیومن لور ، انصاف پسند ، ہمدرد طبیعت اور نرم خو ، نرم دل ہوں ۔۔۔ مزاج مزاحیہ رومانٹک ہونے کے باوجود میچور اور سنجیدہ ہے غصہ بھی آتا ہے جو پہلے نہیں آتا تھا ۔۔۔ سب میرے اپنے بہن بھائی دوست کہ سولہ سال کی عمر سے کو ورکنگ کو ایجو کیشن ۔۔۔ ہر دو صنفی کولیگز کے ساتھ کام کر کے میرے ذہن میں یہ فرق خود کبھی نہیں آتا دنیا دکھاوے کو کبھی کبھار شو آف کر لیتی ہوں اللہ اللہ خیر صلا
رب راضی رکھے سب کو اور مجھے بھی آمین
اچھا میں نے یہ سب کیوں لکھا ۔۔۔ ؟
اب تک تو پتہ لک گیا ہوگا آوٹ پٹانگ لکھنے کی چس پڑ گئی ہے ۔۔۔ جب تک قائم رہی لکھتی رہوں گی ۔۔۔ آپ لکھتے تھے آپ اٹھا رکھتے تھے
( بقول غالب ) غالب کو اردو شاعری کا مرشد مانتی ہوں اور شاعری میں اسی سے بیعت ہونے کے با وجود غزل مجھ پہ آج تک مہربان نہیں ہوئی ۔۔۔ کہ وہ کہتی ہے تم خود ایک غذل ہو ۔۔۔ ارے واہ شو مارتی ہوں تھوڑی سی
آپا ثریا نے ایک ناول لکھا ہے جس کے بارے میں ان کا خیال ہے ۔۔۔میں ان کے ذہن میں تھی ( ہاہاہا) آپا جھوٹ بولوں کوا کاٹے ۔۔۔ہاہاہا ۔۔۔ہیروئین کا نام غذل ‘ ہے کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ؟
طارق نے دو تین بڑی خوب صورت کہانیاں لکھی تھیں ایک میں ہیروئین کا نام ‘لچھمی’ تھا ۔۔۔ چلو پھر دیوالی کے اس شبھ اوسر پہ سب ہندو بہن بھائیوں کو دیوالی کی شبھ کامنائیں
دیوالی مبارک ہو سب کو ۔۔۔ دادو میں آپا تلسی کو بھی دیوالی مبارک ۔۔۔
چلو بھئی بس ھن تھک گئی میں ۔۔۔
مینوں اک وری فیر کی ۔۔۔ ہاں ہاں حجا حجا ۔۔۔ عمرہ مبارک ہووے اللہ قبول کرے تے فیر چھیتی بلاوے آمین
میری ترکیب سے کھانا پکائیں بہت آسان اور مزیدار ۔۔۔
جو بھی پکانا ہے دھو کاٹ کر کوکنگ پاٹ میں ڈالیں پیاز لہسن ادرک نمک مرچ ہلدی دھنیا ٹماٹر گرم مصالحہ اٹرم پٹرم ۔۔۔ حسب ضرورت پانی سبزی ہے تو بہت کم چھٹا سا ، گوشت ہے تو مناسب ۔۔۔چولہے پر رکھ دیں ( آگ ضرور جلائیں ۔۔۔ میری مشکل یہی ہے کہ ماچس یا لائٹر بہت مشکل سے ملتے ہیں کسی نہ کسی کو ڈھونڈ کر مجھے پکڑانا پڑتے ہیں)
اپنا سارا کچا چٹھا چولہے پہ چڑھا دیں ۔۔۔ بے فکر ہوکر ٹی وی یا موبائل میں مصروف ہو جائیں
پندرہ منٹ بعد آٹھ کر ایک بار چمچ چلا آئیں پھر کچن چھوڑ کر جہاں مرضی بیٹھ کر جو مرضی کریں ۔۔ پندرہ منٹ بعد پھر جائیں چمچ چلا کر دیکھیں آپکا سالن میرے حساب سے تیار ہوچکا ہے کٹا دھنیا ایک دو ہری مرچ ڈالیں خوشبو ذائقے کے لئے ۔۔۔ چولہا بند ڈھکن بند پانچ منٹ بعد اتار لیں ۔۔۔ روٹی چاول آپ کا درد سر ہے خود پکائیں یا تندور سے منگوائیں ۔۔۔ کھانا تیار ہے
اور اگر آپ یہ کوکنگ مائیکرو ویو یا اوون میں کریں تو پندرہ منٹ کافی ہے اوون میں ایک بار رکھ دیں پندرہ منٹ بعد نکال لیں ۔۔۔ حسب ضرورت ٹائیم اور ریسیپی میں تھوڑا بہت تغیر و تبدل کرلیں حسب سمجھ اور ایکسپرٹیز ۔۔۔۔
اگر وقت کی کمی ہے تو چھٹی کا ایک دن لگائیں سبزیاں گوشت کاٹ صاف کرکے قربانی کے گوشت کی طرح الگ الگ پیکٹ بنائیں ٹماٹر ادرک لہسن پیاز سب ۔۔۔اب اسی پیکٹ میں حسب ضرورت سے (ذرا کم )نمک مرچ سارے مصالحے اور آئل ڈال کے فریز کر دیں ۔۔جو کھانے کا من ہو پیکٹ نکالیں تھوڑا سا پانی ڈال کے پکنے رکھ دیں آخر میں دھنیا ہری مرچ تازہ کاٹ کے ڈال دیں خصوصا جاب پہ جانے والی خواتین میری ریسیپیز سے استفادہ کر سکتی ہیں اور روز روز کی کھیچل سے بچ سکتی ہیں ۔۔۔
کوشش تو کریں کہ تازہ خریدیں تازہ پکائیں مگر مصروفیت اور مجبوری کا شکریہ ۔۔۔ہر آپشن کھلا رکھیں
بھئی میں اب جب بھی کچھ پکاوں ایسے ہی بناتی ہوں میری وجہ مصروفیت سے بڑھ کر پیروں اور کمر کی تکلیف ہے کہ کچن میں کھڑا رہنا مشکل ہے میرے لئے ۔۔۔ کبھی کوئی کوکنگ توجہ طلب ہو تو کرسی رکھ کے بیٹھ جاتی ہوں کوکنگ مجھے پسند ہے مگر اب بہت ہی کم کرتی ہوں چند ماہ بعد کبھی کبھار ۔۔۔۔ ذائقہ لاجواب ہوتا ہے میرے حساب سے
ایک بار جامشورو کے کچن میں کچھ پکا رہی تھی رضیہ کی مہمان آئی سگھڑ امی کا خیال تھا میں بھی اس کی پیاری بیٹی کی طرح پھوہڑ شیف یوں وہ جب بھی آتیں خود کھانا پکاتیں اور کھلاتیں ۔۔۔مجھے پکاتا دیکھ کر کچن میں چلی آئیں ۔۔۔
ہدایات دینے لگیں کہ اس کو بھی سکھا دوں بیٹی سمان ہی یے
نمک اتنا ڈالو مرچ اتنی ۔۔۔پیاز ایسے بھونو ۔۔۔ مجھے لگا میرا اندازہ ان سے بہتر ہے
رضیہ نے والدہ کو چٹک کر کہا
اماں ۔۔۔ آپ آجائیں کچن سے اس کا اندازہ بہت اچھا ہے ، اچھا بنائے گی “
ہماری شادی کی پہلی دعوت بھی رضیہ کے بھائی اور امی نے ہی کی تھی شادی کے تیسرے دن ۔۔۔ پہلے دن انہیں پتہ چلا دوسرے دن وہ ملنے آئے سب تیسرے دن ہم سب ان کے ہاں مدعو تھے پتہ نہیں کیسے کلاسک سے لوگ تھے حیران کرتے ہوئے )
طارق سے سب پیار بہت کرتے تھے یقینا اس لئے اس کی ہر بات کو سر تسلیم خم ۔۔۔ باقی سب معاملات کو سنبھالنے والی رضیہ کی سمجھداری ایک الگ ہی مقام پر تھی
تو گویا ہم دوست
دشمن بھی معترف تھے۔۔۔ یہی تو خوبی تھی کہ ہم ایک دوسری کی کسی بھی خوبی کو دل سے سراہتی تھیں ۔۔۔۔ جیسے بھئی اس کا سلیقہ مثالی تھا کپڑے دھوبی کو دھلنے جارہے ہیں اس طرح تہہ شدہ بندھے ہوئے کہ مجھے لگتا استری کرکے رکھے ہیں پتہ تب چلتا جب دھوبی کو دئے جاتے ۔۔۔ جو دراز کھول لو الماری کھول لو جب کھول لو سلیقے اور ترتیب سے سجا ہوا ۔۔۔ پورے گھر میں صرف ایک میری الماری تھی جو بے ہنگم ہونے کی گواہی دیتی ۔۔۔ کبھی کبھار میری غیر موجودگی میں وہ بھی سیٹ کر دیتی ۔۔۔ شروع میں سب کے کپڑے استری کرتی تو میرے بھی کر کے ٹانگ دیتی ۔۔۔ طارق کو یہ بات پسند نہ آئی اس کے کپڑے کیوں استری کرتی ہو یہ خود کرے گی ۔۔۔ چلو جی ٹھیک ہے ۔۔ میں اگر کھانا پکانا کر رہی ہوں (باورچی تھا ویسے گھر میں روزمرہ کوکنگ کے لئے کہ میں تو ویک اینڈ پر ہی ہوتی تھی اور رضیہ کو تو سبزی کاٹنا بھی نہیں آتی تھی کبھی کبھار طارق اپنے حساب سے موٹا جھوٹا کاٹ دیتا باورچی اگر گاؤں گیا ہوتا آلو یا سبزی کا کوئی ٹکڑا بڑا کوئی چھوٹا کوئی ٹرائینگل کوئی مربع کوئی مستطیل کوئی پچر سا کوئی فربہ ۔۔۔ رضیہ کو چھری پکڑنا نہیں آتی تھی مجھے تو دیکھ کر ہنسی آجاتی کہ یہ پکڑ کیسے رکھی ہے ۔۔۔ طارق بہت شوق اور ارمان سے میرے ہاتھوں پہ نظر گڑا دیتا جب میں فٹا فٹ سبزی کاٹ بنا رہی ہوتی ۔۔۔ میں اسے چھری دکھا کر قاتلانہ حملے کا اشارہ کرتی اس کی ہنسی چھوٹ جاتی ۔۔۔ایسے تو کبھی میری شکل پہ غور نہیں کرتا ہے )
رضیہ کپڑےاستری کرتی تو وہ ایک ساتھ سب کے استری کر دیتی ۔۔۔ مگر اسے میرا سوٹ ناگوار گزرا خدا گواہ ہے رضیہ کو نہیں طارق کو ۔۔۔ ہاہاہا
طارق کے کپڑے کتابوں کی الماری میرے کمرے میں تھی ۔۔۔استری کرکے سیٹ کرنا ، کپڑےہینگ کرنا ، رضیہ کا طارق سے مثالی پیار الماری کو بھی مثالی رنگ دئیے رکھتا ۔۔۔
مزے کی بات ہے یہ وسیع و عریض چالیس ام کے درختوں والا سرکاری بنگلہ رضیہ کی جاب اور ہاؤس رینٹ پہ تھا کہ اس کی جاب سندھالوجی سندھ یونیورسٹی میں تھی جس کے بڑے بڑے سرکاری بنگلوز تھے طارق کی سندھی ادبی بورڈ میں جن کی کوئی ہاؤسنگ فیسیلٹی نہ تھی
ان کا اپنا گھر سوسائیٹی میں کرائے پر دیا ہوا تھا ۔۔۔ جب اس گھر میں شفٹ ہوئے پرانے گھر سے تو کمال مہربانی سے دونوں نے پہلا حق مجھے دیا کہ کون سا کمرہ لوگی ۔۔۔ میں نے شروع والا باہر کی سمت جو صحن میں کھڑکیاں کھلتی تھیں گیٹ سے آتے ہی روشن اور ہوا دار سا وہ پسند کیا
طارق نے کہا “مجھے پتہ تھا یہی لے گی یہ “
شائید رضیہ کو بھی وہی کمرہ پسند تھا مگر اس نے فراخدلی سے کہا دوسرے کے بارے میں
میرے لئے وہی ٹھیک ہے بچوں ٹی وی لاونج کچن سے بھی قریب ہے مجھے گھر سنبھالنے دیکھنے میں بھی آسانی رہے گی “
وہ ہر چیز پہ بڑی فراخدلی سے سمجھوتہ کر لیتی تھی مگر طارق کی توجہ پہ نہیں ۔۔۔
اس نے طارق کو مجھ پہ توجہ دینے سے گریز پر ہی مائل و مجبور رکھا شائید / یقینا)
کہ میں توجہ دوں گی خیال رکھوں مگر تم مجھ سے نظر نہ ہٹانا
میں ناگن ناگن ۔۔ ۔۔ ہاہاہا
نگینہ کی سری دیوی لگتی کبھی کبھار مجھے ۔۔۔ ایک بار تنگ آکر میں نے طارق سے کہا
رضیہ کو ‘انکا ‘ کی طرح سر پہ سوار کر رکھا ہے
اس نے کہا
ہاں وہ میری انکا ہی ہے
میں نے کہا
مجھے پھر اقابلا سمجھ لو ۔۔۔
مگر انکا نے ہمیشہ اقابلا کو نو لفٹ کرائی رکھا جیسے اس نے اقابلا پڑھی ہی نہ ہو ۔۔۔ بس انکا ہی تھی سب رنگ ڈائجسٹ میں ۔۔۔ہاہاہا
ایک بار نور الہدی شاہ صاحبہ آئیں انہیں کوئی چیز طارق ڈھونڈ کے دکھا رہا تھا ۔۔۔الماری کھلی جیسے سیٹنگ کا فنی شہکار کھل گیا۔۔۔ ٹائیاں الگ پینٹس الگ شرٹس الگ انڈر وئیر بنیانوں کی الگ سیٹنگز ساکس الگ چھوٹے چھوٹے ہینگرز میں شلوار قمیض الگ اکڑے استری ،شدہ ٹوپی اجرک الگ، سب نگینے کی طرح اپنی اپنی جگہ فٹ اور سیٹ میں خود کبھی کبھار کھول کر حیران ہو جاتی کہ رکھتی کس طرح ہے۔۔۔ ایک بار صرف ایک بار مجھے ایک سوٹ پکڑایا کہ واپس رکھ دو الماری میں دوسرا پہنوں گا ۔۔۔ میں نے رکھ دیا بغیر سیٹنگ کے ایک ہی ہینگر پر دونوں چیزیں شکن دار الٹا سیدھا لٹکا کر ۔۔۔ وہ شائید میرے چیکنگ مشن پر تھا ۔۔۔ آفس سے واپس آتے ہی الماری کھولی وہی ہینگر نکالا پینٹ کا ایک پائنچہ شمال میں ایک مغربی شمال میں شرٹ کا بازو مغربی اور مشرقی دونوں سمتوں سے ترچھا اور اونچا نیچا ۔۔۔ اللہ جانتا ہے میں نے پوری توجہ اور کوشش سے ہینگ کئے تھے ۔۔۔ مگر میری مجبوری یہ تھی کہ کبھی مردانہ کپڑے سنبھالے نہ تھے ساری زندگی ہاسٹلوں میں گزری تھی باپ بھائیوں کے کپڑے کبھی رومال تک نہ دھویا نہ سنگوایا ۔۔۔
کیسی عورت ہو کپڑے تک ہینگر پہ نہیں لٹکا سکتیں ۔۔
یہ کیا ہے اس نے شرٹ اور پینٹ کو مزید ٹیڑھا کر کے مجھے گھور کے دکھایا ۔۔
تمہیں تو پھانسی پہ لٹکانا بھی آتا ہے “
میرا بھی برجستہ جواب نکل گیا
مجھے پتہ تھا اسے ہنسی آگئی ہے مگر اس نے چپ رہنے پہ اکتفا کیا ۔۔
اسے پتہ تھا اس نے پھانسی پہ لٹکا رکھا ہے سیدھا سیدھا
ایک بار پوچھا
محبت کے بارے میں اب کیا خیال ہے تمہارا ؟
میرے انداز میں زہر بھری تلخی گھل آئی
میرا بس چلے تو محبت کو سولی پہ لٹکا دوں “
میں نے بے ساختہ ریلنگ پہ لٹکے پردوں کی طرف سولی کا اشارہ کیا
اس کے خوبصورت اور جگ مشہور قہقہے چھوٹ گئے ۔۔۔
اس نے اسی خیال پر ایک شعر بھی لکھ دیا تھا بعد میں کہیں
کچھ اسی طرح( یاد نہیں پورا )
میرا بس چلے تو سولی پہ لٹکا دوں محبت کو
شائید میں نے بھی ایک نظم لکھی ہے کہیں
کیسی عورت ہو ؟
کپڑے ہینگر پہ لٹکانا نہیں آتے تمہیں
اس نے مجھے ڈپٹا
ہاں مگر ۔۔۔
تمہیں تو سولی پہ لٹکانا بھی آتا ہے
میں نے سوچا )
کچھ اسی طرح تھی شائید
میں نے اسے مسکرا کے دکھایا ۔۔۔ اچھا بیٹے تو کرلے مجھے ڈانٹنے کا ارمان پورا ۔۔۔ وہ غصے کی کامیاب ایکٹنگ کرتے ہوئے کپڑے سیٹ کرکے ہینگ کرکے جھنجھلا کر چلا گیا باہر۔۔۔ میرا کیا قصور بیٹھ رہی چپ چاپ (مزے سے)
بہرحال ایک بات انتہائی قابل تعریف ہے
بدزبانی ، بدتمیزی ، بدتہذیبی یا ہاتھ اٹھانا نفرت کی حدتک معیوب سمجھتا تھا وہ ۔۔۔ مگر نظر اندازی اس کا ایسا کند اور تیز ہتھیار تھا کہ نہ مرو نہ جیو ۔۔۔ بس پڑی سڑتی رہو اور ہتھیار کے سارے داؤ پیچ وہ مجھ پر ہی آزمائی رکھتا کہ اس میں اسکی شہزادی انکا راضی رہتی ۔۔۔ اور میں اس کے لئے قابل قبول بھی ہو جاتی کہ جب سارا دن میں نے ان کا بھرت ناٹیم سا رومانس دیکھنا ہے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے محبت کے نرت اور داؤ پیچ دکھاتے ۔۔۔ اور سب تو ان کے ناز و انداز کو انجوائے کرتے تھے مگر بہرحال میں اس سیٹ پر نہیں تھی کہ انجوائے کر سکوں ہاں گھونٹ گھونٹ زہر کی تلخی میرے اندر ضرور اترتی رہتی تھی ۔۔۔
شوہر قابو کرنا اسے آتا تھا پرانی کھلاڑی تھی اس کی انتہائی مزاج آشنا مجھے پھنسانے والے کوئی داؤ پیچ نہ آتے تھے اور میں سادگی اور معصومیت کی نمائندہ رہی ۔۔۔۔ رومانس کی جھجک تو آخر تک قائم رھی میں یہ شعبہ اسی کے ذمے رکھتی ہنسی مذاق فقرے بازی کر لیتی کبھی کبھار مگر نہ میں کھلتی تھی نہ وہ ہیں ڈھنگ سے کھلا مجھ پر ۔۔۔ شائید کھل جاتی مگر مسلسل نظر اندازی اور بے توجہی میں اس کا خود سے ہاتھ پکڑتے بھی جھجکتی تھی کہ رضیہ نہ دیکھ لے بچے نہ دیکھ لیں وہ چھڑالے گا۔۔۔ اور اسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ وہ بھی کرتا سارا دن ۔۔۔
حالانکہ وہ دونوں کھلی ڈھلی محبت انگلش سٹائل میں اٹھتے بیٹھتے گلے میں باہیں چھیڑ چھاڑ اور اسٹائل سے بچوں کے سامنے بھی نہ کتراتے ۔۔ کھی کھی کھی ۔۔۔۔ لاھوت بھی ہنستا مجھے دیکھتا میں بھی اس کی ہنسی کو انجوائے کر کے ہنس دیتی
میرے پاس کچھ نہ تھا سوائے چپ رہنے کے اور ان دونوں کے مطابق رہنے کے یہی میرا مدافعتی اور مزاحمتی ہتھیار تھا
اندر ہر وقت دل میں ٹوٹ پھوٹ جاری رہتی ۔۔۔ رونے کی عادت نہیں تھی ورنہ بندو بست ہر وقت رہتا ۔۔۔
بہرحال جب اس روز الماری کھلی
میرے سگھڑاپے اور سلیقے کی تحسین و داد آپا نور الہدی شاہ کی آنکھوں میں نظر آئی ۔۔۔
الماری تو بہت سیٹ ہے “
انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا
میں نے میسنی ایکٹنگ کرکے شکریہ بھری نظروں سے سرجھکالیا
دل میں ہنسی بھی آئی اور دل ہی دل میں رضیہ کو خراج تحسین بھی پیش کیا ۔۔۔ کہ بہن آج تو نے میری عزت رکھ لی اگر یہ الماری اور سیٹنگ میرے ہاتھ میں ہوتی تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ ہوتی ۔۔۔ اور کیا سوچتیں آپا کہ آخر دیکھا کیا ہے اس پھوہڑ میں طارق نے ۔۔۔ہاہاہا
یہ طارق کا اور میرا معاملہ تھا میں جانوں وہ جانے کہ کس نے کس میں کیا دیکھا۔۔۔ہاہاہا
ہھپھوجی اج سارا دن وڈا دروازہ بند رکھیو
اوں ۔۔۔
پھپھو جی سن رئے او
ہاں ۔۔۔آں
پھپھو جی دروازہ بند رکھیو ۔۔۔ سارا دن
کیوں ۔۔۔؟
فوگ ویکھ رئے او بار ۔۔۔ ساری اندر آوڑے گی
لاہور میں فوگ کی شدید صورتحال اور انس ( بڑے صاحب ) کی مجھے ہدایت
ماشا اللہ سے یہ اپنے باپ کا بھی باپ اور بزعم خود گھر کا بڑا بنا رہتا ہے جب سے قد نکالا ہے اور گھر کے سست ادھڑے چاول دیکھے ہیں ۔۔۔ہاہاہا
اللہ سلامت رکھے آمین اور سلامت رکھے ہم سب کے پیارے سارے بچوں کو (آمین ثم آمین )
هائی اسکول تک میں ایک سنجیده سی پڑھا کو لڑکی تھی جو کبھی کبھار چھوٹی موٹی شرارت کرلیتی تھی مثلا کلاس فیلوز کی فئیر نوٹ بکس په انهیں ڈانٹ سے بچانے کیلئے ٹیچر کے سائن کردینا ، اپنی نوٹ بوک بھی چیک کرکے سائین کرلینا مجال هے جو کس معصوم ٹیچر کو شک گزرا هو حالانکه اپنے بعض اسٹوڈنٹس کی یه وارداتیں میں فورا پکڑ لیتی هوں ، یا سلائ کڑھائی کے پیریڈ میں سارا وقت زمین په گری سوئی تلاش کرتے رهنا ، ایسی سوئی جسکا وجود هی نه هوتا تھا…..هاں مگر کالج جاتے هی مجھے اندازه هوا میری فرینڈز کی ھنسی چھوٹ چھوٹ جاتی هے میری باتوں پر ، میں نے کلاس روم میں پڑھائی کے دوران نوٹ بک په لکھ لکھ کر یه کام تندهی سے شروع کردیا ، سزا میں جو بھی کھڑی هوتی هنسی پورے گروپ کی چھوٹ چھوٹ جاتی ، سوائے میرے که میں بهت سنجیده اور پڑھاکو لڑکی کی جاندار ایکٹنگ کی بھی ماهر فن تھی هنسی کا طوفان رکتا نهیں که پھر مجھے کوئی جمله سوجھ جاتا بلیک بورڈ اور ٹیچر پر نظر جمائے لکھ کر ساتھ والی کی طرف بڑھا دیتی که وه بھی نوٹس لےلے ، اور پھر کسی نه کسی کاپین نیچے گرجاتا جسکے بهانے وه نیچے بیٹھ کر بے آواز هنس هنسا کر پھر سنجیده شکل بناکر اور پین والا هاتھ پهلے باهر لهراتی هوئی که یه اٹھانے کو جھکی تھی، اٹھ کر بیٹھ جاتی…… بی ایس سی میں پریکٹیکلز کے دوران خاصا وقت مل جاتا تھا اپنے طور پر هنسنے هنسانے کے لئے ، اس هنسی کو ذرا سا بریک اس دن لگا جب گروپ کی سب سے حسین لڑکی کا پانی سے بھری کیاریوں میں مالی کو ڈرانے کے چکروں می ںسوڈیم پھینک کر آگ لگانے کاتجربه ، هنسی اور شرارت کی وجه سے کیاری پر منه بهت نیچا کرنے کی وجه سے جھلس گیا کسی نے کسی کو اس شرارت کی هوا نه لگنے دی جب تک که وه دوباره گوری چٹی نه هوگئی آئنده پریکٹیکل شرارتوں سے پرهیز کرکے صرف اور صرف لفظی نوک جھونک په گزارا کرتے رهے هم سب ، که پڑھائی کا بوجھ اسی طرح هلکا هوتا تھا آج تک زندگی کا بوجھ اپنا بھی دوستوں کا بھی هلکا کرنے کی کوشش میں لگی رهتی هوں هنس هنسا کر
میاں رکشہ چلاتا ہے
وہ خود لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے بچت کے نام پہ زبردستی کمیٹی ڈالے رکھتی ہے ایک پسماندہ ترین علاقے میں ڈیڑھ مرلے کا پلاٹ لے کر اوپر نیچے ایک ایک کمرہ اورچھوٹی سی صحنچی بنالی ہے خود اوپری ادھ پورے کمرے میں رہتی ہے چار بچے دو میاں بیوی ۔۔۔۔ نیچے کا کمرہ اور صحنچی دو چار ہزار کرائے پر اٹھا دیا ہےبجلی کے بل بچوں کے اسکولی اخراجات بھی پورے کرنے ہیں
کھانا پینا انتہائی سادہ اور غالبا ایک یا ڈیڑھ وقت کھاتے ہیں بچے بھی کھیلتے کھالتے بھوک پیاس کو نظر انداز کئے رکھتے ہیں کل منہگائی سے سٹپٹائی ہوئی تھی
“باجی۔۔۔ میں کہیا بچیاں نوں مولی دے پراٹھے بنا دینی آں اج سالن نئیں بناندی۔۔۔۔ میرا بندہ کنہدا گھیو انہا منہگا ہوگیا اے پراٹھے نہ بناو مولی دی بھرجی بنا کے روٹیاں پکا لئو
کدی چاء پراٹھے دا ناشتہ کرلئی دا سی ھن اوہ وی گیا۔۔۔ رکھے رس تے چاء روز اوھئی کھالئو ددھ میرے ابے نے مجاں رکھیاں ہویاں نے کلو ادھ اوہ دے چھڈ دا اے ۔۔۔۔ دن چ اک وری سبزی کدے آلو کدی دال بنالئی دی سی۔۔۔ اگے اللہ خیر کرے اسی چھ جی آں دس کلو آٹا پنج دن نئیں چلدا۔۔۔۔ آٹا چینی گھیو تے بلاں توں ای امان نئیں ۔۔۔ سبزی بھاجی کی کھانی۔۔۔ دس روپے دا اک ٹماٹر کوئی سبزی اک سو ویئاں تو گھٹ نئیں۔۔۔۔ کپڑا بچیاں دا کوئی نئیں بنائی دا دو بچیاں نوں یونیفارم لے دتے دو دے ھن بوٹ گھسے ہوئے نیں کدر جائیے کی کرئیے۔۔۔ رکشے دا پٹرول وارا نئیں کھاندا اتوں ہور ودھ گیا اے۔۔۔انی سواری نئیں لبھدی ۔۔۔ تنگ آگئے آں”
یہ ہے پاکستان کے اسی فیصد لوگوں کی کسمپرسی کی کہانی , اس خاندان کا شمار اپنے دوسرے اقربا کی نسبت بہتر لوگوں میں ہوتا ہے کہ یہ ڈیڑھ مرلے کے مکان اور رکشے کے مالک ہیں باقی کا حال تو اللہ جانتا ہے یا وہ خود ۔۔۔
پرنسپل کا چارج سنبھالا تو ۔۔۔
چھ ماہ کے بعد ایک پرانے کولیگ اور ریٹائرڈ پروفیسر صاحب کسی ذاتی کام سے تشریف لائے
جھجھکتے ہچکچاتے مدعا پیش کیا جو بہرحال کالج سے متعلق نہ تھا پبلک میٹر تھا مگر تعاون کی درخواست کے ساتھ
“میں بہت دنوں سے آنا چاہ رہا تھا۔۔۔ آپ کو چارج سنبھالنے کی مبارک باد بھی دینا تھی مصروف تھا کچھ ۔۔۔ میں نے سوچا آج دے کر آوں۔۔۔ “
غائب دماغی میں ان کے منہ سے پروفیسر ی جملہ پھسلا
“آپ کو عید مبارک ہو۔۔۔”
ہاہاہا ۔۔ میں ہنسنے میں حق بجانب تھی اور وہ حیران ہونے میں
انہی پروفیسر صاحب کا ایک اور بڑا دلچسپ قصہ تھا
گھر میں کچھ مہمان آرہے تھے سب سے پہلے مرغی خرید کر پنجے باندھ کر چھبی میں رکھی اس کی حرکات و سکنات کنٹرول کرتے دو کلو آلو پیاز ٹماٹر جملہ فروٹ کی اقسام لیتے گئے ٹوکری میں ڈالتے گئے ۔۔۔ بڑی سی ٹوکری میں سات آٹھ کلو وزن اٹھائے ہانپتے کانپتے گھر پنہچے۔۔۔ ایک ایک کرکے سارا وزن باہر نکالا ۔۔۔ آخر میں نیچے دبی مرغی کی باری آئی تو وہ بے چاری مرحومہ نکلی
پروفیسر صاحب بہت سٹپٹائے کہ
‘یہ کیا اور کیسے ہوگیا’
بہرحال مہمانوں کو یقینا آلو کا شوربہ ہی نصیب ہوا ہوگا ۔۔۔۔
آخر تو غائب دماغ پروفیسر کے مہمان تھے
آج دوپہر کا انتہائی دلچسپ خواب :
دوپہر سوگئی تھی بہت دنوں بعد آج ۔۔۔ ساری زندگی پہلے عادی مجرم تھی دوپہر کو سونے کی ۔۔۔بہرحال اب کبھی کبھار سوتی ہوں
خواب میں مارفیس بلے ، کو دیکھا بہت صاف ستھرا سفید اور خوبصورت ۔۔۔ جو اب وہ نہیں رہتا جب سے آوارہ گرد ہوا ہے ہاں دوسال پہلے جب نیا نیا آیا تھا ساری سردیاں میرے کمبل پہ پڑا سوتا تھا بہت سفید تھا۔۔۔ بہت سی تصویریں بھی ہوں گی اس کی آرام فرماتے ہوئے۔۔۔ اب گھر میں کبھی کبھار ہی آتا ہے اور ڈائریکٹ اوپری منزل پہ جاکر ابلا چکن کھا کر پھر نو دو گیارہ ۔۔۔
خیر خواب میں دیکھا وہ گھر آیا ہے بہت اجلا سفید اور آنکھ بھی ایک نیلی ایک براون بہت خوبصورت اور واضح سی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتا ہے
پہچان گئے ہو مجھے ۔۔۔ “
دوسال پرانی رفاقت میرے ذہن میں آتی ہے
میں اسے پیار کرتی ہوں دونوں ہاتھ سے اس کے گال سہلا کر۔۔۔ وہ اپنے سارے ناخن دبائے الٹا میرے چہرے گالوں ہونٹوں کو سہلانے لگا ہے اور مجھے دیکھے جارہاہے ۔۔۔
بہت ہی پیار کا اظہار کر رہا ہے ایک بار میں ڈرتی بھی ہوں پنجے نہ نکال لے ۔۔۔مگر اس نے سہلاتی مٹھیاں اور دبا لی ہیں ۔۔۔
پتہ نہیں کب سے پیار کا پیاسا ہے ۔۔۔ہاہاہا
میں بھی لاڈ سے کہتی ہوں
پہچان گئے ہو ۔۔۔
لگتا ہے اس نے دوسال بعد مجھے دیکھا ہے
ایک فیس بک فرینڈ پوچھتی ہے
کیا کھلاتی ہو اسے سپیشل)۔۔۔ جو اتنے لاڈ کر رہا ہے
میں نے تو اسے کبھی روٹی کا ٹکڑا بھی نہیں ڈالا
اسی مارفیس کے پیار پیور پہ خواب دی اینڈ ہوگیا ۔۔۔۔ ہاہاہا
آج آیا تو اس سے خاص طور پر ملوں گی
بلی کے خواب میں چھیچھڑے میرے خواب میں بلا ۔۔۔ یہ تو کھلا تضاد ہے ۔۔۔جاتا اپنی سی بلی کے خواب میں ۔۔۔ہاہاہا
پیاری بہنوں جیسی دوست حمیدہ پنھور کے لئے ۔۔۔۔۔ انجوائے
مونکی یاد پون تھا پنھوار عمر
مجھے یاد آتے ہیں پنھوار ، عمر
کیا حسن بھرے تھے سنگھار (چرواہے ) عمر
منھجو ملک مٹھو ملیر ، عمر
میرا وطن میٹھا ملیر ، عمر
کلاسیکی داستان عمر مارئی کے حوالے سے ہے یہ سانگ
جب سندھ کا بادشاہ عمر مارئی کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر اسے سہیلیوں کے ساتھ کنویں سے پانی بھرتی کو اٹھا کے لے گیا اور اپنی رانی بنانا چاہا ۔۔۔
مارئی عورت کی عزت وقار جرات اور اپنوں سے محبت کے حوالےسے سندھ کی عورت کا سب سے بھر پور مزاحمتی اور پسندیدہ کردار ہے اسی حوالے سے شاہ لطیف سائیں کا شاہ جو رسالو میں ایک سر یا داستان ماروئی بھی ہے ہی ٹی وی ڈرامہ بھی موجود ہے( یہ کلام غالبا شاہ صاحب کا نہیں یے )
بہرحال اغوا شدہ غریب ماروئی ۔۔۔ حاکم عمر سومرو کو قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے اور اس قدر مزاحمت کرتی ہے اس کے محلات کھانے پوشاکوں زیورات اور ترغیبات سے کہ اس کے جواب میں پھٹے پرانے کپڑے پہنے برے حال زمین پر ہی بیٹھ رہتی ہے ہر ترغیب کا مقابلہ وہ اپنے ماروئوں یعنی لوگوں کے اٹھنے بیٹھنے رہن سہن کھانے پینے اور دیگر حوالوں سے کرتی رہتی ہے ۔۔۔ہر وقت ملیراور مارو maroo and malir ( اپنے دیس اپنے لوگ) کو یاد کرتے رہنے سے انتہائی متاثر ہوکر بہت ہی بادشاہ عمر سومرو باعزت طریقے سے اجرک پہنا کر یعنی بہن بناکر اسے واپس ملیر چھوڑ جاتا ہے
ماروئی سندھ کی باکردار عورت کا اپنے دیس اور لوگوں سے محبت کا ایک مثالی اور مزاحمتی کردار یے جس کی ہر سندھی لڑکی / عورت سے توقع رکھی جاتی ہے اس لئے سندھ میں مارئی نام رکھنا بہت پسند بھی کیا جاتا ہے
سندھ یونیورسٹی میں ہمارے گرلز ہاسٹل کا نام بھی “ماروی ہاسٹل” تھا اور سب لڑکیوں کا خطاب احتراما ‘مارئی ‘بھی سمجھ لیں کہ یہاں سب ماروئیاں رہتی ہیں ۔۔ مطلب مرنے مارنے والیاں نہیں ۔۔۔
ہاں مگر ۔۔۔ مار بھی رکھتی تھیں !
سب بہت پیاریاں تھیں اتنا حسن اور سٹائل کی فراوانی وہیں دیکھی جب آٹھ بجے یونیورسٹی پوائنٹ کے لئے سب ہاسٹل کے گیٹ پر اکٹھی تیار ہوکے پہنچی بس کا انتظار کر رہی ہوتیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیروئن بنی ۔۔۔ واللہ
میں بھی انہی میں سے ایک تھی ۔۔۔ہاہاہا
یاد آیا خدا جانے کون کس کا کبھی کوئی کزن آیا ۔۔۔شومئی قسمت ( اس کی) ایک بار آدھ گھنٹہ مجھے بیٹھنا پڑ گیاگیسٹ روم میں دوست کے ساتھ ۔۔۔ آیا کم بخت کزن سے ملنے تھا دیکھنے کا ٹارگٹ مجھے بنائی رکھا ۔۔۔ہاہاہا
جوانی کی یادیں )
مجھ سے دوبارہ ملاقات کا شرف کبھی حاصل نہ ہوسکا (اگرچہ) پھیرے وہ خوب لگاتا کزن کی طرف ۔۔۔ لڑکیوں کا سارا شرارتی گروپ اس سے ملنے ملانے نوک جھونک اور شرارتیں کرنے لگا پتہ چلا وہ کزن سے کہہ رہا ہے اپنی کسی دوست سے میری شادی کرادو ۔۔ امیدوار بھی پیش ہوئیں
منہدی لگا کے اس کا نام بھی (جانے کیا تھا) لکھ لیا متوقع دلہن نے ۔۔۔ کوئی دو چار مہینے یہ سلسلہ چلا ہوگا میرےخیال سے (میری جانے بلا ۔۔۔)
لاڑکانہ سے واپس جامشورو گئی تو (متوقع ) دلہن اور تمام سہیلیاں میرے پیچھے پڑی ہوئی ہیں
عذرا دل چاہتا ہے تمہاری آنکھیں چوم لوں”
سہیلیوں میں جب سب طرف یہی جملہ بجتے سنا تو میں کچھ ہوشیار ہوئی آخر مسئلہ کیا ہوا ہے سب کے ساتھ
پہلی بار جو مسکراہٹ آئی تھی
غصہ میں تبدیل گئی سب سے سنجیدہ اور سلجھی ہوئی کو ایک طرف لے کر گئی
کیا مسئلہ ہے یہ ۔۔۔ جس طرف جاتی ہوں ہر کوئی یہی جملہ بول دیتی ہے کوئی نہ کوئی آٹھ دس سے سنا ہے میں نے ۔۔۔
یار مائنڈ مت کرنا ۔۔۔ وہ جو ہم فلاں کی فلاں سے منگنی کرا رہے تھے نہیں ہوئی ۔۔۔وہ بھاگ گیا ہے
کیوں ؟
تمہارا پوچھ رہا تھا کہ “عذرا کہاں ہے ؟
وہ نظر نہیں آتی ۔۔۔ نظر آئے تو میری طرف سے اس کی آنکھیں چوم لینا “
میرا نام لے کے جان چھڑا کے بھاگ گیا ۔۔۔ہاہاہا
لڑکیوں نے باری باری اپنا شرارتی فرض نبھایا
بلکہ متوقع منگیتر نے تو بغیر رقابت کا اظہار کئے خوش دلی سے باقاعدہ میری آنکھیں چوم کر یہ جملہ کہا ۔۔۔ہاہاہا
بھینگا پن لگتا ہے اب تو مجھے آدھے سر میں مسلسل نیورو لوجیکل دباؤ کے باعث سکڑی سمٹی پرانی آنکھوں میں کہ تجربہ کار ہو گئی ہیں شائید ۔۔۔۔ہاہاہا
آپا ثریا کے بابا ویسے آنکھوں کے ذرا سے ٹیڑھ پن کو صوفی پنے کا نشان قرار دیتے تھے ۔۔۔کہ نشانی ہے صوفیوں کی ذرا سی آنکھ کا پھیر (واللہ عالم ۔۔۔ )
کی جاناں میں کون بلھیا ؟
ارے لوگو تمہارا کیا ؟
میں جانوں میرا خدا جانے
ہاں اتنا ہے کہ جہاں بھی ہوں بڑی آسانی سے واپسی کی چھلانگ لگا لیتی ہوں
مطلب الٹی قلابازیاں ۔۔۔ میرے سارے بھتیجے بھتیجیوں نے بھی لگائی ہیں میری طرح بچپن میں۔۔۔
ہیریڈٹی پرابلم ہے یہ اگر صوفی ازم ہے تو ۔۔۔۔
اور ابوجی کی طرف سے ہے ماشا اللہ
ان کے آنکھیں ویسے سیدھی ہی تھیں ۔۔۔ ہاں خواتین کے معاملے میں مرد ہی تھے
کہ امی جی ہمیشہ کہتیں
” نیویں نیویں پاکے تکدا اے چالاکی نال ۔۔۔ “
وہ ہمیشہ آنکھیں نیچے کر لیتے تھے کسی بھی گھر آئی خاتون کو دیکھتے ہی۔۔۔ مگر امی کہتی ۔۔ نیویں پاکے تکدا اے ۔۔۔ ویکھو لیو بھانویں ۔۔۔ہاہاہا
پتہ نہیں کہاں سے وہ نیویں آنکھوں کے ترچھے کونے دیکھ لیتی تھیں ۔۔ہاہاہا
بھئی انتہائی ہینڈسم ہالی ووڈ ہیرو سٹائل کو لیا ملے گا دیکھ کر اس ٹوپی والے سفید خیمہ پوش وجود کی نظر آنے کے لئے بنائی گئی جالیوں میں اپنی نظر جھکا کر سائیڈ سے ترچھی نظر ڈال کر ۔۔۔ ہاں کبھی کبھار ان کی جھکی ترچھی نظر ہوتی ضرور تھی کہ خاتون کے راستے میں تو نہیں ہیں کہ پرے ہٹ جائیں ۔۔۔مگر اللہ بخشے دونوں کی نوک جھونک جنت میں بھی چل رہی ہے یا سکون سے رہ رہے ہیں اللہ ان کو ابدی سکون کی جنتوں میں رکھے ہمیشہ ان کے تمام پیارے اور عزیزوں ۔۔۔اور اکرم بھی ساتھ ہی ہو ان کے (آمین ثم آمین)
ہم بھی جا ملیں گے کبھی ۔۔۔
ہاں تو ماروی ہاسٹل اور یونیورسٹی کے دنوں میں ہی ایک بار لاڑکانہ گرلز کالج کی لڑکیاں ٹرپ پر جامشورو آئیں رات ان کا قیام ماروی ہاسٹل میں تھا ۔۔۔ میں گل کو لے کر ہال میں چلی گئی کہ چلو لاڑکانہ کی لڑکیوں سے گپ شپ کر کے آتے ہیں ۔۔۔
یار لاڑکانہ کی لڑکیاں تو بہت حسین ہیں
جی جی ۔۔۔۔ سندھ کا حسن اور سٹائل وہیں سے نکلتا ہے دوستو !
مجھے ہی دیکھ لو ۔۔۔ !!
پنجاب میں لہور ہے تو
سندھ میں لاڑکانہ ہے
اور میں تو پھر دونوں جگہوں کی ہوں
ملغوبہ اینڈ کھچڑی
دیسی گھی میں بنی دیسی سی۔۔۔ہاہاہا
عزیز و محترم ۔۔۔
عذرا مغل دام ظلہ ۔۔۔ہاہاہا
عرف نرگسی شخصیت ۔۔۔ہمارا جئے بھٹو نہیں تھا کیا ؟
تھا نا ۔۔۔
ہم سب جئے بھٹو ہیں
اور جب مزاح پہ آئیں تو ۔۔۔
بھاڑو چھٹو ہیں ۔۔۔ہاہاہا
مطلب ٹرین کا کرایہ نہیں دیتے چاہے ٹرین کا روٹ ہی ہمارے شہر سے کٹ جائے
شکر ہے بولان ایکسپریس بحال ہوگئی کوئٹہ ۔لاڑکانہ ۔دادو ۔جامشورو۔کراچی کے درمیان
بھئی میں نے ہمیشہ ٹکٹ پہ سفر کیا ہے کہ ۔۔۔ ایک ایماندار پاکستانی ہوں
ہاں مگر اب لاڑکانہ نہیں جانا چاہتی کہ بچپن کے سارے چہرے وہاں ہیں ہی نہیں نہ وہ گلیاں ویسی طلسمات بھری رہیں ۔۔۔ ہاں دادو جانا چاہتی ہوں کہ اللہ میری سب دوستوں کو سلامت رکھے آمین
گئی تو رضیہ سے بھی مل کر آوں گی ایام گزشتہ کو دہرالیں گے کچھ بچوں گی باتیں کریں گے کچھ طارق کی ہنس ہنسا کر ۔۔۔ مگر اداسی سے
وہ کہتی ہے طارق اس کے ساتھ ہی ہے اب تک ۔۔۔
I respect their love and she respects me too ….
کیا رقابت کیا پیچیدگیاں۔۔۔
شروع سے دوست ہیں اب بھی دوست ہیں اور سب سے اچھی دوست (غالبا)
فرسٹ ائیر اور انٹر میں ہمیشہ پریکٹیکلز سے بھاگ نکلتی تھی کہ آگے میرے ایکسچینج ڈیوٹی آورز ان ہوتے بارہ بجے سے ۔۔۔ جب بہت سے پریکٹیکلز چھوڑ دئیے تو فراگ کیا میرا سگا تھا جو اسکا ڈائسیکشن کرتی بونز وغیرہ یاد کرلی تھیں ۔۔۔
ایکزام میں موٹے موٹے فراگ ( ڈڈو ۔۔۔ صاحب ) ڈائسیکشن ڈش میں پانی کی ہلکی ہلکی لہروں میں بے ہوش پڑے ہلکورے لے رہے ہیں مجھے نہیں پتہ مودھا کرنا ہے یا سدھا اس کا تیا پانچہ کرنے کے لئے۔۔۔ ساتھ والی کو دیکھا اس نے ڈورسل سائیڈ (کمر کے بل) لٹایا ہوا تھا ۔۔۔ میں نے بھی فراگ کو تھاما فور لمب ہائینڈ لمب کھینچ کے پن اپ کر دئیے اور پیٹ چاک کردیا ۔۔۔ بس اتنی سی بات تھی سسٹم سارے ابل پڑے ایکزامنر صاحب راوئنڈ پہ چیک کرتے مارکنگ کرتے پھر رہے ہیں ۔۔۔ دونوں کے مارکس لگا گئے
نہ جانے میرے کیوں زیادہ لگائے ۔۔۔ میں نے تو پہلی بار دیکھا اور کاپی کیا تھا ڈائسیکشن آف فراگ ۔۔۔ہاہاہا ۔۔
وہ بعد میں منمنا کر کہتی رہتی ۔۔۔
یار ۔۔تم نے تو میرا کاپی کیا تھا
بتایا ہے نا ذہانت کے ساتھ خوش قسمت بھی رہی ہوں ہمیشہ (ماشا اللہ ) ۔۔۔ وائوا میرا سب سے اچھا ہوتا تھا فرسٹ ائیر ٹو پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو تک ۔۔۔
آ سنگل کیوئسچن آئی مسڈ بٹ مینیجڈ ٹو ڈائیورٹ دا اٹینشن آف میمبر پبلک سروس کمیشن ۔۔۔ وین ادر میمبر انڈرسٹینڈنگ اینڈ ان ہیلپنگ موڈ انٹرپٹڈ ود آ فریش کیوسچن ۔۔۔ دا کیوسچن آئی کڈ ناٹ آنسر واز این اسلامک ون ۔۔۔
جب حضور پاک کے دادا کا انتقال ہوا انکی عمر کیا تھی ؟
مجھے پتہ تھا وہ دادا کی عمر پوچھ رہے تھے
میں نے تجاہل عارفانہ سے معصوم سی شکل بنا کر حضور پاک کی بتادی ۔۔
دوسرے ایکزامنر کی نیا سوال انٹری سے میری بچت ہوگئی اور پورے سندھ میں میرا دوسرا نمبر تھا پانچ سیٹوں میں سے ۔۔۔اس وقت میں جسٹ ایم ایس سی تھی ایم فل والی پہلے نمبر پر رہی ۔۔۔ مزے کی بات ہم تین کلاس فیلوز سندھ یونیورسٹی کی فرسٹ سیکنڈ اور تھرڈ پوزیشنز ہولڈرز سلیکٹ ہوئیں ۔۔۔ میری فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن تھی جبکہ کراچی یونیورسٹی کے امیدوار بھی مقابل تھے ان کے انٹرویوز کراچی میں ہوئے ۔۔۔ مگر رزلٹ اکٹھا ہی بنا تھا پورے صوبے کا ۔۔۔ پھر لکچرر ان دادو اور چل سو چل ۔۔۔ فائنلی پروفیسر آف ذولوجی کم پرنسپل گورنمنٹ گرلز کالج دادو چھ سال ڈیپوٹیشن پر گلبرگ کالج میں ایچ او ڈی ذولوجی ڈیپارٹمنٹ ۔۔۔ 2013 سے 2018 تک پھر ۔۔۔
دادو کالج واپسی ۔۔۔
کام کے حوالے سے بہت ہی جوائے فل بھر پور اور مصروف وقت گزارا گلبرگ کالج میں بھی کہ بی ایس جو نیا نیا انٹروڈیوس ہوا ود کمپلسری ریسرچ اینڈ تھیسس ۔۔۔ تو سو کے لگ بھگ اسٹوڈنٹس کو تھیسس بھی کروا دئے شکر الحمد للہ ۔۔۔ ایک بھر پور دور گزار کے اب راوی چین ہی چین لکھتا ہے پنشن آجاتی ہے بیٹھ کے کھالیتے ہیں اور بچوں کو چیجیاں چوجیاں کھلا دیتے ہیں کوئی ذمہ داری نہیں نہ فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا ۔۔۔ سارا دن موبائل ٹی وی یا کلوز فرینڈز اور فیملی سے کبھی کبھار فون پہ گپ شپ نماز روزہ ٫ تازہ عمرہ٫
شکر الحمد للہ ۔۔۔رب العالمین مہربان رہے ہمیشہ اور ہر قسم کی مالی جسمانی و دیگر معذوری و محتاجی سے بچائے دنیا و آخرت میں بھلائیاں ہی بھلائیاں کرے
مجھ نمانی کے ساتھ ۔۔۔ حاسدوں کے حسد اور نظر بد سے محفوظ رکھے ہمیشہ (آمین ثم آمین ) شروع سے عادت تھی ہر نیا سوٹ پہلے ساڑھی بناکر آئینہ دیکھتی تھی اب یہ بھی وہی حرکت کی کہ دوپٹہ پلو بناکے سیلفی بنا لی ۔۔۔ سوٹ آج سلنے گیا ہے آنکھیں چشمہ اتار کر کچھ بھینگی سٹپٹائی سی لگتی ہیں یہاں بھی لگ رہی ہیں مجھے یا واقعی دماغی کمزوری اور موبائل پہ مسلسل نظر ٹکانے کا پھیر سا آگیا ہے کچھ نہ کچھ لگتا ضرور ہے آنکھوں کے چندھیانے کا سبب ۔۔۔بڑھاپا دماغ اور نظر کا ہر وقت فوکس چوکس رہنا بال بہت جھڑ گئے ہیں سو بوقت ضرورت (کسی شادی بیاہ یا پروگرام میں دھڑلے سے) مصنوعی بالوں کا استعمال کیا جائے گا ۔۔۔ جو ایکسٹیشنز آن لائین پچھلے ہفتے آئی ہیں ۔۔۔
بھئی میں تو سیدھی سچی آئینہ رو اور شیشہ (دل سے لڑکی ۔۔۔ہاہاہا ) عورت ہوں نہ عیب چھپاتی ہوں نہ ثواب ۔۔۔ کہ سچ ہی میرا آئینہ ہے اور میرا دلی سرمایہ بھی ہے ۔۔۔ فطرتا شروع ہی سے بہت ہی کم گو رہی ہوں ۔۔۔ اب لکھ کے ساری بھڑاس نکال دیتی ہوں خاموشی کی ۔۔۔ انتہائی خاموش رہنا پسند ہے اور اب تو باتوں لوگ بھی برداشت نہیں ہوتے اگرچہ ہمیشہ سے اچھی لسنر تھی اب ایک سے دوسرا فالتو جملہ اریٹیٹ کر دیتا ہے بلڈ پریشر ہو شائید
مزید یہ کہ (لڑکے / لڑکیاں) مرد عورتیں سب مجھے ایک سے لگتے ہیں فیمینسٹ ایک حد تک ہوں مگر بے حد انصاف پسند بھی ۔۔۔ نیچر لور اینیمل لور ، ہیومن لور ، انصاف پسند ، ہمدرد طبیعت اور نرم خو ، نرم دل ہوں ۔۔۔ مزاج مزاحیہ رومانٹک ہونے کے باوجود میچور اور سنجیدہ ہے غصہ بھی آتا ہے جو پہلے نہیں آتا تھا ۔۔۔ سب میرے اپنے بہن بھائی دوست کہ سولہ سال کی عمر سے کو ورکنگ کو ایجو کیشن ۔۔۔ ہر دو صنفی کولیگز کے ساتھ کام کر کے میرے ذہن میں یہ فرق خود کبھی نہیں آتا دنیا دکھاوے کو کبھی کبھار شو آف کر لیتی ہوں اللہ اللہ خیر صلا
رب راضی رکھے سب کو اور مجھے بھی آمین
اچھا میں نے یہ سب کیوں لکھا ۔۔۔ ؟
اب تک تو پتہ لک گیا ہوگا آوٹ پٹانگ لکھنے کی چس پڑ گئی ہے ۔۔۔ جب تک قائم رہی لکھتی رہوں گی ۔۔۔ آپ لکھتے تھے آپ اٹھا رکھتے تھے
( بقول غالب ) غالب کو اردو شاعری کا مرشد مانتی ہوں اور شاعری میں اسی سے بیعت ہونے کے با وجود غزل مجھ پہ آج تک مہربان نہیں ہوئی ۔۔۔ کہ وہ کہتی ہے تم خود ایک غذل ہو ۔۔۔ ارے واہ شو مارتی ہوں تھوڑی سی
آپا ثریا نے ایک ناول لکھا ہے جس کے بارے میں ان کا خیال ہے ۔۔۔میں ان کے ذہن میں تھی ( ہاہاہا) آپا جھوٹ بولوں کوا کاٹے ۔۔۔ہاہاہا ۔۔۔ہیروئین کا نام غذل ‘ ہے کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ؟
طارق نے دو تین بڑی خوب صورت کہانیاں لکھی تھیں ایک میں ہیروئین کا نام ‘لچھمی’ تھا ۔۔۔ چلو پھر دیوالی کے اس شبھ اوسر پہ سب ہندو بہن بھائیوں کو دیوالی کی شبھ کامنائیں
دیوالی مبارک ہو سب کو ۔۔۔ دادو میں آپا تلسی کو بھی دیوالی مبارک ۔۔۔
چلو بھئی بس ھن تھک گئی میں ۔۔۔
مینوں اک وری فیر کی ۔۔۔ ہاں ہاں حجا حجا ۔۔۔ عمرہ مبارک ہووے اللہ قبول کرے تے فیر چھیتی بلاوے آمین
2013 میں ‘خیال خام’ پبلش ہوئی ۔۔۔اگرچہ وہ بیاض ڈائری کی صورت 90s سے احاطہ ء تحریر میں تھی مگر چھپوانے کا ارادہ نہ سوچا نہ بنا تھا ذاتی ڈائری کی حیثیت میں جو من میں آتا لکھ کر رکھ چھوڑتی تھی ۔۔ طارق اگرچہ بہت اچھا رائیٹر تھا مگر نہ وہ میری شاعری سے متاثر تھا نہ میں اس کی شاعری سے ۔۔۔ہاں میری بھی نثر سے ہی وہ متاثر تھا اور اسے چھپوانے پر انکریج بھی کرتا اور بعض اوقات سندھی میں ٹرانسلیٹ کر کے کچھ چھپوا بھی دیتا تھا ۔۔۔اس کا اصرار تھا میں سندھی میں لکھوں نوک پلک وہ سنوار دے گا مگر میں سندھی لکھنا پڑھنا ضرور سیکھ چکی تھی مگر ادبی لحاظ سے نا آموز ہی تھی چند ایک چیزیں لکھیں جن کی معمولی نوک پلک درست کرکے اس نے مہران یا دیگر میگزینز میں چھپوا دیں ۔۔۔ مگر جس لینگویج میں فلوئنٹ نہ ہو اس میں لکھ کے انسان تھکتا بھی ہے اور شاذ ہی اچھا لکھ بھی سکتا ہے اس کے باوجود میری چند ایک تحریریں ہی چھپیں مگر مناسب پزیرائی ضرور ملی جو طارق کی زبانی ہی مجھے پتہ چلتی ۔۔۔ وہ شائید مجھے اور لکھنے کے لئے انکریج کرتا تھا نور الھدی شاہ کی طرح ڈرامہ لکھو ۔۔۔کہ وہ اس کی بے حد اچھی اور مخلص دوست تھی وہ مجھے اسی لائین پہ لگانا چاہتا تھا ۔۔۔ خیال خام چھپنے سے پہلے کئی بار اس کی نظر سے گزری مگر اشاعت کے بارے میں کبھی کوئی حوصلہ افزائی نہ ہوئی بلکہ حوصلہ شکنی ہوئی کہ بس ٹھیک ہے مگر چھپوانے کے لائق نہیں فلاں (اردو کے رائیٹر ) کو بھیجوں گا وہ تصیح کردیں تو چھپوالینا ۔۔۔ خیر مجھے خود بھی ایسا کوئی شوق سرے سے نہیں تھا بقول کسے ( یا غالب)
آپ لکھتے تھے آپ اٹھا رکھتے تھے
اس کی وفات کے دوسال بعد شبانہ کی ذاتی دلچسپی سے موڈ بن گیا چھپوالی جائے اتنی بھی بری نہیں ۔۔۔
چھپ گئی
چلو جی کاغذوں میں ادھر ادھر اڑتا مواد کتابی صورت میں محفوظ ہوگیا
مارکیٹنگ پبلسٹی تو میرا شعبہ رہا ہی نہیں دوستوں میں بانٹ بونٹ کے خوش ہو لئے ۔۔۔
2011 .2013
مسلسل ان سانحات میں گزرے کہ میرا لکھنا پڑھنا موقوف تو کیا مفقود ہی ہوگیا طارق کے بعد ابوجی پھر ماما مامی پیارا اکرم ۔۔۔ جس طرف منہ کرتی چاہے دادو لاڑکانہ کسی کی موت کی خبر سنتی ۔۔۔ دادو میں میرا خیال کرنے والے لوگ پھر گھر کی پیاری ہستیاں ۔۔۔ میں سارا دن اپنے کمرے میں چپ چاپ پڑی رہتی۔۔۔ اکرم کے بعد خاص طور پر گھر میں سب ہی ضروری بات چیت ہی کرتے تھے سب ہنسنا بولنا بھول ہی چکے تھے
میں سکتہ نما گہری خاموشی کی نذر ہوچکی تھی بس کالج جاتی تھی ذمہ داریاں سر انجام دیں تھوڑی بہت دنیا داری نبھائی اور گھر آکے خاموش پڑ رہی ۔۔۔ امی اور میں ایک دوسرے سے پیٹھ موڑ کر آنسو پونچھتی رہتی تھیں اکرم بالکل توڑ گیا تھا ہمیں ۔۔۔
ایسے میں گنگ خاموشی پہ اک نظم کی آمد ہوئی پھر تو جیسے جھرنا پھوٹ بہا سمندر لہریں لینے لگا ۔۔۔ لکھ لکھ کر ایک کے بعد ایک میں بری طرح تھکنے لگی تین ماہ کے اندر پانچ چھ کتابوں جتنا مواد لکھا گیا ۔۔۔ پہلے عکس خاموشی اور سمندر کو شائید کچھ کہنا ہے چھپوائی پھر دیگر تین اور ۔۔۔۔۔
غزل میرا مزاج نہیں نہ مجھے اس کے قافئیے ردیف کی چولیں بٹھانا آتی ہیں نہ فاعلن فعولن والا فارمولہ کہ اردو بحیثیت ادب میرا سبجیکٹ رہا ہی نہیں ۔۔۔سائنس کی سٹوڈنٹ رہی سائنس پڑھی پڑھائی ہمیشہ ۔۔۔ہاں باتیں مٹھارنا آتی تھیں سو نظم کی طرف قلم و ذہن چل نکلا ۔۔۔ آج تک جو بھی نظمیں لکھتی آئی ہوں طارق کا ہیولہ کہیں نہ کہیں کسی نظم کا حوالا بن کر ہمیشہ آ ٹپکتا ہے تصور میں وہی آجاتا ہے چاہے لکھنا کسی بھی طرح سے شروع کروں خاص طور پر اگر رومانٹک مزاج کی نظم ہے تو ۔۔۔خیال اسی کے آس پاس دوڑنے لگتا ہے غیر ارادی طور پر ۔۔جیسے وہ اب بھی زندہ ہو (تیرہ سال ہوگئے اس کو وفات پائے ۔۔۔ ) مگر میں مسلسل اسی سے مخاطب ہوں لاشعوری طور پر ۔۔۔ اگرچہ اکثر حقیقی زندگی میں وہ مجھ سے ضروری بات کے علاؤہ کوئی بات نہیں کرتا تھا (ناشکرا انسان ۔۔۔) نہ زبان سے نہ آنکھ سے نہ دل سے (شائید ) کہ یہ سب وہ کسی اور کے لئے بچائی رکھتا تھا انتہائی خاص امانت سمجھ کے ۔۔۔۔
چلو بھئی اللہ تمہارا بھلا کرے ۔۔۔
فون پہ بھی دنیا جہان کی خواتین سے لگے رہتے ہو ۔۔۔ اگر دادو سے میں ہفتے کی کسی دن فون کر لیتی تو لہجے کی اکڑفوں چند منٹ سے بڑھ کر مجھ سے بھی برداشت نہ ہوتی ۔۔۔ نہ جانے کون ہر وقت اس کے سرپہ سوار رہتا اور وہ ‘انکا’ کی طرح سوار رکھتا ۔۔۔میں رضیہ کو کبھی کبھی انکا کہتی ۔۔۔ اور وہ کہتا واقعی ٹھیک سمجھتی ہو۔۔۔ میں مذاقا کہتی مجھے پھر ‘اقابلا ‘سمجھ لو ۔۔ اقابلا زمانے کی سب سے حسین عورت تھی کہ رائیٹر نے پہلے اس کی حسین کنیزوں کے حسن کے قصیدے گا گا کر قاری کو سحر حسن میں جکڑا لپیٹا ہوتا ۔۔۔ پھر اچانک ہیرو کی ایک بار کی دیکھی اور پھر زندگی بھرتلاش کرتے کی ملکہ اقابلا کا ایسا نقشہ کھینچتا کہ سارے حسین کنیزیں خاک کا ڈھیر ہو جاتیں اور اقابلا کے حسن کا پھول ایسا کھلتا کہ ہیرو کے ساتھ قارئین کو بھی اقابلا کے سحر انگیز حسن میں جکڑ لیتا ۔۔۔ آخر میں پتہ نہیں اقابلا ہیرو نے دیکھی یا اس کو ملی کہ نہیں (واللہ اعلم ) بچپن کے سب رنگ ڈائجسٹ میں پڑھے یہ کردار مجھے اب تک یاد ہیں
اس نے بدزبانی بد تمیزی یا جسمانی ریمانڈ کبھی نہیں دیا سوائے ایک بار کے تھپڑ کے جو اس نے ڈرائیونگ سکھانے ہوئے میری غلطی پر شوقیہ مارا تھا کہ اب سیکھ جاوگی استاد کا تھپڑ ضروری ہوتا ہے کچھ سکھانے کے لئے ۔۔۔۔
ہی واز آ نائس پرسن ناٹ آ روایتی شوہر میٹیریل ۔۔۔ مگر نظر اندازی ایک انتہائی قابل توجہ (شائید نرگسی) ہستی کو قتل کرنے کا ہنر رکھتی تھی جب ایک طرف ان دونوں کی وارفتگی کلاسیکی اور فلمی بنی رہتی ۔۔۔ تو دوسری طرف میں ایک تیسرے درجے کی اقلیتی مخلوق کی طرح ٹریٹ ہو رہی تھی سوائے دو بچوں کے کہ انہوں نے مجھے اور میں نے انہیں دل سے اور پیار سے قبول کر رکھا تھا
کتنا خوش قسمت ہے وہ کہ ۔۔۔ ترک محبت کے بعد بھی وہی بزم خیال کی آرائش ہے ۔۔۔ہاہاہا
اگرچہ اب میرا اس سے اگلے جہان ملنے سے بھی انکار ہے
تو میری شاعری جو بھی ہے بے شک میں نے طارق کی وفات کے بعد لکھی اس کا بیشتر حصہ خاص طور پر رومانی ایک ہی شخص سے منسوب ہے ۔۔۔ اور وہ میرے نہ چاہتے ہوئے بھی طارق کا ہی روپ دھار لیتا ہے ۔۔۔ عجیب لاشعوری پرابلم ہے جو میرا شعور بھی سمجھنے سے قاصر ہے ۔۔۔ہاہاہا ۔۔۔
اگرچہ میری زندگی کے چند سال جو اس کے ساتھ گزرے کسی طرح بھی خوشگوار اور قابل رشک نہ تھے بلکہ اذیت کا اپنا ایک سلسلہ رکھتے تھے شکر ادا کرتی ہوں کہ اس اذیتناک دور سے نکل آئی مگر ۔۔۔ اس سحر سے نہیں نکل پائی آج تک ۔۔۔جس کا سودا من میں سما گیا تھا (شائید )
خواب کسی بھی حوالے سے دیکھوں اکثر روپ وہ دھار لیتا ہے ۔۔۔ہاہاہا
کیا کروں مجبوری ہے
اس کے بغیر اب تک ہر بات اُدھوری ہے
مگر ایک رضیہ کا شوہر طارق تھا وہ میرے لئے ایک اجنبی شخص سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔۔۔قیامت تک اس سے انکار ہے ۔۔۔ چاہے وہ میرا بھی شوہر تھا بٹ آئی ہیو نو انٹرسٹ ان ہم ۔۔۔ گیٹ لوسٹ
مگر ایک میرے خیال و خواب کا سروپ تھا اس سے میں کبھی انکار نہیں کرسکتی ۔۔۔ !
نہ جانے کون کس روپ میں ملا
حیرت کا سلسلہ اک سروپ میں ملا
اور مجھے لگتا ہے
عشق اگر ہوتا ہے اول تو مجھے یقین ہے عام
طور پر نہیں ہوتا بہرحال اگر مار / رو پیٹ کر (ہاہاہا ) کہیں ہوتا ہے یا کلاسیکی مثالیں یا کہانیاں جو ہیں تو کسی انسان کسی روپ سے نہیں ہوتا
اس سروپ سے ہوتا ہے جو اس شخص میں حیرت بن کے اترتا ہے
اصل میں اس کا اصل روپ یا انسان ایک ثانوی حیثیت رکھتا ہے اور وہ دوسرے تیسرے درجے کی عام ترین شخصیت بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔
مگر سروپ جس کی چھاپ اس میں جھلک جائے ۔۔۔من موہنی بنی رہتی ہے
مثل سنی ہے نا پرانی
دل آیا گ دھ ی پہ تو پری کیا چیز ہے ؟ ہاہاہا
ایک قریب المرگ کڈنی ٹرانسپلانٹ پیشنٹ ۔۔۔ میرے خوابوں میں آ آ کر عجیب و غریب بہروپ دکھانے لگا ۔۔۔ مگر اس کے مرنے کی دیر تھی وہ میرے خوابوں میں دیوانہ وار آنے جانے لگا آج بھی اس کی روح اگر ہوتی ہے میرے پیچھے دیوانہ وار رہتی ہے (واللہ اعلم ) مرتے ہی پہلی رات وہ میرے خواب میں آگیا ہنستا کھیلتا ناچتا گاتا اور میرے ساتھ اپنی خوشی شیئر کرتا
عذرا میں ٹھیک ہوگیا ہوں
عذرا میں ٹھیک ہوگیا ہوں ۔۔۔
یہ اس کا گیت تھا اور جیسے وہ اس پہ ناچ رہا تھا مجھے بتا بتا کر ۔۔۔ کہ اس کے ٹھیک ہوجانے سے بڑھ کر ہماری کوئی خوشی نہ تھی اور وہ اس کا اعلان کر کے مجھے بتا رہا تھا ۔۔۔لاہوت اور میں اس کے جنم دن کی تیاریاں کرتے ہوئے خوش ہورہے ہیں۔ اس نے روز کا معمول بنا لیا مر کر ۔۔۔ میرے خواب میں آنے کا چلو گھومنے چلیں
وہ اکثر ہم سب کو گاڑی پر بٹھاتا ۔۔۔یا مجھے اور رضیہ کو اور ترنگ میں گھماتا پھرتا ۔۔۔یہ خواب بار بار آتا ۔۔۔ میرے ساتھ گھومنے کی نہ جانےاس کی کون سی حسرتیں رہ گئی تھیں ۔۔۔میں تنگ آگئی
امی نے کہا “مرچ تے روٹی رکھ کے دے دے جان چھڈے “
مگر میں نے اس کی روح سے خیال میں سنجیدگی سے بات کی
دیکھو تم زندہ تھے میری کوئی پرواہ نہیں کی ۔۔۔ اب برائے مہربانی میرا پیچھا چھوڑ دو اور اسی کے پاس جاؤ اسی گھر جاوجس کے پاس زندگی میں رہتے تھے جو زندگی میں تمہاری چہیتی تھی “
جناب جی اس رات وہ خواب میں آیا بہت خفا تھا ۔۔۔مگر پھر اس نے میرے خواب میں ریگولر حاضری دینا چھوڑ دی چھ ماہ بعد پھر خواب میں آیا
رضیہ سے بھی ناراض
مجھے بتاتا ہے بیرونی دروازے پر کھڑے نظریں جھکائے جھکائے ۔۔۔ رضیہ بھی مجھے گھر میں نہیں رکھ رہی ۔۔۔ میں نصیر مرزا (بہترین دوست) کے پاس ہی جا کر رہوں گا اب ۔۔۔ دروازے سے نکل گیا
کبھی کبھار خواب میں آمد و رفت رہتی ہے اس کی
اب امی جی تقریبا روز ہی میرے خواب میں ہوتی ہے پتہ نہیں یہ ہماری محبت ہے یا جانے والوں کا ہم سے روحانی لگاؤ ۔۔۔رب جانتا ہے اس اسرار کی پراسرار دنیا کا احوال۔۔۔۔
وہ شائید میری خواہشوں کا لبادہ تھا وہم یا حقیقت کوئی تجزیہ نہیں کر سکتی ۔۔۔۔
مگر میں اتنی تجزیہ کار کیوں بنی ہوئی ہوں ۔۔۔ہیر وارث شاہ تو نہیں لکھنی نا میں نے ۔۔۔
انجوائے یور لائف ۔۔۔
شب بخیر دوستو
مائی ریمیننگ ٹک ٹاک ۔۔۔ اس بار یہی یاد داشتیں چھپواوں گی کہ
میرا رخ ہے ایک آئینہ ، مرے شکست گر
کبھی خود کو مجھ میں بھی دیکھ لے
آج لگ رہا تھا کلثوم
بی بی نہیں آئے گی ۔۔۔ بارہ چھٹیاں ہوگئیں اس مہینے پھر۔۔
گھر جیسے کا تیسرا پڑا ہے میرے بستر سمیت ۔۔۔
اور وہ نہیں آئی !!
مجھے کچھ سنبھالنے کی عادت نہیں پکی ہاسٹیلائیٹ اور لاپرواہ ہوں ۔۔۔ اس بات کو طارق اور رضیہ بھی سمجھتے تھے جب میں کچھ بھی کھا پی کر پلیٹیں گلاس کپ روم میں ہی چھوڑ دیتی تھی ۔۔۔ اور میری پیاری رضیہ وہ برتن اٹھانے اور دھونے کے لئے لے جاتی تھی ۔۔۔ یارو میں اچھے اچھے کھانے پکا کر کھلاتی تھی سب کو
رضیہ نے ہی ساس بن کر میرے امور خانہ داری کا پہلا امتحان لیا تھا کوفتے کڑھی اور بریانی پکوا کر (میری اصل ساس یعنی آئی اتنی پیاری پچاسی سالہ نازک اندام پرکشش اور پیاری سی بوڑھی تھیں کہ وہ میرے قربان جاتی تھیں اور میں سارا دن انہیں پکی سہیلی بنائے رکھتی تھی اور ان کی کمپنی انجوائے کرتی تھی ۔۔۔اور وہ پرانے لاڑا ووہٹی اپنے بیڈ روم میں رومانس اور عیش کرتے تھے۔۔۔ہاہاہا
کبھی کبھار وہ مجھے کہتیں ( زبر دستی)
اماں جاؤ ۔۔۔ تم بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ ۔۔۔
مجھے آپ کے ساتھ کھانا اچھا لگتا ہے جب میں اپنا کھانا ان کے پاس کمرے میں ہی لے آتی ۔۔۔
کہ وہ آئی ( اماں) اور مجھے ایک دوسرے کے حوالے کر کے مطمئن رہتے طارق تو واقعی خوش رہتا کہ اس کی اماں کا اتنا لاڈ کیا اور خیال رکھا جارہا ہے ۔۔۔ آئی اور میں سہیلیاں بن گئی تھیں سارا دن آنے جانے والوں بہنوں کو بھی میں ہی میسر رہتی گپ شپ اور حال احوال کے لئے ۔۔۔ادی وڈی خاندان کے سارے مسئلے مسائل مجھ سے ڈسکس کرنے آتیں ہر ویک اینڈ کو صبح شام وہ چکر لگاتیں ۔۔۔ دوسری ادی مکھنا بھی ضرور آتیں اور آتے ہی پیار سے جملہ چھوڑتیں ۔۔۔ میں نے سوچا بھابی کے درشن کر آوں
مجھے درشن کی شبنم آجاتی اور میں مسکرا کر رہ جاتی ۔۔۔۔۔
اور سب سے چھوٹی
بے بی معذور تھی مگر میری دیوانی ترین ۔۔۔ اس نے مجھے منہ دکھائی میں اپنی ناک کی نتھلی اور شائید ٹاپس وغیرہ دئیے زبردستی ۔۔۔ طارق نے واپس کروادئیے پاگل ہے وہ ۔۔۔ظاہر ہے میں بھی کسی کی ناک کی نتھلی یا ٹاپس رکھ کر کیا کرتی غرضیکہ ساس نندوں کی پسندیدہ ترین ہستی بن چکی تھی ۔۔۔ مگر ایک وہ ہی تھا جسے رضیہ نے ایسا موہ رکھا تھا کہ میرا سارا طلسم حسن بے کار ہوکے رہ گیا تھا۔۔۔ہاہاہا)
یہ الگ بات کہ رضیہ واقعی ایک حسین عورت رہی ہے نیلی سبز مور پنکھ آنکھوں فیئر کامپلیکشن اور معصوم نقوش ونگار متناسب قدو قامت کی بے حد حسین دوشیزہ ۔۔۔ اپنے وقت میں کھلتے گلاب جیسی میں ظاہری حسن میں کبھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی
میں بھی اس کو تعریفی نظر سے دیکھتی خاص طور پر جب وہ سردیوں کی صبح سر پہ سرخ یا کوئی بھی اونی ٹوپی رکھے نیم گھنگریالے کمر تک سنہری بال پھیلائے کچن میں پراٹھے بنا رہی ہوتی ۔۔۔
پراٹھوں سے قطع نظر اپنے اسٹائل اور لک سے مجھے معصوم سی فرانسیسی دوشیزہ سی لگتی اور میں سوچتی طارق کیوں نہ اس کا دیوانہ ہو ۔۔۔یہ ہے ہی اتنی حسین و جمیل عورت جبکہ وہ بلاشک و شبہہ دلی طور پر بھی ایک حسین عورت رہی ہے
اور میں نیند میں سڑی بسی کالی کلوٹی اس سے پوچھنے پہنچ جاتی
میں کیا کروں ۔۔۔ (ہیلپ ان دا میکنگ بریک فاسٹ؟)
کچھ نہیں سب تیار ہے ۔۔
یہ پلیٹیں رکھ دو
طارق کو بلا لاؤ ( وہ تمہاری سڑی بسی شکل بھی دیکھے اور میرا بے مثال حسن و جمال بھی ۔۔۔طارق ویسے عموما اس کے آس پاس ہی ہوتا )
یہ بہت شکر ہے کہ طارق میری سڑی بسی شکل کو بھی حسب معمول اور نارمل ہی سمجھتا تھا ۔۔ (بد صورت اس کو میں بھی کبھی نہ لگتی تھی شائید۔۔۔ ہاہاہا ) چاہے تیار ہوں یا سڑی بسی ۔۔۔ اس کا انداز ایک جیسا ہی رہتا تھا ہاں سر کے پیچھے جو بال کھچڑی ہونا شروع ہوگئے تھے کچھ کچھ ۔۔کبھی نظر آتے تو کہتا
“بال کیوں نہیں ڈائی کرتیں ۔۔۔ میں مر جاؤں گا پھر کرو گی “
میں اسے مرنے کی بات پرخفگی سے دیکھتی
“کوئی پتہ نہیں کون پہلے مرے “
میں تمہیں لاڑکانہ میں دفن کرواؤں گا ۔۔۔ وہی تمہارا شہر ہے ۔۔ چاہے تمہارے گھر والوں سے زبردستی کرنا پڑے “
وہ خوش دلی اور پر یقینی سے کہتا ۔۔۔
بال ڈائی میں پھر ٹال جاتی کہ مجھے خود کو نظر نہیں آتے تھے میرا خیال تھا بال ڈائی کرنے سے بڑی جلدی سفید ہوتے ہیں اور یہ صحیح بھی تھا ۔۔۔ آج تک ڈائی نہیں کئے اور کام چل رہا ہے
میری مشفق و محبتی عادات کو اس کی سب ماں بہنیں اور خاندان کا بچہ بچہ سب محسوس کرتے اور بہنیں تو اتنے زیادہ خلوص و محبت کا مظاہرہ کرتیں کہ لگتا وہ سوچتی ہیں کہ مجھے کوئی کمی محسوس نہ ہو اس گھر میں ۔۔۔وہ مداوا کرتی رہیں ممکن حد تک اپنے حسن سلوک محبت اور خصوصی مان دینے سے ۔۔
وہ سب طارق کو پنھوں یا پنھل کہتیں ایک آدھ بار ادی وڈی نے مجھے پیار سے ‘سسی’ بھی کہا ہوگا
رضیہ کو ہمیشہ ھالار ماں کہہ کر بلاتیں مجھے اماں یا بھاجائی ۔۔۔ کبھی کبھار بہت سنجیدہ بات چیت ہوتی تو سنجیدگی سے میرا نام بھی لیتیں
ادی وڈی تو بذات خود ایک مثالی کردار تھیں اپنی محبت خدمت احساس اور ذمہ داری کے حوالے سے ۔۔۔ سب سے چھوٹے بھائی پنھوں طارق )کو انہوں نے ہی پالا تھا وہ بتاتیں میرے ساتھ سوتا تھا سارا دن میں کام کاج میں لگی رہتی یہ میرا دوپٹہ پکڑے ساتھ ساتھ پھرتا تھا ۔۔۔ وہ جب بھی آتیں طارق کے بچپن کی باتیں مجھ سے دہراتیں ۔۔۔
ایک بار مجھ سے ساری تفصیلات پوچھیں کہ کیسے ملے تھے ہم دونوں ۔۔
میں نے چند ایک واقعات بتائے ۔۔۔
اس کا مطلب ہے پنھوں کی سسی تم ہو “
پتہ نہیں مجھے ۔۔۔
مگر سندھی میں کہا جاتا ہے
سسی سدائیں سورن میں
( سسی ہمیشہ دکھ جھیلتی ہے)
ایک رات تو مجھے واقعی ایسا لگا تھا
نئے نئے دن تھے آدھی رات کو میں نے لاشعوری طور پر ہی سائیڈ پہ ہاتھ مارا ۔۔۔ وہ اٹھ کے نہ جانے کب کا مجھے سوتا چھوڑ کر رضیہ کے پاس جا چکا تھا
ایسے ہی سسی کے پاس سے پنھوں بھی چلا گیا ہوگا
میں نے غیر ارادی طور پر سوچا ۔۔۔ اور خاموشی سے پیٹھ موڑ کر سوگئ
میں نیند کی ماسٹر رہی ہوں ایک دو بار رضیہ کو بھی میں نے اپنی نیند پر مسکراتے دیکھا وہ سکڑ کر سونے کی عادی تھی ۔۔۔ میں پھیل کر پڑی ہوتی اور بیڈ پر اپنے فل قبضے کا آنند لیتی ۔۔۔
جاتا ہے تو جائے کہیں بھی میرا بیڈ تو پورا میرا ہے نا سکون کی نیند کے لئے ۔۔۔ہاہاہا
وہ کہتا
میرا دل نہیں مانتا رضیہ اکیلی سوئے ۔۔۔کیا سوچے گی وہ “
میں تو تھی ہی سدا کی دریا دل ۔۔
ٹھیک ہے جیسے تمہیں اچھا لگے
پہلے دن سے اس کا یہی معمول رہا دو تین سالوں تک ۔۔۔ پھر بھلا ہوا رضیہ کی کچھ رشتے دار لڑکیاں جو یونیورسٹی پڑھنے آگئیں سارا ہفتہ جب میں دادو ہوتی میرا کمرہ اور بیڈ ان کا رہتا ڈیڑھ دن جو میں وہاں ہوتی مجبورا انہیں رضیہ کے پاس سونا پڑتا ۔۔۔ طارق اور رضیہ بھی سمجھ گئے کہ آدھی رات کو اٹھ کر کمرے بدلنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔۔۔ اتنا سا حوصلہ کر لینا چاہئے یہ الگ بات کہ دو ڈھائی سال وہ لڑکیاں جہاں رضیہ چوکتی وہ سالیاں ہنسنے بولنے کے لئے موجود ہوتیں ۔۔۔
ایک بار تو تنگ آکر میں ویک اینڈ پر بھی نہیں گئی کہ کیا مصیبت ہے سب رل مل کے مجھے انتہائی ناقدری کی اذیت میں جھونکے رکھتے ہیں مطلب اب دوسرے تیسرے لوگ بھی مجھ سے زیادہ اہم ہیں
میں ویک اینڈ پہ نہیں گئی
طارق نے واقعی کمی محسوس کی ۔۔۔
کیوں نہیں آئیں
تمہارے پاس ٹائیم ہوتا ہی نہیں میرے لئے ۔۔۔ میں۔خوامخواہ گرمی سردی سفر کرتے دھکے کھاتی آتی ہوں ۔۔اس لئے اس بار دل نہیں چاہا “
وہ واقعی جذباتی ہوگیا
آئندہ ایسا کبھی نہ کرنا ۔۔۔ جو بھی ہے مجھے گھر ا چھا نہیں لگتا تمہارے بغیر ۔۔۔
میں ویک اینڈ سے دودن پہلے چھٹی لے کر چلی گئی اسی نشے میں ۔۔۔ اس نے بھی بساط سے بڑھ کر میری جائز شکایت کا خیال رکھا ۔۔۔
وہ لڑکیاں باہر ہنستی کھیلتی سنایاں کرتی رہیں رضیہ بھی حیرانی سے ایک دو بار جائزہ لے کر گئی ۔۔۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا اپنی مرضی سے ہی اٹھ کر باہر گیا وہ بھی مجھے اشارہ کرکے
چلو آؤ کھانا کھاتے ہیں “
Ok
پھر وہی معمول ٹی وی وغیرہ وغیرہ
میں اپنے کمرے میں پڑ کے سوگئی ۔۔۔ رضیہ اپنے کمرے میں جا پڑی ہوگی لڑکیوں کو ساتھ لے کر ۔۔۔
لاھوت اور طارق دیر تک پروگرامز دیکھتے تھے ۔۔۔دیکھتے رہے ۔۔
مگر سب جوں کا توں کبھی خوشی (کم کم ) کبھی غم چل رہا تھا
ہاں مگر
بہت ہی اچھی تھیں سب طارق کی اماں بہنیں اللہ جنت الفردوس میں جگہ دے سب کو (آمین)
طارق سے بڑی تھیں سب گزر گئیں طارق کے بعد ادی وڈی تو نابینا ہوگئیں تھیں اپنے آگے پیچھے گئے چار پانچ محبوب بھائیوں اور بہنوں کے لئے رو رو کر ۔۔۔وہ پورا خاندان ہی اگرچہ سب الگ الگ گھروں میں رہتے تھے مگر ویک اینڈ پر ضرور آتے ہماری طرف ۔۔
طارق کہتا یہ سب تم سے ملنے آتے ہیں اور یہ سچ بھی تھا کہ میں ان کی اتنی پزیرائی کرتی اور خلوص سے ملتی کہ ان کا میرے پاس سے اٹھنے کو دل ہی نہ چاہتا نہ طارق کا رضیہ کے پہلو سے اٹھنے کا من ہوتا۔۔۔
میں دل ہی دل میں
سوچتی ایک اتوار کا دن تھا پورے ہفتے میں وہ بھی گزر گیا بے ڈھنگا سا ۔۔۔ نہ ملے نہ بیٹھے نہ بات کی جس کے لئے آئی تھی وہ اسی میں مگن ، میں ماں بہنوں اور فیملی کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی ( کیا ہے یہ زندگی بھی؟) مجھے ایک دن کا ایک ایک لمحہ قیمتی خزانے کی طرح ہاتھوں سے سرکتا لگتا ۔۔۔ بجھتی شام تک میرا دل بھی بجھ چکا ہوتا میں صبح کے لئے بیگ کپڑے تیار کرنا شروع کر دیتی اور ان دونوں کو تو میں کہیں نہ کہیں ان کے علاوہ مصروف ہی چاہئے ہوتی ۔۔۔طارق رات گئے ٹی وی لکھنے پڑھنے فون پہ ٹاک شاک کے بعد بارہ سے دو ڈھائی کے درمیان کمرے میں آتا دن بھر کا تھکا ہوا ہی ہوتا۔۔ سورہی ہوتی تو آنکھ کھل جاتی پندرہ منٹ سے زیادہ جاگنا اور بات چیت کرنا وہ حرام سمجھتا ۔۔۔
یہی چند لمحے وہ محفوظ رکھتا تھا ہفتے بھر کے بعد ڈیڑھ دن رات میں میرے لئے شائید ۔۔۔
واپسی میں صبح اکثر میرا موڈ اداس اور نا خوشگوار ہی ہوتا وہ میرے موڈ سے انتہائی چڑ چڑاہٹ میں ہوتا جیسے کہتا ہو نہیں اچھا لگتا تو مت آیا کرو ۔۔۔ کبھی کبھار کہہ بھی دیتا
گالھہ نتھی ونے تہ نہ ایندی کر ۔۔۔
میں اور شکایتی اور اداس ہوکر اسے دیکھتی پھر جب تک میری وین آئے وہ گاڑی سے باہر منہ پھلائے موڈ آف کئے اپنا منظر دیکھتا رہتا میں اپنے منظر سے الجھی رہتی ۔۔۔
اگرچہ اس کا پورا خاندان دیوانہ وار میرا گرویدہ سا ہوگیا تھا کہ مجھے لگتا تھا اگر پہلے کوئی کمی بیشی بھی ہوگئی تھی تو طارق کو کم ازکم میں نے اتنا ضرور سکھا دیا ہے کہ وہ ان سب کا بے حد خیال رکھے ۔۔۔ ہر ویک اینڈ پہ ان کی طرف باقاعدگی سے جانا اور ایک دو گھنٹے گپ شپ لگا کے آنا ہم سب کا معمول بن چکا تھا جس کے لئے وہ کہتیں
مہینوں نہیں آتے تھے پہلے یہ ہماری طرف “
اگرچہ وہ سب پہلے ایک ساتھ ہی رہتے تھے مگر جب سے الگ ہوئے تھے فاصلے بھی ہو گئے تھے مگر میرے جاتے ہی یہ ہوا کہ طارق اماں اور ادیوں کا باقاعدہ اور بہت خیال رکھنے لگا ۔۔۔یہ واحد بات تھی جو وہ میری مانتا تھا
اس کی وہ دل سے قائل بھی تھیں اسی لئے مجھ سے دلی محبت بھی کرنے لگی تھیں ۔۔۔ رضیہ بھی سمجھدار عورت رہی ہے طارق اگر اس کے حکم کا غلام تھا تو وہ بھی نظر کا اشارہ حکم کی بجا آوری سمجھ کر ہی بر لاتی تھی ۔۔۔(اسی لئے تو اس نے دوسری شادی بھی کروادی تھی۔۔۔ اور اس جدید غلام شوہر کو اس نے پرانے دور کا زر خرید غلام عربی قسم کا بنا لیا تھا سبز آنکھ کو مسلسل دیکھتا کہ کیا حکم ہے میری آقی جانی ۔۔۔۔ایک خفیف سے غیر محسوس اشارے پہ بھی متحرک روبوٹ سا ۔۔۔ہاہاہا ظاہر ہے اتنے سالوں کا ساتھ تھا وہ ایک دوسرے کا اندر بھی پڑھی رکھتے ۔۔۔ میری پڑھائی اور تعلیمات سراسر غیر نصابی سرگرمیاں شمار ہوکر اکثر نظر انداز ہی رہتیں ۔۔۔ بلکہ نالائق شاگرد کی طرح وہ میری کلاس اٹینڈ کرنا تو کیا اس سبجیکٹ کو آپشنل حیثیت بھی نہ دیتا ۔۔۔ کہ فیل ہوتا ہوں تو ہو جاؤں میری شوہرانہ ڈگری پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا اس سے ۔۔۔ جسے راضی رکھنا ہے وہ صرف اور صرف رضیہ نام کی عورت ہے ۔۔ہاہاہا عذرا چاہے عین غین شین ہو جائے ۔۔۔ویلکم ٹو ہر فرام بوتھ آف اس رضیہ اینڈ طارق کمپنی ۔۔ہاہاہا)
شادی باقاعدہ امتحان بن گئی تھی میرے لئے ۔۔۔ پاس ہوتی ہوں یا فیل ہر وقت دھڑکا سوار رہتا ۔۔۔۔
پاس ہونا مجھ پہ منحصر تھا تو فیل بلا جواز بھی کیا جا سکتا تھا ۔۔۔ یہ امپریشن ہر وقت مجھ پہ ڈالا جاتا
اور فیلویور کسی صورت میری چوائس نہ تھی اگرچہ ہر وقت اس کے امکانات بنائے جاتے ۔۔۔
بڑا خوش قسمت انسان تھا بھئی ۔۔میں مل گئی آسانی سے ۔۔۔ رضیہ جیسی ملی جھٹ پٹ پندرہ دن کے اندر اندر ان کا پروپوزل شادی سب ہوگیا تھا ۔۔۔۔ اور بے شمار اچھے دوست سہیلیاں محبوبائیں ۔۔۔مداح قدر دان سب کچھ ہی ۔۔۔ بس زندگی مختصر تھی خدا سب دروازے کھول بھی دے تو ایک کرم کا در ۔۔۔ کبھی کبھی رہ بھی جاتا ہے لاھوت ہالار کے علاؤہ تیسری اولاد کی خواہش اسے تیسری شادی ہونے سے بھی زیادہ رہتی تھی مگر اللہ کی مصلحت بہتر ہی ہوتی ہے ورنہ میں اب مشکل میں پڑی رہتی ۔۔۔کہ ذمہ داریوں کی موجودگی میں پر سکون رہنے کا کمال ۔۔۔اپنی جگہ ایک مشکل امر ہے
میں جتنی شروع سے بچوں کی دیوانی اور آج تک ہوں اتنی بے نیاز و لاپرواہ ہوگئی تھی کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا دراصل میں دیگر معاملات میں اتنی الجھ گئی تھی کہ سب کچھ ثانوی اور غیر ضروری سا ہوگیا تھا ۔۔۔اب شکر کرتی ہوں کہ میکے میں رہ کر پرایا بچہ( اپنا ہی ) پلنا ایک امتحان بھی ہوسکتا ہے
اللہ معاف کردے ہم سب کو آمین
میری ایک اور لمبی داستان گل بکاولی :
گل بکاؤلی خود کو لکھا ہے ۔۔۔ہاہاہا
ویسے گل بکاؤلی فلم میں نے نہیں دیکھی پتہ نہیں شہزادہ تھا شہزادی یا پھول ؟
پڑھ کے بد ۔۔ مزہ نہ آئے تو پیسے واپس (جو آپ میں سے کسی نے مجھے دئیے ہی نہیں) ہاں پڑھنے کے پیسے میں بھی نہیں دینے والی ۔۔۔ہاہاہا
بی بی (اللہ بخشے) چار بہنیں دو بھائی تھے ان کے پنجابی نام لکھتی ہوں اللہ سب کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اکٹھا کرے آمین
بابا غلام احمد ( امی جی کے نانا )
چراغ بی بی (ماں / نانی)
بی بی سکینہ (بی بی ۔۔۔ میری نانی)
محمد شفیع ۔۔میاں جی ( میرے نانا)
ماسی صغراں
ماسی ایمنا (آمنہ)
ماسی نحیفاں (حنیفاں)
ماسی طیفاں ( لطیفاں ۔۔ امی جی کی خالہ اور سہیلی جو ان سے چند ماہ چھوٹی تھیں پچھلے دنوں انتقال ہوا ہے)
ماما فضل احمد
ماما فضلی
سب مرحوم و مغفور ہیں اللہ بخشش فرما کر جنت الفردوس میں جگہ دے آمین
پوسٹ کا مقصد دعائے مغفرت کے علاؤہ پنجابی ناموں کے بگاڑ کا چسکا لینا بھی تھا اللہ مجھے معاف کرے (آمین)
سب بہت اچھے تھے سب کو دیکھا تھا سوائے اپنے نانا (میاں جی) کے اور امی جی کے نانا (بابا)کے ۔۔۔ امی جی کے نانا کو دیکھا تھا مگر اتنی چھوٹی تھی کہ یاد نہیں ۔۔۔بسں میری شروع شروع کی یاد داشتوں میں ایک یاد ان کے گھر کی ضرور ہے
ان کا گھر شائید اوپری منزل پر تھا سب سے چھوٹےماما فضلی کی شادی ہوگی (غالبا) ڈسکہ یا پتہ نہیں کہاں ؟
لاڑکانہ سے تینوں نواسے نواسی بمعہ بال بچہ پہنچے ہوئے تھے منہدی لگاتے ہوئے پہلے میں پہلے میں ۔۔۔پر شائید بے بی اور میں آگے آگے ہو رہی تھیں ایک ایک ہاتھ پر منہدی لگ چکی تھی منہدی کی پرات کے سامنے میرے ایک ہاتھ پر لگی منہدی بےبی کے سفید پاجامے کے گوڈے پر لگ گئی اس نے غصے سے بدلہ لینے کے لئے اپنا منہدی والا ہاتھ میرے منہ پہ مارا ۔۔۔منہدی میری آنکھ میں گھس گئی اور آنکھ سوج کر دکھنے آگئی اب دوسرا منظر یہ یاد ہے کہ امی جی مجھ روتی کو بہلانے کے لئے اپنے سائیڈ کچھڑ پہ اٹھائے ہیں آنکھوں پہ پٹی باندھی ہے مجھے کچھ نظر نہیں آرہا امی مجھے گھماتی پھر رہی ہیں پاس پڑوس میں اپنی سہیلیوں کے گھر ۔۔۔۔
شام رات میں ڈھل رہی ہے مجھے پٹی کی جھری میں سے نیم اندھیرا نظر آرہا ہے اور میں مدرسے کے حافظوں کی طرح ادھر ادھر پٹی میں ہی آنکھیں گھما کر دیکھنے کی کوشش کر رہی ہوں آنکھ کی پٹی درد اور اندھے پن کی وجہ سے رو رہی ہوں اور ضدے پڑی ہوئی ہوں
امی جی کی سہیلی مجھے بہلانے کو کچھ بول رہی ہے یعنی نام وغیرہ پوچھ رہی ہے شائید
امی جی کہتی ہیں
انہوں گانا وی آندا اے “
اچھا ۔۔۔سنا بھلا
میں فورا خوش اور نارمل ہوکر سناتی ہوں
مکھڑے پہ سہرا ڈالے آجا او آنے والے “
ہاہاہا ۔۔۔
پھر شائید میں بہل گئی تھی سہرے والے کے خیال سے ۔۔۔ہاہاہا آگے یاد نہیں
یہ ہم بابا غلام احمد ( امی کے نانا )کے مہمان تھے جن کا مجھے یاد نہیں کبھی ملی ہوں یا دیکھا ہے مطلب خاصی چھوٹی تھی (شائید)
کب کی یاد کہاں آگئی
سب سے پہلی یاد داشت جو ہے میری ۔۔۔۔وہ کمرے میں ابو جی اور امی جی الگ الگ کچھ فاصلے پر پڑی چارپائیوں پر گپ شپ کر رہے ہیں میں دونوں کے بیچ لمبے راستے پر پنجوں کے بل چل رہی ہوں شوخی کرتے امی مجھ سے لاپرواہ باتوں میں مگن ہیں ابو جی حسب عادت امی سے زیادہ میرے کھیل کی طرف متوجہ ہیں بلکہ میں انہی کے ساتھ کھیل رہی ہوں آتے جاتے پنجوں کے بل چلتے ہوئے ۔۔۔
میں شیر آں
میں شیر آں
پنجوں کے بل چلنے سے میں خود کو شیر محسوس کر رہی ہوں
ابو جی بھی بیچ بیچ میں کہتے ہیں
شیر ایں
شیر ایں
میں اور شوخی اور اعتماد سے چلتی ہوں اور پھر ابو جی کے گھٹنوں پہ سر رکھ کے ۔۔۔چھوٹی سی کھڑی ہوکر ان کو بات کرتا دیکھ رہی ہوں
۔۔۔۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ پنجوں کے بل چلنا شائید ہماری ہیریڈٹی میں ہے سب بچوں نے چلنا شروع کرتے ہی کچھ عرصے کے لئے پنجوں کے بل چل کر ضرور کھیلے ہیں ون ٹو آل چاہے وہ عمران کے بچے ہوں اسلم کے یا اکرم کے بچے ( سب بچے بھتیجے بھتیجیوں سے نوٹ کیا ہے میں نے)
دس ماہ سے ایک سال میں چل پڑتے ہیں اکرم کا امی جی بتاتی تھیں دس ماہ میں چلا تھا میں سوچتی انہیں بھلیکھا لگا ہوگا مگر جب اکرم کے بچوں کو گیارہ ماہ سے ایک سال بلکہ سارے ہی بھتیجے بھتیجیوں کو ایک سال کے اندر چلتے دیکھا تو یقین آگیا ۔۔۔اپنی پہلی سالگرہ پر علی پلاسٹک کے کرکٹ بیٹ سے بال کے پیچھے ہٹ کرتا چھکا چھکا کرتا پھر رہا تھا ۔۔۔ابھی اسے صرف چھکا کہنا آیا تھا
دوسرے بات چیت بھی بہت جلدی شروع کرتے ہیں بچے صاف ستھری زبان کے ساتھ توتلا پن بھی نہیں ہوتا بچے کی بول چال میں ۔۔۔ ہم میں سے کوئی کبھی توتلا نہیں رہا سب صاف ستھرے لفظ بولتے ہیں
جیسے انس چھوٹا سا برش کرتا تو بولتا
زبان پر بھی برش مارتا ہوں ۔۔۔بہت ‘غلیظ’ ہوتی ہے
غلیظ لفظ اتنی فصاحت سے بولنے پر پہلی بار میں حیران ہی رہ گئی تھی
سات ماہ کی عمر میں اماں بابا دادا چاچا کہتے کو میں پھپھو کہلانے کی کوشش کر رہی تھی ابھی صرف بیٹھتا تھا پندرہ بیس دن بیٹھنا پندرہ بیس دن رڑھنا کھڑے ہونا چارپائی پکڑ کے چلنا اور پندرہ بیس دن بعد سال کے اندر اندر سب نے چلنا شروع کر دینا
میں انس سے کہہ رہی تھی
کہو ۔۔پھپھو
پھپھو پھپھو میں بار بار کہہ رہی تھی وہ سمجھ گیا اسے کیا کرنے کو کہا جارہا ہے بہت کوشش سے اس نے پورا منہ پھلا لیا منہ لال ہوگیا اس نے کہا
پھ ۔۔۔ س گول ہونٹوں سے پھر پھس ہوا نکل گئی میں نے اٹھا کے پچیس پیار کئے میں گن کے اس کے گالوں پہ پچیس پیار کرتی تھی ۔۔۔نتیجہ یہ نکلا کہ جونہی وہ بولنا سیکھا ۔۔ساتھ ہی پانچ تک گنتی بھی گنتا اور آگے بھی بیچ میں سے توڑ پھوڑ کے پچیس تک گنتا اپنے حساب سے ۔۔۔ ڈیڑھ سال کا تو یہ صاف صاف باتیں کرتا تھا (اللہ کے فضل سے)
بہرحال ماشا اللہ ہمارے بچے بہت جلدی اور صاف ستھرا بولتے ہیں
ذہین بھی ہیں ماشاءاللہ اور چارمنگ بھی ۔۔۔
ہاں بڑھاپے میں بچپن میں جلدی اور تیزچلنے والی ٹانگیں کچھ مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں ابو جی تو باقاعدہ لنگڑا کر چلتے تھے مجھے خود سے بھی یہی امید ہے کہ دہری کمر کے ساتھ لنگڑا کر چلوں گی ۔۔۔اور بچپن میں بہت تیزی سے اور صاف چلتی زبان نیورولوجیکل پریشرز میں تھتھلا بھی سکتی ہے ۔۔۔(شائید/یقینا )
سٹرانگ نیورانز ان بچپن
اینڈ ویک ان اولڈ ایج بائی اوور ایکٹویٹی ۔۔۔ائی تھنک
مے بی اٹس رانگ ۔۔۔ بٹ آئی نوٹسڈ ان ابوجی فیسنگ آ بٹ ان مائی سیلف ۔۔۔ ہائے میرے پیر اور تیری نیورو پیتھیاں ۔۔۔ ابو جی ویسے پچاسی سال تک جواں مرد تھے دلی طور پر ۔۔۔بہت ایکٹو اور عمر کے حساب سے نسبتا چاک و چوبند ۔۔۔صرف بارہ دن بستر پر پڑے ورنہ تہجد سے عشا تک چلتے پھرتے اور مصروف سے رہتے اللہ بخشش و مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے( آمین )
بھئی میں تو عاشق تھی اپنے ابو جی کی اور آج تک ہوں بلکہ ہم سب بہن بھائی ان کے عاشق تھے ۔۔۔
ان کی تعریف میں تو جو ملتا رطب اللسان ہی رہتا وہ اتنی پیاری روح لے کر دنیا میں آئے تھے جو پیار محبت خلوص انسانیت سے لبریز ایک مثالی کردار میں ہی ہو سکتی ہے ۔۔۔
ہم نے انہیں محبت ہی محبت پایا ہمیشہ سب کے لئے ۔۔۔ ہم انہیں محلے کے بچے لا لا کر دکھایا کرتے تھے
ابو جی دیکھیں کتنا پیارا ہے
وہ اتنا ہی پیار اور محبت اور خوشی سے اس بچے کو دیکھتے اور ہنساتے جیسے اپنے بچوں کو دیکھتے تھے اور ہم ان کی یہی نظر دیکھنے کے لئے اس پڑوس کے بچے بھی اٹھا لاتے کہ
ابو جی کو دکھاتے ہیں ۔۔۔وہ بہت خوش ہوں گے ۔۔۔
اور میں بھی جیسے ساری کی ساری انہی پر چلی گئی ہوں
مگر ان کی مخلصی اور سادہ دلی ۔۔۔ میں نہیں پہنچ پاتی اس جگہ اللہ جنت الفردوس میں جگہ دے وہ ایک نایاب ترین انسان تھے اللہ نے چنا ہوا تھا انہیں محبت کے لئے ۔۔۔ شکر ہے میں بھی انہی پر ہوں بلکہ ہم سب بہن بھائی ہی انہی پر ہیں عادتا ۔۔۔ کچھ چیزیں امی سے بھی یقینا لی ہیں مگر میں سرتاپا جذبات احساسات شکل و شباہت ابو جی کی فوٹو کاپی ہوں ۔۔۔ امی جی کی ذہانت اور معاملہ فہمی ، معاملات کو چلانا سب مثالی تھا وہ ایک بے انتہا ذہین عورت تھیں سو کوشش کی ایک حد تک وہاں بھی جینیٹیکلی ہاتھ مار کر اپنا حصہ نکالا جائے ۔۔۔۔مگر میری امی جی نے میری طرح فیس بک پر بونگیاں کبھی نہیں ماریں مگر اس وقت فیس بک تھا کہاں اگر ہوتا بھی تو وہ بہت پریکٹیکل خاتون تھیں اس طرح کی لغویات سے سراسر اجتناب کرکے ضروری کاموں پر فوکس کرنے والی اور ان کی زندگی کا بیشتر حصہ علم معاشیات ، سیاسیات ، اقتصادیات ، ماحولیات، تجزیات معاملات ،عبادات ، بچوں کی تعلیم و تربیت ان کی کامیابی اچھی جابس کے حصول کے لئے فکرمندی مامتا اور پوتے پوتیوں سے لاڈ پیار کرتے ۔۔۔ اور تمام گھریلو امور ساس بہوئیں داماد ایون وہ میری (س و ک ن ) رضیہ کو (شائید اپنی ہم نام ہونے کی وجہ سے) خاصا نرم گوشی رکھ کر سگی بیٹیوں کی طرح جسٹیفائیڈ رکھتی تھیں مجھے لگتا انہیں مجھ سے نہیں رضیہ سے سچی ہمدردی ہے وہ کہتیں اس کا شوہر ہے اور یہ اس کا بڑا حوصلہ ہے کسی کسی لڑکی میں ہی یہ حوصلہ ہو سکتا ہے ۔۔بہت اچھی عورت ہے وہ
درپردہ ان کا مقصد ہوتا اس کی بہت عزت کیا کرو
(میں کرتی بھی تھی بلکہ آج تک کرتی ہوں) تو مقصد کہنے کا یہ ہے کہ جملہ امور انتہائی خوش اسلوبی ایمانداری انصاف اور ذمہ داری سے نمٹانے میں گزرا ۔۔۔ کبھی کبھی مجھے لگتا امی کو شائید بیٹیوں سے زیادہ بہوئیں پیاری لگنے لگی ہیں ۔۔۔ وہ اکثر انہیں فوقیت دیتیں (مجھ پر شائید )
مجھ سے تو خیر سب کو فوقیت دیتی تھیں یہ شکایت کبھی کبھی ہوتی مگر پھر لگتا کہ وہ مجھ سے اتنی اپنائیت محسوس کرتی ہیں کہ سوچتی ہیں اس کی خیر ہے (میری سمجھاں والی دھی اے) ہور سارے راضی رہن ۔۔۔ مجھ سے پیار ان کا بے انتہا تھا اگر وہ تھوڑی بہت کسی پہ ڈیپینڈیسی شو کرتی تھیں تو غالبا صرف مجھ پر وہ ڈیپینڈنٹ ہونا پسند کرتی تھیں شروع ہی سے ( واللہ اعلم ) ۔۔۔۔
اللہ کریم میرے والدین اور ہم سب کے پیاروں کی بخشش و مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں جگہ دے (آمین ثم آمین)
ہائے ۔۔۔ میرے فیشنوں کے انداز !
ٹین ایج میں ابو جی سے کالے فریم اور سفید شیشوں والا چشمہ منگوایا۔۔۔ نظر سولہ آنے سے بھی چو کھی
مگر امپریشن ڈالنا کہ بہت پڑھائی والی سوبر سی شکل بن جائے بڑے عرصے تک کالج اور ایکسچینج وہی لگا کر جاتی تھی ۔۔۔ پھر جب وہ گم ہوگیا یا ٹوٹ گیا ۔۔۔میری کمزور نظر بھی ٹھیک ہوگئی
شکر ہے لوگ سادہ تھے کسی نے اس ہیرا پھیری کا نوٹس نہیں لیا ۔۔۔ اج کا سوشل میڈیا ئی دور ہوتا تو سو سوال اٹھتے میری بینائی پر ۔۔۔پہلے اندھی پھر سجھاکھی ۔۔۔ یہ تو کھلا تضاد ہے
روشنی کی اسپیڈ
386 000 miles / sec
خیال خام کی ابھی ماپی نہیں جا سکی
ورنہ کائنات کے بہت سے مابعد الطبیعات اسرار و رموز کھل جاتے
میں سائنسدان تو ہوں مگر اتنی بڑی نہیں کہ ۔۔۔ سیب پر غور کروں کہ اڑتا کیوں نہیں ۔۔۔
پرندہ ہے کیا ؟
اچھا ہاں بھئی سیب سے یاد آیا پان بھی
ہا ضمے کے لئے اور پیٹ کے بہت سے مسئلے مسائل کے لئے بہت اچھا ہے
انڈینز ایور ویدک قوم نے اس کو یونہی تو رواج نہیں دیا ہوگا اس کی ہربل میڈیسنل کوالیٹیز ہیں معدے اور آنتوں کے لئے اگر چہ دانتوں اور منہ کی رنگینی لپ سٹک کی کمی دور کردیتی ہے مگر پھر بھی ۔۔۔ دانت خراب ہو جاتے ہیں
پٹودی کی دلہن تیار کی جاتی کسی زمانے میں تو ۔۔۔ بالوں میں تیل سرخ چوٹی آنکھوں میں سرمہ دانتوں پہ انگلی سے مسی لگوا کر پان کا بیڑا کھلا دیا جاتا ۔۔۔
اور گایا جاتا
اری اے بنو میں آوں گا
تیرے دادا کے بنگلے اتروں گا
میرے دادا کے بنگلے جگہو نہیں
دادی پیاری کا پہرا جاگے گا
میری رن جھن پائل باجے گی
غرضیکہ وہ پورے خاندان کے بنگلوں میں اترتا ملنے کے لئے۔۔۔ مگر ہر جگہ پہرہ لگا ہوتا اور رن جھن پائل کو آواز کا ڈر ۔۔۔۔ ہاہاہا
ایسی ہی ایک بے انتہا حسین روایتی دلہن صابرہ باجی میں نے تیار ہوتے دیکھی تھی اپنے بہت ہی بچپن میں ۔۔۔
پھر ولیمے پر اس کا حسن اف توبہ ۔۔۔
گوٹے کا مہاجال غرارہ سوٹ گلابی یا سرخ
اب اس کی تیاری شبنم کے فلمی اسٹائل کی تھی ۔۔۔
وہ میری دو چار انتہائی خوبصورت دلہنوں میں سے ایک ہے آج تک ۔۔
پھر میری اپنی باجی نے کمال روپ وتی ہونے کا مظاہرہ کیا تھا ۔۔۔ اداکارہ فردوس (ہیر )کی طرح ۔۔۔
ایک آنٹی تھیں ۔۔۔ ان کا حسن و دلربائی نہیں بھولتی
چند ایک اور بھی ہوں گی
بھئی سچی بات دلہن کون سی حسین نہیں ہوتی ۔۔۔۔
میں اور بے بی اکثر دلہن رونمائی کے پہلے گھونگٹ میں دیکھ آتی تھیں سب عورتوں میں گھس گھسا کر ۔۔۔کہ پہلی پبلک رونمائی ساس کے ہاتھوں ہوتی تھی اور ہم ساس سے پہلے اپنے چھوٹے چھوٹے مکھڑے گھونگٹ میں گھسا دیتی تھیں اکثر ساسوں کو ایک کی بجائے اکٹھے تین مکھڑے نظر آئے ہوں گے
پھر بھی پیار سے کہتی
اری ۔۔چھوریو تم تو ایک طرف کو ہو جاؤ
عورتیں بھی ہنسنے لگتیں
“اری ہم بھی ایسے ہی ہوویں تھیں ۔۔سب سے پہلے میں ای دیکھوں دلہن کو “
اچھا وقت تھا
میں بہت پرانی نہیں ہوگئی ہوں
پان کا سبز پتہ ۔۔۔سلاد کا پتہ سمجھیں کتھا ٹھنڈا کسیلا اینٹی ۔۔۔ سم بیڈ تھنگ ضرور ہوگا میری تحقیق نہیں ورنہ کہہ دیتی اینٹی بیکٹیریل ہے ۔۔۔ منہ کے چھالوں کے لئے تیر بہدف ۔۔۔ چونا بھی اندر معدے انتڑیوں کی صفائی ستھرائی کے لئے بہترین
چھالیہ الائچی خوشبو سلائیوا کنٹرول ۔۔۔ اور تمباکو تو پھر آپ سب کو پتہ ہے نشہ ہی نشہ ۔۔۔ جس کو کوئی بھی سگریٹ نشے کی لت ہو چھوڑ دے پان تمباکو کام کرے گا ۔۔۔
میں نے ویسے غلطی سے تمباکو کی صرف ایک پتی چبا لی تھی ٹین ایج میں ۔۔۔ گھر میں شور ڈال دیا تھا مجھے پتہ نہیں کیا ہورہا ہے (چکر آنے لگے ) میں مرنے لگی ہوں ۔۔۔شائید
اسلم دوڑ کے آیا ۔۔۔ منہ میں پان دیکھا تو پانی کا یخ گلاس بھرلایا ۔۔۔
یہ لو تمباکو کھالیا ہے غلطی سے
خدا وندا ۔۔۔ واقعی پانی پی کر صحیح ہوگئ
ایسی خطرناک چیز ہے
ہاں ہاضمے کے لئے کبھی کبھار بغیر تمباکو کا دوسرے تیسرے دن ضرور کھالیتی ہوں بازار سے منگوا کر ۔۔۔ دو پان منگواتی ہوں فرج میں رکھ دئیے تین دن چل گئے ۔۔۔ پھر وقفہ بہت ضرور ہے کہ عادی نہ ہو جاؤں کچھ دن کھا کے کچھ دن وقفہ ۔۔۔
عید کے دن پچپن سے ناگزیرہے ۔۔۔ میٹھا پان !
باقی سارا سال سادہ کڑوا پان ۔۔۔ہاضمہ درست رکھنے کے لئے
اگر مشورہ مناسب لگے تو بد ہضمی کے مریض کبھی کبھار ضرور آدھا چوتھائی پان کھالیا کریں
دیگر علاج معالجے یعنی دہی اسپغول کھچڑی پھکی کے علاوہ
ابتدائی طور پر ا ب سے لے کر ابتدائی جمع تفریق تقسیم ضرب امی جی نے بتادی ۔۔۔ ابتدائی قرآنی تعلیم نماز کلمے بھی انہوں نے یاد کروائے … ABC چھوٹی بڑی ابو جی نے سکھائی جو انہوں نے بھی اسکول کی بجائے ڈریکٹ انگریز دوستوں اور کو ورکرز سے سیکھی تھی اسی لئے ان کی انگلش بول چال بھی اچھی تھی عربی کی شد بد بھی تھی مگر اردو بولنے لکھنے پڑھنے میں گوا کے لوگوں یا جیسے اینگلو انڈین بولتے تھے ہم پٹودی دہلوی اردو دان بچوں کو ہنسانے اور کسی سے بات کر رہے ہوں تو انتہائی شرمندہ کروانے کے لئے ۔۔۔۔ پنجابی فیروز پور فاضل دے بنگلے دی کھڑی پنجابی
گھ بھ کی اردو آواز والی
گھیو ۔۔ بھین بھرا ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ دوسری کلاس میں تھی جب امی جی نے مجھ سے خط لکھوا کر ابو جی کو بھیجا ۔۔۔ پھر ہمیشہ ابو جی کو مجھ سے ہی خط لکھوایا کہ ان کی رائٹنگ کچی پکی تھی اور میری ، میری بوڑھی سی ٹیچر کنیز باجی کو اس قدر پختہ اور پسند اتی کہ جب چوتھی پانچویں میں انہیں کلاس ورک دکھاتی تو وہ میری تحریر دیکھنے لگ جاتیں اگرچہ میری کچھ فرینڈز کی لکھائی بذات خود مجھے پسند تھی تو ٹیچر میری تحریر دیکھتیں مسحور ہوکر ۔۔۔ اور کوئی دسیوں بار انہوں نے کہا ہوگا
تمہارا کام دیکھوں ۔۔۔ یا لکھائی ۔۔۔ اتنی سی بچی ایسی پختہ تحریر کیسے لکھتی ہے ۔۔۔ “
نہ جانے میری معصوم سی تحریر میں انہیں کون سی پختہ تصویریں نظر آتیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے
آمین )اب تک زندہ نہیں ہونگی اسکول کی سب سے بوڑھی اور ذہین استاد تھیں
ساری زندگی پڑھتے پڑھاتے جو ڈانٹ کھائی امی ابو سے کہ کبھی کتاب کھول لیا کرو گھر میں بھی۔۔۔ امی دکھ سے کہتیں
نی ۔۔ مینوں ارمان ای رہیا میرا کوئی بچہ گھر چ بیٹھا ہووے کتاب کھول کے پڑھدا ہووے “
ان کے طعنوں تشنوں سے گھبرا کر فورا کوئی بک اٹھالاتی ان کے سامنے ایک دو صفحے پلٹاتی ۔۔۔ صرف تین سے پانچ منٹ ۔۔۔پھر ٹھپ کے رکھ دیتی
کیا پڑھوں ساری تو مجھے منہ زبانی یاد ہے فوٹو گرافک میموری )
۔۔۔۔ پڑھ لیا بس
امی جی پھر گھرکتیں
کی پڑھاں ساری تے مینوں آندی اے
میں پھر امی جی کی ہوم ورک کرتے دیکھنے کی خواہش کو ٹھوکر تلے رکھ کے ۔۔۔ نظر بچا کے بی بی کے گھر گلی کو بھاگ جاتی جہاں بچوں سے بھری گلی اور سہیلیاں گڑیاں گھر گھولے ہنڈکلیاہ سب میرے انتظار میں ہوتے یہی حال اسلم اکرم کا تھا ۔۔۔ہم گھر کے نہیں گلیوں کے بچے تھے گھر باجی کا یا چھوٹے عمران اور شبانہ کا جو امی سے چپکے رہتے
ہمیں نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا وہیں ماموں کے ہاں کھا پی بھی لیتی کبھی کبھار اسلم اکرم بھکے بھانے چیجیوں پہ چلتے رہتے چیجی کے پیسے لینے گھر جاتے ۔۔۔ کبھی باجی گھر کے خرچے میں سے پکڑا دیتی کبھی جاکے امی کے لڑ لگ جاتے ۔۔۔ مجھے مل گئے ہیں تو اسلم اکرم اگلے امیدوار ۔۔۔ انہیں مل گئے ہیں تو میرا حق راسخ ۔۔۔ دن میں تین چار بار چیجی کے پیسے لیتے حسب ضرورت و لالچ ۔۔ امی جی اپنی سائیڈ جیب میں پیسے کھلے کرائی رکھتیں ہمارے لئے ۔۔۔ گھر کا خرچہ باجی کے پاس ہوتا شوکیس کے اوپر اخبار بچھاکر اس کے نیچے پیسے بچھے ہوتے پورے مہینے کے خرچے کے ۔۔۔ ہم بچوں نے کبھی ان پر اپنا حق نہ سمجھا ۔۔۔ ہاں ایک بار باجی کو کچھ شک سا ہونے لگا کہ کچھ گڑ بڑ ہور ہی ہے ۔۔۔میں تو شک سے مبرا رہی امی جی نے اسلم اکرم کو دبوچ لیا ۔۔۔ مان کر نہ دیں اکرم (اللہ بخشے) ہائے۔۔ میرے آنسو ) شرارتی تھا تو شک اسی پہ ہوا مگر حرکت میسنے اسلم کی تھی ۔۔تھوڑی سی ٹھوکا ٹھکائی سے معاملہ صاف اور سدھر گیا
اب اکرم کی بات کے بعد لکھنا ۔۔۔ میرا اندر آنسو وں سے بھر جاتا ہے اس وقت بھی میں رو رہی ہوں دو تین بار آنکھیں صاف کرنے کے باوجود آنسو امنڈے چلے آرہے ہیں
اکرم کیوں چلا گیا ایں ۔۔سوھنیا
ہاہ ۔۔۔۔ دنیا کے گئے ہیں پیارے
سب کے دل چھلنی ہوئے ہیں
ہاں تو میں یا اسلم اکرم ہم گھر میں پڑھتے نہیں تھے کبھی بھی ۔۔۔۔
میرا دماغ ہر بار سونے سے پہلے سوچ میں پڑھائی یا رویزن کرکے حافظ کتاب ہوتا ۔۔۔ تو امی جی کی فرمائش پر میں کتاب کھول کے کیا کرتی ۔۔۔ لڑکے دونوں لاپرواہ اور تختی پہ تختی مار کے روز تلوار بازی کھیل کے تختیاں توڑ لاتے اور اسی ٹوٹی تختی سے مار کھاکے بھی نہ سدھرتے دوسرے تیسرے دن نئی تختیاں کھڑکاتے اور توڑتے پھرتے ۔۔۔ بہت شرارتی تھےسارے بچوں بڑوں میں مشہور اور سارے محلے کے لاڈلے بھی ۔۔۔ سب پیار کرتے تھے ان سے ، ان کی حرکتوں پہ اور چھیڑ چھیڑ کر انہیں شرارتیں یاد دلاتے تھے
بھئی اکرم پہلوان
اسلم پہلوان ۔۔۔ آج دنگل نہیں کیا ۔۔۔ دونوں بھڑ جاتے ۔۔۔ قلابازیاں مٹی میں لوٹ پوٹ ۔۔۔ مجھے ارمان ہی رہتا
ہائے اللہ کبھی میرے بھائی بھی لوگوں کے بھائیوں کی طرح صاف ستھرے نظر آئیں
ادھر باجی نہلا دھلا کر صاف ستھرا کرکے باہر نکالتی ادھر ان کی قلابازیاں شروع ۔۔۔اور مجھ نہائی دھوئی کو گھسیٹ کر گرد آلود کرنا ان کے کھیل کا مزہ دوبالا ہو جاتا اور میں مدھو بالا چیختی پکارتی رہ جاتی ۔۔۔ یہ نٹ کھٹ موہن دونوں ۔۔۔یہ جا وہ جا
اکرم تو موہن کنہیا ہی تھا اپنی حرکتوں میں ۔۔۔
باجی اور میں جیسے ان کی یشودھا میا ۔۔۔۔ آج تلک
چلا بہت جلدی گیا میرا اکرم ۔۔۔ ہنستے کھیلتے شرارتیں کرتے ۔۔۔
باقی
اللہ ہم سب کو سلامتی اور تندرستی دے آمین ثم آمین
آن لائن جو بھی شے درکار ہو گاڑی سے لے کر سوئی تک مجھ سے رابطہ کریں
میرے گھر میں اٹا ہوا سارا سامان بیچ کر رینوویشن کا ارادہ ہے
پتیلے
پودے
گملے
کپڑے
بالٹیاں
مگ
چمچے
لوٹے
چھریاں
چھابیاں
پلیٹیں
منجیاں
پیڑھیاں
کرسیاں
صوفے
بیڈ
پردے
سرھانوں کے اشاڑ
چادریں
ٹی وی
فرج فریزر
موبائل
ونڈو اے سی
سپلٹ اے سی
دھاگے کی نلکیاں سوئیاں قینچی
سلائی مشینیں
گاڑیاں
موٹر سائیکل
سائیکل
بجلی پہ چلنے والی استری
استری ہونے والے کپڑے
دھونے والے کپڑے
وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
سب دگنی قیمت پر دستیاب ہے
کیونکہ اکثر اشیاء پچاس سال سے زیادہ پرانی ہیں اور اب نوادرات کا درجہ رکھتی ہیں !
اور اس گھر کے سب افراد کا شمار اب عجائبات میں ہے کہ بیشتر کا تعلق پچھلی صدی سے ہے اور انکی عادات بیسویں اور اکیسویں صدی کا انتشاری ملغوبہ شمار کی جاتی ہیں اور ہر عادت پہ ایک سوالیہ نشان یقینا بنتا ہے !؟
اور بچے۔۔۔۔ بچے اس گھر کے ناقابل فروخت ہیں کیونکہ ان
‘شیطانی پتلوں’ کی قیمت ان کے والدین کو ہی ادا کرنی ہے اور
وہی ادا کرسکتے ہیں ویسے بھی یہ ان کا قصور ہے کوئی اور کیوں بھگتے۔۔۔؟
لڑکیاں جو اب بوڑھیاں ہوچکی ہیں ناقابل ویاہ ہیں ۔۔۔۔کہ اب چڑیلیں بھی ان سے پناہ مانگتی ہیں اور ہر شریف آدمی انہیں
‘آپا’ کہنا پسند کرتا ہے
اور جو آپا نہ کہہ پائے وہ اس سیاپے سے دور ہی رہتا ہے !!
مرد اس گھر کے مردم بیزار ہیں
اور انہوں نے گھر کی ہر چیز کو بمع گھر کے افراد , اس کے حال پہ چھوڑ رکھاہے ۔۔۔۔۔
اور اسی میں سب کی بھلائی اور ان کی عافیت ہے
وہ بظاہر ناقابل فروخت ہیں مگر اس قوم کے بیشتر افراد کی طرح ان کا تن من دھن سب گروی ہے۔۔۔۔
کس کے پاس ؟
بظاہر ان کی بیویوں کے پاس مگر درحقیقت
آئی ایم ایف کے پاس, راست سوال کا معکوس جواب ہے !
میں کون ہوں ؟
میں کیا میری ہستی کیا !؟
گھر کے بڑوں کے رخصت ہوجانے کے بعد۔۔۔
میں بزعم خود , خود کو گھر کا بڑا سمجھنے کی فاش غلطی کرتی رہتی ہوں
جسے بچے بھی دل سے تسلیم نہیں کرتے
اور میرا کام وہی ہے
جو نقارخانے میں توتی کا ہوتا ہے
توتی کے سبز رنگ سے یاد آیا
سبز باغ دکھائی گئی قوم کی طرح ، حرماں نصیب ہوں !
موبائل کی رنگ ٹون آف رہتی ہے قصدِا ۔۔۔
کہ مجھے کسی بھی رنگ ٹون کا بجتا میوزک پسند نہیں ۔۔۔
ہاں مسڈ کال دیکھ کر جہاں ضروری ہو کال بیک کر لیتی ہوں دلی معذرت اور دوچار جھوٹے سچے عذر پیش کرکے کہ چند ایک دوست ، کزنز اور بہن بھائیوں کے عزیز رشتے بہرحال مجھے ملامتی باتیں سنانے کا حق رکھتے ہیں ۔۔۔ہاہاہا
ہمیں خصوصی تربیت کی ضرورت اس لئے بھی نہیں پڑی کہ ہماری جنریشن کے بزرگ اور والدین زیادہ پڑھے لکھے نہ ہونے کے باوجود اپنی روزمرہ بات چیت میں اخلاقیات سے بھری مثالوں تہذیب اور شائستگی کے جملوں اور فی البدیہہ اقوال زریں کا بھرپور استعمال کرتے تھے ان کی باتیں سن سن کر ہی ہماری تربیت ہوجاتی تھی جب کہ آج کی جنریشن موبائل اور ہینڈ فری میں جکڑی نہ کچھ سنتی ہے نہ سننے کو تیار نہ ہماری بات چیت میں وہ ضرب الامثال ہمارے پاس تو بس ترلے اور لاڈیاں ہیں سارا دن سونے کے نوالے لئے ان کے پیچھے پھرتے ہیں مگر شیر کیا بلی کی نظر بھی نہیں ہے ہمارے پاس جو وہ ہماری تربیت کا اشارہ سمجھ سکیں
ناکام والدین…. دیدہ دلیر ڈھیٹ اور لاڈلی اولاد ،
اللہ بھلا کرے ہم سب کا فرسٹ ائیر اور انٹر میں ہمیشہ پریکٹیکلز سے بھاگ نکلتی تھی کہ آگے میرے ایکسچینج ڈیوٹی آورز ان ہوتے بارہ بجے سے ۔۔۔ جب بہت سے پریکٹیکلز چھوڑ دئیے تو فراگ کیا میرا سگا تھا جو اسکا ڈائسیکشن کرتی بونز وغیرہ یاد کرلی تھیں ۔۔۔
ایکزام میں موٹے موٹے فراگ ( ڈڈو ۔۔۔ صاحب ) ڈائسیکشن ڈش میں پانی کی ہلکی ہلکی لہروں میں بے ہوش پڑے ہلکورے لے رہے ہیں مجھے نہیں پتہ مودھا کرنا ہے یا سدھا اس کا تیا پانچہ کرنے کے لئے۔۔۔ ساتھ والی کو دیکھا اس نے ڈورسل سائیڈ (کمر کے بل) لٹایا ہوا تھا ۔۔۔ میں نے بھی فراگ کو تھاما فور لمب ہائینڈ لمب کھینچ کے پن اپ کر دئیے اور پیٹ چاک کردیا ۔۔۔ بس اتنی سی بات تھی سسٹم سارے ابل پڑے ایکزامنر صاحب راوئنڈ پہ چیک کرتے مارکنگ کرتے پھر رہے ہیں ۔۔۔ دونوں کے مارکس لگا گئے
نہ جانے میرے کیوں زیادہ لگائے ۔۔۔ میں نے تو پہلی بار دیکھا اور کاپی کیا تھا ڈائسیکشن آف فراگ ۔۔۔ہاہاہا ۔۔
وہ بعد میں منمنا کر کہتی رہتی ۔۔۔
یار ۔۔تم نے تو میرا کاپی کیا تھا
بتایا ہے نا ذہانت کے ساتھ خوش قسمت بھی رہی ہوں ہمیشہ (ماشا اللہ ) ۔۔۔ وائوا میرا سب سے اچھا ہوتا تھا فرسٹ ائیر ٹو پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو تک ۔۔۔
آ سنگل کیوئسچن آئی مسڈ بٹ مینیجڈ ٹو ڈائیورٹ دا اٹینشن آف میمبر پبلک سروس کمیشن ۔۔۔ وین ادر میمبر انڈرسٹینڈنگ اینڈ ان ہیلپنگ موڈ انٹرپٹڈ ود آ فریش کیوسچن ۔۔۔ دا کیوسچن آئی کڈ ناٹ آنسر واز این اسلامک ون ۔۔۔
جب حضور پاک کے دادا کا انتقال ہوا انکی عمر کیا تھی ؟
مجھے پتہ تھا وہ دادا کی عمر پوچھ رہے تھے
میں نے تجاہل عارفانہ سے معصوم سی شکل بنا کر حضور پاک کی بتادی ۔۔
دوسرے ایکزامنر کی نیا سوال انٹری سے میری بچت ہوگئی اور پورے سندھ میں میرا دوسرا نمبر تھا پانچ سیٹوں میں سے ۔۔۔اس وقت میں جسٹ ایم ایس سی تھی ایم فل والی پہلے نمبر پر رہی ۔۔۔ مزے کی بات ہم تین کلاس فیلوز سندھ یونیورسٹی کی فرسٹ سیکنڈ اور تھرڈ پوزیشنز ہولڈرز سلیکٹ ہوئیں ۔۔۔ میری فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن تھی جبکہ کراچی یونیورسٹی کے امیدوار بھی مقابل تھے ان کے انٹرویوز کراچی میں ہوئے ۔۔۔ مگر رزلٹ اکٹھا ہی بنا تھا پورے صوبے کا ۔۔۔ پھر لکچرر ان دادو اور چل سو چل ۔۔۔ فائنلی پروفیسر آف ذولوجی کم پرنسپل گورنمنٹ گرلز کالج دادو چھ سال ڈیپوٹیشن پر گلبرگ کالج میں ایچ او ڈی ذولوجی ڈیپارٹمنٹ ۔۔۔ 2013 سے 2018 تک پھر ۔۔۔
دادو کالج واپسی ۔۔۔
کام کے حوالے سے بہت ہی جوائے فل بھر پور اور مصروف وقت گزارا گلبرگ کالج میں بھی کہ بی ایس جو نیا نیا انٹروڈیوس ہوا ود کمپلسری ریسرچ اینڈ تھیسس ۔۔۔ تو سو کے لگ بھگ اسٹوڈنٹس کو تھیسس بھی کروا دئے شکر الحمد للہ ۔۔۔ ایک بھر پور دور گزار کے اب راوی چین ہی چین لکھتا ہے پنشن آجاتی ہے بیٹھ کے کھالیتے ہیں اور بچوں کو چیجیاں چوجیاں کھلا دیتے ہیں کوئی ذمہ داری نہیں نہ فکر نہ فاقہ عیش کر کاکا ۔۔۔ سارا دن موبائل ٹی وی یا کلوز فرینڈز اور فیملی سے کبھی کبھار فون پہ گپ شپ نماز روزہ ٫ تازہ عمرہ٫
شکر الحمد للہ ۔۔۔رب العالمین مہربان رہے ہمیشہ اور ہر قسم کی مالی جسمانی و دیگر معذوری و محتاجی سے بچائے دنیا و آخرت میں بھلائیاں ہی بھلائیاں کرے
مجھ نمانی کے ساتھ ۔۔۔ حاسدوں کے حسد اور نظر بد سے محفوظ رکھے ہمیشہ (آمین ثم آمین ) شروع سے عادت تھی ہر نیا سوٹ پہلے ساڑھی بناکر آئینہ دیکھتی تھی اب یہ بھی وہی حرکت کی کہ دوپٹہ پلو بناکے سیلفی بنا لی ۔۔۔ سوٹ آج سلنے گیا ہے آنکھیں چشمہ اتار کر کچھ بھینگی سٹپٹائی سی لگتی ہیں یہاں بھی لگ رہی ہیں مجھے یا واقعی دماغی کمزوری اور موبائل پہ مسلسل نظر ٹکانے کا پھیر سا آگیا ہے کچھ نہ کچھ لگتا ضرور ہے آنکھوں کے چندھیانے کا سبب ۔۔۔بڑھاپا دماغ اور نظر کا ہر وقت فوکس چوکس رہنا بال بہت جھڑ گئے ہیں سو بوقت ضرورت (کسی شادی بیاہ یا پروگرام میں دھڑلے سے) مصنوعی بالوں کا استعمال کیا جائے گا ۔۔۔ جو ایکسٹیشنز آن لائین پچھلے ہفتے آئی ہیں ۔۔۔
بھئی میں تو سیدھی سچی آئینہ رو اور شیشہ (دل سے لڑکی ۔۔۔ہاہاہا ) عورت ہوں نہ عیب چھپاتی ہوں نہ ثواب ۔۔۔ کہ سچ ہی میرا آئینہ ہے اور میرا دلی سرمایہ بھی ہے ۔۔۔ فطرتا شروع ہی سے بہت ہی کم گو رہی ہوں ۔۔۔ اب لکھ کے ساری بھڑاس نکال دیتی ہوں خاموشی کی ۔۔۔ انتہائی خاموش رہنا پسند ہے اور اب تو باتوں لوگ بھی برداشت نہیں ہوتے اگرچہ ہمیشہ سے اچھی لسنر تھی اب ایک سے دوسرا فالتو جملہ اریٹیٹ کر دیتا ہے بلڈ پریشر ہو شائید
مزید یہ کہ (لڑکے / لڑکیاں) مرد عورتیں سب مجھے ایک سے لگتے ہیں فیمینسٹ ایک حد تک ہوں مگر بے حد انصاف پسند بھی ۔۔۔ نیچر لور اینیمل لور ، ہیومن لور ، انصاف پسند ، ہمدرد طبیعت اور نرم خو ، نرم دل ہوں ۔۔۔ مزاج مزاحیہ رومانٹک ہونے کے باوجود میچور اور سنجیدہ ہے غصہ بھی آتا ہے جو پہلے نہیں آتا تھا ۔۔۔ سب میرے اپنے بہن بھائی دوست کہ سولہ سال کی عمر سے کو ورکنگ کو ایجو کیشن ۔۔۔ ہر دو صنفی کولیگز کے ساتھ کام کر کے میرے ذہن میں یہ فرق خود کبھی نہیں آتا دنیا دکھاوے کو کبھی کبھار شو آف کر لیتی ہوں اللہ اللہ خیر صلا
رب راضی رکھے سب کو اور مجھے بھی آمین
اچھا میں نے یہ سب کیوں لکھا ۔۔۔ ؟
اب تک تو پتہ لک گیا ہوگا آوٹ پٹانگ لکھنے کی چس پڑ گئی ہے ۔۔۔ جب تک قائم رہی لکھتی رہوں گی ۔۔۔ آپ لکھتے تھے آپ اٹھا رکھتے تھے
( بقول غالب ) غالب کو اردو شاعری کا مرشد مانتی ہوں اور شاعری میں اسی سے بیعت ہونے کے با وجود غزل مجھ پہ آج تک مہربان نہیں ہوئی ۔۔۔ کہ وہ کہتی ہے تم خود ایک غذل ہو ۔۔۔ ارے واہ شو مارتی ہوں تھوڑی سی
آپا ثریا نے ایک ناول لکھا ہے جس کے بارے میں ان کا خیال ہے ۔۔۔میں ان کے ذہن میں تھی ( ہاہاہا) آپا جھوٹ بولوں کوا کاٹے ۔۔۔ہاہاہا ۔۔۔ہیروئین کا نام غذل ‘ ہے کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ؟
طارق نے دو تین بڑی خوب صورت کہانیاں لکھی تھیں ایک میں ہیروئین کا نام ‘لچھمی’ تھا ۔۔۔ چلو پھر دیوالی کے اس شبھ اوسر پہ سب ہندو بہن بھائیوں کو دیوالی کی شبھ کامنائیں
دیوالی مبارک ہو سب کو ۔۔۔ دادو میں آپا تلسی کو بھی دیوالی مبارک ۔۔۔
چلو بھئی بس ھن تھک گئی میں ۔۔۔
مینوں اک وری فیر کی ۔۔۔ ہاں ہاں حجا حجا ۔۔۔ عمرہ مبارک ہووے اللہ قبول کرے تے فیر چھیتی بلاوے آمین
میں صفائی پسند ہوں مگر خبطی نہیں ہوں
دوسرے ہاسٹلز میں طویل عرصہ گزارنے پر جیسا پکا ملا کھانے پینے کے باعث کبھی زیادہ نخرے بازیاں نہیں کرتی کہ کبھی کبھار کہیں باہر کھانا کھانا سے پہلے کچن دیکھوں صفائی ستھرائی کو چیک کروں…
بھئی میں کوئی فوڈ ڈیپارٹمنٹ ہوں کیا؟
بظاہر صاف ستھرا ماحول ہے روٹی پکانے والا پسینے سے شرابور نہیں ہے تو گڈ…. ویسے بھی میرا سائنسی خیال ہے جو بھی جراثیم ہیں کھلی آب و ہوا کے ایک مخصوص درجہ ء حرارت پر جل کر فنا ہو جاتے ہیں اور باقی جو ہم اندر لے جاتے ہیں ہمارا مدافعتی نظام ان کے خلاف جنگی سپاہی تیار کرلیتا ہے جو ہمیشہ کسی اگلے اٹیک کی صورت میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں سو اپنے آپ کو آزاد فضا میں جینے کی کھانے پینے کی آزادی دینے کا پاکستانی حق کبھی نہ چھینیں ہاں زیادہ تلی ہوئی چیزیں اعتدال کے ساتھ لیں یہ ڈبہ بند اور فروزن فوڈ سے کہیں بہتر اور صحتمند آپشن ہے
ترجیح بہر حال گھر کے کھانے کی ہی ہونی چاہئے اپنے گھر کا کچن تنقیدی بنیادوں پر صاف ستھرا رکھیں کہ روز ایک ہی جیسے جراثیم ان ہیل کرتے کرتے آپ ان سے لڑتے لڑتے تھک بھی سکتے ہیں
اور انکی فوج ظفر موج بھی آپ کے جسم میں پناہ گزین ہو سکتی ہے
ٹیک کئیر مگر اپنے چولہے کی آگ
اور اپنے مدافعاتی نظام پر بھی مکمل اعتماد رکھیں اللہ خیر کرے گا جب تک اس کی مرضی ہے، سلسلہ چلتا رہے گا عرفات ،جبل عرفات, مسجد نمرہ
روشنی کی اسپیڈ
386 000 miles / sec
خیال خام کی ابھی ماپی نہیں جا سکی
ورنہ کائنات کے بہت سے مابعد الطبیعات اسرار و رموز کھل جاتے
میں سائنسدان تو ہوں مگر اتنی بڑی نہیں کہ ۔۔۔ سیب پر غور کروں کہ اڑتا کیوں نہیں ۔۔۔
پرندہ ہے کیا ؟
اچھا ہاں بھئی سیب سے یاد آیا پان بھی
ہا ضمے کے لئے اور پیٹ کے بہت سے مسئلے مسائل کے لئے بہت اچھا ہے
انڈینز ایور ویدک قوم نے اس کو یونہی تو رواج نہیں دیا ہوگا اس کی ہربل میڈیسنل کوالیٹیز ہیں معدے اور آنتوں کے لئے اگر چہ دانتوں اور منہ کی رنگینی لپ سٹک کی کمی دور کردیتی ہے مگر پھر بھی ۔۔۔ دانت خراب ہو جاتے ہیں
پٹودی کی دلہن تیار کی جاتی کسی زمانے میں تو ۔۔۔ بالوں میں تیل سرخ چوٹی آنکھوں میں سرمہ دانتوں پہ انگلی سے مسی لگوا کر پان کا بیڑا کھلا دیا جاتا ۔۔۔
اور گایا جاتا
اری اے بنو میں آوں گا
تیرے دادا کے بنگلے اتروں گا
میرے دادا کے بنگلے جگہو نہیں
دادی پیاری کا پہرا جاگے گا
میری رن جھن پائل باجے گی
غرضیکہ وہ پورے خاندان کے بنگلوں میں اترتا ملنے کے لئے۔۔۔ مگر ہر جگہ پہرہ لگا ہوتا اور رن جھن پائل کو آواز کا ڈر ۔۔۔۔ ہاہاہا
ایسی ہی ایک بے انتہا حسین روایتی دلہن صابرہ باجی میں نے تیار ہوتے دیکھی تھی اپنے بہت ہی بچپن میں ۔۔۔
پھر ولیمے پر اس کا حسن اف توبہ ۔۔۔
گوٹے کا مہاجال غرارہ سوٹ گلابی یا سرخ
اب اس کی تیاری شبنم کے فلمی اسٹائل کی تھی ۔۔۔
وہ میری دو چار انتہائی خوبصورت دلہنوں میں سے ایک ہے آج تک ۔۔
پھر میری اپنی باجی نے کمال روپ وتی ہونے کا مظاہرہ کیا تھا ۔۔۔ اداکارہ فردوس (ہیر )کی طرح ۔۔۔
ایک آنٹی تھیں ۔۔۔ ان کا حسن و دلربائی نہیں بھولتی
چند ایک اور بھی ہوں گی
بھئی سچی بات دلہن کون سی حسین نہیں ہوتی ۔۔۔۔
میں اور بے بی اکثر دلہن رونمائی کے پہلے گھونگٹ میں دیکھ آتی تھیں سب عورتوں میں گھس گھسا کر ۔۔۔کہ پہلی پبلک رونمائی ساس کے ہاتھوں ہوتی تھی اور ہم ساس سے پہلے اپنے چھوٹے چھوٹے مکھڑے گھونگٹ میں گھسا دیتی تھیں اکثر ساسوں کو ایک کی بجائے اکٹھے تین مکھڑے نظر آئے ہوں گے
پھر بھی پیار سے کہتی
اری ۔۔چھوریو تم تو ایک طرف کو ہو جاؤ
عورتیں بھی ہنسنے لگتیں
“اری ہم بھی ایسے ہی ہوویں تھیں ۔۔سب سے پہلے میں ای دیکھوں دلہن کو “
اچھا وقت تھا
میں بہت پرانی نہیں ہوگئی ہوں
پان کا سبز پتہ ۔۔۔سلاد کا پتہ سمجھیں کتھا ٹھنڈا کسیلا اینٹی ۔۔۔ سم بیڈ تھنگ ضرور ہوگا میری تحقیق نہیں ورنہ کہہ دیتی اینٹی بیکٹیریل ہے ۔۔۔ منہ کے چھالوں کے لئے تیر بہدف ۔۔۔ چونا بھی اندر معدے انتڑیوں کی صفائی ستھرائی کے لئے بہترین
چھالیہ الائچی خوشبو سلائیوا کنٹرول ۔۔۔ اور تمباکو تو پھر آپ سب کو پتہ ہے نشہ ہی نشہ ۔۔۔ جس کو کوئی بھی سگریٹ نشے کی لت ہو چھوڑ دے پان تمباکو کام کرے گا ۔۔۔
میں نے ویسے غلطی سے تمباکو کی صرف ایک پتی چبا لی تھی ٹین ایج میں ۔۔۔ گھر میں شور ڈال دیا تھا مجھے پتہ نہیں کیا ہورہا ہے (چکر آنے لگے ) میں مرنے لگی ہوں ۔۔۔شائید
اسلم دوڑ کے آیا ۔۔۔ منہ میں پان دیکھا تو پانی کا یخ گلاس بھرلایا ۔۔۔
یہ لو تمباکو کھالیا ہے غلطی سے
خدا وندا ۔۔۔ واقعی پانی پی کر صحیح ہوگئ
ایسی خطرناک چیز ہے
ہاں ہاضمے کے لئے کبھی کبھار بغیر تمباکو کا دوسرے تیسرے دن ضرور کھالیتی ہوں بازار سے منگوا کر ۔۔۔ دو پان منگواتی ہوں فرج میں رکھ دئیے تین دن چل گئے ۔۔۔ پھر وقفہ بہت ضرور ہے کہ عادی نہ ہو جاؤں کچھ دن کھا کے کچھ دن وقفہ ۔۔۔
عید کے دن پچپن سے ناگزیرہے ۔۔۔ میٹھا پان !
باقی سارا سال سادہ کڑوا پان ۔۔۔ہاضمہ درست رکھنے کے لئے
اگر مشورہ مناسب لگے تو بد ہضمی کے مریض کبھی کبھار ضرور آدھا چوتھائی پان کھالیا کریں
دیگر علاج معالجے یعنی دہی اسپغول کھچڑی پھکی کے علاوہ
ابتدائی طور پر ا ب سے لے کر ابتدائی جمع تفریق تقسیم ضرب امی جی نے بتادی ۔۔۔ ابتدائی قرآنی تعلیم نماز کلمے بھی انہوں نے یاد کروائے … ABC چھوٹی بڑی ابو جی نے سکھائی جو انہوں نے بھی اسکول کی بجائے ڈریکٹ انگریز دوستوں اور کو ورکرز سے سیکھی تھی اسی لئے ان کی انگلش بول چال بھی اچھی تھی عربی کی شد بد بھی تھی مگر اردو بولنے لکھنے پڑھنے میں گوا کے لوگوں یا جیسے اینگلو انڈین بولتے تھے ہم پٹودی دہلوی اردو دان بچوں کو ہنسانے اور کسی سے بات کر رہے ہوں تو انتہائی شرمندہ کروانے کے لئے ۔۔۔۔ پنجابی فیروز پور فاضل دے بنگلے دی کھڑی پنجابی
گھ بھ کی اردو آواز والی
گھیو ۔۔ بھین بھرا ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ دوسری کلاس میں تھی جب امی جی نے مجھ سے خط لکھوا کر ابو جی کو بھیجا ۔۔۔ پھر ہمیشہ ابو جی کو مجھ سے ہی خط لکھوایا کہ ان کی رائٹنگ کچی پکی تھی اور میری ، میری بوڑھی سی ٹیچر کنیز باجی کو اس قدر پختہ اور پسند اتی کہ جب چوتھی پانچویں میں انہیں کلاس ورک دکھاتی تو وہ میری تحریر دیکھنے لگ جاتیں اگرچہ میری کچھ فرینڈز کی لکھائی بذات خود مجھے پسند تھی تو ٹیچر میری تحریر دیکھتیں مسحور ہوکر ۔۔۔ اور کوئی دسیوں بار انہوں نے کہا ہوگا
تمہارا کام دیکھوں ۔۔۔ یا لکھائی ۔۔۔ اتنی سی بچی ایسی پختہ تحریر کیسے لکھتی ہے ۔۔۔ “
نہ جانے میری معصوم سی تحریر میں انہیں کون سی پختہ تصویریں نظر آتیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے
آمین )اب تک زندہ نہیں ہونگی اسکول کی سب سے بوڑھی اور ذہین استاد تھیں
ساری زندگی پڑھتے پڑھاتے جو ڈانٹ کھائی امی ابو سے کہ کبھی کتاب کھول لیا کرو گھر میں بھی۔۔۔ امی دکھ سے کہتیں
نی ۔۔ مینوں ارمان ای رہیا میرا کوئی بچہ گھر چ بیٹھا ہووے کتاب کھول کے پڑھدا ہووے “
ان کے طعنوں تشنوں سے گھبرا کر فورا کوئی بک اٹھالاتی ان کے سامنے ایک دو صفحے پلٹاتی ۔۔۔ صرف تین سے پانچ منٹ ۔۔۔پھر ٹھپ کے رکھ دیتی
کیا پڑھوں ساری تو مجھے منہ زبانی یاد ہے فوٹو گرافک میموری )
۔۔۔۔ پڑھ لیا بس
امی جی پھر گھرکتیں
کی پڑھاں ساری تے مینوں آندی اے
میں پھر امی جی کی ہوم ورک کرتے دیکھنے کی خواہش کو ٹھوکر تلے رکھ کے ۔۔۔ نظر بچا کے بی بی کے گھر گلی کو بھاگ جاتی جہاں بچوں سے بھری گلی اور سہیلیاں گڑیاں گھر گھولے ہنڈکلیاہ سب میرے انتظار میں ہوتے یہی حال اسلم اکرم کا تھا ۔۔۔ہم گھر کے نہیں گلیوں کے بچے تھے گھر باجی کا یا چھوٹے عمران اور شبانہ کا جو امی سے چپکے رہتے
ہمیں نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا وہیں ماموں کے ہاں کھا پی بھی لیتی کبھی کبھار اسلم اکرم بھکے بھانے چیجیوں پہ چلتے رہتے چیجی کے پیسے لینے گھر جاتے ۔۔۔ کبھی باجی گھر کے خرچے میں سے پکڑا دیتی کبھی جاکے امی کے لڑ لگ جاتے ۔۔۔ مجھے مل گئے ہیں تو اسلم اکرم اگلے امیدوار ۔۔۔ انہیں مل گئے ہیں تو میرا حق راسخ ۔۔۔ دن میں تین چار بار چیجی کے پیسے لیتے حسب ضرورت و لالچ ۔۔ امی جی اپنی سائیڈ جیب میں پیسے کھلے کرائی رکھتیں ہمارے لئے ۔۔۔ گھر کا خرچہ باجی کے پاس ہوتا شوکیس کے اوپر اخبار بچھاکر اس کے نیچے پیسے بچھے ہوتے پورے مہینے کے خرچے کے ۔۔۔ ہم بچوں نے کبھی ان پر اپنا حق نہ سمجھا ۔۔۔ ہاں ایک بار باجی کو کچھ شک سا ہونے لگا کہ کچھ گڑ بڑ ہور ہی ہے ۔۔۔میں تو شک سے مبرا رہی امی جی نے اسلم اکرم کو دبوچ لیا ۔۔۔ مان کر نہ دیں اکرم (اللہ بخشے) ہائے۔۔ میرے آنسو ) شرارتی تھا تو شک اسی پہ ہوا مگر حرکت میسنے اسلم کی تھی ۔۔تھوڑی سی ٹھوکا ٹھکائی سے معاملہ صاف اور سدھر گیا
اب اکرم کی بات کے بعد لکھنا ۔۔۔ میرا اندر آنسو وں سے بھر جاتا ہے اس وقت بھی میں رو رہی ہوں دو تین بار آنکھیں صاف کرنے کے باوجود آنسو امنڈے چلے آرہے ہیں
اکرم کیوں چلا گیا ایں ۔۔سوھنیا
ہاہ ۔۔۔۔ دنیا کے گئے ہیں پیارے
سب کے دل چھلنی ہوئے ہیں
ہاں تو میں یا اسلم اکرم ہم گھر میں پڑھتے نہیں تھے کبھی بھی ۔۔۔۔
میرا دماغ ہر بار سونے سے پہلے سوچ میں پڑھائی یا رویزن کرکے حافظ کتاب ہوتا ۔۔۔ تو امی جی کی فرمائش پر میں کتاب کھول کے کیا کرتی ۔۔۔ لڑکے دونوں لاپرواہ اور تختی پہ تختی مار کے روز تلوار بازی کھیل کے تختیاں توڑ لاتے اور اسی ٹوٹی تختی سے مار کھاکے بھی نہ سدھرتے دوسرے تیسرے دن نئی تختیاں کھڑکاتے اور توڑتے پھرتے ۔۔۔ بہت شرارتی تھےسارے بچوں بڑوں میں مشہور اور سارے محلے کے لاڈلے بھی ۔۔۔ سب پیار کرتے تھے ان سے ، ان کی حرکتوں پہ اور چھیڑ چھیڑ کر انہیں شرارتیں یاد دلاتے تھے
بھئی اکرم پہلوان
اسلم پہلوان ۔۔۔ آج دنگل نہیں کیا ۔۔۔ دونوں بھڑ جاتے ۔۔۔ قلابازیاں مٹی میں لوٹ پوٹ ۔۔۔ مجھے ارمان ہی رہتا
ہائے اللہ کبھی میرے بھائی بھی لوگوں کے بھائیوں کی طرح صاف ستھرے نظر آئیں
ادھر باجی نہلا دھلا کر صاف ستھرا کرکے باہر نکالتی ادھر ان کی قلابازیاں شروع ۔۔۔اور مجھ نہائی دھوئی کو گھسیٹ کر گرد آلود کرنا ان کے کھیل کا مزہ دوبالا ہو جاتا اور میں مدھو بالا چیختی پکارتی رہ جاتی ۔۔۔ یہ نٹ کھٹ موہن دونوں ۔۔۔یہ جا وہ جا
اکرم تو موہن کنہیا ہی تھا اپنی حرکتوں میں ۔۔۔
باجی اور میں جیسے ان کی یشودھا میا ۔۔۔۔ آج تلک
چلا بہت جلدی گیا میرا اکرم ۔۔۔ ہنستے کھیلتے شرارتیں کرتے ۔۔۔
باقی
اللہ ہم سب کو سلامتی اور تندرستی دے آمین ثم آمین
لوکس سیرولیس Locus coeruleus
یہ لفظ بائیولوجیکل سائینس کے لوگوں کے علاؤہ شائید ہی کسی نے سنا ہو ابھی کچھ دیر پہلے نیٹ سے پڑھ اور پھر ایک چھوٹی سی وڈیو دیکھی تو سوچا سب دوستوں سے یہ معلومات شیئر کرنا چاہئیں
اچھا سب سے پہلے تو یہ ہمارے دماغ میں موجود 50000 نیورانز یا سینسری سیلز کا ایک چند ملی میٹر کا گچھا سا ہے جو سر کے پچھلی طرف جہاں دماغ ریڑھ میں موجود حرام مغز یااسپائنل کارڈ سے ملتا ہے وہاں بلو سپاٹ کی صورت میں موجود ہے مطلب گدی میں اندر کی طرف پچاس ہزار نیورانز کا ایک چھوٹا سا جمگھٹا ۔۔۔
جن نیورو ٹرانسمیٹرز کا یہ اخراج کرتا ہے
Norepinephrine
noradrenaline یا
جس کا اماوئنٹ کم یا زیادہ ہونا ہماری بہت سے ایکٹیویٹیز کو کنٹرول کرتا ہے
بندر میں جب یہ locus coeruleus نکال دیا گیا تو ۔۔۔ اس کی ساری ایکٹیویٹیز ڈسٹرب ہو گئیں مطلب اسے کچھ پتہ نہیں کہ اسے کیا کرنا ہے کھانا ہے سونا ہے خطرے سے بھاگنا ہے یا کیا۔ ۔۔۔ اس کی شعوری ایکٹوٹی تقریبا ختم ہوگئی
یہ نیورو ٹرانسمٹر جو ہیں ان کی ہائی یا لو کوانٹٹی نیند جاگ کا کنٹرول ، الزائیمر ، سٹریس، فرسٹریشن ڈپریشن یا ہائپر ہونے کا باعث بنتی ہے وہاں اس کی معتدل مقدار آپ کے ذہن کو چاک وچوبند طبیعت بحال کام میں دلچسپی موڈ میں اعتدال ، خوشگواری اور پروڈکٹوٹی کو قائم کرتی ہے
نیورو سائینٹسٹ کے مطابق ہم چار گئیرز میں کام کرتے ہیں کسی بھی وہیکل کی طرح ۔۔۔
نیند میں “0 گئیر “۔۔۔جہاں بہت تھوڑی مقدار میں norepinephrine پیدا ہو رہا ہے اور ہم پر سکون نیند سو رہے ہیں
جاگ گئے اس نیورو ٹرانسمٹر کی مقدار بھی سلائٹلی انکریز ہوگئی
ہم گیئر 1 میں آگئے
مگر ہم ابھی سسست ہیں
پوری طرح جاگ کر کام کے لئے تیار ہوکر روزمرہ کے کام کاج روٹین کے مطابق خوشگوار انداز میں پروڈکٹو وے میں کر رہے ہیں بنا کسی سٹریس اور سست روی کے مناسب اکیوریسی اور سپیڈ کے ساتھ ۔۔۔ ہم گئیر 2 میں ہیں
انتہائی مشکل کام کا پلندہ اور شارٹ ڈیڈ لائین پہ ڈانٹ ڈپٹ کرتے باس کی ہبڑ تبڑ میں ہم الٹا سیدھا کام کر رہے ہیں اسٹریس سے بھرے ہوئے کام سیدھا ہوتے ہوتے الٹا ہورہا ہے
یا اچانک روڈ پہ ہمارے سامنے گاڑی آگئی ہے ٹکراتے ٹکراتے بچے ہیں
Norepinephrine کی اخراج بھی بڑھ جائے گا ہم اینزائٹی فرسٹریشن ڈپریشن موڈ کی طرف جارہے ہیں
اس وقت ہمارا دماغ گئیر 3 میں ہے
اور بہت زیادہ وقت کے لئے کسی بھی وجہ سے اپنے دماغ کو گئیر 3 میں رہنے دینا ۔۔۔ کسی بھی طرح مناسب نہیں
فورا جو کر رہے ہیں سب چھوڑ کے لمبے لمبے گہرے سانس لیں اپنےدھیان کو کسی بھی خوشگوار چیز یا احساس پر مرکوز کریں چاہے وہ پسند کا کھانا یا اچھا دوست بچے پھول فطرت مزاح کچھ بھی ہو جو بھی چیز آپ کے موڈ کو خوشگوار کرے فورا اس پہ دھیان دیں اور گئیر 3سے ڈاؤن گئیر 2 پہ لے آئیں اپنے دماغ کو ۔۔۔ اعتدال اور بہترین ورکنگ موڈ میں
مثلا آپ اسکائی ڈائیور ہیں چھلانگ لگائی پیراشوٹ نہیں کھل رہا ۔۔۔ آپ گھبرا کر گئیر 3 سٹیٹ میں گھر جائیں گے
پیرا شوٹ کھل گیا آپ مزے مزے سے لہراتے ہوئے ڈائیونگ کرتے بہتی ہوا کے ساتھ انجوائے کرتے آرام سے زمین کی طرف آرہے ہیں آپ کے دماغ کو سب سے بہترین گیئر 2 لگا ہوا ہے
کوشش کیا کریں آپ کا دماغ ہمیشہ نہیں تو اکثر گئیر 2 میں رہے بہترین کارکردگی سکون و اطمینان کے ساتھ ۔۔۔ چاہے اس کے لئے میڈیٹیشن کریں آرام یا تھوڑی سی لاپرواہی ۔۔۔
کوئی فرق نہیں پڑتا
مینیج یور سیلف یور ورک اینڈ یور سٹریس آف اینی ٹائیپ ۔۔لیٹ فیل فری فار سم ٹائیم …
اینڈ اف ناٹ پوسیبل ٹیک آ نیپ ۔۔۔ دس ول ہیلپ یو بیسٹ
بٹ نیور سٹے مور ٹائیم ایٹ گیئر 3 ۔۔۔ or stress gear
باقی ماہرانہ مشورے آپ گوگل سے لے لیں
میری سائنس فی الحال یہیں دی اینڈ ہوتی ہے ۔۔ہاہاہا
اچھے اور بلا ضرورت قہقہے بھی لگایا کریں ۔۔۔ چاہے بلی کی جمپس پر لگانے کا موقع ملے ۔۔۔
ایک بلونگڑا اور چھوٹی سے بال اگین ویری سٹریس ریلیزنگ ایکٹوٹی ہے۔۔۔ پالتو جانور ضرور رکھیں پلانٹنگ کریں ۔۔گھر کے ٹماٹر دھنیا مرچیں لیموں بہت اچھے ہوتے ہیں ذائقے میں اور خوشگواری میں ۔۔۔
ہمارے گھر کے امرود کے درخت میں جب پہلی بار دو امرود لگے تو میں ان کو جا جا کر دیکھتی تھی بار بار ۔۔۔
ایک امرود اتارا تو اس کی ایک پچر سی نصیب ہوئی مگر اس کا ذائقہ اور مٹھاس آج تک کھائے سب امرودوں سے مختلف تھی ۔۔۔ہاں مگر لاڑکانہ کے امرودوں کا بدل دنیا میں کوئی امرود نہیں ہیں ۔۔۔ بہت میٹھے ذائقہ اور خوشبو میں بے مثال ۔۔۔بچپن کی چیجی کیسے بھول سکتی ہوں نہ ددڑی بھولی نہ پھوٹے نہ ڈوڈی ۔۔نہ امرود
چنے ریوڑیاں بہت کھاتی تھی فراک ہر وقت بھنے چنوں سے بھری ۔۔کھاتی پھرتی تھی اور پتہ نہیں کیا کیا ۔۔۔ میٹھا پان
اب سادہ (کڑوا پان) کھاتی ہوں شوقیہ ۔۔۔پان کی افادیت پہ بھی کسی وقت لکھوں گی ذاتی تجربہ ہے
اچھا اب پان کی بیل نہیں لگانی کہ دل کی شکل کے پتے دیکھ کر جی بہلا رہے گا ۔۔۔ جامن کا پتہ بھی اچھا ذائقے دار ہوتا ہے
ٹائیم کی کمی ہے تو نو پرابلم ۔۔۔ ساری ایگریکلچر ہمارے دم سے چلتی ہے
کھائیں پیئں عیش کریں گھومیں پھریں اچھے دوستوں اچھے لوگوں سے رابطے میں رہیں ۔۔۔ اپنی فیملی اپنے پیاروں کا خیال رکھیں
مایوس لوگوں کی سٹریس میں ہیلپ کر سکتے ہیں تو کریں اور اگر آپ خود ان کی وجہ سے پریشانی محسوس کرتے ہیں تو لیٹ دیم سالو دئیر اون پرابلمز دئیرسیلف ۔۔۔ آپ سب میری طرح سائیکیاٹرسٹ نہ بنیں ۔۔۔ہاہاہا ۔۔
دعائیں سب دوستوں کے لئے
اور ہاں گئیر o اور 1 میں پڑے سارا دن میری طرح نکمے بھی نہیں بننا ۔۔۔
ورنہ بوریت کوفت بلاں بلاں ۔۔ پر اب میں کیا کروں سوائے کنسلٹنسی کے ۔۔۔سینیئر سٹیزن ہوگئی ہوں نا !
…ہاہاہا
بہترین گئیر یعنی گیئر 2 کے لئے میڈیٹیشن اور سیر سپاٹے ضروری ہیں ۔۔۔ ہاہاہا
عمرے اور مکہ مدینہ نے بہت اچھا اثر ڈالا
اب مری سوات ہو آؤں تو بہتر ہے مگر
مری = سائیبیریا
ان نومبر دسمبر فارمی کچھ دنوں تک سوئیٹر نکل آئیں گے
گجرانوالا فیصل آباد ہو آئیں گے
بھانجے بھانجی باجی فیملی اور دوسری طرف بھتیجوں بھتیجیوں سے مل کر ۔۔۔ جی خوش ہو جائے گا ان شا اللہ
ابتدائی طور پر ا ب سے لے کر ابتدائی جمع تفریق تقسیم ضرب امی جی نے بتادی ۔۔۔ ابتدائی قرآنی تعلیم نماز کلمے بھی انہوں نے یاد کروائے … ABC چھوٹی بڑی ابو جی نے سکھائی جو انہوں نے بھی اسکول کی بجائے ڈریکٹ انگریز دوستوں اور کو ورکرز سے سیکھی تھی اسی لئے ان کی انگلش بول چال بھی اچھی تھی عربی کی شد بد بھی تھی مگر اردو بولنے لکھنے پڑھنے میں گوا کے لوگوں یا جیسے اینگلو انڈین بولتے تھے ہم پٹودی دہلوی اردو دان بچوں کو ہنسانے اور کسی سے بات کر رہے ہوں تو انتہائی شرمندہ کروانے کے لئے ۔۔۔۔ پنجابی فیروز پور فاضل دے بنگلے دی کھڑی پنجابی
گھ بھ کی اردو آواز والی
گھیو ۔۔ بھین بھرا ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ دوسری کلاس میں تھی جب امی جی نے مجھ سے خط لکھوا کر ابو جی کو بھیجا ۔۔۔ پھر ہمیشہ ابو جی کو مجھ سے ہی خط لکھوایا کہ ان کی رائٹنگ کچی پکی تھی اور میری ، میری بوڑھی سی ٹیچر کنیز باجی کو اس قدر پختہ اور پسند اتی کہ جب چوتھی پانچویں میں انہیں کلاس ورک دکھاتی تو وہ میری تحریر دیکھنے لگ جاتیں اگرچہ میری کچھ فرینڈز کی لکھائی بذات خود مجھے پسند تھی تو ٹیچر میری تحریر دیکھتیں مسحور ہوکر ۔۔۔ اور کوئی دسیوں بار انہوں نے کہا ہوگا
تمہارا کام دیکھوں ۔۔۔ یا لکھائی ۔۔۔ اتنی سی بچی ایسی پختہ تحریر کیسے لکھتی ہے ۔۔۔ “
نہ جانے میری معصوم سی تحریر میں انہیں کون سی پختہ تصویریں نظر آتیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے
آمین )اب تک زندہ نہیں ہونگی اسکول کی سب سے بوڑھی اور ذہین استاد تھیں
ساری زندگی پڑھتے پڑھاتے جو ڈانٹ کھائی امی ابو سے کہ کبھی کتاب کھول لیا کرو گھر میں بھی۔۔۔ امی دکھ سے کہتیں
نی ۔۔ مینوں ارمان ای رہیا میرا کوئی بچہ گھر چ بیٹھا ہووے کتاب کھول کے پڑھدا ہووے “
ان کے طعنوں تشنوں سے گھبرا کر فورا کوئی بک اٹھالاتی ان کے سامنے ایک دو صفحے پلٹاتی ۔۔۔ صرف تین سے پانچ منٹ ۔۔۔پھر ٹھپ کے رکھ دیتی
کیا پڑھوں ساری تو مجھے منہ زبانی یاد ہے فوٹو گرافک میموری )
۔۔۔۔ پڑھ لیا بس
امی جی پھر گھرکتیں
کی پڑھاں ساری تے مینوں آندی اے
میں پھر امی جی کی ہوم ورک کرتے دیکھنے کی خواہش کو ٹھوکر تلے رکھ کے ۔۔۔ نظر بچا کے بی بی کے گھر گلی کو بھاگ جاتی جہاں بچوں سے بھری گلی اور سہیلیاں گڑیاں گھر گھولے ہنڈکلیاہ سب میرے انتظار میں ہوتے یہی حال اسلم اکرم کا تھا ۔۔۔ہم گھر کے نہیں گلیوں کے بچے تھے گھر باجی کا یا چھوٹے عمران اور شبانہ کا جو امی سے چپکے رہتے
ہمیں نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا وہیں ماموں کے ہاں کھا پی بھی لیتی کبھی کبھار اسلم اکرم بھکے بھانے چیجیوں پہ چلتے رہتے چیجی کے پیسے لینے گھر جاتے ۔۔۔ کبھی باجی گھر کے خرچے میں سے پکڑا دیتی کبھی جاکے امی کے لڑ لگ جاتے ۔۔۔ مجھے مل گئے ہیں تو اسلم اکرم اگلے امیدوار ۔۔۔ انہیں مل گئے ہیں تو میرا حق راسخ ۔۔۔ دن میں تین چار بار چیجی کے پیسے لیتے حسب ضرورت و لالچ ۔۔ امی جی اپنی سائیڈ جیب میں پیسے کھلے کرائی رکھتیں ہمارے لئے ۔۔۔ گھر کا خرچہ باجی کے پاس ہوتا شوکیس کے اوپر اخبار بچھاکر اس کے نیچے پیسے بچھے ہوتے پورے مہینے کے خرچے کے ۔۔۔ ہم بچوں نے کبھی ان پر اپنا حق نہ سمجھا ۔۔۔ ہاں ایک بار باجی کو کچھ شک سا ہونے لگا کہ کچھ گڑ بڑ ہور ہی ہے ۔۔۔میں تو شک سے مبرا رہی امی جی نے اسلم اکرم کو دبوچ لیا ۔۔۔ مان کر نہ دیں اکرم (اللہ بخشے) ہائے۔۔ میرے آنسو ) شرارتی تھا تو شک اسی پہ ہوا مگر حرکت میسنے اسلم کی تھی ۔۔تھوڑی سی ٹھوکا ٹھکائی سے معاملہ صاف اور سدھر گیا
اب اکرم کی بات کے بعد لکھنا ۔۔۔ میرا اندر آنسو وں سے بھر جاتا ہے اس وقت بھی میں رو رہی ہوں دو تین بار آنکھیں صاف کرنے کے باوجود آنسو امنڈے چلے آرہے ہیں
اکرم کیوں چلا گیا ایں ۔۔سوھنیا
ہاہ ۔۔۔۔ دنیا کے گئے ہیں پیارے
سب کے دل چھلنی ہوئے ہیں
ہاں تو میں یا اسلم اکرم ہم گھر میں پڑھتے نہیں تھے کبھی بھی ۔۔۔۔
میرا دماغ ہر بار سونے سے پہلے سوچ میں پڑھائی یا رویزن کرکے حافظ کتاب ہوتا ۔۔۔ تو امی جی کی فرمائش پر میں کتاب کھول کے کیا کرتی ۔۔۔ لڑکے دونوں لاپرواہ اور تختی پہ تختی مار کے روز تلوار بازی کھیل کے تختیاں توڑ لاتے اور اسی ٹوٹی تختی سے مار کھاکے بھی نہ سدھرتے دوسرے تیسرے دن نئی تختیاں کھڑکاتے اور توڑتے پھرتے ۔۔۔ بہت شرارتی تھےسارے بچوں بڑوں میں مشہور اور سارے محلے کے لاڈلے بھی ۔۔۔ سب پیار کرتے تھے ان سے ، ان کی حرکتوں پہ اور چھیڑ چھیڑ کر انہیں شرارتیں یاد دلاتے تھے
بھئی اکرم پہلوان
اسلم پہلوان ۔۔۔ آج دنگل نہیں کیا ۔۔۔ دونوں بھڑ جاتے ۔۔۔ قلابازیاں مٹی میں لوٹ پوٹ ۔۔۔ مجھے ارمان ہی رہتا
ہائے اللہ کبھی میرے بھائی بھی لوگوں کے بھائیوں کی طرح صاف ستھرے نظر آئیں
ادھر باجی نہلا دھلا کر صاف ستھرا کرکے باہر نکالتی ادھر ان کی قلابازیاں شروع ۔۔۔اور مجھ نہائی دھوئی کو گھسیٹ کر گرد آلود کرنا ان کے کھیل کا مزہ دوبالا ہو جاتا اور میں مدھو بالا چیختی پکارتی رہ جاتی ۔۔۔ یہ نٹ کھٹ موہن دونوں ۔۔۔یہ جا وہ جا
اکرم تو موہن کنہیا ہی تھا اپنی حرکتوں میں ۔۔۔
باجی اور میں جیسے ان کی یشودھا میا ۔۔۔۔ آج تلک
چلا بہت جلدی گیا میرا اکرم ۔۔۔ ہنستے کھیلتے شرارتیں کرتے ۔۔۔
باقی
اللہ ہم سب کو سلامتی اور تندرستی دے آمین ثم آمین
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے