دنیا دے بڑے کھلارے
الله ولے من هو چلئے
اب سانس لینا بھی ہوا ہے کارگراں
نظر کرم کا بوجھ اٹھایا نہ جائے گا
موج موج جلترنگ سا بجتا هے
موج میں هے ، سمندر موج بھرا
کون کہتا ہے دسمبر خاص ہوتا ہے
ذرا پکڑو اسے جوتے لگانے ہیں
سارا دسمبر ویسے ہی بیت گیا
سارا سال جیسے بیتا تھا
دو دن رہ گئے ہیں دسمبر کے
بھولنے والے بتا اب تک کہاں ہے تو؟
رات ابھی سلگ رهی تھی ستاروں میں
که سورج نے آشفتگی بھردی نظاروں میں
پرانے سال کی بیزاری الوداع
نئے سال کی خوشگواری مرحبا
پرانے سال سے وعدہ ٹوٹنے والا ہے
نئے سال سے پیمان جڑنے والا بھی
بہت وعدے ہوئے وعدہ شکنی ہوئی
ہوا سو ہوا، راہ اپنی اپنی ہوئی
اتنے خون ہیں اس کی گردن پر کہ
گزرے سال کو لٹکادو کہیں پھانسی پر
جب آتش ابھی سلگ رهی تھی انگاروں میں
اس روپ نے آگ لگا رکھی تھی چناروں میں
دسمبر سارا ہجر دے روزے رکھے
فر وی نویں سال دا چن نہ کھڑیا
هے اب اراده که چپ بیٹھ رهیں گے
هر اک تمنا سے دست بردار هو کے
کس کی بزم تھی جو هم مسند په آبیٹھے
تیری نسبت سےصاحب قدر و نگاه ٹھرے
نظر ڈالی هی نهیں دلچسپی سے
ورنه اک ٹھوکر کی مار تھی دنیا
مجھ په الزام خودنمائی هے
آئینے نے ابھی قسم اٹھائی هے
رات نیند میں خوابوں کی مصروفیت نہ تھی
لگا جیسے کہ میں جاگتی ہوں سوتی نہ تھی
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپ رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے