وہ بچپن کا قصہ سنہرا
وہ دلکش زمانہ
وہ آنے ٹکے میں چیجیاں لے کے کھانا
بھری دوپہری میں گڑیا کی شادی
اور دھوپ ٹھنڈی ہوتے ہی
پتنگیں اڑانا
چھوٹا سا گھروندہ جس میں باورچی خانہ
گیلی لکڑیوں پہ کچے چاول پکانا
وہ خوامخواہ ہی دوڑتے رہنا
اور
سر شام صحن میں بچھی
چارپائیوں پہ اچھل کود
کے
ڈانٹ پر ڈانٹ کھانا
پہیہ کوئی ہاتھ لگنا تو
دوڑنا اور دوڑاتے ہی جانا
نکڑ پہ نلکا چلانا اور بناپیاس بھی پانی پیتے ہی جانا
وہ بارش کی ندی میں تیرتے
گلیوں میں ساون منانا
جھومتا سا وہ بچپن
کبھی بنا بات ہی جھگڑنا
اور بنا بات ہی
مان جانا
وہ سکھیوں کی
چاہت
رات دن کی وہ مسرت
وہ رشتے سچے دل سے
کسی ایک کے سوا بھی کھیل میں جی نہ لگنا
وہ اک دوسرے کے ساتھ مل کے ہی
ناچنا اور گانا
وہ گڑیوں کی شادی رچانا
شام ٹھنڈی ہوتے ہی
گلیوں میں اچھل کود، کھو ، وجونٹی، ٹھیپا چھپائی،
کوڑا جلال شاہی ،
چھپن چھپائی
کھیلنا اور موجیں منانا
گلی کے سارے گھروں میں چھپنااور چھپانا،
محلے کے ہر گھر کو
اپنا ہی گھر سمجھنا
شڑاپ شڑاپ سب کے مٹکوں میں جوٹھے کٹورے الٹنا
اور چاچی / بھابی کے دیکھنے
سے پہلے ہی
تیر بن کے نکلنا
اور پھر ہنستے ہی جانا۔۔۔۔
گھروندہ بنتے ہی بھائیوں کا ٹپک پڑنا
“ہمیں بھی کھلاو۔۔۔نئیں تو کھیل بھی مٹاو”
داداگیری دکھانا
تنگ آکے ہمارا مان جانا
اور سب سے پہلے انہی کو کچے پکے چاول کھلانا
اور کھلونا کپ میں چائے پلانا
پھر انکا سچ مچ کا ‘ بھائی’ بن جانا
اور جھوٹ موٹ کا سودا سلف بھی لے کے آنا
کیا کیا۔۔۔۔
کیا کیا منظر چلے آرہے ہیں
یہ ختم ہونے کا قصہ نہیں ہے
زندگی ہے یہ۔۔۔
محض زندگی کا حصہ نہیں ہے
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے