اس طلسم کدے سے نکل آئی پری
جہاں ہر بت توبہ شکن پہ
ایک ہی چہرہ
موہ کا رنگ رچائے
آنکھوں سے مے مستی ء و عشق چھلکائے
ہر سمت یوں ایستادہ تھا
کہ کوئی راہ فرار ملتی نہ تھی
اور کشش موہ کا ایسا جال بچھا تھا
کہ پاوں پھنستے تھے الجھتے تھے
بھاگ سکتے نہ تھے
اف ۔۔۔۔ کتنا بے بس تھی
سبز توتا وہ
کہیں پنجرے میں
ترے دید کی چوری کھاتا خواہشوں کے ناگ کے پہرے میں
موج کرتا رہا
دل تجھے چھوڑ نہ سکتا تھا !!
مگر کوئی حل تو ہوگا
اس معمے کا
شہزادی کی الجھن کا
محبت کے زنداں کا ۔۔۔
عشق کی نادیدہ سی زنجیروں کا۔۔۔
کیسے رہائی پائے گی ؟
جان پہ بن آئی تھی
اس افسوں کا کوئی توڑ کوئی ٹونا کوئی جادو کوئی دعا۔۔۔
!یارب ۔۔۔ مرے دل کو سکھا
دل توتا سا بڑا بہلا سا رہتا تھا
جب تلک اس کی گردن کو نہ مروڑا
اور خواہشوں کے ناگ نہ زیر کئے
شہزادی کو دیو سے نہ رہائی ملی
ہاں ملی ۔۔۔۔
کچھ دیر ہوئی
مگر بالآخر رہائی
طلسم محبت سے اسے رستہ مل ہی گیا
اور اک دن بالاخر وہ
خواہشوں کے عفریت سے آزاد ہوئی
آندھی چلی سب مٹ سا گیا
نہ شہزادہ نہ طلسم کدہ
نہ افسوں نہ کوئی جادونگری ۔۔۔
ٹوٹے خوابوں کے اک ڈھیر پہ بیٹھی تھی ایک پر ٹوٹی پری ۔۔۔۔
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے