هم وه سارے دریا پیر آۓ
جن میں ٹوٹی کشتیوں کے پتوار
تھک کے چھوٹ جاتے هیں
بےگیاه مسافر
منجدھار میں ابھرتے هیں
ڈوب جاتے هیں
ان سارے جنگلوں کو
هراس میں جکڑی ظلمتوں کو
عبور کر آۓ
جن میں کمین گاهیں
تار تار کرتی هیں جسم و جاں
مع پندار
پل صراط سے کھیل آنے کا
سرخرو هوا حوصله جھیل جانے کا
آؤ که آج هم
اپنے شکسته سبو تھامے
انجمن ذات کے آئینه خانے میں
!جشن کامرانی مناتے هیں
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے