ایک نظم کھو گئی تھی
جو بہار کا ہاتھ تھامے
ناچتی پھر رہی تھی
تتلیوں کی طرح
رنگ برنگ گلوں کو چومتی
جھومتی جھولتی، ڈولتی
اسکا اپنا آپ قرار میں نہ تھا
خوشی اس کے اندر چلبلا رہی تھی
وہ خوامخواہ ہی گنگنا رہی تھی
کبھی کوئ مصرعہ
کبھی کوئی گیت
وہ بہار پہ مرمٹی تھی
بہار اس پہ فدا ہو چلی تھی
چند پھول کیا جھڑے کہ
جیسے
وہ بھی کھملا کے ہراساں ہوگئی تھی
یوں بھی ہو سکتا ہے کیا ، کہ
بہار ، نہ رہے
یہ سوچ کر ہی
بہار میں پیدا ہوئی تتلی کے
رنگین پر جھڑ گئے تھے
اور وہ ایک بد رنگ
رینگتا حشرات ارضی سا رہ گئی تھی
کہ وہ تتلی بہار کی تھی
نظم بہار کے ساتھ ہی اڑ رہی تھی
بہار کے جاتے ہی
ایک نظم کھو گئی تھی
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے