ویران ہاسٹل ایک سب جیل کی حیثیت رکھتا تھا جہاں شروع شروع میں مختلف اوقات میں اکا دکا پنچھیوں کا چند ماہ کے لئے آنا جانا ضرور رہا پہلے دن سے ہی ہر آنے والی اپنے آبائی شہر ٹرانسفر کرا نے کی کوششیں اس شدو مد سے کر تی کہ پورے خاندان کے افراد دوست احباب عزیز و اقارب کی مشترکہ کاوشیں چند ماہ میں ہی رنگ لے آتیں
ایک میں تھی کہ گھر والے لاہور شفٹ ہوچکے تھے بوجوہ ناگزیر حالات کے مگر انکی رائے کے باوجود میں لکچرر شپ کی جاب کو استعفی دینے کے لئے تیار نہیں تھی
کہ دیکھا جائے گا کوششیں مایوس کن اور ناکام کبھی کبھار میں اور گھر والے بھی آغاز کرتے رہتے اور پھر ناکام ہوکر اپنا سا منہ لے کر بیٹھ جاتے ایک صوبائی جاب کا دوسرے صوبے میں جذب ہوجانا نئی جاب حاصل کرنے جیسا ہی تھا جبکہ آپکا ڈومیسائل بھی سوال کھڑا کر دیتا ہو اتنا ضرور ہوا کہ جب بھی میری فائل آخری اسٹیج پر پہنچتی کہ وزیر اعظم یا صدر صاحب کل سائین کردیں گے حکومت کا تختہ الٹ جاتا دوبار بےنظیر ، دوتین بار نواز شریف بحییثیت وزیر اعلی اور وزیر اعظم، عین اس وقت اقتدار سے محروم ہوئے جب میری فائل پر غور کرنے والے تھے پرویز مشرف تک یہ سلسلہ چلا….. بالآخر بچ بچا کر چھپ چھپا کر 2013 میں، ڈیپوٹیشن پہ لاہور آگئی 2018 میں نئی حکومت کے جیتتے ہی میرے نحس اثرات کو غائبانہ طور پر محسوس کرتے ہوئے حلف اٹھانے سے پہلے ہی مجھے واپس صوبہ ء سندھ بھیج کر جان چھڑا لی گئ
بیس سال سے زیادہ عرصہ پہلے بھی ہاسٹل تھا اب بھی ہاسٹل زندہ باد….. اور ہاسٹل بھی ایسی سب جیل کہ بیس سال تک جس کی میں اکلوتی مکین تھی بندہ نہ بندے کی ذات ، آٹھ دس ویران کمرے، سوئی بھی گرتی تو بازگشت سنائی دیتی تھی….. ہاسٹل سے باہر لق و دق ایریا میں ایک آدھ چوکیدار کا پھیرا ، ایک دو گھنٹے کے لئے باورچی کی آمد جو سارے دن کا کھانا اکٹھا ہی بنا دیتا اور سائیکل اٹھا کے یہ جا وہ جا….. ہاسٹل کے صحن سے کچھ فاصلے پر دائیں طرف دو سرونٹ کوارٹرز، دو ملازمین کی فیملی اور بچوں سے پر انکا شور شرابا بھی ہاسٹل کی خاموشی سے کچھ نہ کچھ الجھتا ضرور مگر خالی جگہ پر گونجتی ٹوٹتی آوازوں کی صورت
رات انکے گھروں میں زرد بلب ٹمٹماتے ایک دو ہاسٹل میں اکا دکا صحن میں اپنی سی کوشش کرتے رہتے کہ ماحول کی خوفناکی ذرا کم ہوجائے ہم تمام مکین نیم اندھیرے میں بھی کوارٹرز تا ہاسٹل آنا جانا کامیابی سے کرتے رہتے رات انکی کوئی بچی یا بوڑھی میرے کمرے میں آکر سو رہتی….. بیس سال سے زیادہ اسی طرح گزرگئے سوائے کبھی کبھار کی استثنیات کے جب باہر کی دنیا سے رابطہ ہوتا ہاں آدھا دن کالج کے ہلے گلے میں ضرور گزر جاتا تھا باقی آدھا دن میں اور میری تنہائی ٹی وی اور ویران ہاسٹل کی غیبی مخلوقات……. ہاہاہا…. سب نے ایک دوسرے کو ایڈجسٹ کر لیا تھا کوئی کسی کو تنگ نہیں کرتا تھا سوائے اس وقت کے جب میں بند ہاسٹل کے دور افتادہ کچن میں جاتی تو بیرونی دروازہ زور زور سے بجتا اور زور زور سے کوئی مانوس آواز مجھے پکارتی اور میں کچن سے دوڑ کر بیرونی دروازے کی طرف بھاگتی تو باہر لق ودق صحرا نما خالی صحن تیز دھوپ … بندہ نہ بندے کی ذات اور ایسا ہمیشہ ہی ہوتا تھا آخر تو میں نے ڈرنے کی بجائے مسکرانا شروع کر دیا تھا جناتی ایکٹویٹیز پر ! کتنی بہادر تھی نا میں….. سال میں چار چکر دوڑتے بھاگتے ٹرینز میں چڑھتے پلیٹ فارمز پہ سامان گھسیٹتے، کبھی بس اسٹاپس. ڈائیوو، کراچی لاہور ائیر پورٹس….. لاہور کے بھی ضروری تھے عیدین پر چھٹیوں میں پھر ہر ویک اینڈ پر وینز بسوں میں دھکے کھاتے ماموں کے ہاں اپنی کزن اور فرینڈز سے میل ملاقات…. ہاسٹل سے باہر ایک دو دوستوں کے ہاں بھی فیملی فرینڈز کی طرح آنا جانا….. اور ہاں پھر جامشورو بھی تو شوہر نامدار کی حاضری…… سب گزرگیا
Every thing was fine because I was strong but now……. کہیں آنا جانا ہو تو گھنٹوں
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں گے