نیند سے مکالمہ
کہاں کھوگئی دلربا !
آنکھیں سدا سے جاگتی ہیں یوں جیسے ستارے گننا ان پہ فرض ہوگیا
اور اماوس کی راتوں میں چاند جو کھوگیا
جب تک چودھویں رات کی سیڑھی نہ چڑھے گا
آنکھیں بنجر پن سے اندھیارے کی فصیل سے جھانکیں گی
اور جب کرنیں کچھ ہاتھ لگیں تب ہی سونے کا سوچیں گی
سوچیں تو ایک سمندر ہے
چاند کی لہریں اک جوار بھاٹا
کس رات سے خوابوں کی امید رکھوں
خواب میں تجھ سے وعدہ ہے
پر۔۔۔۔۔
نیند وعدے سے مکر گئی ہے
آکر نہیں دیتی
رات کے اس پچھلے پہر
سحر خیز پنچھی بھی کچھ
آنکھیں جھپکاتے جاگ گئے
مگر میری نیند پٹا پٹ آنکھیں پھاڑ ے بیٹھی ہے
رات کی ہمراہی میں یوں
جیسے رات اور نیند کا تعلق گناہ کا ہے
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں