بچپن کی عید
کپڑے سل کر تیار ہوجاتے تھے
عید سے کچھ دن پہلے باٹا کے شوز پمپی وغیرہ بھی لے لی گئی بھائیوں کی جناح کیپ اور رومال ساتھ سب کی پلاسٹک کی گھڑیاں اور عینکیں بھی آگئیں ایک دن پہلے چوڑیاں درجن درجن سرخ ہری دونوں کلائیوں میں منیاری نے آکر پہنائیں سب کپڑے جوتے چاند رات کو استری تہہ کرکے مردانہ شلوار میں نئے ازاربند وغیرہ ڈال کے لٹکا دئیے گئے
انتیسویں رمضان کی شام سارا ہی شہر گھروں سے گلیوں میدانوں میں خواتیں بچے اکا دکا مرد چھتوں پہ ۔۔۔۔ رونق لگی ہوتی چاند چاند ہورہا ہوتا جس کسی کو نظر آجاتا وہ چھ چھ سات سات کی ٹولی کو انگلی کے اشارے سے دکھانے کی کوشش کرتا سارے چاند کے ناکام عاشق اس انگلی کی سیدھ میں دیکھ دیکھ کر آنکھیں بھینگی ہوجاتیں پھر اچانک کوئی خوشی سے چیختا
“نظر آگیا” وہ جھومتے ہوئے دوڑ لگا دیتا چھ سات اور اس کے آلے دوالے ہوجاتے دکھاو دکھاو۔۔۔ چند ایک کو وہ بھی انگلی کی سیدھ میں ٹکٹکی لگا کر دکھا دیتا جب ہر محلے میں دس بیس لوگوں کو نظر آجاتا چھتوں سے بھی نعرہ بازی شروع ہوجاتی “چاند نظر آگیا ۔۔چاند نظر آگیا”
سب گھروں کو خوش خوش خوش گپیاں کرتے بتانے چل دیتے راستے میں جس سے بھی سامنا ہوا چاند مبارک چاند مبارک کا سلام مبارکباد کا سلسلہ چلتا رہتا ۔۔۔ہم آٹھ دس بچیوں ایک آدھ بچہ کی ٹولی بھی ایکٹو ہوجاتی نہ جانے کہاں سے اور کس سے سیکھا تھا تاہم ہر گھر کا پردہ اٹھا کر یا دروازے سے اندر جھانکتے اور گاتے ایک سندھی گیت۔۔۔ اگرچہ اس وقت ہم سندھی کا صرف ایک لفظ ‘مانی’ یا روٹی ہی جانتے ہونگے مگر یہ گیت سندھی میں گاتے شائید کچھ سندھی بچوں کو ہی گاتے سنا ہوگا پھر اس کی دم ہم نے بھی پکڑ لی
“چنڈ ڈٹھو ڈٹھو
کھیر مٹھو مٹھو”
چاند دیکھا دیکھا
دودھ میٹھا میٹھا
اس کے علاوہ ہم پورے محلے میں
چاند چاند مبارک کا رولا ڈالتے ایک ایک گھر میں سلام کر کے آتے۔۔۔ ساری ہی خواتین اور گھر کے افراد ہمیں پیار اور خوشی سے دیکھتے اور ہمارے چاند سانگ پر خوشی کھل کھل جاتی سب چہروں ۔۔۔۔ ہم بچوں کی چاند رات کی ڈیوٹی ختم گھر آکے عید کی چیزوں کا ایک بار پھر بے چینی سے جائزہ لے کر ایکسائیٹڈ ہو کر سو جاتے۔۔۔۔ رات کے جانے کس پہر امی اور باجی عید کی تیاریوں سے فارغ ہوتیں باجی نے منہدی گھول کے رکھی ہوتی وہ امی جی سے اپنے ہاتھوں پہ لگوانے سے پہلے آدھی رات کو نیند میں ہی میرے اور اسلم اکرم کے ہاتھوں پر منہدی لگا دیتیں جب ٹھنڈی منہدی سے کسمسا کر ہماری آنکھ کھلتی اوں۔۔۔ کرکے تو بتاتیں ہلنا مت منہدی لگا رہی ہوں بستر پہ لگ جائے گی ہم مطمئن ہوکے ہاتھ ڈھیلا چھوڑ دیتے۔۔۔ وہ منہدی لگا کر ایک پرانے کپڑے سے ہماری مٹھیاں باندھ دیتیں جو منہدی لگتے ہی نیند میں بند ہوجاتی۔۔۔ بہرحال وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کرتیں امی جی کی ہدایت کے مطابق کہ بستر صاف رہیں مگر ہم نہ جانے رات کو کس وقت نیند میں ہی وہ کپڑا کھول کھال دیتے اور صبح پائینتیوں پایوں بستر ہرجگہ تھوڑی بہت منہدی کے نشاں ہوتے بلکہ منہدی سوکھ کر بستر پہ ریت کی طرح بکھری ہوتی ۔۔۔ امی اور باجی کو معلوم تھا کہ یہ منہدی عید کے دن اگر ہمارے ہاتھوں پر نہ ہوئی تو ہماری عید ادھوری رہ جائے گی سارے منہدی لگے بچوں کے بیچ ہم بہت مایوس عید مناتے نظر آئیں گے سو یہ انتہائی ضروری تھا کہ ہم چاہے سوجائیں مگر منہدی ضرور لگی ہو ہمارے ہاتھوں پر جب صبح اٹھیں تو چاہے بستر کا جو بھی بیڑا غرق ہو۔۔۔
یاد ہے اس رات ہمارے بستر پر بھی پرانی گھسی پٹی ردی چادر ہی ڈھونڈ کر باجی بچھا دیتیں تھیں ۔۔۔ بہرحال صبح اٹھتے ہی ہم ہاتھ دھو دھوکر منہدی رچے ہاتھوں کا مقابلہ کرتے سب سے اچھی منہدی باجی کی ہوتی کہ انہوں نے بقائمی ہوش وحواس لگوائی ہوتی کبھی کبھی امی جی کی ایک ہتھیلی پر ایک گول ٹکیا چمک رہی ہوتی ۔۔۔۔ امی کے ہاتھ پر منہدی بہت چمکتی تھی ہم تیل لگاتے ہاتھ دھو کر کہ ہماری بھی چمکے۔۔۔ ہماری خوب رچی تو ہوتی مگر چمکدار رچی ہوئی امی کی ٹکیا ہی ہوتی اسلم اکرم کے ہاتھ ذرا پھیکے ہوتے جس سے صاف پتہ چلتا کہ رات انہوں نے اپنی منہدی کی ٹھیک سے حفاظت نہیں کی اور نیند کی جھنجلاہٹ میں جلد ہی بندھا کپڑا کھول کھال کر چادروں پہ ہاتھ مار مور کر پونچھ لی جس کا انہیں بھی نیند میں پتہ نہیں چلا۔۔۔ بہرحال صبح سب اپنے اپنے منہدی والے ہاتھ دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے اور میٹھی سویاں کھاتے منہدی والے ہاتھوں سے ۔۔۔۔ ایک بار مجھے پکا یاد ہے نہ جانے کیوں باجی نے رات کو منہدی نہ لگائی یا میں نے ہاتھ کھینچ کھینچ لیا صبح سفید ہاتھوں سے سویاں کھاتے وہ بھی عید والے دن میں سچ مچ روہانسی ہوگئی تھی مجھے وہ عید ، عید نہیں لگ رہی تھی اس کے بعد سے آج تک اور کچھ کروں نہ کروں عید پہ چاہے الٹی سیدھی ہی سہی منہدی کا رنگ ضرور ہوتا ہے ۔۔۔ہاہاہا
سب کو عید مبارک ۔۔۔ آج میں نے بہ قائمی ہوش و حواس ازکی اور لائبہ سے منہدی لگوانی ہے وہ کل سے کونیں لے کر پھر رہی ہیں
“پھپھو لگادیں”
کل چاند رات نہیں ہوئی تو میں نے کہا نہیں اب کل لگائیں گے عید پہ ایک دن پھیکی منہدی جچے گی نہیں ۔۔۔وہ جیسی بھی انہیں آتی ہے لگا جائیں گی مگر میرے ہاتھوں پہ رنگ تو ہوگا اور سویاں کھاتے مجھے مزہ آئے گا کانچ کی چوڑیاں اب نہیں پہنتی لگتا ہے کسی نے میرے ہاتھوں کو قید کردیا ہے ڈیڑھ درجن چوڑیاں ہتھکڑی والی گھبراہٹ ہوتی ہے سونے کی ایک آدھ ٹھیک رہے گی
سب کو ایڈوانس عید مبارک ۔۔۔
میلے اندل والا بچہ عید پہ بہت کھوش ہوتا ہے
عید کی جوتا یا پمپی لینے کے لئے لاڑکانہ کے تنگ اور طویل راستے آمنے سامنے دکانوں اور سامان سے بھرے شاہی بازار جاتے راستے میں جناح کیپ اور جرابیں رومال بھی خرید لیتے تھے۔۔۔ ابوجی نے اسلم اکرم کو باٹا شوز دلا دئیے مگر اس بار میں بند شوز کے لئے مان کر نہیں دے رہی تھی میری ضد تھی ہیل والی سینڈل ۔۔۔ اڑ گئی باپ کی لاڈلی بیٹی ۔۔امی ساتھ ہوتیں تو ضرور ایک جڑ دیتیں اور بند شوز ہی لے کر دیتیں
بند جوتوں کی کوالٹی پائیداری تو ابو جی چیک کرلیتے تھے مگر سینڈل کا انہیں کوئی تجربہ نہ تھا انتخاب میری صوابدید پر چھوڑ دیا گیا مجھے جو اچھی لگی چن لی ۔۔۔ عید کی صبح نماز کی تیاری ہوئی شان بے نیازی سے سینڈل پہنی گئی اور عید گاہ کے جلوس میں تیز تیز چلتے بڑوں کے ساتھ ساتھ رہنے کی خاطر ہم بچوں کی بھاگم بھاگی بھی شروع ہوگئی ۔۔۔ پہلی بار ہیل والی سینڈل پہن کر چلنا ھی مشکل تھا یہاں مجھے ہلکی ہلکی دوڑ لگا کر ابو جی کے ساتھ قدم سے قدم ملانا پڑھ رہے تھے کہ ابو جی کہیں گم نہ ہوجائیں اور ہم لوگوں کو دوسرے بچوں کے اباوں کا پیچھا کرتے اسٹیڈیم جانا پڑ جائے اسلم اکرم اور بے بی میرا ساتھ تو دے رہے تھے مگر اس وقت وہ ساتھ دینے سے بالکل معذور ہوگئے جب رائل سنیما یعنی آدھے راستے میں پہنچ کر عین رائل کے سامنے عید کے بڑے بڑے نئے فلمی پوسٹر دیکھتے اور ہیل کے ساتھ دو ڑ لگاتے مجھے احساس ہوا میری دوڑ کچھ اور بے ترتیب ہوگئی ہے میں اچک اچک کر چل رہی ہوں دوسرے بچوں نے بھی نوٹ کرلیا بے بی حسب عادت میرا ساتھ دینے کھڑی ہوگئی اسلم اکرم بھی رک گئے کہ وہ بلانگیں بھرتے ابوجی اور دوسری مردانہ پارٹی کے مقابلے میں میرے ساتھ زیادہ بہتر چل سکتے تھے وہ سمجھے مجھے پاوں میں چوٹ لگی ہے ، بہر حال چیک کیا چوٹ ووٹ کچھ نہیں تھی ، سینڈل چیک کی ایک پاوں کی ہیل نکل کر جانے کہاں رہ گئی تھی صرف پتاوا بچا تھا اسی لئے میں دوڑتے ہوئے اونچک نیچک ہورہی تھی نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن آدھے رستے سے واپس پلٹوں یا آگے جاوں ساتھی بچوں کا خیال تھا اسٹیڈیم ہی چلتے ہیں انکا کیا مسئلہ ان کے تو پتاوے جوتے سب ٹھیک ٹھاک تھے جرابیں پہنی ہوئی تھیں کسی کو نیا جوتا لگ بھی نہیں رہا تھا انکی اٹریکشن تو اسٹیڈیم ہی تھا ویسے مجھے بھی گھر سے زیادہ اسٹیڈیم کی کشش نے کھینچ رہی تھی
ہم نے ابو جی کے پیچھے دوڑ لگادی میری ایک سینڈل ہاتھ میں تھی ایک پاوں میں اتنی عقل نہیں تھی کہ دونوں ہاتھ میں پکڑ لوں ۔۔۔ مگر عید والے دن ننگے پیروں کا امپریشن بھی تو ٹھیک نہیں تھا
اونچک نیچک نیم دوڑتے چلتے اسٹیڈیم پنہچی دوست بچے بھی ساتھ نبھاتے رہے اسی طرح اسٹیڈیم سے واپسی کا بھی ایک کلو میٹر یا زیادہ طے کیا ہوگا۔۔۔ مشکلوں سے گھر پہنچی اور پرانی چپل پہن کے عید کا دن گزارا
تو یہ تھی میری پہلی ہیل والی سینڈل کے ساتھ عید کہانی ۔۔۔ جب تک فل فلیج بڑی لڑکی نہ بن گئی دوبارہ ہیل نہ پہنی فرسٹ ائیر میں داخلہ ہوتے ہی کالے فریم اور سفید گلاسز والی عینک اور چار پانچ انچ کی لمبی موٹی ہیلوں کا شوق پھر چر آیا پھر رج کے ہیلوں پہ ‘ٹک ٹک ‘ کی جب تک کمر کے مہروں نے مائنڈ نہ کیا
مگر وہ گمشدہ ہیل وہ پیچھے رہ جانے والا پتاوا وہ عید اور اپنی اونچک نیچک دوڑ یں اب تک یاد ہے بلکہ اچھی طرح یاد ہے۔۔۔ہاہاہا
عید کی صبح ہوتے ہی منہدی چوڑیوں کا جائزہ لینے کے بعد پہلی کوشش یہ ہوتی جلد سے جلد نئے کپڑے پہن کر تیار ہوا جائے ۔۔۔ مگر پہلے سویاں کھلائی جاتیں اس کے فورا بعد ایک ایک بچے کی تیاری شروع ہوتی ہم تین بچوں اسلم اکرم اور میری تیاری ابوجی کے ساتھ ہی شروع ہوجاتی کہ ہم نے بھی ابو جی کے ساتھ جناح باغ یا اسٹیڈیم نماز کے لئے جانا ہوتا شبانہ اور عمران ابھی چھوٹے وہ تیار ہو کر گھر پر ہی امی اور باجی کے ساتھ رہتے بعد میں جانے لگے تھے مگر تب تک میں بڑی ہوکر عید گاہ جانا چھوڑ چکی تھی ، عید گاہ جانا جو ہماری دوسرے بے شمار بچوں کے ساتھ محض سیر ہی ہوتی ہمیں کپڑے پہنا کر پوڈر شوڈر لگاکر تیل کنگھی سرمہ کرکے موزے جوتے پہنا کر تیار کردیا جاتا اسلم اکرم جناح کیپ پہن لیتے میں بھی آنچل سنبھالنے لگ جاتی گھڑیاں چشمے پرس اضافی ہوتے تیار ہوتے ہی ابو جی سب کو دو دو روپے عیدی دے دیتے دونوں ماموں بھی باری باری آجاتے سلام سویوں عید مبارک کے بعد وہ دونوں ایک ایک روپیہ عیدی سب بچوں کو دیتے امی کو پانچ یا دس روپے پکڑاتے اور ہم عید گاہ کی طرف چل دیتے راستے میں ابو جی ان کی بچیوں دونوں بے بیوں چھوٹی بے بی بڑی بے بی کو جو اس وقت دو ہی تھیں پانچ پانچ روپے عیدی دے کر حساب برابر کرتے دونوں مامیوں کو بھی عیدی دیتے کہ امی سے چھوٹی تھیں کبھی کبھار بی بی کو بھی کچھ زبردستی پکڑا دیتے۔۔
آدھے شہر کے بچے لڑکے لڑکیاں اسٹیڈیم کی سیڑھیوں پہ دوڑ بھاگ رہے ہوتے اور چھوٹے چھوٹے بٹووں پرسوں سے پیسے نکال نکال کر اوٹ پٹانگ چیزیں خرید اور کھارہے ہوتے چمکیلے نئے کپڑوں میں بچوں نے ایک ہڑبونگ مچائی ہوتی جسے کسی نے نادیدہ ہاتھوں سے اسٹیڈیم کی سیڑھیوں تک ہی محدود کیا ہوتا کیونکہ اسٹیڈیم کے گراونڈ میں عید کی نماز ہورہی ہوتی ہم منتظر ہوتے کہ کب نماز پوری ہو یہ سارے ‘ ابے ‘ گلے مل ملا کے فارغ ہوں تو ہم واپس گھر جائیں اور باقاعدہ عید کی ایکٹیویٹیز شروع کریں۔۔۔ عید کی نماز پہ جانا بھی ایک بہت ہی خوشگوار منظر ہوتا ہر گھر سے دو دو چار مرد تین چار چھوٹے تیار شدہ بچوں سمیت وارد ہوتے سلام علیکم عید مبارک عید مبارک تیز تیز قدموں سے مین روڈ کی طرف جارہے ہوتے ۔۔۔ مین روڈ اسٹیشن سے لے اسٹیڈیم تک نمازیوں کا اور بچوں کا جلوس سا نکلا ہوتا سلام سلام عید مبارک عید مبارک درود صلوات کا غلغلہ اور خوشبوؤں کا ایک سلسلہ اجلے پیرہنوں ٹوپیاں پہنے رومال ہاتھوں میں پکڑے یا کاندھوں پہ رکھے آس پاس آگے پیچھے دو چار بچوں کے ساتھ رواں دواں ہوتا۔۔۔ ہر موڑ ہر گلی سے اس مین جلوس میں جوق در جوق لوگ شامل ہورہے ہوتے کسی کے ہاتھ میں جائے نماز کسی کے ہاتھ میں چادر جسے گھاس پر بچھا کر نماز پڑھنی ہوتی تیز تیز درود صلوات پڑھتے اسٹیڈیم یا جناح باغ عیدگاہ کی طرف جارہے ہوتے بچے دوڑ دوڑ کر پھدک پھدک کر ان کی تیز چال کا ساتھ دیتے سب کو جلد سے جلد عید گاہ پہنچ کر نماز کی جلدی ہوتی خوشبوؤں نئے کپڑوں صاف ستھری چمکدار نورانی چہروں والی مخلوق کا درود وصلوت سلام سلام عید مبارک عیدمبارک کے شور بچوں کی ہڑبونگ شور شرابے اور آوازوں کا ایک سیلاب مین روڈ پر حد نگاہ تک امڈا ہوتا۔۔۔ بچے اسٹیڈیم کی سیڑھیوں پر بڑے لڑکوں کی طرف سے محصور کر دئے جاتے چھابہ فروش وہاں موجود ہوتے سو مختلف اشیا بچے کھاتے پیتے رہتے اور ساتھ ہی اسٹیڈیم کے گراونڈ میں اس جگہ پر بھی نظر رکھتے جہاں اباجی اور چاچے مامے نماز پڑھ رہے ہوتے کہ نماز کے بعد گلے مل ملاکر جونہی واپسی کا قصد کریں بچے دوڑ کر اپنے بزرگوں کے ساتھ چل دیں کوئی انہیں اسٹیڈیم کی سیڑھیوں پہ ڈھونڈنے نہیں آتا تھا بچے ان پہ نظر رکھے ہوتے تھے یا گروپ کا کوئی بھی ایک بچہ جونہی ابا کے قدم واپسی کی طرف اٹھتے یہ دوڑ کر ان سے جا ملتے جونہی گھر کے قریب پہنچتے ابا جی گھر چلے جاتے بچے سارا دن کے لئے گھر سے باہر ہی نکلے ہوتے لڑکے لڑکوں کے ٹولے بن جاتے لڑکیاں اپنی سہیلیوں کی ٹولیاں اکٹھی ہو جاتیں ۔۔۔ گلی محلے میں خواتین مرد بھی عید ملنے ملانے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا شروع کردیتے بچوں کی ٹولیاں بھی جگہ جگہ دوڑتے بھاگتے کھیلتے کودتے کھاتے پیتے کدکڑے لگاتے گلیاں بھری ہوتیں کہ سب بچے گھر سے باہر ہوتے ۔۔۔ ہماری گرلز ٹولی بھی کسی بھی ایک گھر اکٹھی ہوکر پہلے سب ایک دوسرے کے کپڑے جوتے جیولری منہدی چوڑیاں تیاریاں دیکھتی ایک دوسری کی تیاریوں پہ پسندیدگی کا اظہار کرتیں پھر جدھر دل چاہتا منہ اٹھا کر چل دیتیں ساری سہیلیوں کے گھروں کے دورے ہوتے گھر والوں سے سلام عیدمبارک گلے ملنے کے بعد سویوں یا کباب دہی بڑوں وغیرہ سے خاطر تواضع ہوتی۔۔۔ پھر اگلی سہیلی کے گھر چلے جاتے ۔۔۔محلے کی ساری سہیلیاں بھگتا کر اسکول کی سہیلیاں یاد آجاتیں جس کا گھر پتہ ہوتا ٹولہ پہنچ جاتا ہر جگہ کچھ نہ کچھ کھا پی کر پیٹ میں اپھارا سا ہوجاتا ساتھ عید کی خرچی سے ریڑھیوں پر بکتی چیزیں بھی کھاتے ایک میدان میں جھولے لگے ہوتے ہم سے پہلے ہمارے بھائیوں اور دوسرے بچوں کے ٹولے وہیں موجود ملتے۔۔۔ سب اپنی اپنی خرچی کے حسب استطاعت جتنے جھولے جھول سکتا جھولتا ۔۔۔ میں اور میری کزن چڑیا ( بےبی) ساری عیدی خرچ کرکے آخر میں میٹھے پان کے پیسے ضرور بچاتیں کبھی کبھی کچھ دور بےبی کی خالہ کے گھر ہم چلے جاتے وہ دوپہر کا کھانا ضرور کھلاتیں بے بی کو خرچی دیتیں کہ تم دونوں کھا لینا ۔۔۔ ہم سارا دن کھپ کھپا کر رل رلا کر ۔۔۔ آخر میں تھکے ہارے میٹھا پان کھاتے ہوئے اپنے اپنےگھر میں جا وارد ہوتیں امی اور باجی کو اسلام وعلیکم عید مبارک ہوتی ۔۔۔ پھر پلاو کھاتے۔۔۔ رات ہوجاتی
ہائے۔۔۔ عید گزر بھی گئی سوتے ہوئے جہاں دن بھر کی تھکاوٹ اور سرخوشی ساتھ ہوتی وہیں یہ دکھ بھی ہوتا عید اتنی جلدی کیوں گزر گئی ہم تو ایک مہینے سے لمحہ لمحہ تیاریاں کر رہے تھے ، یہ اتنی مختصر کیوں ہوگئ ؟ بہرحال دوسرا دن باسی عید کا سارا دن گھر پر کھاتے پیتے یا ماموں کے گھر یا اکا دکا سہیلیوں کے گھر جو کل رہ گئی تھیں یا کسی ایک سہیلی کے گھر اکٹھی ہوکر گڑیاں کھیل لیں گانے وانے گالئے یا پیپا تالیاں بجا کے اس پہ باری باری سب نے اپنے اپنے ٹھمکے لگالئے مجھے یاد ہے ایک یا دو گھنگرو کے دانے تھے ہمارے پاس کہیں سے گرے ہوئے مل گئے ہونگے اس میں ستلی ڈال کے ہم باری باری پاوں میں ضرور باندھتے کہ پرات تالیوں بے سرے کورس کے بیچ اس کی چھن چھن بھی بجتی رہے ۔۔۔۔ دوچار دن بعد زندگی معمول پہ آجاتی اگلی عید کا انتظار شروع ہوجاتا اور اسکول کی پڑھائیاں لکھائیاں بھی ۔۔۔ تو یہ تھی لاڑکانہ میں ہم دڑی محلہ کے بچوں کی عید اور اسٹیڈیم تک ہمارے بچپن میں عیدگاہ کا ماحول اور ہلا گلا۔۔۔ ہم تو یوں بھی گھر سے زیادہ گلیوں میں کھیلنے والے بچے تھے کھیلتے ہی رہتے تھے۔۔۔۔
سو کر عید گزارتے تو اب دیکھا ہے
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں