وہ عورت بہت سندر تھی
جو مٹی کے گھگھو گھوڑوں کا ٹوکرا
سرپہ اٹھائے
چمکدار دانتوں کے ساتھ بہت ہنستی تھی
سیاہ آنکھوں میں بھر بھر کے سیاہ کجلا
نظروں میں کالا جادو لئے پھرتی تھی
ہنسی اس کی چولی سے بھی پھوٹ پھوٹ نکلتی تھی
اور لہنگا بھی لہرا لہرا کے ناچتا ہی رہتا تھا
گھگھو گھوڑے ۔۔۔
گھگھو گھوڑے ۔۔۔
کبھی کبھار وہ وہیں بیٹھ کے
گھگھو گھوڑا رنگ دیا کرتی تھی
کیڑا رنگ لاواں
لال چٹا کہ ہرا
سارے لادے ۔۔۔
وہ سارے ہی محبت سے رنگتی تھی
دے پیسہ فیر
چوانی دے چار
میرے کول دوانی اے
ایہ دوانی دے دو دیویں
ایہ لا پھڑ ۔۔ دو تے ایہہ اک میرے ولوں
تن ۔۔۔ تن
وہ خواب کتنے سستے بیچا کرتی تھی
میں دیکھتی تھی
سوچتی تھی
گھگھو گھوڑوں سے بے نیاز
کہ مٹی گوندھوں گی
بناوں گی ۔۔۔
جو من چاہا
رنگ بھی لوں گی
مگر ایسی ہنسی کیسے ہنسوں گی
کجلے کی دھار اس سے زیادہ کس پہ جچے گی
اور جوانی کی اٹھان
جو بھی ہوئی اس کے آگے ماتم ہی کرے گی
وہ مرے خواب کی عورت
اپنے گھگھو گھوڑے اور ٹوکرا
میرے سر پہ دھر تو گئی ہے
مگر اپنی ہنسی دینے میں ڈنڈی مار کے
اداس من سے بھی
خوابوں کے گھگھو گھوڑے بکتے ہیں کیا ؟
نہ ناچتا ہے لہنگا
نہ چولی کسی لگتی ہے
نہ کھلتی ہے نظر
نہ ہنسی ۔۔۔
دل سے کبھی ہنستی ہے
عذرا مغل
ہماری پلیٹفارم پر بڑی تعداد میں تصاویر گوگل امیجز اور پیکسلز سے حاصل کی گئی ہیں اور ان کا کاپی رائٹ مالکیت ظاہر نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی کاپی رائٹ دعوے ہوں تو ہم فوراً معذرت کے ساتھ تصویر کو ہٹا دیں